کارپوریٹ میڈیا سے آزاد میڈیا تک
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اطلاعات کے حصول کا حق عوام کو حاصل ہونا چاہیے
ISLAMABAD:
گزشتہ ہفتے شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کے تحت عالمی یوم آزادی صحافت کے موقعے پر ایک سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان کے ایک بڑے اردو روزنامے کے مدیر مدثر مرزا، روزنامہ ایکسپریس کراچی کے ایڈیٹر طاہر نجمی، روزنامہ دنیا کے چیف رپورٹر عابد حسین کے علاوہ شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ اور استاد اسامہ شفیق نے بھی اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ یوں تو یہاں بھی وہی روایتی انداز میں پریس کی آزادی سے متعلق باتیں کیں گئیں لیکن سنیئر صحافی طاہر نجمی اور عابد حسین نے چند ایک حقائق ایسے بیان کیے جن کی وجہ سے آج عوام کی ایک بڑی تعداد مصائب کا شکاربھی ہے۔
سنیئر صحافی طاہر نجمی نے حقیقت پر مبنی تجزیہ کرتے ہوئے بہت کھلے انداز میں یہ بیان کردیا کہ اب حسرت موہانی والا وقت اور ماحول نہیں رہا کہ ایک جانب چکی پیسنے کی مشقت بھی ہو اور مشق سخن بھی جاری رہے، انھوں نے بر ملا کہا کہ پہلے صحافت مشن تھی،اس سے وابستہ لوگوں کی توانائیاں اعلیٰ انسانی قدروں کے لیے وقف تھیں، مگر اب میڈیا ایک کارپوریٹ دائرے میں داخل ہو چکا ہے۔ اب صحافتی امورکو صحافی سے زیادہ کارپوریٹ میڈیا یاانتظامیہ کے لوگ چلاتے ہیں، اس سلسلے میں ایک خاموش جنگ جاری رہتی ہے، ابھی تک اس کشمکش میں کارپوریٹ انتظامیہ ہی حاوی نظر آتی ہے اور اس کا موقف یہ ہے کہ ماضی کی صحافت پر جرمانہ بھی زیادہ عائد نہیں ہوتا تھا، یعنی وہ اس عمل سے نبرد آزما ہوجاتے تھے مگر اب میڈیا کے ادارے کو چلانے کے لیے ایک بڑی رقم کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
لہذا اس کو '' ریٹنگ'' بڑھانے کے لیے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ انھوں نے یہ بات بھی کہی کہ آج کا میڈیا کارپوریٹ میڈیا ہے، لٰہذا اس سبب سے ماضی کے مقابلے میں یہاں کام کرنے والوں کو اجرتیں بھی زیادہ ملنے لگی ہیں۔ طاہر نجمی نے کہا کہ سترکی دہائی میں بہت کم صحافیوں کے پاس اپنی ذاتی کار ہوتی تھی ، بعض صحافی تو خبر نگاری کے لیے بسوں یا پھر رکشہ وغیرہ میں سفرکرتے تھے مگر آج صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں۔یہ بھی میڈیا کارپوریٹ کا کمال ہے۔
مندرجہ بالا بات اپنی جگہ درست ہے کہ کارپوریٹ میڈیا سے صحافیوں کی مالی حالت بہت حد تک بدل گئی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض میڈیا اداروں میں صحافیوں کو وقت پر تنخواہیں نہیں ملتی، ایک بڑی تعداد کو ایک ہی چھت کے نیچے کام کرنے کے باوجود دوسروں کے مقابلے میں آدھی یا اس سے بھی کم تنخواہ ملتی ہے۔ اسی طرح ملازمت سے نکالے جانے کا اور بے روزگاری کاخوف بھی انھیں ایمانداری اور صحافتی اصولوں پر کاربند رہنے میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے جس کے باعث صحافت میں بھی کرپشن بڑھ رہی ہے اور اس کا معیار بھی نیچے کی طرف آرہا ہے، جس کی شکایت آج عوامی سطح پر بھی نظر آتی ہے۔
یوں ایسے ماحول میں اب صحافت میں مشن کا تصور گم ہو چکا ہے اور ایسے صحافیوں کو جو اب بھی اس کو مشن کے طور پر لیے ہوئے ہیں کام کرنے میں بے حد مشکلات پیش آتی ہیں اور وہ مالی فوائد سے محروم رہ جانے کے علاوہ مخالفین کی کارروائیوں کا نشانہ بن کر اپنے اس عزم کی قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میڈیا کارپوریٹ کے اس چہرے نے اب نئے آنے والے لوگوں کے لیے نئے تصورات بھی پیدا کردیے ہیں اور نئے آنے والے اب تنخواہوں اور مراعات کے ایک اچھے ''پیکیج '' کا وہ تصورلے کر آتے ہیں جس میں '' مشن'' کے تصورکی کم ہی گنجائش ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسے آنے والے جب میڈیا سے قوم کی رہنمائی کرتے ہیں تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے جو ہورہا ہے اور جس کی شکایت ہر باشعور شخص کرتا نظر آتا ہے۔
کارپوریٹ کلچر میں انسانیت، معاشرتی اقدار سب کچھ دفن ہوجاتا ہے، جیسا کہ اس سمینار میں پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا کے کلچر کو پیسہ ڈیزائن کررہا ہے اور صحافت کو بھی، آپ الفاظ کی مارکیٹنگ کیوں کر رہے ہیں؟ آپ جوتے بنانے کا کام کیوں نہیں کرلیتے؟ اس لیے کہ یہاں زیادہ پیسہ ہے؟ مذکورہ بات بڑی گہری اور سمجھداری کی ہے، آج پاکستان کا ایک امیر ترین شخص بھی برملا کہتا ہے کہ وہ میڈیا ہاؤس میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے کہ اس میں منافع بھی بہت ہے اور طاقت بھی۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا کا مقصد معاشرے اور قوم کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے ( اور اس کا ثبوت ہمارے اکابر نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کر کے فراہم کردیا) جب قوم کی رہنمائی کرنیوالے ادارے اپنا اولین مقصد منافع کمانیوالے اداروں جیسا بنا لیں تو پھر قوم کی رہنمائی تو نہ ہو سکے گی۔
اب ایسی صورتحال میں قوم کی کیسی رہنمائی ہو رہی ہے؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے، اس سمینار کے ایک مقرر سنیئر رپورٹرعابد حسین نے کہا کہ نجی چینلز نے ' ریٹنگ ' کے چکر میں ذمے داری کو متاثرکیا ہے جس سے یہ ملک عالمی سطح پر بھی تنہا ہوا ہے۔کسی بھی دھماکے کی آواز کے بعد نجی ٹی وی چینلز ٹیکر چلانا شروع ہوجاتے ہیں کہ فلاں جگہ دھماکے کی آواز سنی گئی اور جب بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی سلنڈرکے پھٹنے کی آواز تھی تو بھی تمام چینلز سے رفتہ رفتہ یہ ٹیکر غائب ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جب جلدبازی میں چینلز نے غلط خبریں پیش کردیں، جلد بازی میں خبر کی تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے، سنی سنائی باتوں پر خبریں پیش ہونے لگی ہیں۔
ہمارے ان تمام محترم صحافیوں کی باتیں اپنی جگہ وزن رکھتی ہیں، اس عمل سے ہمارے ملک کی بھی بدنامی ہوتی ہے مثلاً تھوڑے ہی عرصے قبل کی بات ہے کہ اندرون سندھ کے ایک علاقے سے ایک شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے پانی سے گاڑی چلانے کا کامیاب تجربہ کرلیا ہے اور یہ کہ اسے تجارتی بنیادوں پر اس کام کے لیے کسی غیر ملکی کمپنی سے دعوت بھی آئی ہے۔ ہمارے میڈیا نے اس شخص کو خوب کوریج دی اورکئی بڑے چینلز نے تو اس کو اپنے ٹاک شوز میں بلایا اور ملک کے ممتاز سائنسدان ڈاکٹر عطاا لرحمن سے ٹیلی فون پر اس شخص سے ' ٹاکرا' بھی کرادیا، اس شخص نے بجائے سائنسی توجیہات اور بنیاد فراہم کرنے کے الٹا ملک کے عظیم سائنسدان پرکرپشن کے الزامات عائد کرنا شروع کردیے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد معلوم ہوا کہ یہ دعویٰ غلط تھا۔ سوال یہ ہے کہ میڈیا کے بلاتحقیق اس عمل سے ملک وقوم کی کتنی بدنامی ہوئی؟ اور دوسرا اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا آیندہ بھی کوئی شخص میڈیا کو اتنا بڑا دھوکا دے سکتا ہے؟
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اطلاعات کے حصول کا حق عوام کو حاصل ہونا چاہیے، بلوچستان اور پنجاب کے بعد صوبہ سندھ میں بھی اس قانون کو فوراً منظور ہونا چاہیے اور پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنے منشور سے روگردانی کرنے سے باز رہنا چاہیے۔ بلاشبہ اس قانون سے کرپشن کو انتہائی کم کرنے میں بہت بڑی مدد ملے گی اور میڈیا کی آزادی میں بھی اضافہ ہوگا مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ کارپوریٹ میڈیا کلچر سے جو نقصانات پہنچ رہا ہے اس سے کیسے نمٹا جائے؟اورکیا 'کارپوریٹ میڈیا' کے ہوتے ہوئے آزاد میڈیا کا تصور ممکن ہے؟
گزشتہ ہفتے شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کے تحت عالمی یوم آزادی صحافت کے موقعے پر ایک سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان کے ایک بڑے اردو روزنامے کے مدیر مدثر مرزا، روزنامہ ایکسپریس کراچی کے ایڈیٹر طاہر نجمی، روزنامہ دنیا کے چیف رپورٹر عابد حسین کے علاوہ شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ اور استاد اسامہ شفیق نے بھی اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ یوں تو یہاں بھی وہی روایتی انداز میں پریس کی آزادی سے متعلق باتیں کیں گئیں لیکن سنیئر صحافی طاہر نجمی اور عابد حسین نے چند ایک حقائق ایسے بیان کیے جن کی وجہ سے آج عوام کی ایک بڑی تعداد مصائب کا شکاربھی ہے۔
سنیئر صحافی طاہر نجمی نے حقیقت پر مبنی تجزیہ کرتے ہوئے بہت کھلے انداز میں یہ بیان کردیا کہ اب حسرت موہانی والا وقت اور ماحول نہیں رہا کہ ایک جانب چکی پیسنے کی مشقت بھی ہو اور مشق سخن بھی جاری رہے، انھوں نے بر ملا کہا کہ پہلے صحافت مشن تھی،اس سے وابستہ لوگوں کی توانائیاں اعلیٰ انسانی قدروں کے لیے وقف تھیں، مگر اب میڈیا ایک کارپوریٹ دائرے میں داخل ہو چکا ہے۔ اب صحافتی امورکو صحافی سے زیادہ کارپوریٹ میڈیا یاانتظامیہ کے لوگ چلاتے ہیں، اس سلسلے میں ایک خاموش جنگ جاری رہتی ہے، ابھی تک اس کشمکش میں کارپوریٹ انتظامیہ ہی حاوی نظر آتی ہے اور اس کا موقف یہ ہے کہ ماضی کی صحافت پر جرمانہ بھی زیادہ عائد نہیں ہوتا تھا، یعنی وہ اس عمل سے نبرد آزما ہوجاتے تھے مگر اب میڈیا کے ادارے کو چلانے کے لیے ایک بڑی رقم کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
لہذا اس کو '' ریٹنگ'' بڑھانے کے لیے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ انھوں نے یہ بات بھی کہی کہ آج کا میڈیا کارپوریٹ میڈیا ہے، لٰہذا اس سبب سے ماضی کے مقابلے میں یہاں کام کرنے والوں کو اجرتیں بھی زیادہ ملنے لگی ہیں۔ طاہر نجمی نے کہا کہ سترکی دہائی میں بہت کم صحافیوں کے پاس اپنی ذاتی کار ہوتی تھی ، بعض صحافی تو خبر نگاری کے لیے بسوں یا پھر رکشہ وغیرہ میں سفرکرتے تھے مگر آج صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں۔یہ بھی میڈیا کارپوریٹ کا کمال ہے۔
مندرجہ بالا بات اپنی جگہ درست ہے کہ کارپوریٹ میڈیا سے صحافیوں کی مالی حالت بہت حد تک بدل گئی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض میڈیا اداروں میں صحافیوں کو وقت پر تنخواہیں نہیں ملتی، ایک بڑی تعداد کو ایک ہی چھت کے نیچے کام کرنے کے باوجود دوسروں کے مقابلے میں آدھی یا اس سے بھی کم تنخواہ ملتی ہے۔ اسی طرح ملازمت سے نکالے جانے کا اور بے روزگاری کاخوف بھی انھیں ایمانداری اور صحافتی اصولوں پر کاربند رہنے میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے جس کے باعث صحافت میں بھی کرپشن بڑھ رہی ہے اور اس کا معیار بھی نیچے کی طرف آرہا ہے، جس کی شکایت آج عوامی سطح پر بھی نظر آتی ہے۔
یوں ایسے ماحول میں اب صحافت میں مشن کا تصور گم ہو چکا ہے اور ایسے صحافیوں کو جو اب بھی اس کو مشن کے طور پر لیے ہوئے ہیں کام کرنے میں بے حد مشکلات پیش آتی ہیں اور وہ مالی فوائد سے محروم رہ جانے کے علاوہ مخالفین کی کارروائیوں کا نشانہ بن کر اپنے اس عزم کی قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میڈیا کارپوریٹ کے اس چہرے نے اب نئے آنے والے لوگوں کے لیے نئے تصورات بھی پیدا کردیے ہیں اور نئے آنے والے اب تنخواہوں اور مراعات کے ایک اچھے ''پیکیج '' کا وہ تصورلے کر آتے ہیں جس میں '' مشن'' کے تصورکی کم ہی گنجائش ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسے آنے والے جب میڈیا سے قوم کی رہنمائی کرتے ہیں تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے جو ہورہا ہے اور جس کی شکایت ہر باشعور شخص کرتا نظر آتا ہے۔
کارپوریٹ کلچر میں انسانیت، معاشرتی اقدار سب کچھ دفن ہوجاتا ہے، جیسا کہ اس سمینار میں پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا کے کلچر کو پیسہ ڈیزائن کررہا ہے اور صحافت کو بھی، آپ الفاظ کی مارکیٹنگ کیوں کر رہے ہیں؟ آپ جوتے بنانے کا کام کیوں نہیں کرلیتے؟ اس لیے کہ یہاں زیادہ پیسہ ہے؟ مذکورہ بات بڑی گہری اور سمجھداری کی ہے، آج پاکستان کا ایک امیر ترین شخص بھی برملا کہتا ہے کہ وہ میڈیا ہاؤس میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے کہ اس میں منافع بھی بہت ہے اور طاقت بھی۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا کا مقصد معاشرے اور قوم کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے ( اور اس کا ثبوت ہمارے اکابر نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کر کے فراہم کردیا) جب قوم کی رہنمائی کرنیوالے ادارے اپنا اولین مقصد منافع کمانیوالے اداروں جیسا بنا لیں تو پھر قوم کی رہنمائی تو نہ ہو سکے گی۔
اب ایسی صورتحال میں قوم کی کیسی رہنمائی ہو رہی ہے؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے، اس سمینار کے ایک مقرر سنیئر رپورٹرعابد حسین نے کہا کہ نجی چینلز نے ' ریٹنگ ' کے چکر میں ذمے داری کو متاثرکیا ہے جس سے یہ ملک عالمی سطح پر بھی تنہا ہوا ہے۔کسی بھی دھماکے کی آواز کے بعد نجی ٹی وی چینلز ٹیکر چلانا شروع ہوجاتے ہیں کہ فلاں جگہ دھماکے کی آواز سنی گئی اور جب بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی سلنڈرکے پھٹنے کی آواز تھی تو بھی تمام چینلز سے رفتہ رفتہ یہ ٹیکر غائب ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جب جلدبازی میں چینلز نے غلط خبریں پیش کردیں، جلد بازی میں خبر کی تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے، سنی سنائی باتوں پر خبریں پیش ہونے لگی ہیں۔
ہمارے ان تمام محترم صحافیوں کی باتیں اپنی جگہ وزن رکھتی ہیں، اس عمل سے ہمارے ملک کی بھی بدنامی ہوتی ہے مثلاً تھوڑے ہی عرصے قبل کی بات ہے کہ اندرون سندھ کے ایک علاقے سے ایک شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے پانی سے گاڑی چلانے کا کامیاب تجربہ کرلیا ہے اور یہ کہ اسے تجارتی بنیادوں پر اس کام کے لیے کسی غیر ملکی کمپنی سے دعوت بھی آئی ہے۔ ہمارے میڈیا نے اس شخص کو خوب کوریج دی اورکئی بڑے چینلز نے تو اس کو اپنے ٹاک شوز میں بلایا اور ملک کے ممتاز سائنسدان ڈاکٹر عطاا لرحمن سے ٹیلی فون پر اس شخص سے ' ٹاکرا' بھی کرادیا، اس شخص نے بجائے سائنسی توجیہات اور بنیاد فراہم کرنے کے الٹا ملک کے عظیم سائنسدان پرکرپشن کے الزامات عائد کرنا شروع کردیے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد معلوم ہوا کہ یہ دعویٰ غلط تھا۔ سوال یہ ہے کہ میڈیا کے بلاتحقیق اس عمل سے ملک وقوم کی کتنی بدنامی ہوئی؟ اور دوسرا اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا آیندہ بھی کوئی شخص میڈیا کو اتنا بڑا دھوکا دے سکتا ہے؟
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اطلاعات کے حصول کا حق عوام کو حاصل ہونا چاہیے، بلوچستان اور پنجاب کے بعد صوبہ سندھ میں بھی اس قانون کو فوراً منظور ہونا چاہیے اور پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنے منشور سے روگردانی کرنے سے باز رہنا چاہیے۔ بلاشبہ اس قانون سے کرپشن کو انتہائی کم کرنے میں بہت بڑی مدد ملے گی اور میڈیا کی آزادی میں بھی اضافہ ہوگا مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ کارپوریٹ میڈیا کلچر سے جو نقصانات پہنچ رہا ہے اس سے کیسے نمٹا جائے؟اورکیا 'کارپوریٹ میڈیا' کے ہوتے ہوئے آزاد میڈیا کا تصور ممکن ہے؟