اپنے گھر کی خاطر کئی گھروں کا بوجھ اٹھاتی۔۔۔۔۔ ماسی
گھریلو ملازماؤں کی تلخ زندگی کے مختلف گوشے
صبح سویرے بسوں کے اسٹینڈ پر سر پر دوپٹہ ٹکائے خالی نگاہوں سے بس کا انتظار کرتی عورت کی آنکھوں میں کچھ نہ تھا۔
صبح تو نوید ہے امید کی۔ کاروبار حیا ت کی شروعات۔ پر مجسم قربانی، زندگی کو جنم دینے والی یہ کون سی عورتیں ہیں جن کی اپنی نگاہیں وحشت زدہ ہیں۔ کہیں ایسی ہی حَوّا کی بیٹیاں اپنے قدموں کو تیزرفتاری سے حرکت دیتی نظر آئیں، جیسے اُن کے قدم رُکے تو زندگی کی بھٹی اُنہیں جلا دے گی اور اُن کی تیز رفتاری اس حیا ت کا ایندھن ہے۔ یہ گھروں میں کام کرنے والی محنت کش عورتیں ہیں، جنھیں اپنے آرام اور صبح اپنے بچوں کی روٹی سے زیادہ ''سیٹھانی'' کے گھر کی فکر ہے۔
اور کیوں نہ ہو، یہی ان کا ذریعہ معاش جو ٹھہرا۔ اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں پورے دن اور بعض صورتوں میں چوبیس گھنٹے کے کام کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں۔ یہ ملازم اور ملازمائیں گھر میں صفائی ستھرائی، کھانا پکانا اور بازار سے سودا سلف لانے جیسے کام کرتے ہیں۔ اکثر گھرانوں میں بچوں کی نگہداشت، دیکھ بھال کا مسئلہ حل کرنے کے لیے آیائیں بھی رکھی جاتی ہیں۔
نچلہ طبقہ تو اپنے گھر ملازم رکھنے کے اخراجات برداشت کر ہی نہیں سکتا، لیکن متوسط طبقے کے خاندانوں میں ملازمائیں رکھنے کا رواج عام ہے۔ یہاں مردوں ملازم کو نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی گھر کے تمام کاموں کے لیے ان کی خدمات لی جاتی ہیں، بلکہ یہ طبقہ ملازمائوں کو ترجیح دیتا ہے، جنہیں عرف عام میں کام کرنے والی یا ماسی کہا جاتا ہے۔ یہ ماسیاں گھروں میں صفائی، کپڑے اور برتن دھونے کے لیے رکھی جاتی ہیں، جو کہ اپنی خدمات کے عوض مناسب رقم ماہانہ صورت میں لیتی ہیں۔
کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں اچھی ملازمائوں کی تلاش ایک مشکل مرحلہ ہے۔ یہ ملازمائیں بہت کم ہی ایسی ہوتی ہیں جو اس شہر سے تعلق رکھتی ہوں، زیادہ تر اپنے آبائی گائوں سے کام کی غرض سے شہر کا رخ کرتی ہیں۔ ان میں سے اکثر کسان ہوتی ہیں، جو فصل کے پکنے تک روزگار کی تلاش میں شہر آتی ہیں اور پھر فصل کی کٹائی کے وقت پھر سے اپنے گائوں کی طرف واپسی کا سفر کرتی ہیں۔ یعنی چار سے چھے ماہ کا عرصہ مختلف گھروں میں ان کے کام کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
عموماً گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کو رکھنے اور نکالنے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ کام پورا کرنے کی فوری ضرورت کی تکمیل کے لیے کسی بھی ملازمہ کے ملتے ہی اسے کام دے دیا جاتا ہے۔ ان کی شناخت پر توجہ نہیں دی جاتی، جب کہ بغیر شناخت کے گھریلو ملازمائیں رکھنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ ایک قانون کے تحت وہ ملازم اور ملازمائیں جو گھروں میں کام کی غرض سے آتے ہیں کہ شناختی کارڈ کی کاپی قریبی تھانے میں جمع کروانا ضروری ہے، لیکن اس قانون کی پاس داری کا خیال شاذو نادر ہی رکھا جاتا ہے۔ بہت سے حادثات انہی وجوہات کی بنا پر سرزرد ہوئے ہیں۔ شہروں میں موجود ملازمائوں کے پاس تو شناختی کارڈ موجود ہوتا ہے، لیکن گاؤں دیہات سے آنے والی غریب طبقے کی خواتین کے پاس اکثر شناختی کارڈ نہیں ہوتا، نہ ہی ان کے ہاں شناختی کارڈ بنوانے کو اہم سمجھا جاتا ہے۔
دوسرے شہروں سے آنے والی خواتین بہت باہمت ہوتی ہیں۔ بہت سے گھرانوں کے مرد بھی اپنی عورتوں کے ساتھ بڑے شہروں میں کام کی غرض سے عارضی رہائش اختیار کرتے ہیں، مگر زیادہ تر خاندانوں کے مرد گائوں ہی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
یہ کسان خواتین بڑے شہروں میں اپنے بچوں کے ساتھ عارضی ٹھکانوں میں کچھ ماہ کی سکونت اختیار کرتی ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں ایسی بہت سی کچی آبادیوں کی مخصوص گلیاں موجود ہیں جہاں خاص طور پر یہ خواتین گروہ کی صورت میں رہتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اکیلی عورت کا رہنا معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ عورتیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے اور زندگی کی گاڑی کھینچنے میں جٹ جاتی ہیں۔ ان کے بچے گھر اور گلیوں میں ننگے پیر کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ عورتیں اپنے بچوں کو باقاعدہ مدرسے بھی بھیجتی ہیں اور سرکاری اسکول بھی، لیکن ان بچوں کی اکثریت ناخواندہ ہی رہتی ہے۔
اس مضمون کے سلسلے میں کی گئی تحقیق کے دوران ایک چونکا دینے والا پہلو سامنے آیا، جو ہمارے معاشرے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ کراچی میں مصروفِ روزگار یہ خواتین، جن میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے، انتہائی ناقص ذرائع آمدورفت کے مصائب اُٹھا کے بڑے شہروں کا رُخ کرتی ہیں۔ جہاں اُنہیں حد سے زیادہ تکلیف دہ حالات میں سفر کرنا پڑتا ہے، یہ ان کی مجبوری ہے۔ وہ بسوں کے ذریعے موسموں سے لڑتی اپنے بچوں کو اپنی چادر میں چھپائے سفر کرتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم مردوں کے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قوانین تو بہت بنائے گئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان پر عمل درآمد نہیں ہو پاتا۔ ناخواندہ معاشرے کے مرد سفر کے دوران ہر طرح سے ان خواتین کو پریشان کرتے ہیں، کیوںکہ اکیلی عورت کو کم زور سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ جو عورت اپنے آپ کو اپنی اولاد کو اپنے گھر کو زندگی دے وہ کم زور کیسے ہو سکتی ہے۔
ڈگریاں کسی کو سمجھ دار کہلوانے کی سند نہیں۔ یہ ان پڑھ خواتین اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے جس حد تک جہاں تک زندگی کی جنگ لڑ سکتی ہیں لڑتی ہیں۔
یہ عورتیں دن بھر گھروں کا کام کرتی ہیں، جس کی وجہ سے اپنے بچوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتیں۔ عموماً ان کے گھر کا بڑا بچہ، چاہے وہ پانچ چھے سال ہی کا کیوں نہ ہو، تین ماہ کے بچے کو سنبھال رہا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال ان ناتواں معصوم ہاتھوں سے کیوںکر ممکن ہے، جس کی وجہ سے اکثر ان ماسیوں کے بچے شدید بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ توجہ کی کمی اور صحت کی ناقص سہولیات کی بنا پر ان بچوں کی شرح اموات میں بہ تدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
چاہے ان کے مرد ان کا ساتھ دیں یا نہ دیں، جواب دہ ہونے کی تلوار ہر وقت ان کے سروں پر لٹکتی رہتی ہے۔ لہٰذا جب بچے اس حد تک بیمار ہو جاتے ہیں کہ ڈاکٹرز جواب دے دیں، تو یہ عورتیں اپنے بیمار بچوں کو اُٹھائے پھر اپنے آبائی گائوں کا رُخ کرتی ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا اذیت ناک منظر ہے کہ جسے دیکھ کر روح کانپ اُٹھے۔
یہ مائیں جانتی ہیں کہ ان کے بچے مرنے والے ہیں، پھر بھی انہیں ان نیم مردہ جسموں کو گائوں تک پہچانے کی فکر ہوتی ہے، کیوں کہ اگر بچہ یہاں دم توڑ گیا تو گھر کے مردوں کو کیا جواب دے گی، جو کہ اُن کی اولاد کا خیال نہ رکھا گیا۔
قصبات اور دیہات سے آنے والی خواتین کی طرح بڑے شہروں کی غریب بستیوں میں آباد خواتین بھی بہ طور گھریلو ملازمہ کام کرتی ہیں، جو روزانہ شہر کی افلاس زدہ بستیوں سے سفر کرکے متمول اور متوسط طبقے کی آبادیوں میں کام کرنے جاتی ہیں۔ مہنگائی نے جہاں ہمارے ملک کے 90 فی صد عوام کی کمر توڑ دی ہے، وہاں یہ طبقہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ آئے دن شہر کے حالات خراب ہونے کے باعث دہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے پیسہ کمانا مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں وہ خواتین بھی جنھوں نے کبھی گھر سے باہر قدم نہ رکھا ہو، باہر نکل کر ''ماسی'' بننے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ شوہروں کی بے روزگاری یا کام نہ کرنے کی عادت اور بچوں کی کثرت ان عورتوں کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ خوراک کی کمی اور ہمت سے زیادہ کام سائنسی اعتبار سے خواتین کے ناتواں جسم کو کم زور کرتا رہتا ہے۔
مردوں کو عورتوں کا حاکم بنایا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت ہمت اور ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے مرد سے کم ہوتی ہے، بلکہ ہمارے دینِ نے عورت کی مخصوص جسمانی ساخت اور ماں بننے کیے عظیم رُتبے پر فائز ہونے کی وجہ سے عورتوں کا خاص خیال رکھنے، انہیں عزت دینے اور چار دیواری کا سکون مہیا کرنے کی وجہ سے مردوں پر دوہری ذمہ داری ڈالی ہے اور مردوں کو عورتوں کا خیال رکھتے ہوئے انُھیں حاکم بنایا ہے۔ لیکن حوا کی بیٹی آج سڑکوں پر بجھا چہرہ لیے اور بوجھل پیروں کو گھسیٹتے ہوئے یوں نظر آتی ہے کہ گویا زندگی کا بوجھ ُاُٹھاتے اُٹھاتے تھک گئی ہو۔
عموماً ماسیاں اپنی چھوٹی بچیوں کو بھی کام پر اپنے ساتھ گھروں کے کام پر لگاتی ہیں، آنکھوں میں سپنے سجائے بلوغت کے دور میں داخل ہوتی ان بچیوں کو متوسط گھرانوں کے مکان بھی کسی شاہی محل سے کم نہیں لگتے۔ عمر کا تقاضا، جذبات کا قابو میں رکھنا مشکل، اور خواہشات کی تکمیل کے لیے جستجو، چناں چہ ننھے ناپختہ ذہن چوری چکاری پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چوریوں سے یہ عادت جڑ پکڑ لیتی ہے اور پھر بڑی چوریاں انہیں معیوب نہیں لگتیں ۔
عموماً ملازمائوں کی چوری کا اندازہ اس وقت نہیں ہوتا بلکہ کچھ وقت یا دن گزرنے کے بعد پتا چلتا ہے، جس کی وجہ سے افراد خانہ پوچھ گچھ کا سلسلہ اتنی دیر میں شروع کرتے ہیں کہ مسروقہ شے یا رقم کی بازیابی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ اس طرح بعض اوقات ایسے حادثات بھی جنم لیتے ہیں، جن سے بہت سے گھرانے متاثر ہوئے ہیں۔ اکثر یہ کچے ذہن کی لڑکیاں جرائم پیشہ افراد کا آلہ کار بن جاتیں ہیں اور مختلف گروہ ان کی درپردہ مدد سے درون خانہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔ کراچی پولیس نے رواں سال بہت سی چوریوں کا سراغ لگاتے ہوئے گھریلو ملازمائوں کا اُن میں ملوث پایا۔
لیکن یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس پیشے سے تعلق رکھنے والی ہر عورت کسی جرائم پیشہ گروہ کی کارندہ ہ۔ ایسی ملازمائیں بہت کم تعداد میں ہیں جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت گھروں میں چوری اور ڈاکا زنی کی وارداتوں کا حصہ بنی ہیں یا بنتی ہیں۔ جرائم کا حصہ بنے والی ان عورتوں ہی میں سے کچھ جسم فروشی کے کاروبار کا مُہرہ بھی بن جاتی ہیں۔ یوں افلاس کے جانور سے بھاگتی ان عورتوں نے پیسہ کمانے کا شارٹ کٹ منتخب کیا ہے۔
جسم کی خریدوفروخت کا مکروہ کاروبار، جو کبھی رات کی تاریکی اور مخصوص علاقوں ہی میں ہوتا تھا، اب دن کی روشنی میں بھی ہورہا ہے اور اس کے لیے علاقے کی کوئی قید نہیں رہ گئی۔ بعض گھریلو ملازمائیں دن کے اوقات میں دو گھروں کے کام کے دوران کے وقت میں طے شدہ مرد کے پاس جاتی ہیں۔ یہ ملازمائیں چونکہ اپنے کام سے کام رکھتی ہیں اور پیشہ ورانہ طور پر جسم فروشی کا کام نہیں کرتیں، تو ان پر شک بھی نہیں کیا جاتا۔ ایسے بہت سے کیس مشاہدے میں آئے ہیں کہ جن میں عرصے بعد راز کھلنے پر اُس گھر کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑا جہاں کی ملازمہ اس گھنائونے فعل کی مرتکب تھی۔ اس صورت حال کے پیشِ نظر گھر میں اجنبی ملازمہ کو رکھنے کے بعد اُس کے روّیے اور آنے جانے اور ملنے جُلنے والے لوگوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔
صبح تو نوید ہے امید کی۔ کاروبار حیا ت کی شروعات۔ پر مجسم قربانی، زندگی کو جنم دینے والی یہ کون سی عورتیں ہیں جن کی اپنی نگاہیں وحشت زدہ ہیں۔ کہیں ایسی ہی حَوّا کی بیٹیاں اپنے قدموں کو تیزرفتاری سے حرکت دیتی نظر آئیں، جیسے اُن کے قدم رُکے تو زندگی کی بھٹی اُنہیں جلا دے گی اور اُن کی تیز رفتاری اس حیا ت کا ایندھن ہے۔ یہ گھروں میں کام کرنے والی محنت کش عورتیں ہیں، جنھیں اپنے آرام اور صبح اپنے بچوں کی روٹی سے زیادہ ''سیٹھانی'' کے گھر کی فکر ہے۔
اور کیوں نہ ہو، یہی ان کا ذریعہ معاش جو ٹھہرا۔ اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں پورے دن اور بعض صورتوں میں چوبیس گھنٹے کے کام کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں۔ یہ ملازم اور ملازمائیں گھر میں صفائی ستھرائی، کھانا پکانا اور بازار سے سودا سلف لانے جیسے کام کرتے ہیں۔ اکثر گھرانوں میں بچوں کی نگہداشت، دیکھ بھال کا مسئلہ حل کرنے کے لیے آیائیں بھی رکھی جاتی ہیں۔
نچلہ طبقہ تو اپنے گھر ملازم رکھنے کے اخراجات برداشت کر ہی نہیں سکتا، لیکن متوسط طبقے کے خاندانوں میں ملازمائیں رکھنے کا رواج عام ہے۔ یہاں مردوں ملازم کو نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی گھر کے تمام کاموں کے لیے ان کی خدمات لی جاتی ہیں، بلکہ یہ طبقہ ملازمائوں کو ترجیح دیتا ہے، جنہیں عرف عام میں کام کرنے والی یا ماسی کہا جاتا ہے۔ یہ ماسیاں گھروں میں صفائی، کپڑے اور برتن دھونے کے لیے رکھی جاتی ہیں، جو کہ اپنی خدمات کے عوض مناسب رقم ماہانہ صورت میں لیتی ہیں۔
کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں اچھی ملازمائوں کی تلاش ایک مشکل مرحلہ ہے۔ یہ ملازمائیں بہت کم ہی ایسی ہوتی ہیں جو اس شہر سے تعلق رکھتی ہوں، زیادہ تر اپنے آبائی گائوں سے کام کی غرض سے شہر کا رخ کرتی ہیں۔ ان میں سے اکثر کسان ہوتی ہیں، جو فصل کے پکنے تک روزگار کی تلاش میں شہر آتی ہیں اور پھر فصل کی کٹائی کے وقت پھر سے اپنے گائوں کی طرف واپسی کا سفر کرتی ہیں۔ یعنی چار سے چھے ماہ کا عرصہ مختلف گھروں میں ان کے کام کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
عموماً گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کو رکھنے اور نکالنے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ کام پورا کرنے کی فوری ضرورت کی تکمیل کے لیے کسی بھی ملازمہ کے ملتے ہی اسے کام دے دیا جاتا ہے۔ ان کی شناخت پر توجہ نہیں دی جاتی، جب کہ بغیر شناخت کے گھریلو ملازمائیں رکھنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ ایک قانون کے تحت وہ ملازم اور ملازمائیں جو گھروں میں کام کی غرض سے آتے ہیں کہ شناختی کارڈ کی کاپی قریبی تھانے میں جمع کروانا ضروری ہے، لیکن اس قانون کی پاس داری کا خیال شاذو نادر ہی رکھا جاتا ہے۔ بہت سے حادثات انہی وجوہات کی بنا پر سرزرد ہوئے ہیں۔ شہروں میں موجود ملازمائوں کے پاس تو شناختی کارڈ موجود ہوتا ہے، لیکن گاؤں دیہات سے آنے والی غریب طبقے کی خواتین کے پاس اکثر شناختی کارڈ نہیں ہوتا، نہ ہی ان کے ہاں شناختی کارڈ بنوانے کو اہم سمجھا جاتا ہے۔
دوسرے شہروں سے آنے والی خواتین بہت باہمت ہوتی ہیں۔ بہت سے گھرانوں کے مرد بھی اپنی عورتوں کے ساتھ بڑے شہروں میں کام کی غرض سے عارضی رہائش اختیار کرتے ہیں، مگر زیادہ تر خاندانوں کے مرد گائوں ہی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
یہ کسان خواتین بڑے شہروں میں اپنے بچوں کے ساتھ عارضی ٹھکانوں میں کچھ ماہ کی سکونت اختیار کرتی ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں ایسی بہت سی کچی آبادیوں کی مخصوص گلیاں موجود ہیں جہاں خاص طور پر یہ خواتین گروہ کی صورت میں رہتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اکیلی عورت کا رہنا معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ عورتیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے اور زندگی کی گاڑی کھینچنے میں جٹ جاتی ہیں۔ ان کے بچے گھر اور گلیوں میں ننگے پیر کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ عورتیں اپنے بچوں کو باقاعدہ مدرسے بھی بھیجتی ہیں اور سرکاری اسکول بھی، لیکن ان بچوں کی اکثریت ناخواندہ ہی رہتی ہے۔
اس مضمون کے سلسلے میں کی گئی تحقیق کے دوران ایک چونکا دینے والا پہلو سامنے آیا، جو ہمارے معاشرے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ کراچی میں مصروفِ روزگار یہ خواتین، جن میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے، انتہائی ناقص ذرائع آمدورفت کے مصائب اُٹھا کے بڑے شہروں کا رُخ کرتی ہیں۔ جہاں اُنہیں حد سے زیادہ تکلیف دہ حالات میں سفر کرنا پڑتا ہے، یہ ان کی مجبوری ہے۔ وہ بسوں کے ذریعے موسموں سے لڑتی اپنے بچوں کو اپنی چادر میں چھپائے سفر کرتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم مردوں کے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قوانین تو بہت بنائے گئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان پر عمل درآمد نہیں ہو پاتا۔ ناخواندہ معاشرے کے مرد سفر کے دوران ہر طرح سے ان خواتین کو پریشان کرتے ہیں، کیوںکہ اکیلی عورت کو کم زور سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ جو عورت اپنے آپ کو اپنی اولاد کو اپنے گھر کو زندگی دے وہ کم زور کیسے ہو سکتی ہے۔
ڈگریاں کسی کو سمجھ دار کہلوانے کی سند نہیں۔ یہ ان پڑھ خواتین اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے جس حد تک جہاں تک زندگی کی جنگ لڑ سکتی ہیں لڑتی ہیں۔
یہ عورتیں دن بھر گھروں کا کام کرتی ہیں، جس کی وجہ سے اپنے بچوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتیں۔ عموماً ان کے گھر کا بڑا بچہ، چاہے وہ پانچ چھے سال ہی کا کیوں نہ ہو، تین ماہ کے بچے کو سنبھال رہا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال ان ناتواں معصوم ہاتھوں سے کیوںکر ممکن ہے، جس کی وجہ سے اکثر ان ماسیوں کے بچے شدید بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ توجہ کی کمی اور صحت کی ناقص سہولیات کی بنا پر ان بچوں کی شرح اموات میں بہ تدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
چاہے ان کے مرد ان کا ساتھ دیں یا نہ دیں، جواب دہ ہونے کی تلوار ہر وقت ان کے سروں پر لٹکتی رہتی ہے۔ لہٰذا جب بچے اس حد تک بیمار ہو جاتے ہیں کہ ڈاکٹرز جواب دے دیں، تو یہ عورتیں اپنے بیمار بچوں کو اُٹھائے پھر اپنے آبائی گائوں کا رُخ کرتی ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا اذیت ناک منظر ہے کہ جسے دیکھ کر روح کانپ اُٹھے۔
یہ مائیں جانتی ہیں کہ ان کے بچے مرنے والے ہیں، پھر بھی انہیں ان نیم مردہ جسموں کو گائوں تک پہچانے کی فکر ہوتی ہے، کیوں کہ اگر بچہ یہاں دم توڑ گیا تو گھر کے مردوں کو کیا جواب دے گی، جو کہ اُن کی اولاد کا خیال نہ رکھا گیا۔
قصبات اور دیہات سے آنے والی خواتین کی طرح بڑے شہروں کی غریب بستیوں میں آباد خواتین بھی بہ طور گھریلو ملازمہ کام کرتی ہیں، جو روزانہ شہر کی افلاس زدہ بستیوں سے سفر کرکے متمول اور متوسط طبقے کی آبادیوں میں کام کرنے جاتی ہیں۔ مہنگائی نے جہاں ہمارے ملک کے 90 فی صد عوام کی کمر توڑ دی ہے، وہاں یہ طبقہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ آئے دن شہر کے حالات خراب ہونے کے باعث دہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے پیسہ کمانا مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں وہ خواتین بھی جنھوں نے کبھی گھر سے باہر قدم نہ رکھا ہو، باہر نکل کر ''ماسی'' بننے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ شوہروں کی بے روزگاری یا کام نہ کرنے کی عادت اور بچوں کی کثرت ان عورتوں کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ خوراک کی کمی اور ہمت سے زیادہ کام سائنسی اعتبار سے خواتین کے ناتواں جسم کو کم زور کرتا رہتا ہے۔
مردوں کو عورتوں کا حاکم بنایا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت ہمت اور ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے مرد سے کم ہوتی ہے، بلکہ ہمارے دینِ نے عورت کی مخصوص جسمانی ساخت اور ماں بننے کیے عظیم رُتبے پر فائز ہونے کی وجہ سے عورتوں کا خاص خیال رکھنے، انہیں عزت دینے اور چار دیواری کا سکون مہیا کرنے کی وجہ سے مردوں پر دوہری ذمہ داری ڈالی ہے اور مردوں کو عورتوں کا خیال رکھتے ہوئے انُھیں حاکم بنایا ہے۔ لیکن حوا کی بیٹی آج سڑکوں پر بجھا چہرہ لیے اور بوجھل پیروں کو گھسیٹتے ہوئے یوں نظر آتی ہے کہ گویا زندگی کا بوجھ ُاُٹھاتے اُٹھاتے تھک گئی ہو۔
عموماً ماسیاں اپنی چھوٹی بچیوں کو بھی کام پر اپنے ساتھ گھروں کے کام پر لگاتی ہیں، آنکھوں میں سپنے سجائے بلوغت کے دور میں داخل ہوتی ان بچیوں کو متوسط گھرانوں کے مکان بھی کسی شاہی محل سے کم نہیں لگتے۔ عمر کا تقاضا، جذبات کا قابو میں رکھنا مشکل، اور خواہشات کی تکمیل کے لیے جستجو، چناں چہ ننھے ناپختہ ذہن چوری چکاری پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چوریوں سے یہ عادت جڑ پکڑ لیتی ہے اور پھر بڑی چوریاں انہیں معیوب نہیں لگتیں ۔
عموماً ملازمائوں کی چوری کا اندازہ اس وقت نہیں ہوتا بلکہ کچھ وقت یا دن گزرنے کے بعد پتا چلتا ہے، جس کی وجہ سے افراد خانہ پوچھ گچھ کا سلسلہ اتنی دیر میں شروع کرتے ہیں کہ مسروقہ شے یا رقم کی بازیابی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ اس طرح بعض اوقات ایسے حادثات بھی جنم لیتے ہیں، جن سے بہت سے گھرانے متاثر ہوئے ہیں۔ اکثر یہ کچے ذہن کی لڑکیاں جرائم پیشہ افراد کا آلہ کار بن جاتیں ہیں اور مختلف گروہ ان کی درپردہ مدد سے درون خانہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔ کراچی پولیس نے رواں سال بہت سی چوریوں کا سراغ لگاتے ہوئے گھریلو ملازمائوں کا اُن میں ملوث پایا۔
لیکن یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس پیشے سے تعلق رکھنے والی ہر عورت کسی جرائم پیشہ گروہ کی کارندہ ہ۔ ایسی ملازمائیں بہت کم تعداد میں ہیں جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت گھروں میں چوری اور ڈاکا زنی کی وارداتوں کا حصہ بنی ہیں یا بنتی ہیں۔ جرائم کا حصہ بنے والی ان عورتوں ہی میں سے کچھ جسم فروشی کے کاروبار کا مُہرہ بھی بن جاتی ہیں۔ یوں افلاس کے جانور سے بھاگتی ان عورتوں نے پیسہ کمانے کا شارٹ کٹ منتخب کیا ہے۔
جسم کی خریدوفروخت کا مکروہ کاروبار، جو کبھی رات کی تاریکی اور مخصوص علاقوں ہی میں ہوتا تھا، اب دن کی روشنی میں بھی ہورہا ہے اور اس کے لیے علاقے کی کوئی قید نہیں رہ گئی۔ بعض گھریلو ملازمائیں دن کے اوقات میں دو گھروں کے کام کے دوران کے وقت میں طے شدہ مرد کے پاس جاتی ہیں۔ یہ ملازمائیں چونکہ اپنے کام سے کام رکھتی ہیں اور پیشہ ورانہ طور پر جسم فروشی کا کام نہیں کرتیں، تو ان پر شک بھی نہیں کیا جاتا۔ ایسے بہت سے کیس مشاہدے میں آئے ہیں کہ جن میں عرصے بعد راز کھلنے پر اُس گھر کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑا جہاں کی ملازمہ اس گھنائونے فعل کی مرتکب تھی۔ اس صورت حال کے پیشِ نظر گھر میں اجنبی ملازمہ کو رکھنے کے بعد اُس کے روّیے اور آنے جانے اور ملنے جُلنے والے لوگوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔