ایک رشتہ آیا ہے
وہ سموسے جو اگلی گلی کے حلوائی نے بنائے ہیں اُس کا سہرا حلوائی کے سر ہی رہنے دیں، اپنی لڑکی کے سر نہ سجائیں۔
ٹھیک ہے، مانا آپ کو پاکستان سے بہت سی شکایتیں ہیں۔
آج ہمارا ملک ویسا نہیں ہے جیسا آپ اُسے دیکھنا چاہتے ہیں جب کہ ہم خود اس کو بہتر بنانے کے لیے ایک قدم بھی نہیں اُٹھاتے پھر بھی ہر صبح اخبار اور ٹی وی چینلز پر یہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج ہمارا ملک ترقی کی طرف کچھ آگے بڑھ پایا یا نہیں۔
آج کسی بھی عام پاکستانی سے پاکستان کا حال پوچھیں تو وہ شکایتوں کا پوٹلا ایسے کھولتا ہے جیسے پاکستان اُس کی بہو اور وہ پاکستان کی ساس ہو جسے صرف اپنی بہو کی برائیاں ہی نظر آتی ہیں۔ ''ساس'' سے یاد آیا پاکستان میں ہر چیز بُری نہیں ہے کچھ چیزیں اچھی بھی ہیں جن میں سے ایک ہمارے یہاں طلاق کی شرح ہے۔
2012 کے اعدادو شمار کے مطابق امریکا میں ہر سال ہر ہزار میں سے دس لوگوں کی شادی ہوتی ہے اور ہر ہزار شادی شدہ جوڑوں میں سے 4.8 فیصد جوڑوں میں طلاق ہوجاتی ہے یعنی کہ امریکا میں شرح طلاق پچاس فیصد ہے جب کہ پاکستان میں اعشاریہ 37 ہے یعنی ساڑھے تین ہزار جوڑوں میں سے صرف ایک فیصد کی طلاق ہوتی ہے۔ اس حساب سے پاکستان ایک اچھا ملک ہے جہاں مہنگائی میں گھر چلتے رہنے کی گارنٹی تو نہیں، لیکن گھر بسے رہنے کی اچھی خاصی گارنٹی ملتی ہے۔ چلیے! بال کی کھال نکالتے ہیں، پاکستان میں شرح طلاق کیوں کم ہے؟
ہمارے یہاں شادی کی بات چیت سے لے کر شادی ہوجانے تک بلکہ اُس کے بعد بھی ہر فیصلے میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دی جاتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ماما مامی، چاچا چاچی سب کے مزاج کو نظر میں رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے اور لڑکا لڑکی پر بھی اپنے رشتے کی گاڑی کو چلاتے رہنے کی ذمے داری اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ ان پر گھر والوں کا دباؤ کہ اپنا رشتہ خود سے زیادہ دنیا کے لیے نبھاتے رہو۔
کئی بار رشتہ ہوتے وقت جب شادی کی بات ہورہی ہوتی ہے تو لڑکا لڑکی دونوں کے گھر والے اپنی سی ممکنہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی خوبیاں خوب بڑھا چڑھا کر بتائیں، چنے کے جھاڑ پر چڑھی لڑکی اور لڑکا شادی کے بعد نیچے اترنا شروع کرتے ہیں۔ شادی کے وقت والی دنیا کی سب سے اچھی لڑکی، شادی کے بعد پہلے عام لڑکی اور پھر دنیا کی سب سے بُری لڑکی بن جاتی ہے، لیکن ہمارے یہاں طلاق نہیں ہوتی کیونکہ ''مامی'' کیا کہیں گی؟
''پاکستان نقل کرنے کا ماہر ہے، دنیا چائنا کو کاپی کرنے کا بادشاہ مانتی ہے اور ہم چائنا کو بھی کاپی کرلیتے ہیں۔
پاکستان کی مارکیٹوں میں بکنے والے سیکڑوں فون جنھیں ''چائنا'' کا بتاکر بیچا جاتا ہے دراصل بولٹن مارکیٹ کراچی کے کسی چھوٹے سے کارخانے میں بنے ہوتے ہیں، یعنی نقل کرنے میں ہم اُن سے بھی ایک ہاتھ آگے ہیں۔ چائنا میں عجیب عجیب چیزیں ہوتی ہیں، جیسے وہاں آج بھی پچیس ملین سے زیادہ لوگ غاروں میں رہتے ہیں یا پھر وہاں چار ہزار بچے ایسے ہیں جن کے والدین نے ان کا نام ''اولمپک گیمز'' رکھا ہے اور انھی عجیب باتوں میں ایک نئی خبر میاں کا بیوی پر بد صورت بچہ پیدا کرنے پر کورٹ میں مقدمہ کرنا۔
کچھ دن پہلے چائنا میں رہنے والے ایک شخص جن کا نام جین فنگ ہے انھوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، لیکن یہ کوئی عام طلاق نہیں تھی، ہوا کچھ یوں کہ اُن کے یہاں بچی پیدا ہوئی، بچی باپ کے بقول بہت بدصورت تھی، اس بدصورتی کی وجہ سے باپ کو یقین تھا کہ یہ بچی اُن کی نہیں ہے، اس لیے انھوں نے ڈی این اے کروایا، اس ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ بچی انھی کی ہے، مزید تفتیش کرنے پر پتہ چلا کہ شادی سے پہلے ان کی بیوی نے ایک لاکھ ڈالر کی ساؤتھ کوریا سے چہرے کی پلاسٹک سرجری کروائی تھی جس سے وہ بدصورت سے خوبصورت نظر آنے لگی تھیں جس کا ان کے شوہر کو علم نہیں تھا اور اس ''خوبصورتی'' کی وجہ سے اس نے ان سے شادی کی تھی۔
جین نے نہ صرف اپنی بیوی کو طلاق دی بلکہ کورٹ میں ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر کے لیے دعویٰ بھی دائر کردیا۔ جین فنگ نے جج کو اپنی روداد بتائی کہ کیسے انھیں اس لڑکی کی ''جھوٹی'' شکل دیکھ کر پیار ہوگیا تھا، لڑکی نے انھیں دھوکے میں رکھ کر اُن سے شادی کرلی۔ کیس کی بنیاد اپنی گزری ہوئی بدصورتی نہیں تھی بلکہ نئی پیدا ہوئی بیٹی کی بدصورتی تھی جو ماں کی پرانی شکل سے ملتی تھی۔ حیرت انگیز طور پر جین فنگ کی بدصورت بچی پیدا ہونے پر جج کو ان سے ہمدردی ہوئی اور جس کے بعد شوہر کیس جیت گئے، جس کے بعد نہ صرف بیوی بچی کو خود سے پالے گی بلکہ شوہر کو ایک لاکھ بیس ہزار ڈالرز کا جرمانہ بھی دے گی۔
اس طلاق سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب پاکستان میں خبر عام ہوگی تو ہوسکتا ہے ہماری کاپی کرنے میں ماہر قوم اس کیس کی بھی نقل کرنے میں لگ جائے۔ تصویر میں نظر آنے والی یہاں تک کہ رشتہ ہوتے وقت سامنے آئی لڑکی میک اپ اُتارنے کے بعد بالکل مختلف لگنے لگی، اس مسئلے میں بہت سے پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں، اب اگر ہم چائنا کے بنائے الیکٹرانکس کی ان سے بہتر کاپی کرسکتے ہیں تو اس کورٹ کیس کو کیوں نہیں؟ جیت جانے پر کروڑ روپے سے زیادہ فائدہ ہوتا نظر آنے پر ''مامی چاچی'' طلاق ہوجانے پر کیا کہیں گی ، اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس کیس سے پاکستانیوں کو جو بات سیکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ شادی کے لیے رشتہ ہونے کی بات چیت کے دوران جتنی صفائی سے کام لے سکتے ہیں لینا چاہیے، دھوکے میں رکھ کر کسی سے شادی کرلینا، اس کے ساتھ ہی نہیں اپنے ساتھ بھی دھوکا ہے۔
وہ سموسے جو اگلی گلی کے حلوائی نے بنائے ہیں اُس کا سہرا حلوائی کے سر ہی رہنے دیں، اپنی لڑکی کے سر نہ سجائیں اور لڑکا جو ابھی نوکری ڈھونڈ ہی رہا ہے اُسے کسی بڑی کمپنی کا منیجر نہ بتائیں، میڈ اِن چائنا، طلاق سے سیکھ کر سچے ''میڈ اِن پاکستان رشتے'' بنائیں۔
ہم یہ بھی اُمید کرتے ہیں کہ پاکستان میں بدصورت بچے پیدا ہوجانے پر بھی اس کیس کی نقل کرنے سے گریز کریں گے ورنہ پاکستان کی کچھ اچھی باتوں میں سے کم شرح طلاق والی اچھی بات کو بھی لسٹ سے ہٹانا پڑے گا۔
آج ہمارا ملک ویسا نہیں ہے جیسا آپ اُسے دیکھنا چاہتے ہیں جب کہ ہم خود اس کو بہتر بنانے کے لیے ایک قدم بھی نہیں اُٹھاتے پھر بھی ہر صبح اخبار اور ٹی وی چینلز پر یہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج ہمارا ملک ترقی کی طرف کچھ آگے بڑھ پایا یا نہیں۔
آج کسی بھی عام پاکستانی سے پاکستان کا حال پوچھیں تو وہ شکایتوں کا پوٹلا ایسے کھولتا ہے جیسے پاکستان اُس کی بہو اور وہ پاکستان کی ساس ہو جسے صرف اپنی بہو کی برائیاں ہی نظر آتی ہیں۔ ''ساس'' سے یاد آیا پاکستان میں ہر چیز بُری نہیں ہے کچھ چیزیں اچھی بھی ہیں جن میں سے ایک ہمارے یہاں طلاق کی شرح ہے۔
2012 کے اعدادو شمار کے مطابق امریکا میں ہر سال ہر ہزار میں سے دس لوگوں کی شادی ہوتی ہے اور ہر ہزار شادی شدہ جوڑوں میں سے 4.8 فیصد جوڑوں میں طلاق ہوجاتی ہے یعنی کہ امریکا میں شرح طلاق پچاس فیصد ہے جب کہ پاکستان میں اعشاریہ 37 ہے یعنی ساڑھے تین ہزار جوڑوں میں سے صرف ایک فیصد کی طلاق ہوتی ہے۔ اس حساب سے پاکستان ایک اچھا ملک ہے جہاں مہنگائی میں گھر چلتے رہنے کی گارنٹی تو نہیں، لیکن گھر بسے رہنے کی اچھی خاصی گارنٹی ملتی ہے۔ چلیے! بال کی کھال نکالتے ہیں، پاکستان میں شرح طلاق کیوں کم ہے؟
ہمارے یہاں شادی کی بات چیت سے لے کر شادی ہوجانے تک بلکہ اُس کے بعد بھی ہر فیصلے میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دی جاتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ماما مامی، چاچا چاچی سب کے مزاج کو نظر میں رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے اور لڑکا لڑکی پر بھی اپنے رشتے کی گاڑی کو چلاتے رہنے کی ذمے داری اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ ان پر گھر والوں کا دباؤ کہ اپنا رشتہ خود سے زیادہ دنیا کے لیے نبھاتے رہو۔
کئی بار رشتہ ہوتے وقت جب شادی کی بات ہورہی ہوتی ہے تو لڑکا لڑکی دونوں کے گھر والے اپنی سی ممکنہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی خوبیاں خوب بڑھا چڑھا کر بتائیں، چنے کے جھاڑ پر چڑھی لڑکی اور لڑکا شادی کے بعد نیچے اترنا شروع کرتے ہیں۔ شادی کے وقت والی دنیا کی سب سے اچھی لڑکی، شادی کے بعد پہلے عام لڑکی اور پھر دنیا کی سب سے بُری لڑکی بن جاتی ہے، لیکن ہمارے یہاں طلاق نہیں ہوتی کیونکہ ''مامی'' کیا کہیں گی؟
''پاکستان نقل کرنے کا ماہر ہے، دنیا چائنا کو کاپی کرنے کا بادشاہ مانتی ہے اور ہم چائنا کو بھی کاپی کرلیتے ہیں۔
پاکستان کی مارکیٹوں میں بکنے والے سیکڑوں فون جنھیں ''چائنا'' کا بتاکر بیچا جاتا ہے دراصل بولٹن مارکیٹ کراچی کے کسی چھوٹے سے کارخانے میں بنے ہوتے ہیں، یعنی نقل کرنے میں ہم اُن سے بھی ایک ہاتھ آگے ہیں۔ چائنا میں عجیب عجیب چیزیں ہوتی ہیں، جیسے وہاں آج بھی پچیس ملین سے زیادہ لوگ غاروں میں رہتے ہیں یا پھر وہاں چار ہزار بچے ایسے ہیں جن کے والدین نے ان کا نام ''اولمپک گیمز'' رکھا ہے اور انھی عجیب باتوں میں ایک نئی خبر میاں کا بیوی پر بد صورت بچہ پیدا کرنے پر کورٹ میں مقدمہ کرنا۔
کچھ دن پہلے چائنا میں رہنے والے ایک شخص جن کا نام جین فنگ ہے انھوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، لیکن یہ کوئی عام طلاق نہیں تھی، ہوا کچھ یوں کہ اُن کے یہاں بچی پیدا ہوئی، بچی باپ کے بقول بہت بدصورت تھی، اس بدصورتی کی وجہ سے باپ کو یقین تھا کہ یہ بچی اُن کی نہیں ہے، اس لیے انھوں نے ڈی این اے کروایا، اس ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ بچی انھی کی ہے، مزید تفتیش کرنے پر پتہ چلا کہ شادی سے پہلے ان کی بیوی نے ایک لاکھ ڈالر کی ساؤتھ کوریا سے چہرے کی پلاسٹک سرجری کروائی تھی جس سے وہ بدصورت سے خوبصورت نظر آنے لگی تھیں جس کا ان کے شوہر کو علم نہیں تھا اور اس ''خوبصورتی'' کی وجہ سے اس نے ان سے شادی کی تھی۔
جین نے نہ صرف اپنی بیوی کو طلاق دی بلکہ کورٹ میں ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر کے لیے دعویٰ بھی دائر کردیا۔ جین فنگ نے جج کو اپنی روداد بتائی کہ کیسے انھیں اس لڑکی کی ''جھوٹی'' شکل دیکھ کر پیار ہوگیا تھا، لڑکی نے انھیں دھوکے میں رکھ کر اُن سے شادی کرلی۔ کیس کی بنیاد اپنی گزری ہوئی بدصورتی نہیں تھی بلکہ نئی پیدا ہوئی بیٹی کی بدصورتی تھی جو ماں کی پرانی شکل سے ملتی تھی۔ حیرت انگیز طور پر جین فنگ کی بدصورت بچی پیدا ہونے پر جج کو ان سے ہمدردی ہوئی اور جس کے بعد شوہر کیس جیت گئے، جس کے بعد نہ صرف بیوی بچی کو خود سے پالے گی بلکہ شوہر کو ایک لاکھ بیس ہزار ڈالرز کا جرمانہ بھی دے گی۔
اس طلاق سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب پاکستان میں خبر عام ہوگی تو ہوسکتا ہے ہماری کاپی کرنے میں ماہر قوم اس کیس کی بھی نقل کرنے میں لگ جائے۔ تصویر میں نظر آنے والی یہاں تک کہ رشتہ ہوتے وقت سامنے آئی لڑکی میک اپ اُتارنے کے بعد بالکل مختلف لگنے لگی، اس مسئلے میں بہت سے پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں، اب اگر ہم چائنا کے بنائے الیکٹرانکس کی ان سے بہتر کاپی کرسکتے ہیں تو اس کورٹ کیس کو کیوں نہیں؟ جیت جانے پر کروڑ روپے سے زیادہ فائدہ ہوتا نظر آنے پر ''مامی چاچی'' طلاق ہوجانے پر کیا کہیں گی ، اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس کیس سے پاکستانیوں کو جو بات سیکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ شادی کے لیے رشتہ ہونے کی بات چیت کے دوران جتنی صفائی سے کام لے سکتے ہیں لینا چاہیے، دھوکے میں رکھ کر کسی سے شادی کرلینا، اس کے ساتھ ہی نہیں اپنے ساتھ بھی دھوکا ہے۔
وہ سموسے جو اگلی گلی کے حلوائی نے بنائے ہیں اُس کا سہرا حلوائی کے سر ہی رہنے دیں، اپنی لڑکی کے سر نہ سجائیں اور لڑکا جو ابھی نوکری ڈھونڈ ہی رہا ہے اُسے کسی بڑی کمپنی کا منیجر نہ بتائیں، میڈ اِن چائنا، طلاق سے سیکھ کر سچے ''میڈ اِن پاکستان رشتے'' بنائیں۔
ہم یہ بھی اُمید کرتے ہیں کہ پاکستان میں بدصورت بچے پیدا ہوجانے پر بھی اس کیس کی نقل کرنے سے گریز کریں گے ورنہ پاکستان کی کچھ اچھی باتوں میں سے کم شرح طلاق والی اچھی بات کو بھی لسٹ سے ہٹانا پڑے گا۔