دل خرید کر لے آئیں…
’’ لیبارٹری، ای سی جی، سی سی یو، ایکو کارڈیو گرافی اور ایمرجنسی سروس!
باتوں میں دھیان ہی نہ رہا اور سمجھ میں آیا کہ کہاں پہنچ گئے تھے تو چونک گئے، '' گھر کے نزدیک پہنچ گئے ہیں اور بچوں کے لیے کچھ خریدا ہی نہیں! '' صاحب نے گھرکا۔
'' باتوں میں آپ مصروف تھے اس میں میرا کوئی قصور نہیں!! '' میں نے امریکی مہمانوں کے سامنے اپنی شرمندگی چھپانے کو جوابی وار کیا۔'' اب کیا کریں؟ '' انھیں اپنے لہجے کی سنگینی کا احساس ہو گیا تھا یا شاید یہ خوف کہ اب دونوں طرف سے بمباری شروع نہ ہوجائے۔'' چلیں اگلے موڑ پر '' کچھ لے لیتے ہیں!! '' میں نے ان کی صلح کی پیش کش کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنے لہجے میں مٹھاس بھری تا کہ امریکی مہمان یہ نہ سمجھیں کہ وہ دنیا بھر کو تسخیر کرنے میں مصروف ہیں اور ان کے اصل ملک میں لو گ ابھی تک اپنی بیویوں سے بات کرتے ہوئے اپنے لہجے کو بھی مسخر نہیں رکھ سکتے۔
'' اس سے کیا ملے گا، چھوٹی سی بیکری تو ہے؟ ''...'' پچھلی بار آئے تھے تو میں نے اس سے کہا تھا کہ تازہ پزا بھی بنایا کرے، ممکن ہے کہ اس نے شروع کر دیا ہو!! '' میں نے مفروضہ قائم کیا۔
'' اتنی جلدی وہ کوئی نئی دکان تعمیر کرنے سے تو رہا، یاد نہیں کہ اس نے کہا تھا کہ بیکری اتنی چھوٹی ہے کہ بمشکل وہ اس میں ضروری اشیاء رکھ پاتا ہے اور پزا کے لیے کوئی جگہ نہیں بن پا رہی، جو چیزیں ہیں وہ بھی گویا ٹھونسی ہوئی ہیں!'' صاحب نے پچھلی بار کو یوں کہا تھا جیسے ہم پچھلے جمعے کو ہی تو گجرات آئے تھے۔'' پچھلی بار ہم ماہ اکتوبر میں آئے تھے اور اس بات کو اب سات ماہ ہو چکے ہیں!!'' میں نے کوشش کی کہ دانت آپس میں نہ پسیں۔'' چلیں دیکھ لیتے ہیں!! '' صاحب نے اسپاٹ لہجے میں کہا ، '' چلیں، اٹھیں اور دل خرید لائیں!'' میں نے چونک کر انھیں دیکھا، شاید وہ حسب عادت سوچ کچھ اور رہے تھے اور کہہ اور، ساتھ ہی ان کی نظر کے تعاقب میں سامنے دیکھا۔
'' ----- ہارٹ سینٹر'' بیکرز ان کی جگہ نیا بورڈ منہ چڑا رہا تھا، ہماری مایوسی تو اپنی جگہ کہ اب ہمیں واپس مڑ کر کہیں اور سے کچھ لانا پڑتا مگر ہمارے امریکی مہمان تو یوں ہو گئے جیسے ان کی سیٹ میں کوئی کیڑا گھس گیا تھا،'' آپ ابھی بات کر رہے تھے کہ یہاں ایک چھوٹی سی بیکری تھی اور اب یہاں'' ہارٹ سینٹر'' بنا ہوا ہے؟ '' انھوں نے اپنی حیرت کو زبان دی۔...'' دیکھ لیں اللہ کی قدرت اور ہمارے ملک میں روز افزوں ہوتی ہوئی ترقی! '' میں نے فخر سے یوں کہا جیسے کہ وہ کلینک میرا ہی ہو اور اس کا نام ' ' شیریں ہارٹ سینٹر '' ہو۔'' گاڑی یہیں روکیں !!!'' انھوں نے صاحب سے درخواست کی، '' اور یہ بورڈ پڑھیں!! ''
'' لیبارٹری، ای سی جی، سی سی یو، ایکو کارڈیو گرافی اور ایمرجنسی سروس!'' صاحب نے اردو میں لکھا ہوا بورڈ پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد کلینک کے نام کا بورڈ جو کہ ڈاکٹر صاحب کے نام پر تھا، اس کے بعد ای سی جی کی لائنیں اور بڑا سا دل کا اندرونی فوٹو ، اس کے نیچے ڈاکٹر صاحب کے نام کے سامنے لکھی ہوئی پاکستانی اور امریکی ڈگریاں ۔
'' او مائے گاڈ!! '' امریکی مہمان بلبلا اٹھے، '' آپ بتا رہی تھیں کہ اس بیکری میں اس کے پاس جگہ نہ تھی کہ وہ مزید کچھ رکھ سکے یا گاہکوں کی فرمائش پر پزا بنا سکے؟''
'' ہاں ... لیکن اس سے کلینک کا کیا تعلق ہوا، پزا تو اب یہاں نہیں مل سکتا، چلیں کہیں اور سے دیکھ لیتے ہیں یا کوئی پھل لے لیتے ہیں!! '' میں نے تجویز پیش کی۔'' مگر اس کے لیے تو واپس جانا پڑے گا!! '' صاحب کے لہجے میں مایوسی تھی، پہلے ہی دن کا گرم ترین وقت تھا اور پھر ہمیں لوٹ کر گھر بھی جانا تھا۔
'' تو باتوں میں تو آپ ہی مصروف تھے نا!! '' میں نے نرمی سے طنز کا تیر چلایا۔...'' آپ تو فارغ تھیں نا؟ '' جوابی وار مٹھاس لپیٹ کر کیا گیا۔'' میں ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی!! '' ہم اپنے مہمان کے سامنے بہترین میاں بیوی ہونے کی کامیاب اداکاری کر رہے تھے۔'' کتنی بار کہا ہے کہ آپ چلتی گاڑی میں ڈائجسٹ نہ پڑھا کریں، نظر خراب ہو جائے گی!! '' میں ان کا چہرہ تک رہی تھی، اپنے کتنی بار کے کہے ہوئے فقرے کو انھوں نے کتنا توڑ موڑ کر بیان کیا تھا ، '' کیا گاڑی میں فضول ڈائجسٹ پڑھتی رہتی ہیں آپ ہر وقت، اس سے کہیں بہتر ہے کہ گھر رہا کریں آپ اور مجھے سفر میں بور نہ کیا کریں!''...
'' رکیں رکیں... واپس نہ جائیں، مجھے بتانے دیں کہ اس نوعیت کا کلینک... چہ چہ، کیسے چل جاتے ہیں ایسے کلینک، ہمارے ہاں تو کوئی ایسا کلینک بنا کر دکھائے جس میں اتنی سہولیات کا دعوی کیا جائے اور اس کلینک کا سائز دیکھیں آپ، باہر سے گندگی کے حالات دیکھیں!! کیا آپ نے کبھی کسی اسپتال کے شعبہ امراض قلب کو دیکھا ہے؟ '' ہمارے مہمان خود بھی امریکی ڈاکٹر تھے اس لیے ان سے یہ کلینک ہضم نہ ہو رہا تھا، '' اس سائز کی عمارت میں تو وہاں ایک ای سی جی کا مرکز بھی نہ بننے دیں وہ لوگ، آخر جو لوگ ای سی جی کروانے آتے ہیں ان کے لیے بیڈ، انتظار گاہ اور اس سے ملحق غسل خانہ، لباس تبدیل کرنے کا کمرہ، ڈاکٹر کا کمرہ اور غسل خانہ، نرسوں کا کمرہ اور غسل خانہ، نرسوں کے لیے چھوٹا سا ٹی بار اور کسی وقت آرام کرنے کے لیے بیڈ... کیا یہ سب کچھ آپ اتنی سی جگہ پر دے سکتے ہیں کجا یہ کہ موصوف ڈاکٹر اس کے ساتھ کئی اور سہولتوں کا دعوی بھی کر رہے ہیں؟ ''
'' یہ تو کلینک کے اندر جا کر ہی دیکھا جا سکتا ہے!! '' میں نے کہا ، گاڑی کو نزدیک لے جایا گیا، کلینک بند تھا۔'' ایمرجنسی سروس کا دعوی اور کلینک بند ، کیا یہاں لوگوں کے بیمار ہونے کے دن اور اوقات مقرر ہیں؟ ''...'' ڈاکٹر صاحب کسی اسپتال میں بھی ہارٹ اسپیشلسٹ ہیں، ممکن ہے کہ اس وقت وہاں ہوتے ہوں!'' میں نے اپنے ملک کی صفائی پیش کی۔'' باہر سے صفائی کی حالت تو دیکھیں اس کلینک کی، اس ملک کا واقعی اللہ حافظ ہے، اگر اس ملک کے شعبۂ طب کا یہ حال ہے!!! ''
''اس ملک کا تو واقعی اللہ ہی حافظ ہے،ا س میں کوئی شک نہیں، صرف طب ہی نہیں، ماشاء اللہ ہم ہر شعبے میں اس سے بڑھ چڑھ کر ہیں، تعلیم ہو، خوراک، عماراتی کام، قانون یا کرپشن ''...'' باقی چیزوں سے انسان کی زندگی کو اس طرح براہ راست خطرہ تو نہیں ہے نا!!'' انھوں نے زور دے کر کہا، ''جس ملک کی حکومت اپنے عوام کی صحت کے مسائل پر غفلت اختیار کرتی ہے وہ کچھ کم نہیں مگر ''قاتل'' کہلانے کی مستحق ہے، دنیا کا کوئی ملک اور مذہب انسانی جان سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتا!!'' وہ کہہ رہے تھے اور میں شکر کر رہی تھی کہ ان کا دورہ کافی مختصر تھا کہ اگر وہ سڑکوں کے کنارے دو کرسیاں رکھ کر بیٹھے ہوئے ڈاکٹروں کو دیکھ لیں، سائیکل پر دانتوں کے موبائل کلینک ... جو کہ کسی سڑک کے کنارے اسٹول رکھ کر دانت نکالنے سے لے کر نئے دانت لگانے تک کا عمل سر انجام دے لیتے ہیں، موم بتیوں کی روشنی میں آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کا عمل ہو جاتا ہے۔
مریضوں کے رش اور ڈاکٹروں کی لاپروائی کے سبب اسپتالوں کی انتظار گاہوں کے بنچوں پر بچے پیدا ہو جاتے ہیں، مریض ڈاکٹروں کے انتظار میں کھلے آسمان تلے کئی کئی دن اور راتیں گزار دیتے ہیں!!حکومت بے چاری کیا کرے؟؟ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو اور کوئی کام نہیں جو ان '' چھوٹے چھوٹے '' مسائل کو سر پر اٹھا کر پھرے، انھیں اس ملک کے شعبہء صحت کی فکر تب ہو اگر انھیں اس ملک میں علاج کروانا ہو!لوگوں کو چاہیے کہ وہ حلال، کم اور سادہ کھائیں... اس سے بہتر ہم اپنے ساتھ کچھ نہیں کر سکتے، بیماری اور تکلیف تو اللہ تعالی کی طرف سے ہے مگر اس کے اسباب کو قابو کرنے کی کوشش کریں تا کہ ہمارا واسطہ کم سے کم ڈاکٹروں سے پڑے اور ہمیں کم سے کم ان نیم حکیموں کے تجربات سے '' فیض یاب'' ہونا پڑے۔ پڑھے لکھے لوگوں کو چاہیے کہ وہ کم از کم ایسی نوعیت کے ڈاکٹروں سے بچیں جو چھوٹی دکانوں میں بڑے دعوے سجا کر ہماری کھالیں اتارنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں!!
'' باتوں میں آپ مصروف تھے اس میں میرا کوئی قصور نہیں!! '' میں نے امریکی مہمانوں کے سامنے اپنی شرمندگی چھپانے کو جوابی وار کیا۔'' اب کیا کریں؟ '' انھیں اپنے لہجے کی سنگینی کا احساس ہو گیا تھا یا شاید یہ خوف کہ اب دونوں طرف سے بمباری شروع نہ ہوجائے۔'' چلیں اگلے موڑ پر '' کچھ لے لیتے ہیں!! '' میں نے ان کی صلح کی پیش کش کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنے لہجے میں مٹھاس بھری تا کہ امریکی مہمان یہ نہ سمجھیں کہ وہ دنیا بھر کو تسخیر کرنے میں مصروف ہیں اور ان کے اصل ملک میں لو گ ابھی تک اپنی بیویوں سے بات کرتے ہوئے اپنے لہجے کو بھی مسخر نہیں رکھ سکتے۔
'' اس سے کیا ملے گا، چھوٹی سی بیکری تو ہے؟ ''...'' پچھلی بار آئے تھے تو میں نے اس سے کہا تھا کہ تازہ پزا بھی بنایا کرے، ممکن ہے کہ اس نے شروع کر دیا ہو!! '' میں نے مفروضہ قائم کیا۔
'' اتنی جلدی وہ کوئی نئی دکان تعمیر کرنے سے تو رہا، یاد نہیں کہ اس نے کہا تھا کہ بیکری اتنی چھوٹی ہے کہ بمشکل وہ اس میں ضروری اشیاء رکھ پاتا ہے اور پزا کے لیے کوئی جگہ نہیں بن پا رہی، جو چیزیں ہیں وہ بھی گویا ٹھونسی ہوئی ہیں!'' صاحب نے پچھلی بار کو یوں کہا تھا جیسے ہم پچھلے جمعے کو ہی تو گجرات آئے تھے۔'' پچھلی بار ہم ماہ اکتوبر میں آئے تھے اور اس بات کو اب سات ماہ ہو چکے ہیں!!'' میں نے کوشش کی کہ دانت آپس میں نہ پسیں۔'' چلیں دیکھ لیتے ہیں!! '' صاحب نے اسپاٹ لہجے میں کہا ، '' چلیں، اٹھیں اور دل خرید لائیں!'' میں نے چونک کر انھیں دیکھا، شاید وہ حسب عادت سوچ کچھ اور رہے تھے اور کہہ اور، ساتھ ہی ان کی نظر کے تعاقب میں سامنے دیکھا۔
'' ----- ہارٹ سینٹر'' بیکرز ان کی جگہ نیا بورڈ منہ چڑا رہا تھا، ہماری مایوسی تو اپنی جگہ کہ اب ہمیں واپس مڑ کر کہیں اور سے کچھ لانا پڑتا مگر ہمارے امریکی مہمان تو یوں ہو گئے جیسے ان کی سیٹ میں کوئی کیڑا گھس گیا تھا،'' آپ ابھی بات کر رہے تھے کہ یہاں ایک چھوٹی سی بیکری تھی اور اب یہاں'' ہارٹ سینٹر'' بنا ہوا ہے؟ '' انھوں نے اپنی حیرت کو زبان دی۔...'' دیکھ لیں اللہ کی قدرت اور ہمارے ملک میں روز افزوں ہوتی ہوئی ترقی! '' میں نے فخر سے یوں کہا جیسے کہ وہ کلینک میرا ہی ہو اور اس کا نام ' ' شیریں ہارٹ سینٹر '' ہو۔'' گاڑی یہیں روکیں !!!'' انھوں نے صاحب سے درخواست کی، '' اور یہ بورڈ پڑھیں!! ''
'' لیبارٹری، ای سی جی، سی سی یو، ایکو کارڈیو گرافی اور ایمرجنسی سروس!'' صاحب نے اردو میں لکھا ہوا بورڈ پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد کلینک کے نام کا بورڈ جو کہ ڈاکٹر صاحب کے نام پر تھا، اس کے بعد ای سی جی کی لائنیں اور بڑا سا دل کا اندرونی فوٹو ، اس کے نیچے ڈاکٹر صاحب کے نام کے سامنے لکھی ہوئی پاکستانی اور امریکی ڈگریاں ۔
'' او مائے گاڈ!! '' امریکی مہمان بلبلا اٹھے، '' آپ بتا رہی تھیں کہ اس بیکری میں اس کے پاس جگہ نہ تھی کہ وہ مزید کچھ رکھ سکے یا گاہکوں کی فرمائش پر پزا بنا سکے؟''
'' ہاں ... لیکن اس سے کلینک کا کیا تعلق ہوا، پزا تو اب یہاں نہیں مل سکتا، چلیں کہیں اور سے دیکھ لیتے ہیں یا کوئی پھل لے لیتے ہیں!! '' میں نے تجویز پیش کی۔'' مگر اس کے لیے تو واپس جانا پڑے گا!! '' صاحب کے لہجے میں مایوسی تھی، پہلے ہی دن کا گرم ترین وقت تھا اور پھر ہمیں لوٹ کر گھر بھی جانا تھا۔
'' تو باتوں میں تو آپ ہی مصروف تھے نا!! '' میں نے نرمی سے طنز کا تیر چلایا۔...'' آپ تو فارغ تھیں نا؟ '' جوابی وار مٹھاس لپیٹ کر کیا گیا۔'' میں ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی!! '' ہم اپنے مہمان کے سامنے بہترین میاں بیوی ہونے کی کامیاب اداکاری کر رہے تھے۔'' کتنی بار کہا ہے کہ آپ چلتی گاڑی میں ڈائجسٹ نہ پڑھا کریں، نظر خراب ہو جائے گی!! '' میں ان کا چہرہ تک رہی تھی، اپنے کتنی بار کے کہے ہوئے فقرے کو انھوں نے کتنا توڑ موڑ کر بیان کیا تھا ، '' کیا گاڑی میں فضول ڈائجسٹ پڑھتی رہتی ہیں آپ ہر وقت، اس سے کہیں بہتر ہے کہ گھر رہا کریں آپ اور مجھے سفر میں بور نہ کیا کریں!''...
'' رکیں رکیں... واپس نہ جائیں، مجھے بتانے دیں کہ اس نوعیت کا کلینک... چہ چہ، کیسے چل جاتے ہیں ایسے کلینک، ہمارے ہاں تو کوئی ایسا کلینک بنا کر دکھائے جس میں اتنی سہولیات کا دعوی کیا جائے اور اس کلینک کا سائز دیکھیں آپ، باہر سے گندگی کے حالات دیکھیں!! کیا آپ نے کبھی کسی اسپتال کے شعبہ امراض قلب کو دیکھا ہے؟ '' ہمارے مہمان خود بھی امریکی ڈاکٹر تھے اس لیے ان سے یہ کلینک ہضم نہ ہو رہا تھا، '' اس سائز کی عمارت میں تو وہاں ایک ای سی جی کا مرکز بھی نہ بننے دیں وہ لوگ، آخر جو لوگ ای سی جی کروانے آتے ہیں ان کے لیے بیڈ، انتظار گاہ اور اس سے ملحق غسل خانہ، لباس تبدیل کرنے کا کمرہ، ڈاکٹر کا کمرہ اور غسل خانہ، نرسوں کا کمرہ اور غسل خانہ، نرسوں کے لیے چھوٹا سا ٹی بار اور کسی وقت آرام کرنے کے لیے بیڈ... کیا یہ سب کچھ آپ اتنی سی جگہ پر دے سکتے ہیں کجا یہ کہ موصوف ڈاکٹر اس کے ساتھ کئی اور سہولتوں کا دعوی بھی کر رہے ہیں؟ ''
'' یہ تو کلینک کے اندر جا کر ہی دیکھا جا سکتا ہے!! '' میں نے کہا ، گاڑی کو نزدیک لے جایا گیا، کلینک بند تھا۔'' ایمرجنسی سروس کا دعوی اور کلینک بند ، کیا یہاں لوگوں کے بیمار ہونے کے دن اور اوقات مقرر ہیں؟ ''...'' ڈاکٹر صاحب کسی اسپتال میں بھی ہارٹ اسپیشلسٹ ہیں، ممکن ہے کہ اس وقت وہاں ہوتے ہوں!'' میں نے اپنے ملک کی صفائی پیش کی۔'' باہر سے صفائی کی حالت تو دیکھیں اس کلینک کی، اس ملک کا واقعی اللہ حافظ ہے، اگر اس ملک کے شعبۂ طب کا یہ حال ہے!!! ''
''اس ملک کا تو واقعی اللہ ہی حافظ ہے،ا س میں کوئی شک نہیں، صرف طب ہی نہیں، ماشاء اللہ ہم ہر شعبے میں اس سے بڑھ چڑھ کر ہیں، تعلیم ہو، خوراک، عماراتی کام، قانون یا کرپشن ''...'' باقی چیزوں سے انسان کی زندگی کو اس طرح براہ راست خطرہ تو نہیں ہے نا!!'' انھوں نے زور دے کر کہا، ''جس ملک کی حکومت اپنے عوام کی صحت کے مسائل پر غفلت اختیار کرتی ہے وہ کچھ کم نہیں مگر ''قاتل'' کہلانے کی مستحق ہے، دنیا کا کوئی ملک اور مذہب انسانی جان سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتا!!'' وہ کہہ رہے تھے اور میں شکر کر رہی تھی کہ ان کا دورہ کافی مختصر تھا کہ اگر وہ سڑکوں کے کنارے دو کرسیاں رکھ کر بیٹھے ہوئے ڈاکٹروں کو دیکھ لیں، سائیکل پر دانتوں کے موبائل کلینک ... جو کہ کسی سڑک کے کنارے اسٹول رکھ کر دانت نکالنے سے لے کر نئے دانت لگانے تک کا عمل سر انجام دے لیتے ہیں، موم بتیوں کی روشنی میں آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کا عمل ہو جاتا ہے۔
مریضوں کے رش اور ڈاکٹروں کی لاپروائی کے سبب اسپتالوں کی انتظار گاہوں کے بنچوں پر بچے پیدا ہو جاتے ہیں، مریض ڈاکٹروں کے انتظار میں کھلے آسمان تلے کئی کئی دن اور راتیں گزار دیتے ہیں!!حکومت بے چاری کیا کرے؟؟ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو اور کوئی کام نہیں جو ان '' چھوٹے چھوٹے '' مسائل کو سر پر اٹھا کر پھرے، انھیں اس ملک کے شعبہء صحت کی فکر تب ہو اگر انھیں اس ملک میں علاج کروانا ہو!لوگوں کو چاہیے کہ وہ حلال، کم اور سادہ کھائیں... اس سے بہتر ہم اپنے ساتھ کچھ نہیں کر سکتے، بیماری اور تکلیف تو اللہ تعالی کی طرف سے ہے مگر اس کے اسباب کو قابو کرنے کی کوشش کریں تا کہ ہمارا واسطہ کم سے کم ڈاکٹروں سے پڑے اور ہمیں کم سے کم ان نیم حکیموں کے تجربات سے '' فیض یاب'' ہونا پڑے۔ پڑھے لکھے لوگوں کو چاہیے کہ وہ کم از کم ایسی نوعیت کے ڈاکٹروں سے بچیں جو چھوٹی دکانوں میں بڑے دعوے سجا کر ہماری کھالیں اتارنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں!!