اہل اللہ
یہ ان سارے اچھے کاموں کی جن کی شریعت میں تعریف کی گئی ہے تعمیل کرتے ہیں۔
شیخ محی الدین ابن عربیؒ نے اپنی کتاب ''فتوحاتِ مکیہ'' میں رجال اللہ یعنی مردانِ خدا کی مختلف خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ مردانِ خدا کی تین قسمیں ہیں۔ ان کے سوا کوئی چوتھی جماعت ان میں نہیں پائی جاتی۔
پہلا طبقہ مردانِ خدا کا عباد کہلاتا ہے۔ ان لوگوں پر زہد اور دنیاوی لذتوں سے علیحدگی کا جذبہ غالب ہوجاتا ہے، یہ ان سارے اچھے کاموں کی جن کی شریعت میں تعریف کی گئی ہے تعمیل کرتے ہیں، اسی طرح اپنے باطن کو بھی ان چیزوں سے پاک رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی شریعت میں مذمت کی گئی ہے۔
دوسرے طبقے کا درجہ پہلے طبقے سے بلند ہے، ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ کائنات کی ساری کارفرمائیوں میں وہ دیکھتے ہیں کہ سب کچھ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہورہا ہے، کسی فعل اور کام میں اپنی خودی کا کوئی احساس ان میں باقی نہیں رہتا، سب کچھ اللہ ہی کر رہا ہے، یہی جب اُن کی دریافت اور وجدان بن جاتا ہے تو اپنے آپ کو دکھانے اور نمایاں کرنے کے خیال کی کوئی گنجائش ہی ان کے کاروبارِ زندگی میں باقی نہیں رہتی۔
تیسرے طبقے کے مردانِ خدا یعنی صوفیاء کچھ سلبی اور منفی صفات ہیں اور کچھ اثباتی اور ایجابی صفات ہیں۔ان کی سلبی اور منفی صفات یہ ہیں:
(1) نمازوں میں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ پانچ وقت کے فرائض اور ان کی سنتیں جن کو یہ روایت کہتے ہیں، بس۔۔۔۔ ان سے زیادہ نمازوں میں ان کو مشغول نہیں پایا گیا ہے۔
(2) نمازوں ہی میں نہیں تمام دینی مطالبات میں بھی ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کے مقابلے میں کسی قسم کا امتیاز انھیں حاصل نہ ہو۔ ایک عام مسلمان جس طرح ان فرائض کو ادا کرتا ہے، اسی طرح یہ بھی ادا کرتے ہیں۔
(3) وہ عام لوگوں کی طرح بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں اور لوگوں سے بات چیت میں چاہتے ہیں کہ امتیاز کا رنگ پیدا نہ ہو۔
(4) کوشش کرتے ہیں کہ ہر دیکھنے والا انھیں اسی نظر سے دیکھے جیسے عام آدمی کو دیکھتے ہیں۔
(5) لباس میں اسی وضع قطع کو اختیار کرتے ہیں جس کا عام لوگوں میں رواج ہوتا ہے۔
(6) مسجد میں اپنی نماز کے لیے کسی خاص مقام کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ جہاں بھی جگہ مل جاتی ہے وہیں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جمعے میں خاص طور پر یہ کوشش کرتے ہیں کہ اُن کی کوئی خاص جگہ معین نہ ہو۔ یہ لوگ عوام میں اپنے آپ کو گم کیے رکھتے ہیں، اُن میں گھلے ملے رہتے ہیں۔
اس گروہ کی اثباتی اور ایجابی خصوصیات جن کا شیخ اکبرؒ نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں:۔
(1) دل میں اندر ہی اندر تنہا اللہ کے ساتھ اپنے آپ کو اس طرح باندھے رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا گویا ان کے اندر اور کچھ نہیں ہے۔
(2) اس معاملے میں پوری قوت کے ساتھ اپنے قدم کو جماتے ہیں، ایسا کامل استحکام ان کو حاصل ہوجاتا ہے کہ ان کو لاکھ ہلایا جائے، لیکن اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے۔
(3) اپنے مالک اور معبود کے ساتھ بندگی کے علاقے اور رشتے کو ہمیشہ تروتازہ رکھتے ہیں اور اس احساس سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہوتے۔
(4) اللہ کی پروردگاری اورآقائی کے دباؤ اور وزن سے ان کے قلوب ہمہ دم مغلوب رہتے ہیں، اللہ کے سامنے اپنی عاجزی، خاکسری اور محتاجی اور اپنے حقیر اور ناچیز ہونے کا احساس ان کو ہر وقت ہر حال میں رہتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی برتری اورفضیلت کے خطرے کی گنجائش کا دروازہ ہی اُن پر بند ہوجاتا ہے۔ بڑے بن کر رہنے کی ہوک اُن میں کبھی پیدا نہیں ہوتی۔
(5) مگر یہ ان ہمیشہ علل واسباب کو جن قوانین کا پابند بنا کر دنیا کو پیدا کیا گیا ہے اس نظام کے احترام میں بھی کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھتے اور جس کام کے لیے قدرت نے جو قانون مقرر کیا ہے اس کی طرف سے لاپرواہی اختیار نہیں کرتے۔ کھانے پینے، سونے جاگنے، گفتگو کرنے، الغرض ہر حرکت اور سکون میں ان کی نظر کے سامنے یہ مشاہدہ مسلسل قائم رہتا ہے کہ یہ سب جو کچھ بھی ہورہا ہے اللہ ہی کی طرف سے ہورہا ہے۔
وہی کھلاتا پِلاتا ہے، وہی جگاتا، وہی سُلاتا ہے، لیکن جس چیز کے لیے جو سبب مقرر کردیا گیا ہے، اس سبب کے اختیار کرنے میں کامل احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ اسباب کی حکمتوں کو وہ خوب پہچانتے ہیں۔وہ خوب جانتے ہیں کہ قدرت کی طرف سے جس چیز کا سبب جس چیز کو بنایا گیا ہے اس میں اللہ کی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔
شیخ اکبرؒ فرماتے ہیں کہ اہل اللہ میں سب سے اونچا طبقہ ان ہی کا ہے، یہی لوگ معیاری طریقے کے مساوات اور سردار ہیں، یہی حق سبحانہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب ہیں۔
امام غزالیؒ کا ارشاد ہے کہ اولیاء کی کرامات کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ اُن کی خواہش اور مرضی اللہ تعالیٰ پوری فرما دیتا ہے۔ بسا اوقات کسی وجہ سے اولیاء اللہ اپنے ربّ سے ایسی باتوں کا مطالبہ کرتے ہیں جن کا عام اسباب کے لحاظ سے وقوع پذیر ہونا بظاہر ناممکن معلوم ہوتا ہے، مگر ان کی دعاؤں کی وجہ سے یہی غیر معمولی باتیں ظہور پذیر ہوجاتی ہیں، کرامت اسی کو تو کہتے ہیں۔
رسول اللہؐ کی ایک مشہور حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بہ ظاہر بعض ناپرسانِ حال بندے ایسے ہیں کہ اللہ پر اگر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم پوری فرماتا ہے۔
پہلا طبقہ مردانِ خدا کا عباد کہلاتا ہے۔ ان لوگوں پر زہد اور دنیاوی لذتوں سے علیحدگی کا جذبہ غالب ہوجاتا ہے، یہ ان سارے اچھے کاموں کی جن کی شریعت میں تعریف کی گئی ہے تعمیل کرتے ہیں، اسی طرح اپنے باطن کو بھی ان چیزوں سے پاک رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی شریعت میں مذمت کی گئی ہے۔
دوسرے طبقے کا درجہ پہلے طبقے سے بلند ہے، ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ کائنات کی ساری کارفرمائیوں میں وہ دیکھتے ہیں کہ سب کچھ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہورہا ہے، کسی فعل اور کام میں اپنی خودی کا کوئی احساس ان میں باقی نہیں رہتا، سب کچھ اللہ ہی کر رہا ہے، یہی جب اُن کی دریافت اور وجدان بن جاتا ہے تو اپنے آپ کو دکھانے اور نمایاں کرنے کے خیال کی کوئی گنجائش ہی ان کے کاروبارِ زندگی میں باقی نہیں رہتی۔
تیسرے طبقے کے مردانِ خدا یعنی صوفیاء کچھ سلبی اور منفی صفات ہیں اور کچھ اثباتی اور ایجابی صفات ہیں۔ان کی سلبی اور منفی صفات یہ ہیں:
(1) نمازوں میں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ پانچ وقت کے فرائض اور ان کی سنتیں جن کو یہ روایت کہتے ہیں، بس۔۔۔۔ ان سے زیادہ نمازوں میں ان کو مشغول نہیں پایا گیا ہے۔
(2) نمازوں ہی میں نہیں تمام دینی مطالبات میں بھی ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کے مقابلے میں کسی قسم کا امتیاز انھیں حاصل نہ ہو۔ ایک عام مسلمان جس طرح ان فرائض کو ادا کرتا ہے، اسی طرح یہ بھی ادا کرتے ہیں۔
(3) وہ عام لوگوں کی طرح بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں اور لوگوں سے بات چیت میں چاہتے ہیں کہ امتیاز کا رنگ پیدا نہ ہو۔
(4) کوشش کرتے ہیں کہ ہر دیکھنے والا انھیں اسی نظر سے دیکھے جیسے عام آدمی کو دیکھتے ہیں۔
(5) لباس میں اسی وضع قطع کو اختیار کرتے ہیں جس کا عام لوگوں میں رواج ہوتا ہے۔
(6) مسجد میں اپنی نماز کے لیے کسی خاص مقام کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ جہاں بھی جگہ مل جاتی ہے وہیں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جمعے میں خاص طور پر یہ کوشش کرتے ہیں کہ اُن کی کوئی خاص جگہ معین نہ ہو۔ یہ لوگ عوام میں اپنے آپ کو گم کیے رکھتے ہیں، اُن میں گھلے ملے رہتے ہیں۔
اس گروہ کی اثباتی اور ایجابی خصوصیات جن کا شیخ اکبرؒ نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں:۔
(1) دل میں اندر ہی اندر تنہا اللہ کے ساتھ اپنے آپ کو اس طرح باندھے رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا گویا ان کے اندر اور کچھ نہیں ہے۔
(2) اس معاملے میں پوری قوت کے ساتھ اپنے قدم کو جماتے ہیں، ایسا کامل استحکام ان کو حاصل ہوجاتا ہے کہ ان کو لاکھ ہلایا جائے، لیکن اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے۔
(3) اپنے مالک اور معبود کے ساتھ بندگی کے علاقے اور رشتے کو ہمیشہ تروتازہ رکھتے ہیں اور اس احساس سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہوتے۔
(4) اللہ کی پروردگاری اورآقائی کے دباؤ اور وزن سے ان کے قلوب ہمہ دم مغلوب رہتے ہیں، اللہ کے سامنے اپنی عاجزی، خاکسری اور محتاجی اور اپنے حقیر اور ناچیز ہونے کا احساس ان کو ہر وقت ہر حال میں رہتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی برتری اورفضیلت کے خطرے کی گنجائش کا دروازہ ہی اُن پر بند ہوجاتا ہے۔ بڑے بن کر رہنے کی ہوک اُن میں کبھی پیدا نہیں ہوتی۔
(5) مگر یہ ان ہمیشہ علل واسباب کو جن قوانین کا پابند بنا کر دنیا کو پیدا کیا گیا ہے اس نظام کے احترام میں بھی کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھتے اور جس کام کے لیے قدرت نے جو قانون مقرر کیا ہے اس کی طرف سے لاپرواہی اختیار نہیں کرتے۔ کھانے پینے، سونے جاگنے، گفتگو کرنے، الغرض ہر حرکت اور سکون میں ان کی نظر کے سامنے یہ مشاہدہ مسلسل قائم رہتا ہے کہ یہ سب جو کچھ بھی ہورہا ہے اللہ ہی کی طرف سے ہورہا ہے۔
وہی کھلاتا پِلاتا ہے، وہی جگاتا، وہی سُلاتا ہے، لیکن جس چیز کے لیے جو سبب مقرر کردیا گیا ہے، اس سبب کے اختیار کرنے میں کامل احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ اسباب کی حکمتوں کو وہ خوب پہچانتے ہیں۔وہ خوب جانتے ہیں کہ قدرت کی طرف سے جس چیز کا سبب جس چیز کو بنایا گیا ہے اس میں اللہ کی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔
شیخ اکبرؒ فرماتے ہیں کہ اہل اللہ میں سب سے اونچا طبقہ ان ہی کا ہے، یہی لوگ معیاری طریقے کے مساوات اور سردار ہیں، یہی حق سبحانہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب ہیں۔
امام غزالیؒ کا ارشاد ہے کہ اولیاء کی کرامات کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ اُن کی خواہش اور مرضی اللہ تعالیٰ پوری فرما دیتا ہے۔ بسا اوقات کسی وجہ سے اولیاء اللہ اپنے ربّ سے ایسی باتوں کا مطالبہ کرتے ہیں جن کا عام اسباب کے لحاظ سے وقوع پذیر ہونا بظاہر ناممکن معلوم ہوتا ہے، مگر ان کی دعاؤں کی وجہ سے یہی غیر معمولی باتیں ظہور پذیر ہوجاتی ہیں، کرامت اسی کو تو کہتے ہیں۔
رسول اللہؐ کی ایک مشہور حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بہ ظاہر بعض ناپرسانِ حال بندے ایسے ہیں کہ اللہ پر اگر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم پوری فرماتا ہے۔