کبھی کسی کومکمل جہاں نہیں ملتا
اس مشاعرے کے بعدکراچی کی کئی ادبی تنظیموں نے ان کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد کیا تھا
جب ہندوستان کے نامور شاعراور فلمی نغمہ نگار ندا فاضلی کے انتقال کی خبراخبارات کے ذریعے پتہ چلی تھی تو دل کو بڑا ملال ہوا تھا کہ داستان ادب کی ایک اور ہر دلعزیز شخصیت اس دنیا سے رخصت ہوگئی ان کی شاعرانہ خوبیوں سے تو میں بہت پہلے ہی واقف تھا مگر جب چند سال پہلے میری ان سے کراچی میں ایک یادگار ملاقات ہوئی تھی تو ان کی سادہ طبیعت اور خوش مزاجی کا بھی اندازہ ہوا تھا، ان دنوں ندا فاضلی بمبئی سے کراچی ایک انڈو پاک مشاعرے میں بھی شرکت کی غرض سے آئے ہوئے تھے۔
اس مشاعرے کے بعدکراچی کی کئی ادبی تنظیموں نے ان کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد کیا تھا اورکئی دوستوں اوراحباب نے بھی اپنے گھروں میں ان کے ساتھ خوبصورت شعری نشستوں کا بھی اہتمام کیا تھا۔ یہ ایک ایسی بھی ملاقات تھی جو میرے بینک میں ملازم دوست علی رضا کے گھر پر تھی، میں نے ندا فاضلی صاحب کو اپنا پہلا شعری مجموعہ ''کسک'' بھی پیش کیا تھا جسے انھوں نے بڑا سراہا تھا اور پھر انھیں بمبئی آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک بار ممبئی ضرورآؤں، میں نے ان کی دعوت پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے بمبئی کے ایک فلمی ہفت روزہ کے مدیرانیس الرحمن دہلوی کی دعوت پر ممبئی جانے کا پروگرام بنالیا تھا مگر پھر میری والدہ بیمار ہوگئیں اور ان کا انتقال ہوگیا اور اس طرح یہ پروگرام پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
اب میں پھر ندا فاضلی کی طرف آتا ہوں۔ ندا فاضلی کا اصلی نام مقتدا حسن تھا ان کے والد دعا ڈبائیوی ہندوستان کے نامور شاعروں میں شمارکیے جاتے تھے۔ ان کا گھرانہ ایک ادبی گھرانا تھا۔ جہاں شعروسخن کی آبیاری میں ان کے والد نے آگے بڑھ کر حصہ لیا اور اسی ماحول پر ندا فاضلی کی بھی پرورش ہوئی۔ وہ دور دعا ڈبائیوی کے استاد نوح ناروی کا دور تھا اور ہندوستان کے ہر بڑے شہر میں ان کے شاگرد تھے اور دعا ڈبائیوی بھی اس دور کے نامور استاد شاعر نوح ناروی کے شاگردوں میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے اور دہلی کی ادبی محفلوں میں ان کی بڑی دھوم تھی۔
ندا فاضلی کو بھی بچپن ہی سے ادبی ماحول کھل کر میسر آیا اور وہ نوعمری ہی سے شاعری کی طرف متوجہ ہوگئے تھے ابتدا میں تھوڑی بہت اصلاح اپنے والد ہی سے لی اور پھر خود ہی شعر وسخن میں طاق ہوتے چلے گئے۔ ندا فاضلی نے گوالیارکی وکرم یونیورسٹی سے پہلے اردو میں ایم ۔اے کیا پھر ہندی میں بھی ماسٹرکی ڈگری حاصل کی اس طرح اردو کے ساتھ ساتھ ہندی ادب پر بھی کافی عبور حاصل کرلیا تھا۔ جتنی اچھی یہ اردو شاعری کرتے تھے ،اتنی ہی خوبصورت شاعری یہ ہندی زبان میں بھی کرتے تھے۔
ندا فاضلی کی ابتدا بھی مقامی اخبارات اور مشہور ادبی رسائل میں لکھنے لکھانے سے ہوئی اور ادبی پرچوں میں ان کے کلام کی شہرت بڑھتی چلی گئی پھر یہ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے بھی لکھنے لگے اس دوران ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پرآچکے تھے جن میں 'مور ناچ ، 'لفظوں کا پل' اورآنکھ اور خواب کے درمیان' کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ ندا فاضلی نے ''دور درشن'' ٹیلی ویژن کے لیے بھی بہت کچھ لکھا کئی مشہور موسیقی کے پروگرام کیے ایک مشہور سیریز''سادھنا کے نام'' سے لاکھوں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ انھی دنوں ان کی شاعری کے چرچے بھی عام ہوتے گئے اور ہندوستان کے لیجنڈ سنگر جگجیت سنگھ اور ان کی بیگم چترا نے ان کی ایک خوبصورت غزل گائی تھی جس کا مطلع تھا:
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے توسونا ہے
جب یہ غزل منظر عام پر آئی تو سارے ہندوستان میں ندا فاضلی کی شاعری کے چرچے ہونے لگے اور یہ دھوم فلمی دنیا تک بھی پہنچ گئی تھی۔ ان دنوں کئی فلمسازوں نے ندا فاضلی سے رابطہ کیا ان میں ایک فلمسازوہدایت کار کمال امروہوی بھی تھے، ان دنوں کمال امروہوی جان نثار اختر کے انتقال کے بعد کسی اورمنفرد انداز کے شاعرکی تلاش میں تھے کیونکہ ان کی فلم ''رضیہ سلطان'' کے لیے جو گیت جاں نثار اختر لکھ گئے تھے وہ بے مثال تھے اور اب ان کی خواہش تھی کہ کوئی ایسا شاعر مذکورہ فلم کے لیے لیا جائے جوگیتوں کی صورت میں اپنی شاعری کا نچوڑ پیش کرے اور جب کمال امروہوی نے جگجیت سنگھ اورچترا کی آوازوں میں ندا فاضلی کی ایک خوبصورت غزل سنی تو وہ غزل ان کے دل میں اتر گئی۔
کمال امروہوی نے اس غزل کے بعد ندا فاضلی سے رابطہ کیا اور ندا فاضلی سے پہلی ملاقات میں یہ کہہ دیا کہ ان کی شاعری نے مجھے بڑا متاثرکیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ اب میری فلم ''رضیہ سلطان''کے گیت ندا فاضلی ہی لکھیں گے اور جاں نثار اختر نے جہاں سے فلم کو چھوڑا ہے وہاں سے ندا فاضلی نے اپنے کام کا آغاز کریں گے اور پھر موسیقارخیام کے ساتھ ندا فاضلی کی بیٹھکیں شروع ہوگئیں ۔کمال امروہوی نے ندا فاضلی کو گیت کی سچویشن سمجھاتے ہوئے کہا کہ اب موسیقار اور شاعر نے مل کر ایک ایسا گیت فلم کے لیے تیار کرنا ہے جو فلم کی شان بڑھادے۔ چند دنوں کی کاوشوں کے بعد جو گیت تیار کیا گیا۔ اس کے بول تھے:
آئی زنجیرکی جھنکار خدا خیرکرے
دل ہوا کس کا گرفتار خدا خیرکرے
جانے یہ کون میری روح کو چھوکرگزرا
اک قیامت ہوئی بیدار خدا خیرکرے
جب مکمل ریہرسل کے ساتھ یہ گیت کمال امروہوی نے سنا تو وہ جھوم اٹھے اورگیت اسی وقت فائنل ہوگیا۔ یہ گیت ایک نیم کلاسیکل سنگر کبان مرزا نے گایا اور فلم میں دھرمیندر پر فلمایا گیا تھا اسی فلم کے لیے لکھا گیا ندا فاضلی کا دوسرا گیت بھی بڑے غضب کا تھا۔ جس کے بول تھے:
ترا ہجر مرا نصیب ہے
ترا غم ہی مری حیات ہے
مجھے تیری دوری کا غم ہوکیوں
تو کہیں بھی ہو میرے ساتھ ہے
یہ گیت بھی کبان مرزا نے گایا تھا اور دھرمیندر پر پکچرائز کیا گیا تھا۔ فلم ''رضیہ سلطان'' اپنے دور کی ایک خوبصورت فلم تھی اور ہٹ بھی ہوئی تھی۔ اس فلم کے بعد بے شمار فلموں میں ندا فاضلی کے گیتوں نے شہرت حاصل کی جن میں فلم ''آہستہ آہستہ'' کی ایک غزل نے بہت سے شاعروں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا جس کا مطلع تھا:
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
یہ گیت گلوکارہ آشا نے گایا تھا اور اس کی موسیقی بھی خیام نے ہی مرتب کی تھی یہ فلم بھی اپنے گیتوں کی وجہ سے مشہور ہوئی تھی۔ ادب میں ڈوبی ہوئی اس خوبصورت غزل نے لاکھوں دل موہ لیے تھے۔ ندا فاضلی کی ایک فلم تھی ''آپ تو ایسے نہ تھے'' اس میں ان کا ایک اور گیت بڑا دلکش تھا جو پسندیدگی کی سند بنا جس کے بول تھے:
تو اس طرح سے مری زندگی میں شامل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
اس گیت کی موسیقی خاتون موسیقار اوشنا کھنہ نے دی تھی اور اس گیت کو منہر ادھاس نے گایا تھا، ندا فاضلی نے چیدہ چیدہ فلمیں لکھیں مگر گیت بہت ہی معیاری لکھے جن میں ادب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ندا فاضلی کی ایک خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ انھیں موسیقار بھی بڑے گُنی ملے جن میں موسیقار خیام اور آر۔ڈی۔برمن کی معاونت حاصل تھی ۔ان کی چند اردو فلمیں بھی تھیں جن میں وجے، ہرجائی اور فلک کے نام شامل ہیں۔ ندا فاضلی کی ایک شہرت یہ بھی ہے جس طرح فلموں میں لکھے گئے گیت مقبولیت کا حامل رہے اسی طرح ندا فاضلی کی کچھ غزلیں جو فلموں سے ہٹ کر غزل کے مشہور سنگروں نے گائیں انھیں بھی بڑی شہرت حاصل ہوئی ۔ جیسے کہ غلام علی کی گائی ہوئی غزل:
تنہا تنہا دکھ جھیلیں گے محفل محفل گائیں گے
پنکج ادھاس کی آواز میں یہ غزل:
دیوار ودر سے اتر کر
پرچھائیاں بولتی ہیں
اور پھرخاص طور پر لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر اورجگجیت سنگھ کی آواز میں یہ غزل جس کے بول ہیں:
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
اس مسحور کن غزل نے لاکھوں دلوں کو دیوانہ کردیا تھا۔ ندا فاضلی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی شاعری کے ترجمے جہاں ہندوستان کی تمام بڑی مقامی زبانوں میں ہوئے ہیں، وہاں ان کی شاعری کے ترجمے انگریزی، جرمن، فرنسیسی، عربی اور چینی زبان میں بھی ہوچکے ہیں اور اس طرح ندا فاضلی کی شاعری کے چرچے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
اس مشاعرے کے بعدکراچی کی کئی ادبی تنظیموں نے ان کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد کیا تھا اورکئی دوستوں اوراحباب نے بھی اپنے گھروں میں ان کے ساتھ خوبصورت شعری نشستوں کا بھی اہتمام کیا تھا۔ یہ ایک ایسی بھی ملاقات تھی جو میرے بینک میں ملازم دوست علی رضا کے گھر پر تھی، میں نے ندا فاضلی صاحب کو اپنا پہلا شعری مجموعہ ''کسک'' بھی پیش کیا تھا جسے انھوں نے بڑا سراہا تھا اور پھر انھیں بمبئی آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک بار ممبئی ضرورآؤں، میں نے ان کی دعوت پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے بمبئی کے ایک فلمی ہفت روزہ کے مدیرانیس الرحمن دہلوی کی دعوت پر ممبئی جانے کا پروگرام بنالیا تھا مگر پھر میری والدہ بیمار ہوگئیں اور ان کا انتقال ہوگیا اور اس طرح یہ پروگرام پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
اب میں پھر ندا فاضلی کی طرف آتا ہوں۔ ندا فاضلی کا اصلی نام مقتدا حسن تھا ان کے والد دعا ڈبائیوی ہندوستان کے نامور شاعروں میں شمارکیے جاتے تھے۔ ان کا گھرانہ ایک ادبی گھرانا تھا۔ جہاں شعروسخن کی آبیاری میں ان کے والد نے آگے بڑھ کر حصہ لیا اور اسی ماحول پر ندا فاضلی کی بھی پرورش ہوئی۔ وہ دور دعا ڈبائیوی کے استاد نوح ناروی کا دور تھا اور ہندوستان کے ہر بڑے شہر میں ان کے شاگرد تھے اور دعا ڈبائیوی بھی اس دور کے نامور استاد شاعر نوح ناروی کے شاگردوں میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے اور دہلی کی ادبی محفلوں میں ان کی بڑی دھوم تھی۔
ندا فاضلی کو بھی بچپن ہی سے ادبی ماحول کھل کر میسر آیا اور وہ نوعمری ہی سے شاعری کی طرف متوجہ ہوگئے تھے ابتدا میں تھوڑی بہت اصلاح اپنے والد ہی سے لی اور پھر خود ہی شعر وسخن میں طاق ہوتے چلے گئے۔ ندا فاضلی نے گوالیارکی وکرم یونیورسٹی سے پہلے اردو میں ایم ۔اے کیا پھر ہندی میں بھی ماسٹرکی ڈگری حاصل کی اس طرح اردو کے ساتھ ساتھ ہندی ادب پر بھی کافی عبور حاصل کرلیا تھا۔ جتنی اچھی یہ اردو شاعری کرتے تھے ،اتنی ہی خوبصورت شاعری یہ ہندی زبان میں بھی کرتے تھے۔
ندا فاضلی کی ابتدا بھی مقامی اخبارات اور مشہور ادبی رسائل میں لکھنے لکھانے سے ہوئی اور ادبی پرچوں میں ان کے کلام کی شہرت بڑھتی چلی گئی پھر یہ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے بھی لکھنے لگے اس دوران ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پرآچکے تھے جن میں 'مور ناچ ، 'لفظوں کا پل' اورآنکھ اور خواب کے درمیان' کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ ندا فاضلی نے ''دور درشن'' ٹیلی ویژن کے لیے بھی بہت کچھ لکھا کئی مشہور موسیقی کے پروگرام کیے ایک مشہور سیریز''سادھنا کے نام'' سے لاکھوں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ انھی دنوں ان کی شاعری کے چرچے بھی عام ہوتے گئے اور ہندوستان کے لیجنڈ سنگر جگجیت سنگھ اور ان کی بیگم چترا نے ان کی ایک خوبصورت غزل گائی تھی جس کا مطلع تھا:
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے توسونا ہے
جب یہ غزل منظر عام پر آئی تو سارے ہندوستان میں ندا فاضلی کی شاعری کے چرچے ہونے لگے اور یہ دھوم فلمی دنیا تک بھی پہنچ گئی تھی۔ ان دنوں کئی فلمسازوں نے ندا فاضلی سے رابطہ کیا ان میں ایک فلمسازوہدایت کار کمال امروہوی بھی تھے، ان دنوں کمال امروہوی جان نثار اختر کے انتقال کے بعد کسی اورمنفرد انداز کے شاعرکی تلاش میں تھے کیونکہ ان کی فلم ''رضیہ سلطان'' کے لیے جو گیت جاں نثار اختر لکھ گئے تھے وہ بے مثال تھے اور اب ان کی خواہش تھی کہ کوئی ایسا شاعر مذکورہ فلم کے لیے لیا جائے جوگیتوں کی صورت میں اپنی شاعری کا نچوڑ پیش کرے اور جب کمال امروہوی نے جگجیت سنگھ اورچترا کی آوازوں میں ندا فاضلی کی ایک خوبصورت غزل سنی تو وہ غزل ان کے دل میں اتر گئی۔
کمال امروہوی نے اس غزل کے بعد ندا فاضلی سے رابطہ کیا اور ندا فاضلی سے پہلی ملاقات میں یہ کہہ دیا کہ ان کی شاعری نے مجھے بڑا متاثرکیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ اب میری فلم ''رضیہ سلطان''کے گیت ندا فاضلی ہی لکھیں گے اور جاں نثار اختر نے جہاں سے فلم کو چھوڑا ہے وہاں سے ندا فاضلی نے اپنے کام کا آغاز کریں گے اور پھر موسیقارخیام کے ساتھ ندا فاضلی کی بیٹھکیں شروع ہوگئیں ۔کمال امروہوی نے ندا فاضلی کو گیت کی سچویشن سمجھاتے ہوئے کہا کہ اب موسیقار اور شاعر نے مل کر ایک ایسا گیت فلم کے لیے تیار کرنا ہے جو فلم کی شان بڑھادے۔ چند دنوں کی کاوشوں کے بعد جو گیت تیار کیا گیا۔ اس کے بول تھے:
آئی زنجیرکی جھنکار خدا خیرکرے
دل ہوا کس کا گرفتار خدا خیرکرے
جانے یہ کون میری روح کو چھوکرگزرا
اک قیامت ہوئی بیدار خدا خیرکرے
جب مکمل ریہرسل کے ساتھ یہ گیت کمال امروہوی نے سنا تو وہ جھوم اٹھے اورگیت اسی وقت فائنل ہوگیا۔ یہ گیت ایک نیم کلاسیکل سنگر کبان مرزا نے گایا اور فلم میں دھرمیندر پر فلمایا گیا تھا اسی فلم کے لیے لکھا گیا ندا فاضلی کا دوسرا گیت بھی بڑے غضب کا تھا۔ جس کے بول تھے:
ترا ہجر مرا نصیب ہے
ترا غم ہی مری حیات ہے
مجھے تیری دوری کا غم ہوکیوں
تو کہیں بھی ہو میرے ساتھ ہے
یہ گیت بھی کبان مرزا نے گایا تھا اور دھرمیندر پر پکچرائز کیا گیا تھا۔ فلم ''رضیہ سلطان'' اپنے دور کی ایک خوبصورت فلم تھی اور ہٹ بھی ہوئی تھی۔ اس فلم کے بعد بے شمار فلموں میں ندا فاضلی کے گیتوں نے شہرت حاصل کی جن میں فلم ''آہستہ آہستہ'' کی ایک غزل نے بہت سے شاعروں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا جس کا مطلع تھا:
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
یہ گیت گلوکارہ آشا نے گایا تھا اور اس کی موسیقی بھی خیام نے ہی مرتب کی تھی یہ فلم بھی اپنے گیتوں کی وجہ سے مشہور ہوئی تھی۔ ادب میں ڈوبی ہوئی اس خوبصورت غزل نے لاکھوں دل موہ لیے تھے۔ ندا فاضلی کی ایک فلم تھی ''آپ تو ایسے نہ تھے'' اس میں ان کا ایک اور گیت بڑا دلکش تھا جو پسندیدگی کی سند بنا جس کے بول تھے:
تو اس طرح سے مری زندگی میں شامل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
اس گیت کی موسیقی خاتون موسیقار اوشنا کھنہ نے دی تھی اور اس گیت کو منہر ادھاس نے گایا تھا، ندا فاضلی نے چیدہ چیدہ فلمیں لکھیں مگر گیت بہت ہی معیاری لکھے جن میں ادب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ندا فاضلی کی ایک خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ انھیں موسیقار بھی بڑے گُنی ملے جن میں موسیقار خیام اور آر۔ڈی۔برمن کی معاونت حاصل تھی ۔ان کی چند اردو فلمیں بھی تھیں جن میں وجے، ہرجائی اور فلک کے نام شامل ہیں۔ ندا فاضلی کی ایک شہرت یہ بھی ہے جس طرح فلموں میں لکھے گئے گیت مقبولیت کا حامل رہے اسی طرح ندا فاضلی کی کچھ غزلیں جو فلموں سے ہٹ کر غزل کے مشہور سنگروں نے گائیں انھیں بھی بڑی شہرت حاصل ہوئی ۔ جیسے کہ غلام علی کی گائی ہوئی غزل:
تنہا تنہا دکھ جھیلیں گے محفل محفل گائیں گے
پنکج ادھاس کی آواز میں یہ غزل:
دیوار ودر سے اتر کر
پرچھائیاں بولتی ہیں
اور پھرخاص طور پر لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر اورجگجیت سنگھ کی آواز میں یہ غزل جس کے بول ہیں:
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
اس مسحور کن غزل نے لاکھوں دلوں کو دیوانہ کردیا تھا۔ ندا فاضلی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی شاعری کے ترجمے جہاں ہندوستان کی تمام بڑی مقامی زبانوں میں ہوئے ہیں، وہاں ان کی شاعری کے ترجمے انگریزی، جرمن، فرنسیسی، عربی اور چینی زبان میں بھی ہوچکے ہیں اور اس طرح ندا فاضلی کی شاعری کے چرچے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔