مسائل کا حل
کیوبا میں 99.99 فیصد اور صوبہ کیرالہ ہندوستان میں 100 فیصد لکھے پڑھے لوگ ہیں۔
مسائل پر بہت کچھ لکھا اوربولا جارہا ہے، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں مسائل ہی مسائل ہوتے ہیں، مگر بہت کم لوگ ایسے ہیں جو مسائل کا حل بتاتے ہیں۔
زیادہ سے زیادہ اگر کوئی کسی مسئلے کا حل پیش کرتا ہے تو وہ اسی سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اصلاحات یا پیوند کاری کرتا نظر آتا ہے۔ درحقیقت یہ قمیض (سرمایہ داری) اتنی پرانی اورگل سڑ چکی ہے کہ اس پر ایک جگہ پیوند لگائیں تو دوسری جگہ پھٹ جاتی ہے اوردوسری جگہ لگائیں تو تیسری جگہ پھٹ جاتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس گلی سڑی قمیض کو اُتار پھینک دیا جائے اور نئی قمیض پہنی جائے۔ شروع زمین سے کرتے ہیں۔
سب سے پہلے کیمیائی کھاد اور ادویات کا استعمال زراعت میں مکمل طور پر بند کردیا جائے۔ دنیا میں بہت ساری مثالیں ہیں جہاں دیسی کھاد یعنی گوبر، پودوں،کیچڑ اور کچروں کی کھاد کا استعمال ہورہا ہے اور کیمیائی (کیمیکل) کھاد کے برابر پیداوار ہورہی ہے۔جیساکہ کیوبا میں 100 فیصد دیسی کھادکا استعمال ہورہا ہے جس کی تعریف و توصیف یورپی یونین بھی کرنے پر مجبور ہوئی۔ہندوستان کا صوبہ سکّم کی صوبائی حکومت نے دیسی کھاد سے پیداوار کرنا شروع کردی ہے۔
آندھرا پردیش، راجستھان اور مشرقی پنجاب ہندوستان میں 35 لاکھ ایکڑ زمین پرکسانوں کی خودکار انجمنیں دیسی کھاد سے کاشتکاری کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف کیمیائی کھاد کے برابر پیداوار حاصل ہورہی ہے بلکہ کینسر اور دیگر موذی امراض سے بھی کسانوں کو نجات ملی ہے۔ اس کے بعد اگر ایک گاؤں میں سو گھر ہیں اور ان کے زیر استعمال 300 ایکڑ زمین ہے کسی کے پاس 5 ایکڑ، کس کے پاس 10 ایکڑ، کسی کے پاس 50 ایکڑ یا کسی کے پاس زمین ہی نہیں ہے۔ اس 300 ایکڑ زمین کی نجی ملکیت ختم کرکے پگڈنڈیاں مٹا دی جائیں اور سارے گاؤں والے مل کر کاشت کریں۔
پیداوار کو فی خاندان افراد کے حساب سے تقسیم کیا جائے، مثال کے طور پر کسی کا خاندان 5 افراد پر مشتمل ہے تو اسے اگر 5 من چاول ملتا ہے تو کسی کا خاندان 10 افراد پر مشتمل ہے تو اسے 10 من اور کسی کا خاندان 3 افراد پر مشتمل ہے تو اسے 3 من چاول ملنا چاہیے۔ اسی طرح ہر جنس کی تقسیم کی جائے۔ بیج لگانے، کھاد ڈالنے، کیڑے مارنے، اجناس کاٹنے، انھیں ذخیرہ کرنے اور تقسیم کرنے کی الگ الگ مقامی اور وقتی کمیٹیاں تشکیل دے کر یہ سارے کام بخوبی انجام دیے جاسکتے ہیں۔ پیداوار جب ضرورت سے زیادہ ہو تو پڑوس کے گاؤں کو مفت مہیا کی جاسکتی ہے۔ کبھی کوئی چیز کم پڑے تو کسی بھی پڑوسی گاؤں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کے ساتھ رابطے رکھنے کے لیے کمیٹیاں بنائی جاسکتی ہیں، محکمہ دفاع دفاعی پیداوار، اس کی تجارت، تنخواہ دار فوج، پولیس، رینجرز اور سرحدی محافظین کے اداروں کو ختم کرکے 18 کروڑ آبادی کو فوجی تربیت دی جائے۔ سماج کی تاریخ میں ہمیشہ لام بند فوج (باقاعدہ فوج) کو ہلہ بول فوج (عوامی فوج) سے شکست ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر انقلاب فرانس، انقلاب اسپین، انقلاب روس اور چین نے تنخواہ دار فوج کو شکست دی ہے۔ امریکی افواج کو کوریا، ویت نام، کمبوڈیا، لاؤس، عراق اور افغانستان میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
جب تنخواہ دار فوج، پولیس، سیکیورٹی گارڈز اور اس قسم کے اداروں کا خاتمہ ہوجائے گا تو انھی پیسوں سے شہریوں کو رہائش، صحت، تعلیم اور غذا فراہم کی جاسکتی ہے۔ باقاعدہ عدالتیں یعنی سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، سیشن اور ڈسٹرکٹ کورٹس کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ ہر محلّے میں امن، انصاف صلح اور شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے عوامی کمیٹیاں ہوں گی جو کسی بھی مسئلے پر اجلاس بلائیں گی، فیصلہ کریں گی اور اس کے بعد کمیٹی کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ اگر اچھی طبیعت اور اصول پرست انسان کے پاس اقتدار اور اختیار آجائے تو وہ بھی اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگتا ہے اور اس میں فرعونیت آجاتی ہے۔
اس لیے اقتدار اور اختیار کو ختم کرکے مرکزیت کی نفی کرنی ہوگی اور شہریوں کو نچلی سطح پر خودکار فیصلوں اور حقوق کے حصول کو بامعنی بنانا ہوگا۔ جہاں کسی پر کوئی حاوی نظر نہ آئے، تعلیم کے لیے ایسا خود مختار ماحول پیدا کیا جائے گا جہاں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں سرکاری یا نجی (تجارتی) نہیں ہوں گی بلکہ جب سارے شہری فارغ ہونگے، خوشحال ہونگے، بے فکر ہونگے اور خوش مزاج ہونگے تو ہر ایک چاہے گا کہ وہ کسی ان پڑھ کو لکھنا پڑھنا سکھائے، اور پھر لکھنا پڑھنا سکھانے والا اپنی صلاحیت، پسند اور شعبہ جات سے متعلق ہی علم کو منتقل کرے گا۔
دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔کیوبا میں 99.99 فیصد اور صوبہ کیرالہ ہندوستان میں 100 فیصد لکھے پڑھے لوگ ہیں۔ کارخانوں کی پیداوار کو پیداواری کارکنوں کی کمیٹی اسٹور کرے گی اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرے گی، کارخانوں، ملوں اور فیکٹریوں میں انھی چیزوں کی پیداوار کی جائے گی جن کی لوگوں کو ضرورت ہے۔ یہ پیداوار منافع کے لیے نہیں بلکہ شہریوں کی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے کی جائے گی۔ گھریلو باورچی خانے اور دھوبی گھاٹ ختم کردیئے جائیں گے، ہر گلی، محلّے یا گاؤں میں ایک اجتماعی باورچی خانہ اور دھوبی گھاٹ ہوگا، جہاں باری باری ہر آدمی (مرد اور عورت) کھانا پکائے گا اور کپڑے دھوئیں گے۔
جب خواتین ان دونوں کاموں سے آزاد ہوں گی تو ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافے کے مواقعے ملیں گے اور ان کی قوت محنت شامل ہونے سے پیداوار دگنی ہوجائے گی۔ اسپتالوں میں ڈاکٹرز، نرسز اورکمپاؤنڈرز رضاکارانہ خدمات انجام دیں گے، اس لیے بھی کہ انھیں غذا، پوشاک، رہائش، تعلیم اور علاج کی فکر ہوگی اور نہ ان کے حصول کے لیے پیسے خرچ کرنے ہوں گے۔ پھر وہ خلوص و محبت سے مریضوں کی تیمار داری کریں گے نہ کہ پیسے بنانے کی غرض سے۔
جنگلات سے حاصل کیے گئے وسائل بھی چونکہ سب کی ملکیت ہوں گے اس لیے یہاں سے غذا کے طور پر استعمال ہونے والی اشیاء مثلاً شہد، پھل، جانوروں کا گوشت اور لکڑیاں تمام شہریوں کو فراہم کی جائیں گی۔ ذخیرہ کرنے پر پابندی ہوگی۔ چونکہ کرنسی نوٹ ختم کردیے جائیں گے اس لیے دوسرے ملکوں، علاقوں اور خطوں سے پیداوار کا تبادلہ پیداواری اشیاء کے ذریعے کیا جائے گا۔ ہر انسان آزاد ہوگا، مذہبی، قومی اور نسلی انتہا پسندی اور رجعت پسندی کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ ونّی، جبری اور بے جوڑ غلامی کے نکاح کا خاتمہ ہوجائے گا۔
دنیا ایک ہی تھی اور ہے، جسے دولت کی لوٹ مار اور ذخیرہ کرنے کے لیے رنگ، نسل، قوم، مذہب اور فرقوں کے ناموں پر تقسیم کیا گیاہے۔ اور طاقتوروں نے کمزوروں کو قتل کیا اور ان کے وسائل پر قابض ہوگئے۔ قومی ریاستوں کی تشکیل اور سرحدیں اسی لیے وجود میں آئیں۔ کبھی مصر کے فرعون نے قبضہ کیا تو کبھی منگولیا کے چنگیز خان نے تو کبھی پرتگال اور اسپین نے امریکا اور یورپ پر قبضہ کیا۔ بعدازاں ڈچ، جرمن اور فرانس نے ایشیاء اور افریقہ پر قبضہ کیا، اس کے بعد برطانیہ نے ساری دنیا پر اور اب امریکی سامراج کی افواج 113 ملکوں میں موجود ہیں۔ ان عالمی اور قومی افواج کو ختم کرکے قومی سرحدوں کو بھی ختم کرنا ہوگا۔
ساحر لدھیانویؔ نے خوب کہا ہے کہ ''مالک نے ہمیں ایک ہی دھرتی بخشی تھی...تم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا۔'' وہ دن ضرور آئے گا جب ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ جہاں ہر طرف محبتوں کے پھولوں کی خوشبو سے دنیا معطر ہوگی۔
زیادہ سے زیادہ اگر کوئی کسی مسئلے کا حل پیش کرتا ہے تو وہ اسی سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اصلاحات یا پیوند کاری کرتا نظر آتا ہے۔ درحقیقت یہ قمیض (سرمایہ داری) اتنی پرانی اورگل سڑ چکی ہے کہ اس پر ایک جگہ پیوند لگائیں تو دوسری جگہ پھٹ جاتی ہے اوردوسری جگہ لگائیں تو تیسری جگہ پھٹ جاتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس گلی سڑی قمیض کو اُتار پھینک دیا جائے اور نئی قمیض پہنی جائے۔ شروع زمین سے کرتے ہیں۔
سب سے پہلے کیمیائی کھاد اور ادویات کا استعمال زراعت میں مکمل طور پر بند کردیا جائے۔ دنیا میں بہت ساری مثالیں ہیں جہاں دیسی کھاد یعنی گوبر، پودوں،کیچڑ اور کچروں کی کھاد کا استعمال ہورہا ہے اور کیمیائی (کیمیکل) کھاد کے برابر پیداوار ہورہی ہے۔جیساکہ کیوبا میں 100 فیصد دیسی کھادکا استعمال ہورہا ہے جس کی تعریف و توصیف یورپی یونین بھی کرنے پر مجبور ہوئی۔ہندوستان کا صوبہ سکّم کی صوبائی حکومت نے دیسی کھاد سے پیداوار کرنا شروع کردی ہے۔
آندھرا پردیش، راجستھان اور مشرقی پنجاب ہندوستان میں 35 لاکھ ایکڑ زمین پرکسانوں کی خودکار انجمنیں دیسی کھاد سے کاشتکاری کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف کیمیائی کھاد کے برابر پیداوار حاصل ہورہی ہے بلکہ کینسر اور دیگر موذی امراض سے بھی کسانوں کو نجات ملی ہے۔ اس کے بعد اگر ایک گاؤں میں سو گھر ہیں اور ان کے زیر استعمال 300 ایکڑ زمین ہے کسی کے پاس 5 ایکڑ، کس کے پاس 10 ایکڑ، کسی کے پاس 50 ایکڑ یا کسی کے پاس زمین ہی نہیں ہے۔ اس 300 ایکڑ زمین کی نجی ملکیت ختم کرکے پگڈنڈیاں مٹا دی جائیں اور سارے گاؤں والے مل کر کاشت کریں۔
پیداوار کو فی خاندان افراد کے حساب سے تقسیم کیا جائے، مثال کے طور پر کسی کا خاندان 5 افراد پر مشتمل ہے تو اسے اگر 5 من چاول ملتا ہے تو کسی کا خاندان 10 افراد پر مشتمل ہے تو اسے 10 من اور کسی کا خاندان 3 افراد پر مشتمل ہے تو اسے 3 من چاول ملنا چاہیے۔ اسی طرح ہر جنس کی تقسیم کی جائے۔ بیج لگانے، کھاد ڈالنے، کیڑے مارنے، اجناس کاٹنے، انھیں ذخیرہ کرنے اور تقسیم کرنے کی الگ الگ مقامی اور وقتی کمیٹیاں تشکیل دے کر یہ سارے کام بخوبی انجام دیے جاسکتے ہیں۔ پیداوار جب ضرورت سے زیادہ ہو تو پڑوس کے گاؤں کو مفت مہیا کی جاسکتی ہے۔ کبھی کوئی چیز کم پڑے تو کسی بھی پڑوسی گاؤں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کے ساتھ رابطے رکھنے کے لیے کمیٹیاں بنائی جاسکتی ہیں، محکمہ دفاع دفاعی پیداوار، اس کی تجارت، تنخواہ دار فوج، پولیس، رینجرز اور سرحدی محافظین کے اداروں کو ختم کرکے 18 کروڑ آبادی کو فوجی تربیت دی جائے۔ سماج کی تاریخ میں ہمیشہ لام بند فوج (باقاعدہ فوج) کو ہلہ بول فوج (عوامی فوج) سے شکست ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر انقلاب فرانس، انقلاب اسپین، انقلاب روس اور چین نے تنخواہ دار فوج کو شکست دی ہے۔ امریکی افواج کو کوریا، ویت نام، کمبوڈیا، لاؤس، عراق اور افغانستان میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
جب تنخواہ دار فوج، پولیس، سیکیورٹی گارڈز اور اس قسم کے اداروں کا خاتمہ ہوجائے گا تو انھی پیسوں سے شہریوں کو رہائش، صحت، تعلیم اور غذا فراہم کی جاسکتی ہے۔ باقاعدہ عدالتیں یعنی سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، سیشن اور ڈسٹرکٹ کورٹس کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ ہر محلّے میں امن، انصاف صلح اور شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے عوامی کمیٹیاں ہوں گی جو کسی بھی مسئلے پر اجلاس بلائیں گی، فیصلہ کریں گی اور اس کے بعد کمیٹی کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ اگر اچھی طبیعت اور اصول پرست انسان کے پاس اقتدار اور اختیار آجائے تو وہ بھی اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگتا ہے اور اس میں فرعونیت آجاتی ہے۔
اس لیے اقتدار اور اختیار کو ختم کرکے مرکزیت کی نفی کرنی ہوگی اور شہریوں کو نچلی سطح پر خودکار فیصلوں اور حقوق کے حصول کو بامعنی بنانا ہوگا۔ جہاں کسی پر کوئی حاوی نظر نہ آئے، تعلیم کے لیے ایسا خود مختار ماحول پیدا کیا جائے گا جہاں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں سرکاری یا نجی (تجارتی) نہیں ہوں گی بلکہ جب سارے شہری فارغ ہونگے، خوشحال ہونگے، بے فکر ہونگے اور خوش مزاج ہونگے تو ہر ایک چاہے گا کہ وہ کسی ان پڑھ کو لکھنا پڑھنا سکھائے، اور پھر لکھنا پڑھنا سکھانے والا اپنی صلاحیت، پسند اور شعبہ جات سے متعلق ہی علم کو منتقل کرے گا۔
دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔کیوبا میں 99.99 فیصد اور صوبہ کیرالہ ہندوستان میں 100 فیصد لکھے پڑھے لوگ ہیں۔ کارخانوں کی پیداوار کو پیداواری کارکنوں کی کمیٹی اسٹور کرے گی اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرے گی، کارخانوں، ملوں اور فیکٹریوں میں انھی چیزوں کی پیداوار کی جائے گی جن کی لوگوں کو ضرورت ہے۔ یہ پیداوار منافع کے لیے نہیں بلکہ شہریوں کی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے کی جائے گی۔ گھریلو باورچی خانے اور دھوبی گھاٹ ختم کردیئے جائیں گے، ہر گلی، محلّے یا گاؤں میں ایک اجتماعی باورچی خانہ اور دھوبی گھاٹ ہوگا، جہاں باری باری ہر آدمی (مرد اور عورت) کھانا پکائے گا اور کپڑے دھوئیں گے۔
جب خواتین ان دونوں کاموں سے آزاد ہوں گی تو ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافے کے مواقعے ملیں گے اور ان کی قوت محنت شامل ہونے سے پیداوار دگنی ہوجائے گی۔ اسپتالوں میں ڈاکٹرز، نرسز اورکمپاؤنڈرز رضاکارانہ خدمات انجام دیں گے، اس لیے بھی کہ انھیں غذا، پوشاک، رہائش، تعلیم اور علاج کی فکر ہوگی اور نہ ان کے حصول کے لیے پیسے خرچ کرنے ہوں گے۔ پھر وہ خلوص و محبت سے مریضوں کی تیمار داری کریں گے نہ کہ پیسے بنانے کی غرض سے۔
جنگلات سے حاصل کیے گئے وسائل بھی چونکہ سب کی ملکیت ہوں گے اس لیے یہاں سے غذا کے طور پر استعمال ہونے والی اشیاء مثلاً شہد، پھل، جانوروں کا گوشت اور لکڑیاں تمام شہریوں کو فراہم کی جائیں گی۔ ذخیرہ کرنے پر پابندی ہوگی۔ چونکہ کرنسی نوٹ ختم کردیے جائیں گے اس لیے دوسرے ملکوں، علاقوں اور خطوں سے پیداوار کا تبادلہ پیداواری اشیاء کے ذریعے کیا جائے گا۔ ہر انسان آزاد ہوگا، مذہبی، قومی اور نسلی انتہا پسندی اور رجعت پسندی کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ ونّی، جبری اور بے جوڑ غلامی کے نکاح کا خاتمہ ہوجائے گا۔
دنیا ایک ہی تھی اور ہے، جسے دولت کی لوٹ مار اور ذخیرہ کرنے کے لیے رنگ، نسل، قوم، مذہب اور فرقوں کے ناموں پر تقسیم کیا گیاہے۔ اور طاقتوروں نے کمزوروں کو قتل کیا اور ان کے وسائل پر قابض ہوگئے۔ قومی ریاستوں کی تشکیل اور سرحدیں اسی لیے وجود میں آئیں۔ کبھی مصر کے فرعون نے قبضہ کیا تو کبھی منگولیا کے چنگیز خان نے تو کبھی پرتگال اور اسپین نے امریکا اور یورپ پر قبضہ کیا۔ بعدازاں ڈچ، جرمن اور فرانس نے ایشیاء اور افریقہ پر قبضہ کیا، اس کے بعد برطانیہ نے ساری دنیا پر اور اب امریکی سامراج کی افواج 113 ملکوں میں موجود ہیں۔ ان عالمی اور قومی افواج کو ختم کرکے قومی سرحدوں کو بھی ختم کرنا ہوگا۔
ساحر لدھیانویؔ نے خوب کہا ہے کہ ''مالک نے ہمیں ایک ہی دھرتی بخشی تھی...تم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا۔'' وہ دن ضرور آئے گا جب ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ جہاں ہر طرف محبتوں کے پھولوں کی خوشبو سے دنیا معطر ہوگی۔