اس پہلو پر بھی غور کیجیے
اسٹبلشمنٹ نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
کہانیوںپر مہر صداقت ثبت کردی،جو کبھی سیاسی وصحافتی حلقوں میںموضوع سخن ہواکرتی تھیں۔
اب تو ریٹائرڈ جرنیل اور ریٹائرڈ سینئر بیورو کریٹس بھی اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے ایک دوسرے کے انسٹی ٹیوشن پرمختلف الزامات عائد کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔اگر ایک طرف سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ سیاسی عمل میں مداخلت اور سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کا سارا ملبہ سابق صدرغلام اسحاق خان پر ڈال رہے ہیں، تووہیں دوسری طرف سابق صدر کے دست راست اور سابق سینئر بیوروکریٹ روئیدادخان اب کھل کر ان تمام بے قائدگیوں کا ذمے دارسابق جرنیلوں کوٹہرارہے ہیں۔لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی تسلیم کررہے ہیں کہ سابق صدر غلام اسحاق خان بھی اپنے پیشروئوں کی طرح بائیں اور بائیں جانب جھکائو رکھنے والی جماعتوں کو شدید ناپسند کرتے تھے ۔
جہاں تک مقتدرشخصیات کے اعترافات کا تعلق ہے،توان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظررکھنے والا ہر شخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ اس ملک میںریاستی منصوبہ سازی پر کنٹرول اور سیاسی عمل میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کوئی نیا مظہر نہیں ہے۔اس کے علاوہ مقتدر اشرافیہ(سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ)نے روزِ اول ہی سے لبرل جمہوری سیاست کا راستہ روکنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ ابتدائی دور میں سول بیوروکریسی سیاسی عمل کو کنٹرول کیاکرتی تھی۔ جس نے قائد اعظم کی 11اگست 1947 کو دستورساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کو سنسر کرکے اپنی سیاسی طاقت کا پہلامظاہرہ کیاتھا۔
دوسرااقدام 1949 میں قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بناکر پارلیمانی جمہوریت کے منطقی جواز کو متنازع بنانے کوشش کی گئی۔ 1951 میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک غلام محمد کی بحیثیت گورنر جنرل تقرری،کمیونسٹ پارٹی پر پابندی اور1955 میں ون یونٹ کا قیام اسی حکمت عملی کاتسلسل تھیں۔
1958 کے بعد اسٹیبلشمنٹ براہ راست ریاستی امور پر حاوی آگئی۔اس نے سیاسی اداروں پرمزید کاری ضرب لگائی ۔ ایک طرف اس نے سیاستدانوں کی کردار کشی کرکے مقبول سیاسی جماعتوں کاراستہ روکااورگماشتہ سیاستدانوں اوردانشوروں کی ایسی کھیپ تیارکی ،جو اسٹبلشمنٹ کے مفادات کی ترجمانی کرسکتی ہو۔ دوسری طرف عوام تک صحیح اطلاعات اورمعلومات کی رسائی کا راستہ روکنے کے لیے بعض مقبول اخبارات کو قومیاکرنجی شعبے کے دیگر اخبارات کو حکومتی پالیسیوںپرچلنے پرمجبورکیا گیا۔ اس سوچ اوراقدامات نے سیاسی عمل کے ارتقاء کی راہ میں روڑے اٹکاکر اسے شدید نقصان پہنچایا۔
اسٹیبلشمنٹ کوبھی یہ اندازہ تھا کہ ریاست کا مضبوط مذہبی تشخص جمہوری اقدارکو کمزور کرنے اور غیر جمہوری قوتوں کی اقتدارپر گرفت کو مضبوط کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔اس لیے اس نے سول بیوروکریسی سے بھی بدتراندازمیںلبرل سیاست کا قمع قلع کرنے اور مذہبی جماعتوں کوپروان چڑھانے کی کوشش کی۔جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
1970 میں اس وقت کے وزیراطلاعات نوابزادہ شیر علی خان مرحوم نے بائیں بازواورلبرل سیاست کا راستہ روکنے کے لیے نظر یہ پاکستان ایجاد کیا اور شوکت اسلام منانے کے لیے مذہبی جماعتوں کوقومی خزانے سے لاکھوں روپے مہیا کیے۔ سرکاری اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے ان جماعتوں کی تشہیر کی گئی۔صرف بائیں بازو ہی نہیں بائیں جانب جھکائو رکھنے والی جماعتوںکا میڈیا ٹرائیل کرکے ان کی مقبولیت کم کرنے کی بھونڈی کوششیں کی گئیں۔100علماء سے سوشلزم کے خلاف فتویٰ حاصل کرکے اسے ذرائع ابلاغ میںشائع کرایاگیا،تاکہ لوگ لبرل جماعتوں سے متنفرہوکر مذہبی جماعتوں کی طرف راغب ہوسکیں۔
بعض سرکاری دانشوروں نے جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت جیسی گمراہ کن اصطلاح متعارف کراکے فوجی انسٹی ٹیوشن کے ریاستی منصوبہ سازی پرمسلسل قابض رہنے کی راہ ہموار کی۔ مگران تمام اقدامات کے باوجود 1970 کے عام انتخابات میں اسٹبلشمنٹ کی زیر سرپرستی مذہبی جماعتیں درجن بھر نشستیں بھی حاصل نہیں کرسکیں۔جب کہ عوام نے عوامی لیگ،پیپلز پارٹی اورنیشنل عوامی پارٹی کو اپنی نمایندگی کا حق دے کر ثابت کیا کہ وہ لبرل جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے خواہش مند ہیں۔مگر اسٹبلشمنٹ نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے کی بجائے عوام کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ ہوا۔
لیکن اسٹبلشمنٹ نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا، بلکہ اس سانحے کے دو تین برس کے اندر ہی منتخب حکومت کو ختم کرنے کے لیے سازشیں شروع کردی گئیں۔پہلے بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کرکے دو صوبوں کی مقبول سیاسی جماعتوں کو اپنے مینڈیٹ کے مطابق اقتدارمیں رہنے کے حق سے بے دخل کردیا اور پھر وفاقی حکومت کو ختم کرنے کے لیے ایک بار پھر مذہبی جماعتوں کو مجتمع کرنا شروع کیا۔اس بات میںاب کسی شک و شبے کی گنجائش باقی نہیں ہے کہ 1976 میں PNA کا قیام ایجنسیوں کی انھی ریشہ دوانیوں کا حصہ تھا، جو اس نے قیام پاکستان کے بعد ہی مقبول سیاسی عمل کے خلاف شروع کی تھیں۔اس عمل پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے، جس کا اعتراف جسٹس(ر) کیکائوس 1978 میںسیارہ ڈائجسٹ کے ایک شمارے میںشائع ہونے اپنے ایک انٹرویومیں کرچکے ہیں۔
تاریخ کا پہیہ آگے بڑھتا ہے اور اسٹبلشمنٹ کی سفاکیوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آنے والے جنرل ضیاء الحق کا گیارہ سالہ دوراس لحاظ سے انتہائی بھیانک تھا،کیونکہ ان کے دور میں صرف سیاست ہی نہیںبلکہ سماجی Fibreکو بھی بری طرح نقصان پہنچایاگیا۔ سیاسی عمل کاراستہ روکنے کے لیے ہرممکن کوشش کی گئی۔ آئین کا حلیہ بگاڑاگیا۔ مذہبی جماعتوں کوپالیسی سازی پر اثر انداز ہونے کا موقع دیا گیا۔دینی مدارس میں عسکریت پسندی کو متعارف کرایا گیا۔
افغان جنگ میں غیر ضروری شرکت اوردنیابھر سے بلائے گئے مذہبی جنگجوئوںکوپرامن قبائلی علاقے میںآباد کرکے صرف پختونخواہ ہی نہیں پورے ملک میں مذہبی شدت پسندی کی راہ ہموار کی۔ان کے جانشینوں نے بھی انھی کاراستہ اختیارکرتے ہوئے مقبول سیاسی جماعتوں کے راستے میں روڑے اٹکانے کی کوششوں کا عمل جاری رکھا۔1988 میں اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام اور1990 میں پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں میں رقوم کی تقسیم اسی Mindsetکا حصہ تھا۔ یہ ہی نہیں بلکہ لبرل کہلانے والے جنرل پرویز مشرف بھی اپنے پیش روئوں سے مختلف نہیںتھے ۔
انھوں نے2002 کے انتخابات سے قبل امریکاکو ڈبل کراس کرنے کی خاطر خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے متحدہ مجلس عمل بنوائی اور دھاندلی سے اسے پختونخواہ میں کامیاب کرایا۔ جس کا الزام صرف سول سوسائٹی ہی نہیں لگاتی، بلکہ گزشتہ دنوں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں خود جنرل اسلم بیگ بھی لگاچکے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں اسٹبلشمنٹ نے دائیں بازو کی جماعتوںکی تنظیم کاری،اتحاداورانھیںعوام میں مقبول بنانے کے لیے قومی خزانے سے اربوں روپے ناجائز طورپر خرچ کیے۔ مگرتمامتر ریاستی سرپرستی کے باوجود دائیں بازوکی جماعتیں عوامی قبولیت اورکسی بھی آزادانہ انتخاب میں5فیصد نشستیں بھی حاصل نہیںکرپائیں۔لیکن طاقتور اسٹبلشمنٹ نے ہربار مقبول سیاسی جماعتوں کا راستہ روکنے کے لیے انھی جماعتوں کواستعمال کیا اوران کی سیاسی طاقت بڑھانے کے لیے ان پر قومی خزانہ لٹایا۔
وقت وحالات نے ثابت کیا ہے کہ آج ملک مذہبی شدت پسندی،متشدد فرقہ واریت اور لسانی تقسیم کی جس عفریت کا شکار ہے،اس کا سبب آزادانہ سیاسی عمل کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنا اور مذہبی شدت پسند عناصر کی غیر ذمے دارانہ سرپرستی ہے، جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف سیاسی عمل کو متاثر کررہے ہیں، بلکہ ریاستی پالیسی پر بھی اثر اندازہوکرترقی کا راستہ روک رہے ہیں۔یہ ایک خطرناک رجحان ہے،جو عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص اور ملک کی قومی سلامتی کے لیے تباہ کن ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستانی عوام انتہائی دائیں یا انتہائی بائیں بازو کی بجائے لبرل جمہوری سیاسی جماعتوںکو اپنا مینڈیٹ دیتے ہیں۔جمہوریت اور جمہوری عمل کے فروغ کے لیے یہ ایک صحت مند رجحان ہے۔وقت اورحالات نے یہ بھی طے کردیا ہے کہ کسی ریاستی ادارے کی ماہرانہ رائے نہیں، بلکہ عوام کی اجتماعی دانش ملک کے روشن اورپائیدار مستقبل کی ضامن ہواکرتی ہے۔ اس لیے اسٹبلشمنٹ کا کسی جماعت کوسیکیورٹی رسک قرار دے کر سیاسی عمل سے باہر کرنا غیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدام ہے،جو کسی طوربھی قابل قبول نہیںہوسکتا۔لہٰذااس حقیقت کو تسلیم کیے بغیرآگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔
اب تو ریٹائرڈ جرنیل اور ریٹائرڈ سینئر بیورو کریٹس بھی اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے ایک دوسرے کے انسٹی ٹیوشن پرمختلف الزامات عائد کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔اگر ایک طرف سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ سیاسی عمل میں مداخلت اور سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کا سارا ملبہ سابق صدرغلام اسحاق خان پر ڈال رہے ہیں، تووہیں دوسری طرف سابق صدر کے دست راست اور سابق سینئر بیوروکریٹ روئیدادخان اب کھل کر ان تمام بے قائدگیوں کا ذمے دارسابق جرنیلوں کوٹہرارہے ہیں۔لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی تسلیم کررہے ہیں کہ سابق صدر غلام اسحاق خان بھی اپنے پیشروئوں کی طرح بائیں اور بائیں جانب جھکائو رکھنے والی جماعتوں کو شدید ناپسند کرتے تھے ۔
جہاں تک مقتدرشخصیات کے اعترافات کا تعلق ہے،توان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظررکھنے والا ہر شخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ اس ملک میںریاستی منصوبہ سازی پر کنٹرول اور سیاسی عمل میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کوئی نیا مظہر نہیں ہے۔اس کے علاوہ مقتدر اشرافیہ(سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ)نے روزِ اول ہی سے لبرل جمہوری سیاست کا راستہ روکنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ ابتدائی دور میں سول بیوروکریسی سیاسی عمل کو کنٹرول کیاکرتی تھی۔ جس نے قائد اعظم کی 11اگست 1947 کو دستورساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کو سنسر کرکے اپنی سیاسی طاقت کا پہلامظاہرہ کیاتھا۔
دوسرااقدام 1949 میں قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بناکر پارلیمانی جمہوریت کے منطقی جواز کو متنازع بنانے کوشش کی گئی۔ 1951 میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک غلام محمد کی بحیثیت گورنر جنرل تقرری،کمیونسٹ پارٹی پر پابندی اور1955 میں ون یونٹ کا قیام اسی حکمت عملی کاتسلسل تھیں۔
1958 کے بعد اسٹیبلشمنٹ براہ راست ریاستی امور پر حاوی آگئی۔اس نے سیاسی اداروں پرمزید کاری ضرب لگائی ۔ ایک طرف اس نے سیاستدانوں کی کردار کشی کرکے مقبول سیاسی جماعتوں کاراستہ روکااورگماشتہ سیاستدانوں اوردانشوروں کی ایسی کھیپ تیارکی ،جو اسٹبلشمنٹ کے مفادات کی ترجمانی کرسکتی ہو۔ دوسری طرف عوام تک صحیح اطلاعات اورمعلومات کی رسائی کا راستہ روکنے کے لیے بعض مقبول اخبارات کو قومیاکرنجی شعبے کے دیگر اخبارات کو حکومتی پالیسیوںپرچلنے پرمجبورکیا گیا۔ اس سوچ اوراقدامات نے سیاسی عمل کے ارتقاء کی راہ میں روڑے اٹکاکر اسے شدید نقصان پہنچایا۔
اسٹیبلشمنٹ کوبھی یہ اندازہ تھا کہ ریاست کا مضبوط مذہبی تشخص جمہوری اقدارکو کمزور کرنے اور غیر جمہوری قوتوں کی اقتدارپر گرفت کو مضبوط کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔اس لیے اس نے سول بیوروکریسی سے بھی بدتراندازمیںلبرل سیاست کا قمع قلع کرنے اور مذہبی جماعتوں کوپروان چڑھانے کی کوشش کی۔جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
1970 میں اس وقت کے وزیراطلاعات نوابزادہ شیر علی خان مرحوم نے بائیں بازواورلبرل سیاست کا راستہ روکنے کے لیے نظر یہ پاکستان ایجاد کیا اور شوکت اسلام منانے کے لیے مذہبی جماعتوں کوقومی خزانے سے لاکھوں روپے مہیا کیے۔ سرکاری اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے ان جماعتوں کی تشہیر کی گئی۔صرف بائیں بازو ہی نہیں بائیں جانب جھکائو رکھنے والی جماعتوںکا میڈیا ٹرائیل کرکے ان کی مقبولیت کم کرنے کی بھونڈی کوششیں کی گئیں۔100علماء سے سوشلزم کے خلاف فتویٰ حاصل کرکے اسے ذرائع ابلاغ میںشائع کرایاگیا،تاکہ لوگ لبرل جماعتوں سے متنفرہوکر مذہبی جماعتوں کی طرف راغب ہوسکیں۔
بعض سرکاری دانشوروں نے جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت جیسی گمراہ کن اصطلاح متعارف کراکے فوجی انسٹی ٹیوشن کے ریاستی منصوبہ سازی پرمسلسل قابض رہنے کی راہ ہموار کی۔ مگران تمام اقدامات کے باوجود 1970 کے عام انتخابات میں اسٹبلشمنٹ کی زیر سرپرستی مذہبی جماعتیں درجن بھر نشستیں بھی حاصل نہیں کرسکیں۔جب کہ عوام نے عوامی لیگ،پیپلز پارٹی اورنیشنل عوامی پارٹی کو اپنی نمایندگی کا حق دے کر ثابت کیا کہ وہ لبرل جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے خواہش مند ہیں۔مگر اسٹبلشمنٹ نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے کی بجائے عوام کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ ہوا۔
لیکن اسٹبلشمنٹ نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا، بلکہ اس سانحے کے دو تین برس کے اندر ہی منتخب حکومت کو ختم کرنے کے لیے سازشیں شروع کردی گئیں۔پہلے بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کرکے دو صوبوں کی مقبول سیاسی جماعتوں کو اپنے مینڈیٹ کے مطابق اقتدارمیں رہنے کے حق سے بے دخل کردیا اور پھر وفاقی حکومت کو ختم کرنے کے لیے ایک بار پھر مذہبی جماعتوں کو مجتمع کرنا شروع کیا۔اس بات میںاب کسی شک و شبے کی گنجائش باقی نہیں ہے کہ 1976 میں PNA کا قیام ایجنسیوں کی انھی ریشہ دوانیوں کا حصہ تھا، جو اس نے قیام پاکستان کے بعد ہی مقبول سیاسی عمل کے خلاف شروع کی تھیں۔اس عمل پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے، جس کا اعتراف جسٹس(ر) کیکائوس 1978 میںسیارہ ڈائجسٹ کے ایک شمارے میںشائع ہونے اپنے ایک انٹرویومیں کرچکے ہیں۔
تاریخ کا پہیہ آگے بڑھتا ہے اور اسٹبلشمنٹ کی سفاکیوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آنے والے جنرل ضیاء الحق کا گیارہ سالہ دوراس لحاظ سے انتہائی بھیانک تھا،کیونکہ ان کے دور میں صرف سیاست ہی نہیںبلکہ سماجی Fibreکو بھی بری طرح نقصان پہنچایاگیا۔ سیاسی عمل کاراستہ روکنے کے لیے ہرممکن کوشش کی گئی۔ آئین کا حلیہ بگاڑاگیا۔ مذہبی جماعتوں کوپالیسی سازی پر اثر انداز ہونے کا موقع دیا گیا۔دینی مدارس میں عسکریت پسندی کو متعارف کرایا گیا۔
افغان جنگ میں غیر ضروری شرکت اوردنیابھر سے بلائے گئے مذہبی جنگجوئوںکوپرامن قبائلی علاقے میںآباد کرکے صرف پختونخواہ ہی نہیں پورے ملک میں مذہبی شدت پسندی کی راہ ہموار کی۔ان کے جانشینوں نے بھی انھی کاراستہ اختیارکرتے ہوئے مقبول سیاسی جماعتوں کے راستے میں روڑے اٹکانے کی کوششوں کا عمل جاری رکھا۔1988 میں اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام اور1990 میں پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں میں رقوم کی تقسیم اسی Mindsetکا حصہ تھا۔ یہ ہی نہیں بلکہ لبرل کہلانے والے جنرل پرویز مشرف بھی اپنے پیش روئوں سے مختلف نہیںتھے ۔
انھوں نے2002 کے انتخابات سے قبل امریکاکو ڈبل کراس کرنے کی خاطر خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے متحدہ مجلس عمل بنوائی اور دھاندلی سے اسے پختونخواہ میں کامیاب کرایا۔ جس کا الزام صرف سول سوسائٹی ہی نہیں لگاتی، بلکہ گزشتہ دنوں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں خود جنرل اسلم بیگ بھی لگاچکے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں اسٹبلشمنٹ نے دائیں بازو کی جماعتوںکی تنظیم کاری،اتحاداورانھیںعوام میں مقبول بنانے کے لیے قومی خزانے سے اربوں روپے ناجائز طورپر خرچ کیے۔ مگرتمامتر ریاستی سرپرستی کے باوجود دائیں بازوکی جماعتیں عوامی قبولیت اورکسی بھی آزادانہ انتخاب میں5فیصد نشستیں بھی حاصل نہیںکرپائیں۔لیکن طاقتور اسٹبلشمنٹ نے ہربار مقبول سیاسی جماعتوں کا راستہ روکنے کے لیے انھی جماعتوں کواستعمال کیا اوران کی سیاسی طاقت بڑھانے کے لیے ان پر قومی خزانہ لٹایا۔
وقت وحالات نے ثابت کیا ہے کہ آج ملک مذہبی شدت پسندی،متشدد فرقہ واریت اور لسانی تقسیم کی جس عفریت کا شکار ہے،اس کا سبب آزادانہ سیاسی عمل کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنا اور مذہبی شدت پسند عناصر کی غیر ذمے دارانہ سرپرستی ہے، جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف سیاسی عمل کو متاثر کررہے ہیں، بلکہ ریاستی پالیسی پر بھی اثر اندازہوکرترقی کا راستہ روک رہے ہیں۔یہ ایک خطرناک رجحان ہے،جو عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص اور ملک کی قومی سلامتی کے لیے تباہ کن ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستانی عوام انتہائی دائیں یا انتہائی بائیں بازو کی بجائے لبرل جمہوری سیاسی جماعتوںکو اپنا مینڈیٹ دیتے ہیں۔جمہوریت اور جمہوری عمل کے فروغ کے لیے یہ ایک صحت مند رجحان ہے۔وقت اورحالات نے یہ بھی طے کردیا ہے کہ کسی ریاستی ادارے کی ماہرانہ رائے نہیں، بلکہ عوام کی اجتماعی دانش ملک کے روشن اورپائیدار مستقبل کی ضامن ہواکرتی ہے۔ اس لیے اسٹبلشمنٹ کا کسی جماعت کوسیکیورٹی رسک قرار دے کر سیاسی عمل سے باہر کرنا غیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدام ہے،جو کسی طوربھی قابل قبول نہیںہوسکتا۔لہٰذااس حقیقت کو تسلیم کیے بغیرآگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔