اسرائیلی جارحیت میں شدت
اسرائیلی فوج نے غزہ کے اطراف تمام مرکزی شاہراہیں بند کی ہوئی ہیں اور علاقے کو ملٹری زون قرار دیا گیا ہے۔
غزہ پر اسرائیل کی فضائیہ کے حملے ہفتے کو بھی جاری رہے ، ان حملوں میں مزید سترہ فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اسرائیل غزہ میں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ چڑھائی بھی کرسکتا ہے۔اسرائیلی حکومت نے ریزر فوج کو واپس بلا لیا ہے۔ تازہ اسرائیلی حملے میں فلسطینی حکومت کا ہیڈکوارٹرز بھی تباہ ہو گیا۔ یہ حملے جبالیہ اور مغازی میں مہاجر کیمپوں پر بھی گئے۔ اسرائیلی ٹی وی کے مطابق غزہ شہر پر رات بھر میں 180 حملے کیے گئے، صیہونی فوج نے فلسطینی وزیر اعظم کے دفتر، کابینہ کی عمارت، پولیس ہیڈ کوارٹرز اور مسجد الرحمٰن سمیت متعدد سرکاری اور سیکیورٹی اداروں کی عمارتوں کو نشانہ بنایا جب کہ ملحقہ گھر بھی ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
اسرائیلی فوج نے غزہ کے اطراف تمام مرکزی شاہراہیں بند کی ہوئی ہیں اور علاقے کو ملٹری زون قرار دیا گیا ہے۔ غزہ میں 830 اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ تازہ حملوں میں حماس کے زیرِ زمین اڈوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ ادھر امریکی صدر باراک اوباما نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کو فون کیا اور ایک بار پھر اسرائیل کے 'دفاع کا حق رکھنے' کی حمایت کی۔ اوباما نے ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان اور مصری صدر محمد مرسی کو بھی فون کیا اور ان پر زور دیا کہ حماس پر دبائو ڈالیں کہ وہ اسرائیل پر حملے بند کر دیں، دریں اثنا عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس قاہرہ میں ہوا جس میں اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انھیں فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا، اس اجلاس میں سب سے اہم بات قطر کے وزیراعظم نے کی۔انھوں نے عرب لیگ پر شدید تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مسئلہ فلسطین پر نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔
انھوں نے برملا کہا کہ عرب دنیا تقسیم ہو چکی ہے جب کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکا اور روس بھی کچھ نہیں کر رہے۔ عرب لیگ کے سربراہ نبیل الاعرابی نے کہا کہ تنظیم کو ماضی کے تمام اقدامات اور عرب دنیا کے موقف کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے حوالے سے انتہائی سطح پر سوچ رہے ہیں اور ان میں امریکا 'یورپی یونین اور روس کے خلاف بھی جذبات ابھر رہے ہیں۔اسرائیل کی حالیہ جارحانہ کارروائی کے خلاف ترکی اور مصر سخت موقف اختیار کر چکے ہیں۔دونوں ملکوں نے اسرائیل کو جارحیت کا ذمے دار قرار دیا ہے، ترک وزیراعظم طیب رجب اردگان نے قاہرہ میں صدر مرسی سے ملاقات بھی کی ہے۔
انھوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے خطاب میں یہاں تک کہا کہ جلد یا بدیر اسرائیل کو معصوم افراد کی ہلاکت کا جواب دینا پڑے گا۔ تیونس کے وزیر خارجہ رفیق عبدالسلام ہفتے کی صبح غزہ پہنچ گئے اور تباہ شدہ ہیڈ کوارٹرز کا معائنہ کیا اور مطالبہ کیا۔ غزہ کا محاصرہ فوری طور پر ختم کیا جائے۔ پاکستان نے بھی اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں پاکستان کے مستقل مندوب نے احتجاج کرتے ہوئے عالمی برادری سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ استنبول 'لندن اور تہران میں اسرائیل مخالف مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے غزہ میں کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں سے گریز کیا جائے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہوں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف نہ تو کسی مسلمان ملک نے جرات مندانہ کردار ادا کیا اور نہ ہی امریکا اور ویٹو پاور کی حامل دیگر طاقتوں نے اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل آئے روز نہ صرف فلسطینیوں بلکہ شامیوں اور لبنانیوں پر بھی بمباری کرتا رہا۔او آئی سی کا کردار بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس تنظیم نے برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کو روکا جائے اور مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
عجیب بات ہے کہ فلسطین اور برما دونوں جگہ مسلمانوں کو بلا تفریق ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر حکومت کرنے والے لیڈروں کو ابھی تک زبانی جمع خرچ سے زیادہ اور کچھ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ او آئی سی اور عرب لیگ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو حقائق کا علم نہیں ہے ۔ انھیں فلسطینیوں کی حالت زار کا بھی پتہ ہے 'وہ برما میں ہونے والے مظالم سے بھی آگاہ ہیں ۔کشمیر میں بھارت کے مظالم کو بھی سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر وہ کچھ نہیں کر رہے تو اس کی واحد وجہ تو یہی ہے کہ مسلم ممالک کے پاس نہ تو عسکری قوت ہے اور نہ ہی ان کی معیشتیں اس قابل ہیں کہ عالمی طاقتیں ان پر توجہ دیں۔
مسلم ممالک کی 90 فیصدتعداد پسماندگی اور غربت کا شکار ہے۔ ان ممالک کا حکمران طبقہ تو امیر ہے لیکن یہاں کا عام آدمی بری حالت میں ہے۔ افریقہ کے مسلم ممالک کو دیکھ لیں 'ایشیاء پر نظر ڈالیں صورت حال سب پر واضح ہے۔ چند ایک مسلمان ممالک ہی ایسے ہیں جنھیں کسی حد تک خوشحال قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ خوشحال ممالک بھی تیل کی مرہون منت ہیں۔فلسطینیوں کو اس وقت تک حقوق نہیں مل سکتے جب تک مسلم ممالک خود کو بہتر نہیں کرتے۔ انھیں کم از کم یک زبان ہو کر اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کا کیس لڑنا چاہیے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اسرائیل غزہ میں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ چڑھائی بھی کرسکتا ہے۔اسرائیلی حکومت نے ریزر فوج کو واپس بلا لیا ہے۔ تازہ اسرائیلی حملے میں فلسطینی حکومت کا ہیڈکوارٹرز بھی تباہ ہو گیا۔ یہ حملے جبالیہ اور مغازی میں مہاجر کیمپوں پر بھی گئے۔ اسرائیلی ٹی وی کے مطابق غزہ شہر پر رات بھر میں 180 حملے کیے گئے، صیہونی فوج نے فلسطینی وزیر اعظم کے دفتر، کابینہ کی عمارت، پولیس ہیڈ کوارٹرز اور مسجد الرحمٰن سمیت متعدد سرکاری اور سیکیورٹی اداروں کی عمارتوں کو نشانہ بنایا جب کہ ملحقہ گھر بھی ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
اسرائیلی فوج نے غزہ کے اطراف تمام مرکزی شاہراہیں بند کی ہوئی ہیں اور علاقے کو ملٹری زون قرار دیا گیا ہے۔ غزہ میں 830 اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ تازہ حملوں میں حماس کے زیرِ زمین اڈوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ ادھر امریکی صدر باراک اوباما نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کو فون کیا اور ایک بار پھر اسرائیل کے 'دفاع کا حق رکھنے' کی حمایت کی۔ اوباما نے ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان اور مصری صدر محمد مرسی کو بھی فون کیا اور ان پر زور دیا کہ حماس پر دبائو ڈالیں کہ وہ اسرائیل پر حملے بند کر دیں، دریں اثنا عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس قاہرہ میں ہوا جس میں اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انھیں فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا، اس اجلاس میں سب سے اہم بات قطر کے وزیراعظم نے کی۔انھوں نے عرب لیگ پر شدید تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مسئلہ فلسطین پر نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔
انھوں نے برملا کہا کہ عرب دنیا تقسیم ہو چکی ہے جب کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکا اور روس بھی کچھ نہیں کر رہے۔ عرب لیگ کے سربراہ نبیل الاعرابی نے کہا کہ تنظیم کو ماضی کے تمام اقدامات اور عرب دنیا کے موقف کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے حوالے سے انتہائی سطح پر سوچ رہے ہیں اور ان میں امریکا 'یورپی یونین اور روس کے خلاف بھی جذبات ابھر رہے ہیں۔اسرائیل کی حالیہ جارحانہ کارروائی کے خلاف ترکی اور مصر سخت موقف اختیار کر چکے ہیں۔دونوں ملکوں نے اسرائیل کو جارحیت کا ذمے دار قرار دیا ہے، ترک وزیراعظم طیب رجب اردگان نے قاہرہ میں صدر مرسی سے ملاقات بھی کی ہے۔
انھوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے خطاب میں یہاں تک کہا کہ جلد یا بدیر اسرائیل کو معصوم افراد کی ہلاکت کا جواب دینا پڑے گا۔ تیونس کے وزیر خارجہ رفیق عبدالسلام ہفتے کی صبح غزہ پہنچ گئے اور تباہ شدہ ہیڈ کوارٹرز کا معائنہ کیا اور مطالبہ کیا۔ غزہ کا محاصرہ فوری طور پر ختم کیا جائے۔ پاکستان نے بھی اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں پاکستان کے مستقل مندوب نے احتجاج کرتے ہوئے عالمی برادری سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ استنبول 'لندن اور تہران میں اسرائیل مخالف مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے غزہ میں کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں سے گریز کیا جائے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہوں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف نہ تو کسی مسلمان ملک نے جرات مندانہ کردار ادا کیا اور نہ ہی امریکا اور ویٹو پاور کی حامل دیگر طاقتوں نے اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل آئے روز نہ صرف فلسطینیوں بلکہ شامیوں اور لبنانیوں پر بھی بمباری کرتا رہا۔او آئی سی کا کردار بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس تنظیم نے برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کو روکا جائے اور مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
عجیب بات ہے کہ فلسطین اور برما دونوں جگہ مسلمانوں کو بلا تفریق ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر حکومت کرنے والے لیڈروں کو ابھی تک زبانی جمع خرچ سے زیادہ اور کچھ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ او آئی سی اور عرب لیگ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو حقائق کا علم نہیں ہے ۔ انھیں فلسطینیوں کی حالت زار کا بھی پتہ ہے 'وہ برما میں ہونے والے مظالم سے بھی آگاہ ہیں ۔کشمیر میں بھارت کے مظالم کو بھی سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر وہ کچھ نہیں کر رہے تو اس کی واحد وجہ تو یہی ہے کہ مسلم ممالک کے پاس نہ تو عسکری قوت ہے اور نہ ہی ان کی معیشتیں اس قابل ہیں کہ عالمی طاقتیں ان پر توجہ دیں۔
مسلم ممالک کی 90 فیصدتعداد پسماندگی اور غربت کا شکار ہے۔ ان ممالک کا حکمران طبقہ تو امیر ہے لیکن یہاں کا عام آدمی بری حالت میں ہے۔ افریقہ کے مسلم ممالک کو دیکھ لیں 'ایشیاء پر نظر ڈالیں صورت حال سب پر واضح ہے۔ چند ایک مسلمان ممالک ہی ایسے ہیں جنھیں کسی حد تک خوشحال قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ خوشحال ممالک بھی تیل کی مرہون منت ہیں۔فلسطینیوں کو اس وقت تک حقوق نہیں مل سکتے جب تک مسلم ممالک خود کو بہتر نہیں کرتے۔ انھیں کم از کم یک زبان ہو کر اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کا کیس لڑنا چاہیے۔