مجھ کو جو گماں جیسا ہے
یہ ایک مسلمہ امرہے کہ وہ معاشرے زندہ ہوتے ہیں ، جن کی عدالتیں زخم مندمل ہونے سے پہلے مظلوم کو انصاف فراہم کرسکیں
یہ ایک مسلمہ امرہے کہ وہ معاشرے زندہ ہوتے ہیں ، جن کی عدالتیں زخم مندمل ہونے سے پہلے مظلوم کو انصاف فراہم کرسکیں۔ ہماری دانست میں ادارے یا قانون وانصاف کی کتابیں انصاف نہیں کرتیں انصاف ضمیرکرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ضمیرکی جگہ قانون کی کتابیں میزوں پرچن دی گئی ہیں، بوسیدہ قائدے قوانین کی فرسودہ اورگلی سڑی فائلیں انتہائی نازک حالات میں گرد مٹی کے غلافوں میں لپٹی دکھائی دیتی چلی آرہی ہیں۔ عدالتوں کے احکامات ہوا میں معلق نظر آتے ہیں۔ قومی زبان اردوکے نفاذ کا حکم ہو یا بلدیاتی اختیارات متعلقہ لوگوں کے حوالے کرنے کا حکم ہو یا اس طرح کا کوئی اور حکم نامہ ہو اس کی تعمیل کب ہوگی اس کی خبر اللہ کو ہوسکتی ہے اس کے بندے کو نہیں؟
سپریم کورٹ نے کراچی شہر میں عوامی مقامات، فلائی اوورز، گلیوں، گرین بیلٹس اور فٹ پاتھ سے 15 دن میں تمام بل بورڈز ہٹانے کا حکم صادر فرمایا ہے اور ہدایت کی ہے کہ جن اشتہاری کمپنیوں نے پیسے دے کر لائسنس یا لیز کے تحت عوامی مقامات پر یہ بورڈ نصب کیے ہیں ان کے کنٹریکٹ میں توسیع نہ کی جائے اور مذکورہ سائن بورڈ اور ہورڈنگز بھی 30 جون تک اکھاڑ دیے جائیں اور کہا ہے کہ عوام کے جان و مال کو خطرے میں ڈال کرکمائی نہ کی جائے۔
سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل لارجر بینچ نے یہ ریمارکس کراچی کے حوالے سے دیے ہیں لیکن حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو عدالت کی طرف سے دی جانے والی اس ہدایت کا کراچی، لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی جیسے تمام بڑے شہروں پر بھی ہوتا ہے کیونکہ اب تو حصول زرکو ہی اپنا مطمع نظر سمجھ لینے والے اداروں کے کرتا دھرتاؤں نے تقریباً تمام شہر ہی بل بورڈوں کے جنگل بنا دیے ہیں اور ان کی سڑکیں ہی نہیں فٹ پاتھ، اوور ہیڈ برج، فلائی اوورز، انڈر پاسز، گرین بیلٹس سمیت یا تو بل بورڈز کی زد میں آگئی ہیں یا ان پر قبضہ گروپوں نے اپنا تسلط کر رکھا ہے اور یہ صورتحال نہ صرف شہریوں کے جان و مال کے لیے بہت خطرات پیدا کر رہی ہے بلکہ ان کی آزادانہ نقل و حرکت کی راہ میں بھی رکاوٹ بن رہی ہے جس سے ان کے آئینی و سماجی حقوق تلف ہو رہے ہیں۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ صوبائی و ضلع حکومتیں بھی اس ساری صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اس کا سدباب کرنے سے گریزکرتی نظر آتی ہیں کیونکہ متعلقہ اداروں کو ان بورڈز سے سالانہ کروڑوں روپے کی آمدن ہوتی ہے،ان کی بلا سے بورڈ آندھی طوفان سے کسی کے گھر پرگریں، کسی کی گاڑی پر گریں یا چلتے پھرتے انسانوں پر یہ جا پڑیں ان سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔
یہ اس ملک کی برہنہ سچائی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار یا وطن عزیز کی باگ ڈور جن کے ہاتھوں میں قیام پاکستان سے چلتی چلی آرہی ہے انھوں نے اپنے آباؤ اجداد کے لیے اتنا کچھ جمع کرلیا ہے کہ اگر یہ اور ان کی اولاد ایک جگہ بیٹھ کر صرف نوٹ کھانا شروع کردیں تو ان کی زندگیاں تو ختم ہوجائیں مگر نوٹ ختم نہ ہوں۔ لیکن پھر بھی ان کی ''مال بناؤ مہم'' جاری و ساری ہے۔ تازہ ترین چشم کشا نیب کا کارنامہ دیکھ لیں جس نے سیکریٹری خزانہ بلوچستان کے دفتر اورگھر سے 67 کروڑ روپے، بے حساب ڈالرز، سونا اور زیورات برآمد کیے جو پانی کی ٹنکی، الماریوں،کمروں اور گاڑیوں میں چھپائے گئے تھے، ان اثاثوں کی گنتی میں 7 گھنٹے لگے اور نوٹ گننے کے لیے مشینیں منگوانا پڑیں۔
کراچی شہر جس میں آئے دن ٹریفک جام کے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں فٹ پاتھوں پر لوگوں کا چلنا محال ہوگیا ہے ،ان پر بھی سائن بورڈ آویزاں کرکے عوام کے بنیادی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ کراچی میں اعداد وشمار کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کی حدود میں 217 قانونی سائن بورڈ لگے ہوئے ہیں جو بلدیہ اور ڈی ایم سیز نے مختلف علاقوں میں کارروائی کرکے غیر قانونی سائن بورڈ ہٹا دیے ہیں جب کہ ضلع جنوبی سے 60، ضلع شرقی سے 38، ضلع غربی سے 25، کورنگی سے 956 غیر قانونی سائن بورڈ ہٹا دیے گئے ہیں۔
کنٹونمنٹ بورڈ فیصل میں 93 بل بورڈز اور ہورڈنگز غیر قانونی ہیں، کارساز اور ڈالمیا روڈ پر پاک بحریہ کے 31 ، سول ایوی ایشن کے 33 اسٹیشن ہیڈ کوارٹر کے راشد منہاس روڈ اور شارع فیصل پر 26، ایئرفورس کے 2 اور ریلوے کے سب سے زیادہ بل بورڈ اور ہورڈنگز کی تعداد ضلع شرقی میں ہے۔ اس حوالے سے ایک تکلیف دہ امر یہ ہے کہ بل بورڈ کی تشہیرکی خاطر درخت کٹوائے جا رہے ہیں۔
مقام رشک ہے کہ ایڈمنسٹریٹرکراچی نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کی روشنی میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر انتظام تمام کوریڈورز، شاہراہوں، پارکوں اورکھیل کے میدانوں کو فری ہورڈنگز، شاہراہیں اور پارکس بنانے کا فیصلہ کیا ہے اب ان شاہراہوں، پارکوں اورکھیل کے میدانوں سے ہر قسم کے سائن بورڈز، بل بورڈز اور دیگر تشہیری مواد کو ہٹا دیا جائے گا۔
ملکی منظر نامے پر گہری نگاہ رکھنے والے بخوبی اس بات سے واقف ہیں کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ دونوں نے متعلقہ اداروں بلکہ صوبائی حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ شہرکو سائن بورڈ سے پاک کیا جائے اور اس کا جواب بڑا سرسری اور روایتی پڑھنے اور سننے کو سبھی کو ملا کہ صوبائی حکومت عوامی مقامات پر لگائے جانے والے سائن بورڈ کے حوالے سے پالیسی بنانے پر غورکررہی ہے۔
جب جسٹس ثاقب شاد نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسارکیا کہ بتایا جائے کہ عوامی مقامات پر بڑے بڑے سائن بورڈ کس قانون کے تحت لگائے گئے، نئے کھمبے لگانے کی اجازت کون دیتا ہے؟ تو ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کوئی خاص قانون موجود نہیں، سبھی نے اپنے اپنے قوانین کے تحت بورڈ لگائے ہوئے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہم پاکستانی اپنے سلگتے مسائل کو کبھی حقیقت کو عینک لگا کر نہیں دیکھتے کیا ادارہ ہو یا کوئی ملک کی عنان اقتدار سنبھالے ہوئے سربراہ سبھی کا عالم یہی ہے اور یہی امر پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ہمارے ارباب اختیار نے ہمیشہ اہم ملکی مسائل سے صرف نظر ہی کیا، پہلو تہی کی اور پاکستان یوں ''مسائلستان'' بن کر رہ گیا۔ کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ وطن عزیز کی اصل بیماری منافقت ہے جسے اخلاقی انحطاط کا نام بھی دیا جاسکتا ہے اور اخلاقی زوال کا بھی لیکن ہم اس حد تک اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ اپنی اس اصل اور ہم گیر بیماری کا اعتراف بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم اس قدر ڈھیٹ یا رجعت پسند ہوچکے ہیں کہ دوسری اقوام کی خرابیوں کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے اور مردہ قوم ہوکر بھی ہم زندہ قوم ہیں کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتے۔
دراصل ہم بحیثیت قوم ''سیاست زدہ'' ہوچکے ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ ہماری سیاست منافقت کا دوسرا نام ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں بے عمل واعظ اور مبلغ بہت سے ہیں لیکن مصلح کوئی نہیں، سیاست دان ہزاروں ہیں لیکن لیڈر ایک بھی نہیں، یہاں سب مسلمان ہیں لیکن خدا کا خوف دلوں میں بٹھانے والے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ قوم انسان نما جانوروں کی بھیڑ بنتی جا رہی ہے۔ سیاست کی آنکھیں حیا سے اس قدر خالی یا عاری ہوجائیں گی کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
بہرحال جتنی تبدیلیاں جس قدر تیزی سے ملکی سطح کے ساتھ اہم ترین اور حساس ترین محاذوں پر واقع ہو رہی ہیں وہ حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان کن بھی ہیں۔ لیکن کیا ہے کہ بے کس یا بے بس ایک عام انسان امید ہی کو اپنا مستقبل اور اپنا اچھا وقت سمجھتا ہے اور یہ صحیح ہے کہ انسان کی امید اگر ٹوٹ جائے تو پھر سب کچھ مسمار ہوجاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے کراچی شہر میں عوامی مقامات، فلائی اوورز، گلیوں، گرین بیلٹس اور فٹ پاتھ سے 15 دن میں تمام بل بورڈز ہٹانے کا حکم صادر فرمایا ہے اور ہدایت کی ہے کہ جن اشتہاری کمپنیوں نے پیسے دے کر لائسنس یا لیز کے تحت عوامی مقامات پر یہ بورڈ نصب کیے ہیں ان کے کنٹریکٹ میں توسیع نہ کی جائے اور مذکورہ سائن بورڈ اور ہورڈنگز بھی 30 جون تک اکھاڑ دیے جائیں اور کہا ہے کہ عوام کے جان و مال کو خطرے میں ڈال کرکمائی نہ کی جائے۔
سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل لارجر بینچ نے یہ ریمارکس کراچی کے حوالے سے دیے ہیں لیکن حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو عدالت کی طرف سے دی جانے والی اس ہدایت کا کراچی، لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی جیسے تمام بڑے شہروں پر بھی ہوتا ہے کیونکہ اب تو حصول زرکو ہی اپنا مطمع نظر سمجھ لینے والے اداروں کے کرتا دھرتاؤں نے تقریباً تمام شہر ہی بل بورڈوں کے جنگل بنا دیے ہیں اور ان کی سڑکیں ہی نہیں فٹ پاتھ، اوور ہیڈ برج، فلائی اوورز، انڈر پاسز، گرین بیلٹس سمیت یا تو بل بورڈز کی زد میں آگئی ہیں یا ان پر قبضہ گروپوں نے اپنا تسلط کر رکھا ہے اور یہ صورتحال نہ صرف شہریوں کے جان و مال کے لیے بہت خطرات پیدا کر رہی ہے بلکہ ان کی آزادانہ نقل و حرکت کی راہ میں بھی رکاوٹ بن رہی ہے جس سے ان کے آئینی و سماجی حقوق تلف ہو رہے ہیں۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ صوبائی و ضلع حکومتیں بھی اس ساری صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اس کا سدباب کرنے سے گریزکرتی نظر آتی ہیں کیونکہ متعلقہ اداروں کو ان بورڈز سے سالانہ کروڑوں روپے کی آمدن ہوتی ہے،ان کی بلا سے بورڈ آندھی طوفان سے کسی کے گھر پرگریں، کسی کی گاڑی پر گریں یا چلتے پھرتے انسانوں پر یہ جا پڑیں ان سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔
یہ اس ملک کی برہنہ سچائی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار یا وطن عزیز کی باگ ڈور جن کے ہاتھوں میں قیام پاکستان سے چلتی چلی آرہی ہے انھوں نے اپنے آباؤ اجداد کے لیے اتنا کچھ جمع کرلیا ہے کہ اگر یہ اور ان کی اولاد ایک جگہ بیٹھ کر صرف نوٹ کھانا شروع کردیں تو ان کی زندگیاں تو ختم ہوجائیں مگر نوٹ ختم نہ ہوں۔ لیکن پھر بھی ان کی ''مال بناؤ مہم'' جاری و ساری ہے۔ تازہ ترین چشم کشا نیب کا کارنامہ دیکھ لیں جس نے سیکریٹری خزانہ بلوچستان کے دفتر اورگھر سے 67 کروڑ روپے، بے حساب ڈالرز، سونا اور زیورات برآمد کیے جو پانی کی ٹنکی، الماریوں،کمروں اور گاڑیوں میں چھپائے گئے تھے، ان اثاثوں کی گنتی میں 7 گھنٹے لگے اور نوٹ گننے کے لیے مشینیں منگوانا پڑیں۔
کراچی شہر جس میں آئے دن ٹریفک جام کے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں فٹ پاتھوں پر لوگوں کا چلنا محال ہوگیا ہے ،ان پر بھی سائن بورڈ آویزاں کرکے عوام کے بنیادی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ کراچی میں اعداد وشمار کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کی حدود میں 217 قانونی سائن بورڈ لگے ہوئے ہیں جو بلدیہ اور ڈی ایم سیز نے مختلف علاقوں میں کارروائی کرکے غیر قانونی سائن بورڈ ہٹا دیے ہیں جب کہ ضلع جنوبی سے 60، ضلع شرقی سے 38، ضلع غربی سے 25، کورنگی سے 956 غیر قانونی سائن بورڈ ہٹا دیے گئے ہیں۔
کنٹونمنٹ بورڈ فیصل میں 93 بل بورڈز اور ہورڈنگز غیر قانونی ہیں، کارساز اور ڈالمیا روڈ پر پاک بحریہ کے 31 ، سول ایوی ایشن کے 33 اسٹیشن ہیڈ کوارٹر کے راشد منہاس روڈ اور شارع فیصل پر 26، ایئرفورس کے 2 اور ریلوے کے سب سے زیادہ بل بورڈ اور ہورڈنگز کی تعداد ضلع شرقی میں ہے۔ اس حوالے سے ایک تکلیف دہ امر یہ ہے کہ بل بورڈ کی تشہیرکی خاطر درخت کٹوائے جا رہے ہیں۔
مقام رشک ہے کہ ایڈمنسٹریٹرکراچی نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کی روشنی میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر انتظام تمام کوریڈورز، شاہراہوں، پارکوں اورکھیل کے میدانوں کو فری ہورڈنگز، شاہراہیں اور پارکس بنانے کا فیصلہ کیا ہے اب ان شاہراہوں، پارکوں اورکھیل کے میدانوں سے ہر قسم کے سائن بورڈز، بل بورڈز اور دیگر تشہیری مواد کو ہٹا دیا جائے گا۔
ملکی منظر نامے پر گہری نگاہ رکھنے والے بخوبی اس بات سے واقف ہیں کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ دونوں نے متعلقہ اداروں بلکہ صوبائی حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ شہرکو سائن بورڈ سے پاک کیا جائے اور اس کا جواب بڑا سرسری اور روایتی پڑھنے اور سننے کو سبھی کو ملا کہ صوبائی حکومت عوامی مقامات پر لگائے جانے والے سائن بورڈ کے حوالے سے پالیسی بنانے پر غورکررہی ہے۔
جب جسٹس ثاقب شاد نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسارکیا کہ بتایا جائے کہ عوامی مقامات پر بڑے بڑے سائن بورڈ کس قانون کے تحت لگائے گئے، نئے کھمبے لگانے کی اجازت کون دیتا ہے؟ تو ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کوئی خاص قانون موجود نہیں، سبھی نے اپنے اپنے قوانین کے تحت بورڈ لگائے ہوئے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہم پاکستانی اپنے سلگتے مسائل کو کبھی حقیقت کو عینک لگا کر نہیں دیکھتے کیا ادارہ ہو یا کوئی ملک کی عنان اقتدار سنبھالے ہوئے سربراہ سبھی کا عالم یہی ہے اور یہی امر پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ہمارے ارباب اختیار نے ہمیشہ اہم ملکی مسائل سے صرف نظر ہی کیا، پہلو تہی کی اور پاکستان یوں ''مسائلستان'' بن کر رہ گیا۔ کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ وطن عزیز کی اصل بیماری منافقت ہے جسے اخلاقی انحطاط کا نام بھی دیا جاسکتا ہے اور اخلاقی زوال کا بھی لیکن ہم اس حد تک اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ اپنی اس اصل اور ہم گیر بیماری کا اعتراف بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم اس قدر ڈھیٹ یا رجعت پسند ہوچکے ہیں کہ دوسری اقوام کی خرابیوں کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے اور مردہ قوم ہوکر بھی ہم زندہ قوم ہیں کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتے۔
دراصل ہم بحیثیت قوم ''سیاست زدہ'' ہوچکے ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ ہماری سیاست منافقت کا دوسرا نام ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں بے عمل واعظ اور مبلغ بہت سے ہیں لیکن مصلح کوئی نہیں، سیاست دان ہزاروں ہیں لیکن لیڈر ایک بھی نہیں، یہاں سب مسلمان ہیں لیکن خدا کا خوف دلوں میں بٹھانے والے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ قوم انسان نما جانوروں کی بھیڑ بنتی جا رہی ہے۔ سیاست کی آنکھیں حیا سے اس قدر خالی یا عاری ہوجائیں گی کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
بہرحال جتنی تبدیلیاں جس قدر تیزی سے ملکی سطح کے ساتھ اہم ترین اور حساس ترین محاذوں پر واقع ہو رہی ہیں وہ حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان کن بھی ہیں۔ لیکن کیا ہے کہ بے کس یا بے بس ایک عام انسان امید ہی کو اپنا مستقبل اور اپنا اچھا وقت سمجھتا ہے اور یہ صحیح ہے کہ انسان کی امید اگر ٹوٹ جائے تو پھر سب کچھ مسمار ہوجاتا ہے۔