کام اصلی نام فرضی
ملازمت کے ابتدائی چند سالوں ہی میں اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ جس محکمے میں کام کر رہا ہے
MADRID:
ملازمت کے ابتدائی چند سالوں ہی میں اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ جس محکمے میں کام کر رہا ہے دولت کی دیوی نے اس کا انتخاب کسی مصلحت کے تحت ہی کر کے اسے وہاں بھیجا ہے کیونکہ وہ جس چیز کو بھی ہاتھ لگاتا تو وہ سونا بن جاتی اور پھر مقام حیرت کہ وہ کسی کو جوابدہ بھی نہ ہوتا۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ اس کا باس جو ایک اعلیٰ شخصیت کی نمایندگی کرتا تھا لامحدود دولت کی کمائی میں اس کے ساتھ برابر کا حصے دار تھا لیکن اس سے کبھی بھی حساب طلبی نہ کرتا تھا وہ ایک ایسے پراجیکٹ کا نگران تھا جس کی فنڈنگ کہیں باہر سے ہوتی تھی اور خفیہ رکھی جاتی تھی اس کا دفتر چونکہ پبلک آفس نہیں تھا اس لیے کسی اور محکمے سے اس کا تعلق بھی نہیں تھا۔
یوں سمجھئے یہ ملک کے اندر ایسا جزیرہ تھا جو صرف اعلیٰ ترین شخصیت کی ہدایات پر کام کرتا تھا اور ملک کے کسی بھی قسم کے آڈٹ سے ماورا تھا کبھی کبھار ایک شخص بیرون ملک سے آ کر چند روز رپورٹ لیتا اور چلا جاتا۔ بظاہر یہ سب کچھ کوئی طلسم لگتا لیکن واقعی ایسا ہی تھا۔ ہمارے اس نگران مقامی دوست کو بھی اس پراجیکٹ کی پوری حقیقت معلوم نہ تھی اور اسے اپنی معلومات کو محدود رکھنے کی ہدایت تھی صرف وہ جو کبھی کبھار باہر سے آتا تھا باخبر شخصیت تھا اس لیے آپ بھی تجسس نہ کیجیے۔ چلیں اپنے واقف ملازم دوست کا نام بتا دوں وہ XYZ کہلاتا تھا۔
مسٹر XYZ کو یہ ملازمت ملی ہی اس شرط پر تھی کہ وہ گویا کچھ نہیں جانتا کہ اس کے کام کی نوعیت کیا ہے وہ مقامی دفتر کا انچارج ضرور تھا لیکن اس کو صرف ان فائلوں پر منظوری دینا ہوتی جن میں درج منصوبوں کی تکمیل کی تفصیل ہوتی یہ منصوبے کیا اور کہاں تھے موصوف کو ان کے بارے میں کچھ معلوم کرنے کا اختیار تک نہ تھا۔ اسے ان کروڑوں کے اخراجات کے ہندسوں والے منصوبوں کی منظوری پر دستخط کرتے ہوئے ایک نظر دیکھنے تک کا وقت نہ ملتا۔ تفصیل میں جانا اس کا کام نہ تھا۔
مہینے کے اختتام پر ایک شخص اس کی تنخواہ کیش کی صورت بریف کیس میں اس کے گھر دینے آتا یہ رقم اتنی بھاری بھرکم ہوتی کہ وہ اس کو سنبھالنے ہی میں مشکل کا شکار رہتا۔ اسے بینک اکاؤنٹ کھولنے کی ممانعت تھی اس لیے مسٹر XYZ کے گھر کی تمام الماریاں مقفل رہتں، تکیے بھرے ہوتے، قالین ابھرے ملتے، بالٹیاں دیگچیاں اور بوریاں اسٹور روم میں بند پڑی ہوتیں اور گھریلو ملازم کی پہنچ صرف کچن اور بیرونی ڈرائنگ روم تک تھی۔ جس دوست نے اسے یہ ملازمت دلوائی تھی اسے تک اس ملازمت کے بارے زیادہ علم نہ تھا۔
البتہ یہ بات مسٹر XYZ کو معلوم تھی کہ اس کے دوست کی رسائی بہت اوپر تک تھی اور جس پراجیکٹ پر وہ متمکن تھا وہ ایک محدود سیکرٹ تھا اس کے اسی مہربان دوست نے اسے ایک روز مشورہ دیا کہ وہ اپنے کم حیثیت اور غریب رشتہ داروں اور دوستوں کی فہرست بنا لے اور پھر ان میں سے ہر ایک کے ساتھ انھیں الگ الگ کھانے پر کسی ریستوران میں بلا کر بے تکلفی کا رشتہ استوار کرے۔ جب اس نے وجہ اور ضرورت معلوم کرنا چاہی تو اس کے مہربان نے بتایا کہ وہ مسٹر XYZ کی پریشانی اور تجسس کو پھانپ گیا ہے کہ وہ گھر کے اندر اتنی زیادہ اور بڑھتی چلی جا رہی دولت کو کس طرح محفوظ کرے۔
مہربان نے تجویز دی کہ مسٹر XYZ اپنی کیش رقوم کو آہستہ آہستہ پراپرٹی میں انویسٹ کرنا شروع کر دے اور ہر دوسرے رشتہ دار سے مخفی رکھ کر زیادہ قابل اعتماد اور کم حیثیت رشتہ دار کے نام پر بیعنامی پراپرٹی خریدے لیکن اس رشتہ دار کی مدد کرتے ہوئے پراپرٹی کے کاغذات اپنی تحویل میں جمع کرتا جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بیعنامی رجسٹریوں کی تعداد بڑھتی گئی اور رشتہ داروں کی مالی مدد بھی ہوتی رہی۔ رشتہ دار اور دوست مطمئن تھے کہ پراپرٹی کے کاغذات ان کے نام پر ہیں مسٹر XYZ اپنی جگہ پُر اعتماد کہ دستاویزات اس کی الماری میں محفوظ ہیں۔ وقت کے ساتھ دستاویزی دولت بڑھتی رہی لیکن جس پراجیکٹ کی تکمیل مسٹر XYZ کے دستخطوں سے ہو رہی تھی موصوف اس کے وجود اور مقام سے روز اول کی طرح لاعلم تھا اور پھر ایک مدت گزرنے کے بعد اس فرضی یا ہوائی پراجیکٹ کا پردہ فاش ہو گیا۔
حکومت کی تبدیلی گویا مسٹر XYZ پر خودکش بم کی طرح پھٹی۔ پندرہ سال کی ملازمت تو ''گیسی بیلون'' کی طرح تحلیل ہوئی لیکن اب مسٹر XYZ کو اصل فکر بیعنامی رجسٹریوں کو محفوظ کرنے کی تھی۔ پراجیکٹ کی فرضی دستاویزات اس کے باس یعنی مہربان دوست نے تلف کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی لیکن پندرہ سال کی جمع پونجی دوستوں اور غریب رشتہ داروں کے نام پر تھی اور وہی اس کے قانونی مالک تھے۔
کافی سوچ بچار کے بعد مسٹر XYZ نے اپنے تمام دوستوں اور رشتہ داروں کو کھانے کی میز پر بات چلانے کے لیے اکٹھا کیا سب کے دلوں میں چور تو تھا ہی مسٹر XYZ نے ہر مہمان کے سامنے اس سے متعلقہ رجسٹری کی فوٹو کاپی رکھ کر بات شروع کی تو اس پر انکشاف ہوا کہ وہ سب آپس میں مل بیٹھ چکے ہیں اور موصوف کا Weak Point سامنے رکھ کر سودے بازی کرنے پر تیار ہیں۔ انھوں نے دوستی اور رشتہ داری ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ففٹی ففٹی تقسیم کرنے کی آفر دی تو مسٹر XYZ ذرا طیش میں آ گیا جس پر طے شدہ پروگرام کے تحت سب رجسٹری ہولڈرز واک آؤٹ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسٹر XYZ کو تنازعے کا نتیجہ معلوم تھا کیونکہ وہ کوئی منجھا ہوا سیاستدان تو تھا نہیں اس لیے وہ ففٹی ففٹی پر رضا مند ہو گیا۔
مجھے ایک راز دان نے بتایا ہے کہ ہمارے ملک میں بڑے بڑے نامی گرامی امراء موجود ہیں جن کی کثیر دولت ان کے کارندوں کے نام ہونے کے باوجود کبھی ففٹی ففٹی جیسے خطرے کی زد میں نہیں آ سکتی۔ مسٹر XYZ کا پہلا تجربہ تھا جب اسے مزید مواقع ملے تو وہ بھی اناڑی نہیں رہے گا کھلاڑی بن جائے گا۔
ملازمت کے ابتدائی چند سالوں ہی میں اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ جس محکمے میں کام کر رہا ہے دولت کی دیوی نے اس کا انتخاب کسی مصلحت کے تحت ہی کر کے اسے وہاں بھیجا ہے کیونکہ وہ جس چیز کو بھی ہاتھ لگاتا تو وہ سونا بن جاتی اور پھر مقام حیرت کہ وہ کسی کو جوابدہ بھی نہ ہوتا۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ اس کا باس جو ایک اعلیٰ شخصیت کی نمایندگی کرتا تھا لامحدود دولت کی کمائی میں اس کے ساتھ برابر کا حصے دار تھا لیکن اس سے کبھی بھی حساب طلبی نہ کرتا تھا وہ ایک ایسے پراجیکٹ کا نگران تھا جس کی فنڈنگ کہیں باہر سے ہوتی تھی اور خفیہ رکھی جاتی تھی اس کا دفتر چونکہ پبلک آفس نہیں تھا اس لیے کسی اور محکمے سے اس کا تعلق بھی نہیں تھا۔
یوں سمجھئے یہ ملک کے اندر ایسا جزیرہ تھا جو صرف اعلیٰ ترین شخصیت کی ہدایات پر کام کرتا تھا اور ملک کے کسی بھی قسم کے آڈٹ سے ماورا تھا کبھی کبھار ایک شخص بیرون ملک سے آ کر چند روز رپورٹ لیتا اور چلا جاتا۔ بظاہر یہ سب کچھ کوئی طلسم لگتا لیکن واقعی ایسا ہی تھا۔ ہمارے اس نگران مقامی دوست کو بھی اس پراجیکٹ کی پوری حقیقت معلوم نہ تھی اور اسے اپنی معلومات کو محدود رکھنے کی ہدایت تھی صرف وہ جو کبھی کبھار باہر سے آتا تھا باخبر شخصیت تھا اس لیے آپ بھی تجسس نہ کیجیے۔ چلیں اپنے واقف ملازم دوست کا نام بتا دوں وہ XYZ کہلاتا تھا۔
مسٹر XYZ کو یہ ملازمت ملی ہی اس شرط پر تھی کہ وہ گویا کچھ نہیں جانتا کہ اس کے کام کی نوعیت کیا ہے وہ مقامی دفتر کا انچارج ضرور تھا لیکن اس کو صرف ان فائلوں پر منظوری دینا ہوتی جن میں درج منصوبوں کی تکمیل کی تفصیل ہوتی یہ منصوبے کیا اور کہاں تھے موصوف کو ان کے بارے میں کچھ معلوم کرنے کا اختیار تک نہ تھا۔ اسے ان کروڑوں کے اخراجات کے ہندسوں والے منصوبوں کی منظوری پر دستخط کرتے ہوئے ایک نظر دیکھنے تک کا وقت نہ ملتا۔ تفصیل میں جانا اس کا کام نہ تھا۔
مہینے کے اختتام پر ایک شخص اس کی تنخواہ کیش کی صورت بریف کیس میں اس کے گھر دینے آتا یہ رقم اتنی بھاری بھرکم ہوتی کہ وہ اس کو سنبھالنے ہی میں مشکل کا شکار رہتا۔ اسے بینک اکاؤنٹ کھولنے کی ممانعت تھی اس لیے مسٹر XYZ کے گھر کی تمام الماریاں مقفل رہتں، تکیے بھرے ہوتے، قالین ابھرے ملتے، بالٹیاں دیگچیاں اور بوریاں اسٹور روم میں بند پڑی ہوتیں اور گھریلو ملازم کی پہنچ صرف کچن اور بیرونی ڈرائنگ روم تک تھی۔ جس دوست نے اسے یہ ملازمت دلوائی تھی اسے تک اس ملازمت کے بارے زیادہ علم نہ تھا۔
البتہ یہ بات مسٹر XYZ کو معلوم تھی کہ اس کے دوست کی رسائی بہت اوپر تک تھی اور جس پراجیکٹ پر وہ متمکن تھا وہ ایک محدود سیکرٹ تھا اس کے اسی مہربان دوست نے اسے ایک روز مشورہ دیا کہ وہ اپنے کم حیثیت اور غریب رشتہ داروں اور دوستوں کی فہرست بنا لے اور پھر ان میں سے ہر ایک کے ساتھ انھیں الگ الگ کھانے پر کسی ریستوران میں بلا کر بے تکلفی کا رشتہ استوار کرے۔ جب اس نے وجہ اور ضرورت معلوم کرنا چاہی تو اس کے مہربان نے بتایا کہ وہ مسٹر XYZ کی پریشانی اور تجسس کو پھانپ گیا ہے کہ وہ گھر کے اندر اتنی زیادہ اور بڑھتی چلی جا رہی دولت کو کس طرح محفوظ کرے۔
مہربان نے تجویز دی کہ مسٹر XYZ اپنی کیش رقوم کو آہستہ آہستہ پراپرٹی میں انویسٹ کرنا شروع کر دے اور ہر دوسرے رشتہ دار سے مخفی رکھ کر زیادہ قابل اعتماد اور کم حیثیت رشتہ دار کے نام پر بیعنامی پراپرٹی خریدے لیکن اس رشتہ دار کی مدد کرتے ہوئے پراپرٹی کے کاغذات اپنی تحویل میں جمع کرتا جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بیعنامی رجسٹریوں کی تعداد بڑھتی گئی اور رشتہ داروں کی مالی مدد بھی ہوتی رہی۔ رشتہ دار اور دوست مطمئن تھے کہ پراپرٹی کے کاغذات ان کے نام پر ہیں مسٹر XYZ اپنی جگہ پُر اعتماد کہ دستاویزات اس کی الماری میں محفوظ ہیں۔ وقت کے ساتھ دستاویزی دولت بڑھتی رہی لیکن جس پراجیکٹ کی تکمیل مسٹر XYZ کے دستخطوں سے ہو رہی تھی موصوف اس کے وجود اور مقام سے روز اول کی طرح لاعلم تھا اور پھر ایک مدت گزرنے کے بعد اس فرضی یا ہوائی پراجیکٹ کا پردہ فاش ہو گیا۔
حکومت کی تبدیلی گویا مسٹر XYZ پر خودکش بم کی طرح پھٹی۔ پندرہ سال کی ملازمت تو ''گیسی بیلون'' کی طرح تحلیل ہوئی لیکن اب مسٹر XYZ کو اصل فکر بیعنامی رجسٹریوں کو محفوظ کرنے کی تھی۔ پراجیکٹ کی فرضی دستاویزات اس کے باس یعنی مہربان دوست نے تلف کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی لیکن پندرہ سال کی جمع پونجی دوستوں اور غریب رشتہ داروں کے نام پر تھی اور وہی اس کے قانونی مالک تھے۔
کافی سوچ بچار کے بعد مسٹر XYZ نے اپنے تمام دوستوں اور رشتہ داروں کو کھانے کی میز پر بات چلانے کے لیے اکٹھا کیا سب کے دلوں میں چور تو تھا ہی مسٹر XYZ نے ہر مہمان کے سامنے اس سے متعلقہ رجسٹری کی فوٹو کاپی رکھ کر بات شروع کی تو اس پر انکشاف ہوا کہ وہ سب آپس میں مل بیٹھ چکے ہیں اور موصوف کا Weak Point سامنے رکھ کر سودے بازی کرنے پر تیار ہیں۔ انھوں نے دوستی اور رشتہ داری ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ففٹی ففٹی تقسیم کرنے کی آفر دی تو مسٹر XYZ ذرا طیش میں آ گیا جس پر طے شدہ پروگرام کے تحت سب رجسٹری ہولڈرز واک آؤٹ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسٹر XYZ کو تنازعے کا نتیجہ معلوم تھا کیونکہ وہ کوئی منجھا ہوا سیاستدان تو تھا نہیں اس لیے وہ ففٹی ففٹی پر رضا مند ہو گیا۔
مجھے ایک راز دان نے بتایا ہے کہ ہمارے ملک میں بڑے بڑے نامی گرامی امراء موجود ہیں جن کی کثیر دولت ان کے کارندوں کے نام ہونے کے باوجود کبھی ففٹی ففٹی جیسے خطرے کی زد میں نہیں آ سکتی۔ مسٹر XYZ کا پہلا تجربہ تھا جب اسے مزید مواقع ملے تو وہ بھی اناڑی نہیں رہے گا کھلاڑی بن جائے گا۔