پاک امریکا تعلقات ایک سیاپا
پاک امریکا تعلقات کی خوبصورتی یہ ہے کہ جیسے ہی کسی سبب امداد معطل ہوتی ہے قومی غیرت جاگ پڑتی ہے
AUCKLAND:
انیس سو اناسی میں امریکا میں ایک پاکستانی شہری کو دوہرے استعمال کے کچھ ایسے حساس آلات اسمگل کرتے ہوئے پکڑا گیا جو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں بھی استعمال ہو سکتے تھے۔ امریکی کانگریس میں ہاہاکار مچ گئی اور سمنگٹن ترمیم کے ذریعے امریکی امداد کو اس بات سے مشروط کر دیا گیا کہ جب تک یہ طے نہیں ہوتا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے تب تک بالخصوص فوجی امداد معطل۔ پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ اسی سال کرسمس کے دن سوویت فوجیں افغانستان میں اترنے لگیں اور سمنگٹن ترمیم اپنی اہمیت کھو بیٹھی۔ مزید کرنا خدا کا یہ ہوا کہ کارٹر انتظامیہ کی جگہ ریگن انتظامیہ آ گئی اور پاکستان کی فوجی حکومت سوویت خطرے کے خلاف امریکا کے چہیتے ترین پارٹنرز کی فہرست میں راتوں رات آ گئی۔ سی آئی اے، آئی ایس آئی، بھائی بھائی۔ انیس سو بیاسی میں چالیس ایف سولہ طیاروں کی پہلی ڈیل ہوئی۔
اگست انیس سو پچاسی میں ''جہادِ افغانستان'' عروج پر تھا اور آثار یوں نظر آنے لگے گویا سوویت خطرے کے طوفان کا رخ کامیابی سے موڑ دیا گیا ہو۔ تو ایک بار پھر امریکی کانگریس کو پاکستان کے جوہری پروگرام سے غیر پرامن ہونے کی بو آنے لگی اور سینیٹر لیری پریسلر نے سینیٹ سے ایک ذیلی قانون منظور کرایا جس کے تحت امریکی صدر کو امداد کے نئے وعدے سے قبل پاکستان کے جوہری پروگرام کے پرامن ہونے کی بابت ہر سال ایک توثیقی سند کانگریس میں جمع کرانا ہو گی۔ امریکی صدر نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے سالانہ سرٹیفکیٹ جاری کرنا شروع کر دیا۔
جیسے ہی گورباچوف نے افغانستان سے سوویت فوجوں کے مرحلہ وار انخلا کا اعلان کیا امریکا نے بھی پاکستان کے جوہری پروگرام کو '' ناقدانہ اور اصولی نگاہوں'' سے دیکھنا شروع کر دیا۔ انیس سو نوے تک افغانستان سے امریکی دلچسپی سمٹنا شروع ہو گئی اور صدر بش سینئیر نے ''جوہری کیریکٹر سرٹیفکیٹ'' جاری کرنے سے معذرت کر لی۔ پریسلر ترمیم حرکت میں آ گئی اور پاکستان کی فوجی امداد معطل ہو گئی۔
پاکستان نے اپنے گاڑھے خون پسینے کی کمائی سے پیٹ کاٹ کاٹ کر مزید ایف سولہ خریدنے کے لیے جو پیسے امریکی طیارہ ساز ادارے لاک ہیڈ کو دیے وہ بھی پریسلر ترمیم کے سردخانے میں منجمد ہو گئے۔ امریکا نے یہ رقم خاصی منت سماجت کے بعد بہت سارے ''چارجز'' کاٹنے کے بعد توڑ توڑ کے بعد کے برسوں میں یوں واپس کی جیسے مقروض امریکا نہ ہو پاکستان ہو۔
پاک امریکا تعلقات کی خوبصورتی یہ ہے کہ جیسے ہی کسی سبب امداد معطل ہوتی ہے قومی غیرت جاگ پڑتی ہے۔ امریکا کی طوطا چشمی کے مرثیے لکھے جاتے ہیں۔ آیندہ واشنگٹن کے دلفریب جال میں نہ پھنسنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا عہد کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی پرانی بلیک اینڈ وائٹ اردو فلموں کی طرح امریکی شہری بابو گاؤں کی گوری پر ایمان شکن مسکراہٹ پھینکتا ہے، سادی حسینہ سب اگلا پچھلا بھول بھال کے پھر سے چپر غٹو ہو جاتی ہے اور دونوں اس درخت سے اس درخت تک تنوں سے لپٹتے لپٹتے گاتے گاتے وادیوں میں گم ہونے لگتے ہیں۔
انیس سو پچانوے میں امریکی سینیٹ نے براؤن ترمیم منظور کی۔ اس کے تحت پاکستان کی محدود فوجی امداد بحال ہو گئی مگر ایف سولہ کی کھیپ لاک ہیڈ کے ہینگرز میں ہی زنگ آلود ہوتی رہی اور گودام کا کرایہ پاکستان کے ذمے پڑتا رہا۔
اور پھر اٹھائیس مئی انیس سو اٹھانوے آ گیا۔ پاکستان نے صدر بل کلنٹن کی جانب سے تمام ترغیبات ٹھکراتے ہوئے گیارہ اور تیرہ مئی کے پانچ بھارتی جوہری دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکے کیے۔ امریکا اور جاپان سمیت کئی ممالک نے یکلخت ہر طرح کی امداد بند کر دی۔ پاکستان نے توڑ یہ نکالا کہ زرِ مبادلہ کے تمام نجی پاکستانی اکاؤنٹس منجمد کر دیے۔ سعودی عرب نے لمبے ادھار پر تیل دینا منظور فرمایا اور نواز شریف حکومت نے ایک اور کشکول توڑ مہم کے تحت ''قرض اتارو ملک سنوارو'' کا نعرہ لگا دیا۔
اگلے ہی برس کرگل کی مہم جوئی گلے پڑ گئی اور بل کلنٹن کو بیچ میں ڈال کے صلح صفائی کروانا پڑ گئی۔ ستمبر انیس سو ننانوے میں شہباز شریف نے واشنگٹن کے دورے میں امریکی اعلی حکام کو سفارش ڈالی کہ فوج کو اقتدار پر قبضے سے روکنے کے لیے ''فرینڈلی وارننگ'' جاری کر دیں اور امریکیوں نے ایک رسمی وارننگ جاری بھی کر دی۔ اس سے پہلے کہ یہ طے ہوتا کہ کرگل کے تالاب میں دھکا کس نے دیا جنرل پرویز مشرف نے بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو نواز شریف حکومت کو ''آ بیل مجھے مار'' کی پالیسی اپنانے پر فارغ کر دیا۔ مگر امریکی امداد بحال نہ ہو سکی۔
اور پھر مشرف کے لیے کرنا خدا کا ویسا ہی ہوا جیسا ضیا الحق کے لیے ہوا تھا۔ ایک بار پھر بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ نائن الیون کی شکل میں اسٹرٹیجک من و سلوی اترنے کا موسم آ گیا۔ نائن الیون کے صرف نو دن بعد ہی (بیس ستمبر) امریکی کانگریس نے سمنگٹن، پریسلر اور گلین ترامیم داخلِ دفتر کر دیں اور یہ پیغام بھیجا کہ اسامہ بن لادن اور اسے پناہ دینے والے طالبان کے سر کے بدلے مانگ کیا مانگتا ہے؟ نہیں مانگے گا تو پھر گلیوں میں مانگتا پھرے گا۔ شرائط طے ہوئیں۔ پرانی بے وفائیوں پر مٹی ڈالنے کا وعدہ ہوا اور امریکا اور پاکستان ایک بار پھر ہنسی خوشی رہنے لگے۔
ناٹو کو زمینی و فضائی راہداری میسر آ گئی۔ پاکستان کو سرحدی پہرے داری کے عوض کولیشن سپورٹ فنڈ، دہشتگردی سے نبردآزمائی کے لیے جدید زمینی و فضائی ہتھیار، نگرانی و سراغرسانی کا نظام، تربیتی سہولتیں اور اقتصادی انجکشن میسر آ گیا۔ پاکستان کو غیر اعلانیہ جوہری طاقت، ناٹو سے باہر سب سے قریبی ساجھے دار کا خطاب اور افغان تصفیے کا مساوی فریق تسلیم کر لیا گیا۔کیری لوگر امدادی پیکیج کے تحت دو ہزار دس سے چودہ تک سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی اقتصادی امداد الگ سے ملی۔ المختصر یہ کہ دو ہزار دو سے پندرہ تک کے تیرہ برس میں امریکا کے افغانستان میں آنے اور پھر بحفاظت نکلنے کے دورانیے میں پاکستان کو ساڑھے تین ارب ڈالر کی فوجی گرانٹ شامل کر کے تینتیس اعشاریہ ایک ارب امریکی ڈالر امداد ملی۔ کہاں خرچ ہوئی، نہیں ہوئی، کس نے کی۔ ایسے سوالات اٹھانا ٹھیک نہیں۔
اس دوران ڈما ڈولہ، دتا خیل اور سلالہ کے سانحات، پاکستانی سرحدوں کے اندر ڈرونز کی کارروائی، ریمنڈ ڈیوس کا آنا اور جانا، ایبٹ آباد آپریشن، میمو گیٹ، پاکستان میں حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ کی موجودگی سمیت کئی شہتیر باہمی مفادات و ضروریات کی آنکھ میں باآسانی ڈوب گئے۔
جوں ہی امریکی گردن پر سے افغان جوا ڈھیلا ہونا شروع ہوا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی بھی ایک بہت بڑا تنازعہ بن گئی، حقانی نیٹ ورک کو لگام نہ دینے کا معاملہ بھی بڑے سے ہاتھی میں بدل گیا اور آٹھ ایف سولہ طیاروں کے لیے بیالیس کروڑ ڈالر کی وعدہ شدہ امریکی سبسڈی بھی دنیا کی سب سے امیر ملک کی کانگریس کے لیے پہاڑ جیسی ہو گئی۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کے پینتالیس کروڑ ڈالر کی پگھار بھی '' ڈو مور'' کی بابت امریکی اطمینان ہونے تک روک لی گئی۔ پاکستان کو یہ بھی اطمینان دلانا ہو گا کہ اس کے جوہری ہتھیار محفوظ ہاتھوں میں ہیں کہ نہیں۔ یا تو ہر ادا پر فریفتگی اور ویہل پے ویہل نچھاور ہو رہی تھی یا اب یہ بھی برا لگ رہا ہے کہ آٹا گوندھتے وقت ہلتی کیوں ہے؟
ایک بار پھر قومی غیرت جوش میں آ چکی ہے۔ رکھو اپنے ایف سولہ اپنے پاس ہمیں اگر پیسے دے کر ہی خریدنے ہیں تو کہیں سے بھی خرید لیں گے۔ ہمارے جے ایف سیونٹین تھنڈر بہت کافی ہیں۔ روس کا اسلحہ بھی کچھ کم معیاری نہیں۔ بھارت امریکا گٹھ جوڑ مردہ باد۔ ہم پیروں پر کھڑے ہونا جانتے ہیں۔ مگر تمہارے ہوتے اگر ہم اپنے پیروں پے کھڑے ہو گئے تو تمہیں اچھا لگے گا کیا؟
انیس سو اناسی میں امریکا میں ایک پاکستانی شہری کو دوہرے استعمال کے کچھ ایسے حساس آلات اسمگل کرتے ہوئے پکڑا گیا جو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں بھی استعمال ہو سکتے تھے۔ امریکی کانگریس میں ہاہاکار مچ گئی اور سمنگٹن ترمیم کے ذریعے امریکی امداد کو اس بات سے مشروط کر دیا گیا کہ جب تک یہ طے نہیں ہوتا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے تب تک بالخصوص فوجی امداد معطل۔ پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ اسی سال کرسمس کے دن سوویت فوجیں افغانستان میں اترنے لگیں اور سمنگٹن ترمیم اپنی اہمیت کھو بیٹھی۔ مزید کرنا خدا کا یہ ہوا کہ کارٹر انتظامیہ کی جگہ ریگن انتظامیہ آ گئی اور پاکستان کی فوجی حکومت سوویت خطرے کے خلاف امریکا کے چہیتے ترین پارٹنرز کی فہرست میں راتوں رات آ گئی۔ سی آئی اے، آئی ایس آئی، بھائی بھائی۔ انیس سو بیاسی میں چالیس ایف سولہ طیاروں کی پہلی ڈیل ہوئی۔
اگست انیس سو پچاسی میں ''جہادِ افغانستان'' عروج پر تھا اور آثار یوں نظر آنے لگے گویا سوویت خطرے کے طوفان کا رخ کامیابی سے موڑ دیا گیا ہو۔ تو ایک بار پھر امریکی کانگریس کو پاکستان کے جوہری پروگرام سے غیر پرامن ہونے کی بو آنے لگی اور سینیٹر لیری پریسلر نے سینیٹ سے ایک ذیلی قانون منظور کرایا جس کے تحت امریکی صدر کو امداد کے نئے وعدے سے قبل پاکستان کے جوہری پروگرام کے پرامن ہونے کی بابت ہر سال ایک توثیقی سند کانگریس میں جمع کرانا ہو گی۔ امریکی صدر نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے سالانہ سرٹیفکیٹ جاری کرنا شروع کر دیا۔
جیسے ہی گورباچوف نے افغانستان سے سوویت فوجوں کے مرحلہ وار انخلا کا اعلان کیا امریکا نے بھی پاکستان کے جوہری پروگرام کو '' ناقدانہ اور اصولی نگاہوں'' سے دیکھنا شروع کر دیا۔ انیس سو نوے تک افغانستان سے امریکی دلچسپی سمٹنا شروع ہو گئی اور صدر بش سینئیر نے ''جوہری کیریکٹر سرٹیفکیٹ'' جاری کرنے سے معذرت کر لی۔ پریسلر ترمیم حرکت میں آ گئی اور پاکستان کی فوجی امداد معطل ہو گئی۔
پاکستان نے اپنے گاڑھے خون پسینے کی کمائی سے پیٹ کاٹ کاٹ کر مزید ایف سولہ خریدنے کے لیے جو پیسے امریکی طیارہ ساز ادارے لاک ہیڈ کو دیے وہ بھی پریسلر ترمیم کے سردخانے میں منجمد ہو گئے۔ امریکا نے یہ رقم خاصی منت سماجت کے بعد بہت سارے ''چارجز'' کاٹنے کے بعد توڑ توڑ کے بعد کے برسوں میں یوں واپس کی جیسے مقروض امریکا نہ ہو پاکستان ہو۔
پاک امریکا تعلقات کی خوبصورتی یہ ہے کہ جیسے ہی کسی سبب امداد معطل ہوتی ہے قومی غیرت جاگ پڑتی ہے۔ امریکا کی طوطا چشمی کے مرثیے لکھے جاتے ہیں۔ آیندہ واشنگٹن کے دلفریب جال میں نہ پھنسنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا عہد کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی پرانی بلیک اینڈ وائٹ اردو فلموں کی طرح امریکی شہری بابو گاؤں کی گوری پر ایمان شکن مسکراہٹ پھینکتا ہے، سادی حسینہ سب اگلا پچھلا بھول بھال کے پھر سے چپر غٹو ہو جاتی ہے اور دونوں اس درخت سے اس درخت تک تنوں سے لپٹتے لپٹتے گاتے گاتے وادیوں میں گم ہونے لگتے ہیں۔
انیس سو پچانوے میں امریکی سینیٹ نے براؤن ترمیم منظور کی۔ اس کے تحت پاکستان کی محدود فوجی امداد بحال ہو گئی مگر ایف سولہ کی کھیپ لاک ہیڈ کے ہینگرز میں ہی زنگ آلود ہوتی رہی اور گودام کا کرایہ پاکستان کے ذمے پڑتا رہا۔
اور پھر اٹھائیس مئی انیس سو اٹھانوے آ گیا۔ پاکستان نے صدر بل کلنٹن کی جانب سے تمام ترغیبات ٹھکراتے ہوئے گیارہ اور تیرہ مئی کے پانچ بھارتی جوہری دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکے کیے۔ امریکا اور جاپان سمیت کئی ممالک نے یکلخت ہر طرح کی امداد بند کر دی۔ پاکستان نے توڑ یہ نکالا کہ زرِ مبادلہ کے تمام نجی پاکستانی اکاؤنٹس منجمد کر دیے۔ سعودی عرب نے لمبے ادھار پر تیل دینا منظور فرمایا اور نواز شریف حکومت نے ایک اور کشکول توڑ مہم کے تحت ''قرض اتارو ملک سنوارو'' کا نعرہ لگا دیا۔
اگلے ہی برس کرگل کی مہم جوئی گلے پڑ گئی اور بل کلنٹن کو بیچ میں ڈال کے صلح صفائی کروانا پڑ گئی۔ ستمبر انیس سو ننانوے میں شہباز شریف نے واشنگٹن کے دورے میں امریکی اعلی حکام کو سفارش ڈالی کہ فوج کو اقتدار پر قبضے سے روکنے کے لیے ''فرینڈلی وارننگ'' جاری کر دیں اور امریکیوں نے ایک رسمی وارننگ جاری بھی کر دی۔ اس سے پہلے کہ یہ طے ہوتا کہ کرگل کے تالاب میں دھکا کس نے دیا جنرل پرویز مشرف نے بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو نواز شریف حکومت کو ''آ بیل مجھے مار'' کی پالیسی اپنانے پر فارغ کر دیا۔ مگر امریکی امداد بحال نہ ہو سکی۔
اور پھر مشرف کے لیے کرنا خدا کا ویسا ہی ہوا جیسا ضیا الحق کے لیے ہوا تھا۔ ایک بار پھر بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ نائن الیون کی شکل میں اسٹرٹیجک من و سلوی اترنے کا موسم آ گیا۔ نائن الیون کے صرف نو دن بعد ہی (بیس ستمبر) امریکی کانگریس نے سمنگٹن، پریسلر اور گلین ترامیم داخلِ دفتر کر دیں اور یہ پیغام بھیجا کہ اسامہ بن لادن اور اسے پناہ دینے والے طالبان کے سر کے بدلے مانگ کیا مانگتا ہے؟ نہیں مانگے گا تو پھر گلیوں میں مانگتا پھرے گا۔ شرائط طے ہوئیں۔ پرانی بے وفائیوں پر مٹی ڈالنے کا وعدہ ہوا اور امریکا اور پاکستان ایک بار پھر ہنسی خوشی رہنے لگے۔
ناٹو کو زمینی و فضائی راہداری میسر آ گئی۔ پاکستان کو سرحدی پہرے داری کے عوض کولیشن سپورٹ فنڈ، دہشتگردی سے نبردآزمائی کے لیے جدید زمینی و فضائی ہتھیار، نگرانی و سراغرسانی کا نظام، تربیتی سہولتیں اور اقتصادی انجکشن میسر آ گیا۔ پاکستان کو غیر اعلانیہ جوہری طاقت، ناٹو سے باہر سب سے قریبی ساجھے دار کا خطاب اور افغان تصفیے کا مساوی فریق تسلیم کر لیا گیا۔کیری لوگر امدادی پیکیج کے تحت دو ہزار دس سے چودہ تک سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی اقتصادی امداد الگ سے ملی۔ المختصر یہ کہ دو ہزار دو سے پندرہ تک کے تیرہ برس میں امریکا کے افغانستان میں آنے اور پھر بحفاظت نکلنے کے دورانیے میں پاکستان کو ساڑھے تین ارب ڈالر کی فوجی گرانٹ شامل کر کے تینتیس اعشاریہ ایک ارب امریکی ڈالر امداد ملی۔ کہاں خرچ ہوئی، نہیں ہوئی، کس نے کی۔ ایسے سوالات اٹھانا ٹھیک نہیں۔
اس دوران ڈما ڈولہ، دتا خیل اور سلالہ کے سانحات، پاکستانی سرحدوں کے اندر ڈرونز کی کارروائی، ریمنڈ ڈیوس کا آنا اور جانا، ایبٹ آباد آپریشن، میمو گیٹ، پاکستان میں حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ کی موجودگی سمیت کئی شہتیر باہمی مفادات و ضروریات کی آنکھ میں باآسانی ڈوب گئے۔
جوں ہی امریکی گردن پر سے افغان جوا ڈھیلا ہونا شروع ہوا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی بھی ایک بہت بڑا تنازعہ بن گئی، حقانی نیٹ ورک کو لگام نہ دینے کا معاملہ بھی بڑے سے ہاتھی میں بدل گیا اور آٹھ ایف سولہ طیاروں کے لیے بیالیس کروڑ ڈالر کی وعدہ شدہ امریکی سبسڈی بھی دنیا کی سب سے امیر ملک کی کانگریس کے لیے پہاڑ جیسی ہو گئی۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کے پینتالیس کروڑ ڈالر کی پگھار بھی '' ڈو مور'' کی بابت امریکی اطمینان ہونے تک روک لی گئی۔ پاکستان کو یہ بھی اطمینان دلانا ہو گا کہ اس کے جوہری ہتھیار محفوظ ہاتھوں میں ہیں کہ نہیں۔ یا تو ہر ادا پر فریفتگی اور ویہل پے ویہل نچھاور ہو رہی تھی یا اب یہ بھی برا لگ رہا ہے کہ آٹا گوندھتے وقت ہلتی کیوں ہے؟
ایک بار پھر قومی غیرت جوش میں آ چکی ہے۔ رکھو اپنے ایف سولہ اپنے پاس ہمیں اگر پیسے دے کر ہی خریدنے ہیں تو کہیں سے بھی خرید لیں گے۔ ہمارے جے ایف سیونٹین تھنڈر بہت کافی ہیں۔ روس کا اسلحہ بھی کچھ کم معیاری نہیں۔ بھارت امریکا گٹھ جوڑ مردہ باد۔ ہم پیروں پر کھڑے ہونا جانتے ہیں۔ مگر تمہارے ہوتے اگر ہم اپنے پیروں پے کھڑے ہو گئے تو تمہیں اچھا لگے گا کیا؟