بدترین ہوتے ہوئے سماجی رویے
اس واقعے کے بعد قاتل کے بہن بھائیوں نے اپنی ماں کے قاتل کو بچانے کے لیے معاف کردیا
پنجاب ، ضلع لیہ کے نواحی علاقے فتح پور میں زہریلی مٹھائی کھانے سے 32 افراد کے جاں بحق ہونے کا جو افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا، اس میں مٹھائی کی تیاری کے دوران چھوٹے بھائی نے زہر اس لیے ملادیا تھا کہ مٹھائی کی دکان کا مالک اس کا بڑا بھائی اس پر تشدد کرتا تھا اور اسے گھر سے نکال دیا کرتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنے بڑے بھائی کی دکان بند کرانے کے لیے مال میں زہر ملادیا تھا۔ اور اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کے زہر ملادینے کی وجہ سے مٹھائی کھانے والے 32 افراد جاں بحق ہوجائیں گے۔
بڑے بھائی کی دکان بند کرانے کے لیے چھوٹے بھائی کا یہ اقدام ہمارے معاشرے میں بدلتے ہوئے سماجی رویوں کا ایک شرمناک عکس ہے اور بد ترین ہوتے ہوئے ہمارے سماجی رویے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جنھوں نے خونی رشتوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا ہے اور خون سفید ہوجانے سے باہمی رشتوں میں دراڑیں بڑھ رہی ہیں اور اسی بنیاد پر قتل کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
مارپیٹ اور قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجوہات سماجی رویوں کی تبدیلیوں کے ساتھ من مانی اور لالچ بھی نمایاں ہے جس کے باعث بیٹوں کے ہاتھوں ماں باپ، بھائیوں کے ہاتھوں بھائیوں، میاں بیوی کے ہاتھوں ایک دوسرے کے قتل کی وارداتیں شدت اختیارکررہی ہیں۔ کاروکاری کے الزامات میں قتل کی وارداتوں میں قانون کی سختی سے بھی کمی واقع نہیں ہوئی اور اب بھی قتل کی ایسی وارداتیں نہ صرف جاری ہیں بلکہ دیہاتوں کے بعد بڑے شہروں میں بھی بڑھ رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے بلدیہ میں سترہ سالہ بہن اپنے چند سال بڑے بھائی کے ہاتھوں جس بے دردی سے قتل ہوئی اس نے انسانیت کو شرما دیا ہے۔ بھائی کی چھریوں سے زخمی بہن نے زخمی ہونے کے بعد ظالم بھائی کے سینے سے لگنا چاہا مگر بھائی ہٹ گیا، بہن سڑک پر تڑپتی رہی اور درندہ صفت بھائی اپنے موبائل میں مصروف رہا۔ مقتولہ سمیرا کے باپ نے بھی اس موقعے پر انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کیا اور جائے وقوع پر آنے کے بعد اس نے بیٹی کے قتل کے بعد بیٹے کو لعنت ملامت کرنے اور بیٹی کے مر جانے پر دکھ کا اظہار کرنے کی بجائے قاتل بیٹے کی حمایت کی اور اسے بچانے کی کوشش میں کہا تو وہ بھی یہ کہ بیٹی تو مرگئی مگر اب بیٹے کو مرنے نہیں دوںگا اور اسے بچائوں گا۔
ایبٹ آباد میں انسانیت کی بے حسی کی انتہائی شرمناک واقعے میں جعلی پنچائیت کے حکم پر دو جوان بچیوں کو جس طرح بے رحمی اور درندگی سے مارا گیا، اس کا تو جنگلیوں میں بھی تصور نہیں ہوگا۔ ایبٹ آباد کے نواحی علاقے مکول میں سہیلی کو ایک لڑکے کے ساتھ فرار میں مدد دینے کے الزام میں جرگے کے حکم پر 20 سالہ عنبرین کو نشہ آور دوا پلا کر پہلے گلا گھونٹ کر مارا گیا اور بعد میں اس کی نعش گاڑی میں رکھ کر جلادی گئی۔ خود ساختہ جرگے نے اپنی سہیلی کے گھر سے فرار ہونے میں مدد کے الزام پر عنبرین کو مار کر جس طرح اسے جلایا ، اس پر انسانیت بھی شرماگئی۔ درندے لوگوں نے اپنا جرم چھپانے کے لیے دو دیگرگاڑیوں کو بھی آگ لگائی تاکہ قتل کو حادثہ قرار دلایا جاسکے۔
اس واقعے میں ماں کی ممتا تڑپی نہ کسی اور کو احساس ہوا کہ اس درندگی میں فریق نہ بنیں اور جرگے کے شرمناک فیصلے کی اطلاع ہی پولیس کو دے کر عنبرین کو بچاسکتے۔ کراچی ہی میں ایک پڑھے لکھے نوجوان بینک افسر نے گھریلو جھگڑے پر پہلے اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اپنی بوڑھی ماں کو چھریوں کے وار سے قتل کردیا تھا۔ جب کہ واقعے کی گواہ بہن بھاگ گئی تھی۔
اس واقعے کے بعد قاتل کے بہن بھائیوں نے اپنی ماں کے قاتل کو بچانے کے لیے معاف کردیا اور اپنی ماں کے خون کا سودا کرلیا۔راقم کے ایک جاننے والے نے اپنے چار بھائیوںکی شکایت کی کہ میں سب سے بڑا ہوں اورکوئی میری عزت نہیں کرتا، راقم نے کہاکہ عزت نہ کرنے کی کبھی وجوہات جاننے کی کوشش کی؟ کیوں کہ تم دوسروں کے سامنے بھی چھوٹے بھائیوں کو ذلیل کرنے اورگالیاں دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، تم لاکھ ان سے پیار کا دعویٰ کرو، بھائیوں کی عزت کا دوسروں کے سامنے بھی خیال نہیں رکھتے اور پھر بھی بھائی تمہارے سامنے چوں چراں نہیں کرتے بلکہ بڑے بھائی کے گھر میں ہوتے ہوئے گھر سے ہی باہر نکل جاتے ہیں۔
بھائی بھی ایک ہی ماں باپ کا خون اور سگی اولاد ہوتے ہیں اور ایسی بے شمار باتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ شادی کے بعد بیویوں کی باتوں میں آکر بھائیوں کے ایک دوسرے سے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں اور جوائنٹ فیملی سسٹم ایسے بھائیوں کی وجہ سے ختم ہورہا ہے، ساری سہولتیں اور ساس سسر، نندوں، دیوروں اور دیگر کی محبت کو چھوڑ کر آج کل کی شادی شدہ لڑکیوں میں علیحدہ گھر میں رہنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور ایک دوسرے کی اچھائی کے لیے کی گئی باتیں بھی اب برداشت نہیں کی جاتیں اور یہ نہیں سوچا جاتا کہ علیحدگی کے کیا منفی نتائج برآمد ہوں گے اور رشتوں میں دراڑیں بڑھیں گی۔
شوہر کی مالی حالت دیکھے بغیر اس پر علیحدہ گھر لے کر دینے کے لیے دبائو ڈالا جاتا ہے اور عدم برداشت کے باعث جھگڑے بڑھتے ہیں اور بہت سے شوہر روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر الگ گھر لے کر مزید مالی پریشانیوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور مہنگائی کے اس دور میں ملازمت پیشہ لوگ دو نوکریاں کرکے گھر چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا نہ کرسکنے والے طلاق کو اس کا حل سمجھتے ہیں اور اس طرح گھر ٹوٹنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ پہلے ایک باپ اپنے آٹھ دس بچوں کی پرورش کرلیتا تھا مگر اب چار چھ بیٹے مل کر اپنے ماں باپ کو نہیں پال سکتے یہ بھی ہورہا ہے کہ آج کل کے بیٹے ماں باپ کو خود پر بوجھ سمجھ کر علیحدہ گھر لے کر ماں باپ سے دور چلے جاتے ہیں۔ یا ماں ایک بیٹے کے در پر پڑی ہوتی ہے تو باپ دوسرے بیٹے کے گھر رہنے پر مجبور ہے اور دونوں پر بیٹوں کی طرف سے پابندی ہوتی ہے کہ وہ خاموش رہ کر وقت گزاریں اور ان کے گھریلو معاملات میں دخل نہ دے۔
جوائنٹ فیملی سسٹم متروک ہوتا جا رہا ہے اور ماں باپ کے مرنے کا بھی انتظار نہیں کیا جاتا اور جائیداد میں حصے طلب کرنا شروع کردیتے ہیں اور اسی بنیاد پر بہن بھائیوں میں جھگڑے بڑھتے ہیں ماں باپ اپنی اولاد کی طرح سنگ دل نہیں بن سکتے اس لیے وہ اپنی اولاد میں اتحاد برقرار رکھنے کے لیے ناپسندیدہ فیصلے کرنے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں جس کی سزا بعد میں انھیں بھی بھگتنا پڑتی ہے۔ آج کل گھروں میں جھگڑے مالی تنگی اور عدم برداشت کے باعث بڑھ رہے ہیں اور ان والدین کو اچھا سمجھا جاتا ہے جو اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد تقسیم کردیتے ہیں مگر جن ماں باپ کے پاس جائیداد ہی نہ ہو وہ اپنے بعض فرمانبردار بیٹے بیٹیوں کے در پر پڑے رہنے پر مجبور ہیں یا پھر ایدھی سینٹر جیسے اداروں میں پناہ لیتے ہیں۔
لیہ کا مٹھائی فروش بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے دکان پر اس سے نوکروں سے بھی بڑھ کر کام لیتا ہوگا اور بڑے بھائی جیسا شفقت کا رویہ نہیں رکھتا ہوگا جس پر چھوٹے بھائی نے مٹھائی میں زہر ملاکر بھائی کی دکان بند کرانا مسئلے کا حل سمجھا مگر اس کے نتائج پر توجہ نہیں دی، مالی مسائل اور مہنگائی نے بھی گھروں میں دراڑیں ڈالی ہوئی ہیں۔ احساس اور لحاظ ختم ہوتا جارہاہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے سماجی رویے ہیں جو اگر بہتر نہ بنائے گئے تو قیامت سے پہلے ہی قیامت دیکھنا پڑجائے گی۔
بڑے بھائی کی دکان بند کرانے کے لیے چھوٹے بھائی کا یہ اقدام ہمارے معاشرے میں بدلتے ہوئے سماجی رویوں کا ایک شرمناک عکس ہے اور بد ترین ہوتے ہوئے ہمارے سماجی رویے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جنھوں نے خونی رشتوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا ہے اور خون سفید ہوجانے سے باہمی رشتوں میں دراڑیں بڑھ رہی ہیں اور اسی بنیاد پر قتل کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
مارپیٹ اور قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجوہات سماجی رویوں کی تبدیلیوں کے ساتھ من مانی اور لالچ بھی نمایاں ہے جس کے باعث بیٹوں کے ہاتھوں ماں باپ، بھائیوں کے ہاتھوں بھائیوں، میاں بیوی کے ہاتھوں ایک دوسرے کے قتل کی وارداتیں شدت اختیارکررہی ہیں۔ کاروکاری کے الزامات میں قتل کی وارداتوں میں قانون کی سختی سے بھی کمی واقع نہیں ہوئی اور اب بھی قتل کی ایسی وارداتیں نہ صرف جاری ہیں بلکہ دیہاتوں کے بعد بڑے شہروں میں بھی بڑھ رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے بلدیہ میں سترہ سالہ بہن اپنے چند سال بڑے بھائی کے ہاتھوں جس بے دردی سے قتل ہوئی اس نے انسانیت کو شرما دیا ہے۔ بھائی کی چھریوں سے زخمی بہن نے زخمی ہونے کے بعد ظالم بھائی کے سینے سے لگنا چاہا مگر بھائی ہٹ گیا، بہن سڑک پر تڑپتی رہی اور درندہ صفت بھائی اپنے موبائل میں مصروف رہا۔ مقتولہ سمیرا کے باپ نے بھی اس موقعے پر انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کیا اور جائے وقوع پر آنے کے بعد اس نے بیٹی کے قتل کے بعد بیٹے کو لعنت ملامت کرنے اور بیٹی کے مر جانے پر دکھ کا اظہار کرنے کی بجائے قاتل بیٹے کی حمایت کی اور اسے بچانے کی کوشش میں کہا تو وہ بھی یہ کہ بیٹی تو مرگئی مگر اب بیٹے کو مرنے نہیں دوںگا اور اسے بچائوں گا۔
ایبٹ آباد میں انسانیت کی بے حسی کی انتہائی شرمناک واقعے میں جعلی پنچائیت کے حکم پر دو جوان بچیوں کو جس طرح بے رحمی اور درندگی سے مارا گیا، اس کا تو جنگلیوں میں بھی تصور نہیں ہوگا۔ ایبٹ آباد کے نواحی علاقے مکول میں سہیلی کو ایک لڑکے کے ساتھ فرار میں مدد دینے کے الزام میں جرگے کے حکم پر 20 سالہ عنبرین کو نشہ آور دوا پلا کر پہلے گلا گھونٹ کر مارا گیا اور بعد میں اس کی نعش گاڑی میں رکھ کر جلادی گئی۔ خود ساختہ جرگے نے اپنی سہیلی کے گھر سے فرار ہونے میں مدد کے الزام پر عنبرین کو مار کر جس طرح اسے جلایا ، اس پر انسانیت بھی شرماگئی۔ درندے لوگوں نے اپنا جرم چھپانے کے لیے دو دیگرگاڑیوں کو بھی آگ لگائی تاکہ قتل کو حادثہ قرار دلایا جاسکے۔
اس واقعے میں ماں کی ممتا تڑپی نہ کسی اور کو احساس ہوا کہ اس درندگی میں فریق نہ بنیں اور جرگے کے شرمناک فیصلے کی اطلاع ہی پولیس کو دے کر عنبرین کو بچاسکتے۔ کراچی ہی میں ایک پڑھے لکھے نوجوان بینک افسر نے گھریلو جھگڑے پر پہلے اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اپنی بوڑھی ماں کو چھریوں کے وار سے قتل کردیا تھا۔ جب کہ واقعے کی گواہ بہن بھاگ گئی تھی۔
اس واقعے کے بعد قاتل کے بہن بھائیوں نے اپنی ماں کے قاتل کو بچانے کے لیے معاف کردیا اور اپنی ماں کے خون کا سودا کرلیا۔راقم کے ایک جاننے والے نے اپنے چار بھائیوںکی شکایت کی کہ میں سب سے بڑا ہوں اورکوئی میری عزت نہیں کرتا، راقم نے کہاکہ عزت نہ کرنے کی کبھی وجوہات جاننے کی کوشش کی؟ کیوں کہ تم دوسروں کے سامنے بھی چھوٹے بھائیوں کو ذلیل کرنے اورگالیاں دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، تم لاکھ ان سے پیار کا دعویٰ کرو، بھائیوں کی عزت کا دوسروں کے سامنے بھی خیال نہیں رکھتے اور پھر بھی بھائی تمہارے سامنے چوں چراں نہیں کرتے بلکہ بڑے بھائی کے گھر میں ہوتے ہوئے گھر سے ہی باہر نکل جاتے ہیں۔
بھائی بھی ایک ہی ماں باپ کا خون اور سگی اولاد ہوتے ہیں اور ایسی بے شمار باتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ شادی کے بعد بیویوں کی باتوں میں آکر بھائیوں کے ایک دوسرے سے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں اور جوائنٹ فیملی سسٹم ایسے بھائیوں کی وجہ سے ختم ہورہا ہے، ساری سہولتیں اور ساس سسر، نندوں، دیوروں اور دیگر کی محبت کو چھوڑ کر آج کل کی شادی شدہ لڑکیوں میں علیحدہ گھر میں رہنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور ایک دوسرے کی اچھائی کے لیے کی گئی باتیں بھی اب برداشت نہیں کی جاتیں اور یہ نہیں سوچا جاتا کہ علیحدگی کے کیا منفی نتائج برآمد ہوں گے اور رشتوں میں دراڑیں بڑھیں گی۔
شوہر کی مالی حالت دیکھے بغیر اس پر علیحدہ گھر لے کر دینے کے لیے دبائو ڈالا جاتا ہے اور عدم برداشت کے باعث جھگڑے بڑھتے ہیں اور بہت سے شوہر روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر الگ گھر لے کر مزید مالی پریشانیوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور مہنگائی کے اس دور میں ملازمت پیشہ لوگ دو نوکریاں کرکے گھر چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا نہ کرسکنے والے طلاق کو اس کا حل سمجھتے ہیں اور اس طرح گھر ٹوٹنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ پہلے ایک باپ اپنے آٹھ دس بچوں کی پرورش کرلیتا تھا مگر اب چار چھ بیٹے مل کر اپنے ماں باپ کو نہیں پال سکتے یہ بھی ہورہا ہے کہ آج کل کے بیٹے ماں باپ کو خود پر بوجھ سمجھ کر علیحدہ گھر لے کر ماں باپ سے دور چلے جاتے ہیں۔ یا ماں ایک بیٹے کے در پر پڑی ہوتی ہے تو باپ دوسرے بیٹے کے گھر رہنے پر مجبور ہے اور دونوں پر بیٹوں کی طرف سے پابندی ہوتی ہے کہ وہ خاموش رہ کر وقت گزاریں اور ان کے گھریلو معاملات میں دخل نہ دے۔
جوائنٹ فیملی سسٹم متروک ہوتا جا رہا ہے اور ماں باپ کے مرنے کا بھی انتظار نہیں کیا جاتا اور جائیداد میں حصے طلب کرنا شروع کردیتے ہیں اور اسی بنیاد پر بہن بھائیوں میں جھگڑے بڑھتے ہیں ماں باپ اپنی اولاد کی طرح سنگ دل نہیں بن سکتے اس لیے وہ اپنی اولاد میں اتحاد برقرار رکھنے کے لیے ناپسندیدہ فیصلے کرنے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں جس کی سزا بعد میں انھیں بھی بھگتنا پڑتی ہے۔ آج کل گھروں میں جھگڑے مالی تنگی اور عدم برداشت کے باعث بڑھ رہے ہیں اور ان والدین کو اچھا سمجھا جاتا ہے جو اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد تقسیم کردیتے ہیں مگر جن ماں باپ کے پاس جائیداد ہی نہ ہو وہ اپنے بعض فرمانبردار بیٹے بیٹیوں کے در پر پڑے رہنے پر مجبور ہیں یا پھر ایدھی سینٹر جیسے اداروں میں پناہ لیتے ہیں۔
لیہ کا مٹھائی فروش بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے دکان پر اس سے نوکروں سے بھی بڑھ کر کام لیتا ہوگا اور بڑے بھائی جیسا شفقت کا رویہ نہیں رکھتا ہوگا جس پر چھوٹے بھائی نے مٹھائی میں زہر ملاکر بھائی کی دکان بند کرانا مسئلے کا حل سمجھا مگر اس کے نتائج پر توجہ نہیں دی، مالی مسائل اور مہنگائی نے بھی گھروں میں دراڑیں ڈالی ہوئی ہیں۔ احساس اور لحاظ ختم ہوتا جارہاہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے سماجی رویے ہیں جو اگر بہتر نہ بنائے گئے تو قیامت سے پہلے ہی قیامت دیکھنا پڑجائے گی۔