لاہور کی سڑکوں کے بیان میں
ترکی سے پاکستان کا جو معاہدہ ہوا ہے اس پر ایک کہانی لکھنے والا کیا تبصرہ کر سکتا ہے۔
ابھی پچھلے کسی کالم میں ہم نے جیل روڈ کا احوال قلمبند کیا تھا کہ طویلہ کی بلا بندر کے سر۔
تعمیر کا بکھیڑا چوک مزنگ چنگی میں پھیلا ہوا ہے۔ اس اکھاڑ پچھاڑ میں جو ملبہ منوں ٹنوں کے حساب سے ہے، اسے جیل روڈ پر پھینکا جا رہا ہے۔ اس چکر میں جیل روڈ کا وہ گوشہ جہاں ہمارا ڈیرا ہے تخصیص کے ساتھ نرغے میں ہے۔ اور کچھ اس طرح سے نرغے میں آیا ہے کہ آنے جانے کے راستے مسدود ہو گئے ہیں۔ اور لیجیے اس پر ہمیں ایک ظالم شعر یاد آ گیا؎
راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوںکے
ڈھیرلگ جائیں گے کوچوں میںگریبانوںکے
اس پر ہمارے ایک کرم فرما نے ہماری توجہ منٹو صاحب کے مضمون کی طرف دلائی جس میں انھوں نے لاہور کی سڑکوں کا احوال بیان کیا ہے اور خاص طور پر ان دو گڑھوں کا ذکر کیا ہے جو تار گھر کے اس طرف چوک میکلوڈ روڈ کی طرف جانے والی سڑک پر کھدے ہوئے ہیں۔
ہم نے جلدی جلدی منٹو صاحب کے اس مجموعہ مضامین کی ورق گردانی کی جو ''اوپر' نیچے اور درمیان'' کے عنوان سے شائع ہوا تھا اور اب ان کے کلیات میں شامل ہے۔ جس مضمون کا حوالہ دیا گیا اس کا عنوان ہے''دو گڑھے''
''امریکا سے جو فوجی امداد لینے کا معاہدہ ہو رہا ہے، اس کو ایک افسانہ نگار کیا سمجھے گا۔ ترکی سے پاکستان کا جو معاہدہ ہوا ہے اس پر ایک کہانی لکھنے والا کیا تبصرہ کر سکتا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ لیاقت علی خاں کے قتل کی تفتیش کیا کیا حشر ہوا۔ لیکن وہ یہ تو پوچھ سکتا ہے کہ دو گڑھے جو تار گھر کے اس طرف چوک میں میکلوڈ روڈ کی طرف جانے والی سڑک پر کھدے ہوئے تھے ان کا کیا مطلب تھا۔
یہ گڑھے شاید اب بند کر دیے گئے ہیں لیکن وہ ٹرک ابھی تک وہاں کھڑا ہے جو ان کا شکار ہوا تھا۔ معلوم نہیں یہ کب تک شکستہ حالت میں کھڑا رہے گا اور میری طرح سوال کرتا رہے گا کہ دو گڑھے جو اس شکست و ریخت کا باعث ہوئے ان کا مطلب کیا تھا۔''
یادش بخیر یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب شہروں میں ڈاک خانوں کے علاوہ تار گھر بھی ہوا کرتے تھے۔ اور لاہور میں تار گھر جہاں تھا اس جگہ کی نشان دہی منٹو نے اپنے مضمون میں کر دی ہے۔ سو ہمیں زیادہ تردد کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ تو یہ گڑھے خوفناک حد تک گہرے تھے کچھ منٹو صاحب کے زور قلم سے اور زیادہ گہرے کھدے نظر آ رہے ہیں، لکھتے ہیں۔
''یوں تو بہت سی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں لیکن یہ بات تو بہت ہی زیادہ سمجھ میں نہیں آتی کہ تار گھر کے اس طرف یہاں دو گڑھے کھودے گئے تھے یا خود بخود کھد گئے تھے۔ وہاں ایسا کوئی نشان کیوں نصب نہیں کر دیا گیا تھا جو لوگوں کو بتاتا کہ دیکھو اگر تمہیں زخمی ہونا یا مرنا بہت ضروری ہے تو بصد شوق آئو۔ جملہ سامان موجود ہے۔ لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو یہاں سے دور رہو۔ اگر خدا کو تمہاری موت منظور ہے تو وہ تمہیں سیدھی اور صاف سڑک پر بھی عزرائیل کے سپرد کردے گا۔''
یہ تار گھر ٹی ہائوس سے تھوڑے قدموں کے فاصلے پر تھا۔ منٹو صاحب نے بتایا کہ انھوں نے ٹی ہائوس سے نکل کر ایک تانگہ لیا اور اپنے گھر جانے کے لیے سیدھے مال پر جانے کی بجائے سوچا کہ میکلوڈ روڈ کی طرف سے چلو کہ رستے میں بچوں کے لیے تھوڑے پھل پھول خرید لیں۔ اس کی ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ؎
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
وہ تو یہ کہیے کہ منٹو صاحب کی ان گڑھوں پر نظر پڑ گئی۔ ان کے شور مچانے پر تانگہ بان نے گھوڑے کی باگیں کھینچیں اور تانگہ عین گڑھے کے کنارے پہنچ کر رک گیا ورنہ راوی نے تو منٹو صاحب کے نام کے آگے کلمۂ شہادت لکھ دیا تھا۔
یہ مضمون زندہ باد مردہ باد پر اس رنگ سے ختم ہوتا ہے:
''تار گھر کے اس طرف کے دو گڑھے زندہ باد، اور اس طرف کے وہ گھوڑے اور انسان مردہ باد جو ان میں گر کر مر نہ سکے۔''
یہ دو گڑہے بالآخر تار گھر ہی پر بھاری پڑے ؎
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا
منٹو صاحب نے تو بر وقت شور مچا کر خود کو بھی بچا لیا اور تانگہ والے کو بھی معہ تانگہ کے بچا لیا اور اس طرح بچایا کہ نہ گھوڑا زخمی ہوا نہ تانگہ کے انجر پنجر ڈھیلے ہوئے۔ وہ تو خیریت سے نکل آئے۔ بالآخر ان گڑھوں نے خود تار گھر ہی کو نگل لیا۔
اب نہ تار گھر ہے نہ تار دینے والے نظر آتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی کی بلی انھیں چاٹ گئی۔ انھیں کے ساتھ وہ دونوں گڑھے بھی غائب ہو گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ لاہور کی سڑکوں کی تقدیر پھر بھی نہیں بدلی۔ گڑھے تار گھر والی سڑک سے سڑک کر کسی اور سڑک پر چلے گئے۔ اور موٹروں اسکوٹروں کو خراب کرنے کے لیے تو سڑک کا تھوڑا سا ادھڑا ہونا ہی کافی ہے۔ اور جیل روڈ ہر چند کہ شہر کی نسبتاً بہتر سڑکوں میں گنی جا سکتی ہے لیکن ہمارے راستے میں چھوٹے موٹے گڑھے پھر بھی آتے ہیں کہ موٹر چلتے چلتے دھکا کھاتی ہے۔
ایسے گڑھے ان سڑکوں کے معمولات میں شامل ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ان سڑکوں پر ایک اور ''گل'' بھی تو کھلا ہے۔ اس کا نام اسٹریٹ بریکر ہے۔ اسے یوں سمجھیے کہ لاہور کی سڑکوں پر گومڑے پڑگئے ہیں۔ منٹو صاحب کے زمانے میں سڑکوں میں گڑھے تو نظر آتے تھے مگر ابھی یہ سڑکیں گومڑوں سے نا آشنا تھیں۔ یہ گومڑے بہت قیامت ہیں۔ شروع میں تو اس پر بنے ہوئے سفید نشانات دور سے خبردار کرتے نظر آتے تھے کہ خبردار یہاں اسٹریٹ بریکر ہے۔ موٹر کو آہستہ کرو اور احتیاط سے گزرو۔ چلیے یہاں تک تو غنیمت تھا۔ مگر رفتہ رفتہ یہ سفید نشانات غائب ہو گئے۔ ہم بیخبری میں اطمینان سے گزرے چلے جا رہے ہیں کہ اچانک موٹر رواں چلتے چلتے اچھل کر گدا کھاتی ہے۔ یا الٰہی خیر۔ یہ کیا ہوا۔ اتنی بے خبری۔ غافل تجھے علم نہیں کہ یہاں اسٹریٹ بریکر ہے۔
پھر یوں ہوا کہ گلیوں میں مالکان مکان نے اپنے طور پر شوقیہ الٹے سیدھے اسٹریٹ بریکر بنا ڈالے۔ انھوں نے سرے سے کسی قسم کا نشان بنانے یا اشارہ دینے کا اہتمام ہی نہیں کیا۔ یہ اسٹریٹ بریکر کارپوریشن کے قایم کردہ اسٹریٹ بریکروں کے مقابلہ میں بہت ظالم ہیں۔ ان سے گزرتے ہوئے بے دھیانی بہت مہنگی پڑتی ہے۔ گاڑی کے انجر پنجر ہل جاتے ہیں۔
سو اب صورت یہ ہے کہ لاہور کی جس سڑک سے بھی گزرو اندھے اسٹریٹ بریکر راہ میں آتے ہیں۔ اور ہمیں بے ساختہ وہ شعر یاد آتا ہے کہ؎
رہروِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں
تعمیر کا بکھیڑا چوک مزنگ چنگی میں پھیلا ہوا ہے۔ اس اکھاڑ پچھاڑ میں جو ملبہ منوں ٹنوں کے حساب سے ہے، اسے جیل روڈ پر پھینکا جا رہا ہے۔ اس چکر میں جیل روڈ کا وہ گوشہ جہاں ہمارا ڈیرا ہے تخصیص کے ساتھ نرغے میں ہے۔ اور کچھ اس طرح سے نرغے میں آیا ہے کہ آنے جانے کے راستے مسدود ہو گئے ہیں۔ اور لیجیے اس پر ہمیں ایک ظالم شعر یاد آ گیا؎
راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوںکے
ڈھیرلگ جائیں گے کوچوں میںگریبانوںکے
اس پر ہمارے ایک کرم فرما نے ہماری توجہ منٹو صاحب کے مضمون کی طرف دلائی جس میں انھوں نے لاہور کی سڑکوں کا احوال بیان کیا ہے اور خاص طور پر ان دو گڑھوں کا ذکر کیا ہے جو تار گھر کے اس طرف چوک میکلوڈ روڈ کی طرف جانے والی سڑک پر کھدے ہوئے ہیں۔
ہم نے جلدی جلدی منٹو صاحب کے اس مجموعہ مضامین کی ورق گردانی کی جو ''اوپر' نیچے اور درمیان'' کے عنوان سے شائع ہوا تھا اور اب ان کے کلیات میں شامل ہے۔ جس مضمون کا حوالہ دیا گیا اس کا عنوان ہے''دو گڑھے''
''امریکا سے جو فوجی امداد لینے کا معاہدہ ہو رہا ہے، اس کو ایک افسانہ نگار کیا سمجھے گا۔ ترکی سے پاکستان کا جو معاہدہ ہوا ہے اس پر ایک کہانی لکھنے والا کیا تبصرہ کر سکتا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ لیاقت علی خاں کے قتل کی تفتیش کیا کیا حشر ہوا۔ لیکن وہ یہ تو پوچھ سکتا ہے کہ دو گڑھے جو تار گھر کے اس طرف چوک میں میکلوڈ روڈ کی طرف جانے والی سڑک پر کھدے ہوئے تھے ان کا کیا مطلب تھا۔
یہ گڑھے شاید اب بند کر دیے گئے ہیں لیکن وہ ٹرک ابھی تک وہاں کھڑا ہے جو ان کا شکار ہوا تھا۔ معلوم نہیں یہ کب تک شکستہ حالت میں کھڑا رہے گا اور میری طرح سوال کرتا رہے گا کہ دو گڑھے جو اس شکست و ریخت کا باعث ہوئے ان کا مطلب کیا تھا۔''
یادش بخیر یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب شہروں میں ڈاک خانوں کے علاوہ تار گھر بھی ہوا کرتے تھے۔ اور لاہور میں تار گھر جہاں تھا اس جگہ کی نشان دہی منٹو نے اپنے مضمون میں کر دی ہے۔ سو ہمیں زیادہ تردد کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ تو یہ گڑھے خوفناک حد تک گہرے تھے کچھ منٹو صاحب کے زور قلم سے اور زیادہ گہرے کھدے نظر آ رہے ہیں، لکھتے ہیں۔
''یوں تو بہت سی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں لیکن یہ بات تو بہت ہی زیادہ سمجھ میں نہیں آتی کہ تار گھر کے اس طرف یہاں دو گڑھے کھودے گئے تھے یا خود بخود کھد گئے تھے۔ وہاں ایسا کوئی نشان کیوں نصب نہیں کر دیا گیا تھا جو لوگوں کو بتاتا کہ دیکھو اگر تمہیں زخمی ہونا یا مرنا بہت ضروری ہے تو بصد شوق آئو۔ جملہ سامان موجود ہے۔ لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو یہاں سے دور رہو۔ اگر خدا کو تمہاری موت منظور ہے تو وہ تمہیں سیدھی اور صاف سڑک پر بھی عزرائیل کے سپرد کردے گا۔''
یہ تار گھر ٹی ہائوس سے تھوڑے قدموں کے فاصلے پر تھا۔ منٹو صاحب نے بتایا کہ انھوں نے ٹی ہائوس سے نکل کر ایک تانگہ لیا اور اپنے گھر جانے کے لیے سیدھے مال پر جانے کی بجائے سوچا کہ میکلوڈ روڈ کی طرف سے چلو کہ رستے میں بچوں کے لیے تھوڑے پھل پھول خرید لیں۔ اس کی ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ؎
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
وہ تو یہ کہیے کہ منٹو صاحب کی ان گڑھوں پر نظر پڑ گئی۔ ان کے شور مچانے پر تانگہ بان نے گھوڑے کی باگیں کھینچیں اور تانگہ عین گڑھے کے کنارے پہنچ کر رک گیا ورنہ راوی نے تو منٹو صاحب کے نام کے آگے کلمۂ شہادت لکھ دیا تھا۔
یہ مضمون زندہ باد مردہ باد پر اس رنگ سے ختم ہوتا ہے:
''تار گھر کے اس طرف کے دو گڑھے زندہ باد، اور اس طرف کے وہ گھوڑے اور انسان مردہ باد جو ان میں گر کر مر نہ سکے۔''
یہ دو گڑہے بالآخر تار گھر ہی پر بھاری پڑے ؎
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا
منٹو صاحب نے تو بر وقت شور مچا کر خود کو بھی بچا لیا اور تانگہ والے کو بھی معہ تانگہ کے بچا لیا اور اس طرح بچایا کہ نہ گھوڑا زخمی ہوا نہ تانگہ کے انجر پنجر ڈھیلے ہوئے۔ وہ تو خیریت سے نکل آئے۔ بالآخر ان گڑھوں نے خود تار گھر ہی کو نگل لیا۔
اب نہ تار گھر ہے نہ تار دینے والے نظر آتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی کی بلی انھیں چاٹ گئی۔ انھیں کے ساتھ وہ دونوں گڑھے بھی غائب ہو گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ لاہور کی سڑکوں کی تقدیر پھر بھی نہیں بدلی۔ گڑھے تار گھر والی سڑک سے سڑک کر کسی اور سڑک پر چلے گئے۔ اور موٹروں اسکوٹروں کو خراب کرنے کے لیے تو سڑک کا تھوڑا سا ادھڑا ہونا ہی کافی ہے۔ اور جیل روڈ ہر چند کہ شہر کی نسبتاً بہتر سڑکوں میں گنی جا سکتی ہے لیکن ہمارے راستے میں چھوٹے موٹے گڑھے پھر بھی آتے ہیں کہ موٹر چلتے چلتے دھکا کھاتی ہے۔
ایسے گڑھے ان سڑکوں کے معمولات میں شامل ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ان سڑکوں پر ایک اور ''گل'' بھی تو کھلا ہے۔ اس کا نام اسٹریٹ بریکر ہے۔ اسے یوں سمجھیے کہ لاہور کی سڑکوں پر گومڑے پڑگئے ہیں۔ منٹو صاحب کے زمانے میں سڑکوں میں گڑھے تو نظر آتے تھے مگر ابھی یہ سڑکیں گومڑوں سے نا آشنا تھیں۔ یہ گومڑے بہت قیامت ہیں۔ شروع میں تو اس پر بنے ہوئے سفید نشانات دور سے خبردار کرتے نظر آتے تھے کہ خبردار یہاں اسٹریٹ بریکر ہے۔ موٹر کو آہستہ کرو اور احتیاط سے گزرو۔ چلیے یہاں تک تو غنیمت تھا۔ مگر رفتہ رفتہ یہ سفید نشانات غائب ہو گئے۔ ہم بیخبری میں اطمینان سے گزرے چلے جا رہے ہیں کہ اچانک موٹر رواں چلتے چلتے اچھل کر گدا کھاتی ہے۔ یا الٰہی خیر۔ یہ کیا ہوا۔ اتنی بے خبری۔ غافل تجھے علم نہیں کہ یہاں اسٹریٹ بریکر ہے۔
پھر یوں ہوا کہ گلیوں میں مالکان مکان نے اپنے طور پر شوقیہ الٹے سیدھے اسٹریٹ بریکر بنا ڈالے۔ انھوں نے سرے سے کسی قسم کا نشان بنانے یا اشارہ دینے کا اہتمام ہی نہیں کیا۔ یہ اسٹریٹ بریکر کارپوریشن کے قایم کردہ اسٹریٹ بریکروں کے مقابلہ میں بہت ظالم ہیں۔ ان سے گزرتے ہوئے بے دھیانی بہت مہنگی پڑتی ہے۔ گاڑی کے انجر پنجر ہل جاتے ہیں۔
سو اب صورت یہ ہے کہ لاہور کی جس سڑک سے بھی گزرو اندھے اسٹریٹ بریکر راہ میں آتے ہیں۔ اور ہمیں بے ساختہ وہ شعر یاد آتا ہے کہ؎
رہروِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں