والدین کے وہ رویے جو براہ راست بچوں میں بگاڑ کا باعث ہیں
ہمارے بچے جب جھوٹ بولنے لگتے ہیں، تو یہ بات ہمیں بہت بری لگتی ہے۔
ہمارے بچے جب جھوٹ بولنے لگتے ہیں، تو یہ بات ہمیں بہت بری لگتی ہے، مگر وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ آخر ان کا بچہ جھوٹ بول کیوں رہا ہے؟ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بچہ آپ کے پاس آتا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے، اس پر اسے بہت زیادہ سخت ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے جب وہ یہ دیکھتا ہے کے اسے سچ بولنے پر سرزنش کا سامنا ہے، تو پھر وہ غلط بیانی کو ترجیح دینا شروع کر دیتا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اس بات کی کوشش کریں کہ بچوں کی چھوٹی غلطیوں کو معاف کریں، یا ان کے غلط کام پر ناراضی ظاہر کریں، تو ساتھ ہی سچ کہنے کو بھی سراہیں، تاکہ اسے لگے کہ چلو اس نے غلطی یا غفلت کی، مگر اُس پر جھوٹ نہیں بولا اورسچ بولنا اچھی بات ہے۔
اسی طرح کچھ منفی جذبات بچوں میں پنپنیلگتے ہیں، جیسے حسد کا جذبہ، اسے ایک نظر نہ آنے والی آگ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جو انسان کو اندر سے جلا کر رکھ دیتی ہے۔ اس لیے حسد سے دور ہی رہنا چاہیے اور پھر ماں ہوتے ہوئے، تو آپ یہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ آپ کا بچہ حسد کی آگ میں اتنا جلے کہ اس کی اپنی شخصیت مسخ ہو جائے، مگرافسوس یہ ہے کہ والدین ایسا نہ چاہتے ہوئے بھی کر لیتے ہیں، وہ بذات خود اپنے بچوں میں حسد کی عادت ڈال دیتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ براہ راست تو حسد کرنا نہیں سکھاتے، لیکن بالواسطہ یہ چیز ان کے ذہن میں انڈیل دیتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ وہ بہن، بھائی، دوستوں اور کزن وغیرہ سے اپنی اولاد کا اتنا موازنہ کرتے ہیں کہ اس بچے کی اپنی ذات کہیں کھو کر رہ جاتی ہے۔ اس لیے اپنے بچے کا موازنہ کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آپ اپنے بچہ کی شخصیت کو مسخ تو نہیں کر رہیں۔ موازنہ ضروری ہو تو اس میں توازن رکھیں۔ اور اسے اس ڈھب پر رکھیں کہ وہ مہمیز کا کام دے۔ بچے کے جذبات کو گھائل نہ ہونے دیں۔
جب بچے کو چوٹ لگتی ہے، تو ہم اسے ہمت دلانے کے لیے یہی کہتے ہیں کہ بیٹا بہادر بنو۔۔۔! آپ تو میرے بہادر بچے ہو نا، اٹھو جلدی شاباش۔۔۔! یعنی ایک بات بہادر ہونا اچھی بات ہے، بچپن سے بتائی جاتی ہے۔ بزدل ہونا اچھا نہیں اور اپنے بچے کو بزدل بنانا، تو والدین کبھی نہیں چاہتے، مگر کبھی کبھار یوں بھی ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچے کو خود بزدل بنا دیتے ہیں، جیسے اگر کسی کام کے دوران بچے کو کسی کام میں کوئی مشکل یا رکاوٹ پیش آ رہی ہو تو وہ فوراً آگے بڑھ کر وہ کام کر دیتے ہیں۔ ایسے میں جب وہ زندگی میں کسی رکاوٹ کا شکار ہوتا ہے، تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس میں اتنی قابلیت ہی نہیں کہ وہ اپنی راہ میں آنے والی کسی رکاوٹ کو اپنے آپ دور کر سکے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ ہمیشہ بچے کو اس بات کا موقع دیں کہ وہ اپنی راہ میں حائل رکاوٹیں خود دور کرنے کی کوشش کرے، تاکہ مستقبل میں اس بچے کو اپنے زور بازو پر بھروسا ہوسکے۔
بچوں کو والدین اور پھر ان کی زندگی میں آنے والے دیگر لوگ اس بات کا احساس دلاتے ہیںکہ ان کی اپنی کوئی رائے نہیں، مگر نہ جانے کیوں جب بچے اپنی ذات کی نفی کرتے ہیں، تو وہ بھی والدین کو بہت برا لگتا ہے۔ اس لیے کم از کم اس معاملے میں انہیں چاہیے کہ زندگی میں انہیں اتنی نصیحت کریں، جتنا ضروری ہے اور زیادہ وقت اس بات کی کوشش کریں کہ وہ زندگی میں جو کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں، اس میں ان کا ساتھ دیں ان کا حوصلہ بڑھائیں، تاکہ وہ کام یاب ہو اور اپنی ذات میں پراعتماد ہو۔
اکثر و بیش تر ایسا ہوتا ہے، محفل یا دعوت میں بچہ کوئی غلط بات کہہ دے، تو والدین وہی ٹوکنا او ر ڈاٹنا شروع کر دیتے ہیں، جس سے اس بچہ کو یہ محسوس ہوتا ہے کے اس کے علاوہ اس دنیا میں سب صحیح ہے۔ اس لیے وہ اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی غلط رویہ اور اقدام کو نہیں رکتا۔ اس لیے والدین کو چاہیے کے بچوں کو کبھی بھی چار لوگ جس میں ان کے دوست اور بھائی بہن تک شامل ہیں، روک ٹوک کا نشانہ نہ بنائیں۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہوگئی ہے، تو بعد میں اکیلے میں انہیں یہ بات سمجھا دیں کے ان سے یہ غلطی ہوئی ہے اور وہ کوشش کریں کے آٗئندہ ایسا نہ ہو۔
والدین بچوں کو خریداری کے لیے بازار لے جانا ضروری نہیں سمجھتے اور خود جا کر بچوں کے لیے ان کی چیزیں لے آتے ہیں، مگر جب وہ چیزیں بچوں کو دیتے ہیں، تو ان میں ان کی دل چسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور وہ دوسروں کی چیزوںکو پسندکرتے ہیں، جو والدین کو پسند نہیں آتا، حالاں کہ وہ خود بچوں کو چیزیں پسند کرنے کی اجازت نہیں دیتے، اس لیے لامحالہ بچوں کو دوسروں کی چیزوں میں زیادہ دل چسپی ہوتی ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو زیادہ نہ سہی، لیکن کبھی کبھی خریداری پر ساتھ لے کر جائیں، تاکہ ان کی اپنی پسند اور ناپسند ہو اور وہ اپنی خریدی ہوئی اشیا کو ہی استعمال کرنے کو ترجیح دے۔
جب بچے بدتمیزی کرنے لگتے ہیں، تو اس کی اصل وجہ اکثر والدین دوستوں اور باہر کے ماحول وغیرہ میں ڈھونڈتے ہیں، مگر اس کے پیچھے والدین کا اپنا ہی رویہ شامل ہوتا ہے، جب بچے اپنے بات والدین سے کہتے ہیں اور انہیں جواب اس انداز میں نہیں ملتا، جس انداز میں وہ توقع کر رہے ہوتے ہیں، تو پھر انہیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید بدتمیزی کرنے پر انہیں توجہ مل سکے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ والدین بچوں کی بات کو ہمیشہ توجہ سے سنیں، تاکہ وہ غصہ اور بدتمیزی کے بہ جائے شائستگی اور تمیزسے بات کریں۔
جب آپ اپنے بچے کے احساسات کو اہمیت نہیں دیتے، تو ردعمل میں بچہ بھی اسی ڈگر پر گام زن ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہے، اس کی باتوں کو منطقی اعتبار سے اہمیت دینے کے بہ جائے اس کے لیے اہم باتوں کو جگہ دینا ضروری ہے، کیوں کہ بچوں کا اپنا ذہن اور مزاج ہوتا ہے۔
یوں تو اولاد کی تربیت کافی اہمیت کی حامل ہے اور والدین چاہتے ہیں کہ اولاد کی تربیت بہترین انداز میں کریں اور ذاتی طور پر ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان کی طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہو، مگر انسان خطا کا پتلا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔
والدین یہی چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ایک بھر پور شخصیت کا مالک ہو، کام یاب ہو اور لوگ اسے عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے اور اگر اس خواہش کی تکمیل کے لیے دوران تربیت چند نکات کو اہمیت دے دی جائے، تو والدین بچہ کو اس سانچے میں ہی دیکھے گے جس میں وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کوشش کریں کہ ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھیں، تاکہ مسائل سے بچیں۔
اسی طرح کچھ منفی جذبات بچوں میں پنپنیلگتے ہیں، جیسے حسد کا جذبہ، اسے ایک نظر نہ آنے والی آگ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جو انسان کو اندر سے جلا کر رکھ دیتی ہے۔ اس لیے حسد سے دور ہی رہنا چاہیے اور پھر ماں ہوتے ہوئے، تو آپ یہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ آپ کا بچہ حسد کی آگ میں اتنا جلے کہ اس کی اپنی شخصیت مسخ ہو جائے، مگرافسوس یہ ہے کہ والدین ایسا نہ چاہتے ہوئے بھی کر لیتے ہیں، وہ بذات خود اپنے بچوں میں حسد کی عادت ڈال دیتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ براہ راست تو حسد کرنا نہیں سکھاتے، لیکن بالواسطہ یہ چیز ان کے ذہن میں انڈیل دیتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ وہ بہن، بھائی، دوستوں اور کزن وغیرہ سے اپنی اولاد کا اتنا موازنہ کرتے ہیں کہ اس بچے کی اپنی ذات کہیں کھو کر رہ جاتی ہے۔ اس لیے اپنے بچے کا موازنہ کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آپ اپنے بچہ کی شخصیت کو مسخ تو نہیں کر رہیں۔ موازنہ ضروری ہو تو اس میں توازن رکھیں۔ اور اسے اس ڈھب پر رکھیں کہ وہ مہمیز کا کام دے۔ بچے کے جذبات کو گھائل نہ ہونے دیں۔
جب بچے کو چوٹ لگتی ہے، تو ہم اسے ہمت دلانے کے لیے یہی کہتے ہیں کہ بیٹا بہادر بنو۔۔۔! آپ تو میرے بہادر بچے ہو نا، اٹھو جلدی شاباش۔۔۔! یعنی ایک بات بہادر ہونا اچھی بات ہے، بچپن سے بتائی جاتی ہے۔ بزدل ہونا اچھا نہیں اور اپنے بچے کو بزدل بنانا، تو والدین کبھی نہیں چاہتے، مگر کبھی کبھار یوں بھی ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچے کو خود بزدل بنا دیتے ہیں، جیسے اگر کسی کام کے دوران بچے کو کسی کام میں کوئی مشکل یا رکاوٹ پیش آ رہی ہو تو وہ فوراً آگے بڑھ کر وہ کام کر دیتے ہیں۔ ایسے میں جب وہ زندگی میں کسی رکاوٹ کا شکار ہوتا ہے، تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس میں اتنی قابلیت ہی نہیں کہ وہ اپنی راہ میں آنے والی کسی رکاوٹ کو اپنے آپ دور کر سکے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ ہمیشہ بچے کو اس بات کا موقع دیں کہ وہ اپنی راہ میں حائل رکاوٹیں خود دور کرنے کی کوشش کرے، تاکہ مستقبل میں اس بچے کو اپنے زور بازو پر بھروسا ہوسکے۔
بچوں کو والدین اور پھر ان کی زندگی میں آنے والے دیگر لوگ اس بات کا احساس دلاتے ہیںکہ ان کی اپنی کوئی رائے نہیں، مگر نہ جانے کیوں جب بچے اپنی ذات کی نفی کرتے ہیں، تو وہ بھی والدین کو بہت برا لگتا ہے۔ اس لیے کم از کم اس معاملے میں انہیں چاہیے کہ زندگی میں انہیں اتنی نصیحت کریں، جتنا ضروری ہے اور زیادہ وقت اس بات کی کوشش کریں کہ وہ زندگی میں جو کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں، اس میں ان کا ساتھ دیں ان کا حوصلہ بڑھائیں، تاکہ وہ کام یاب ہو اور اپنی ذات میں پراعتماد ہو۔
اکثر و بیش تر ایسا ہوتا ہے، محفل یا دعوت میں بچہ کوئی غلط بات کہہ دے، تو والدین وہی ٹوکنا او ر ڈاٹنا شروع کر دیتے ہیں، جس سے اس بچہ کو یہ محسوس ہوتا ہے کے اس کے علاوہ اس دنیا میں سب صحیح ہے۔ اس لیے وہ اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی غلط رویہ اور اقدام کو نہیں رکتا۔ اس لیے والدین کو چاہیے کے بچوں کو کبھی بھی چار لوگ جس میں ان کے دوست اور بھائی بہن تک شامل ہیں، روک ٹوک کا نشانہ نہ بنائیں۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہوگئی ہے، تو بعد میں اکیلے میں انہیں یہ بات سمجھا دیں کے ان سے یہ غلطی ہوئی ہے اور وہ کوشش کریں کے آٗئندہ ایسا نہ ہو۔
والدین بچوں کو خریداری کے لیے بازار لے جانا ضروری نہیں سمجھتے اور خود جا کر بچوں کے لیے ان کی چیزیں لے آتے ہیں، مگر جب وہ چیزیں بچوں کو دیتے ہیں، تو ان میں ان کی دل چسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور وہ دوسروں کی چیزوںکو پسندکرتے ہیں، جو والدین کو پسند نہیں آتا، حالاں کہ وہ خود بچوں کو چیزیں پسند کرنے کی اجازت نہیں دیتے، اس لیے لامحالہ بچوں کو دوسروں کی چیزوں میں زیادہ دل چسپی ہوتی ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو زیادہ نہ سہی، لیکن کبھی کبھی خریداری پر ساتھ لے کر جائیں، تاکہ ان کی اپنی پسند اور ناپسند ہو اور وہ اپنی خریدی ہوئی اشیا کو ہی استعمال کرنے کو ترجیح دے۔
جب بچے بدتمیزی کرنے لگتے ہیں، تو اس کی اصل وجہ اکثر والدین دوستوں اور باہر کے ماحول وغیرہ میں ڈھونڈتے ہیں، مگر اس کے پیچھے والدین کا اپنا ہی رویہ شامل ہوتا ہے، جب بچے اپنے بات والدین سے کہتے ہیں اور انہیں جواب اس انداز میں نہیں ملتا، جس انداز میں وہ توقع کر رہے ہوتے ہیں، تو پھر انہیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید بدتمیزی کرنے پر انہیں توجہ مل سکے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ والدین بچوں کی بات کو ہمیشہ توجہ سے سنیں، تاکہ وہ غصہ اور بدتمیزی کے بہ جائے شائستگی اور تمیزسے بات کریں۔
جب آپ اپنے بچے کے احساسات کو اہمیت نہیں دیتے، تو ردعمل میں بچہ بھی اسی ڈگر پر گام زن ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہے، اس کی باتوں کو منطقی اعتبار سے اہمیت دینے کے بہ جائے اس کے لیے اہم باتوں کو جگہ دینا ضروری ہے، کیوں کہ بچوں کا اپنا ذہن اور مزاج ہوتا ہے۔
یوں تو اولاد کی تربیت کافی اہمیت کی حامل ہے اور والدین چاہتے ہیں کہ اولاد کی تربیت بہترین انداز میں کریں اور ذاتی طور پر ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان کی طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہو، مگر انسان خطا کا پتلا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔
والدین یہی چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ایک بھر پور شخصیت کا مالک ہو، کام یاب ہو اور لوگ اسے عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے اور اگر اس خواہش کی تکمیل کے لیے دوران تربیت چند نکات کو اہمیت دے دی جائے، تو والدین بچہ کو اس سانچے میں ہی دیکھے گے جس میں وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کوشش کریں کہ ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھیں، تاکہ مسائل سے بچیں۔