اخلاقی برتری
ہر سال کیلنڈر کی طرح بدلتے ہمارے قائدین، یہ کیوں کر ہوا؟ وزیراعظم ہوتا کیا ہے؟
ایک شوہر کی بیگم دعوت میں کہیں کھوگئیں۔ تھوڑی دیر یہاں وہاں ڈھونڈنے کے بعد اس نے لوگوں سے پوچھنا شروع کردیا۔ ایک آدمی نے مشورہ دیا کہ آپ اس بہت بڑی دعوت میں کسی خوب صورت خاتون سے گفتگو کرنے لگ جائیں۔ شوہر نے پوچھا کہ اس سے کیا ہوگا؟ میاں بیوی کی نفسیات سے واقف دانشور نے کہاکہ آپ کی بیگم جہاں کہیں بھی ہوں گی وہ فوراً آپ کے پاس آجائیں گی۔
ہوبہو وہی ہوا جو اس شخص نے کہا تھا، بیگم فوراً شوہر کے قریب آگئیں۔ بیویاں اپنے خاوند کے حوالے سے بڑی حساس ہوتی اور بہت کم درگزر کرتی ہیں۔ ایک ہرجائی شوہر اور ایک رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے خاوند کا واقعہ بھی ہمارے کالم کا حصہ ہے، ہم دیکھیں گے کہ اخلاقی برتری کیا ہوتی ہے اور انسان اسے کس طرح کھو دیتا ہے۔ سیاسی گفتگو کے ساتھ ساتھ ایک میاں کی بات بھی ہوگی کہ کسی طرح اس نے بیوی کی نظر میں اخلاقی برتری کھودی۔
ایک دیہاتی قائداعظم کی تقریر پر تالیاں بجارہا تھا۔ ایک شخص نے پوچھا کہ جناح صاحب تو انگریزی میں تقریر کررہے ہیں جو تم نہیں جانتے، پھر تالیاں کیوں کر بجارہے ہو۔ اس دیہاتی نے کہا کہ ''میں یہ تو نہیں جانتا کہ قائد کیا کہہ رہے ہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں''۔ یہ ہوتی ہے اخلاقی برتری۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے وزیراعظم بنے۔
گورنر جنرل غلام محمد نے انھیں برطرف کردیا۔ اسمبلی چند دن پہلے بجٹ پاس کرکے خواجہ صاحب پر اعتماد کا اظہار کرچکی تھی، یوں فوراً ہی محمد علی بوگرہ کو قائد ایوان مان کر اسمبلی اپنی اخلاقی برتری کھو بیٹھی۔ ان ہی گورنر جنرل نے اس اسمبلی کو ڈیڑھ سال بعد گھر بھیج دیا۔ بوگرہ کے بعد چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون پاکستان کے وزیراعظم بنتے رہے۔
ہر سال کیلنڈر کی طرح بدلتے ہمارے قائدین، یہ کیوں کر ہوا؟ وزیراعظم ہوتا کیا ہے؟ جو ملک بھر کا سب سے مقبول ترین شخص ہو، جیسے لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف، ہر سال ڈائریوں کی طرح بدلتے پرائم منسٹرز نہ ملک بھر میں مقبول تھے اور نہ ہی ان کی سیاسی پارٹیاں مضبوط تھیں۔ یوں پاکستان کی تاریخ کے ابتدائی وزرائے اعظم، سربراہ مملکت کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ثابت ہونے، عوامی مقبولیت نہ ہونے پر وہ اخلاقی برتری سے محروم تھے۔
ایوب خان کا ملک بھر نے استقبال کیا۔ ان کے دور میں معاشی ترقی بھی ہوئی۔ انھوں نے آئین بھی دیا اور انتخابات بھی کروائے۔ ان تمام تر حقیقتوں کے باوجود فیلڈ مارشل صحیح معنوں میں منتخب صدر نہ تھے۔ ایسے منتخب صدر جیسے امریکا و فرانس اور آج کے ترکی میں ہوتے ہیں۔ یوں جب ایوب کے خلاف تحریک چلی تو محسوس ہوا کہ عوام میں ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ بنیادی جمہوریت کا نظام طلبا، وکلا، صحافیوں و مزدوروں کے نعروں کا بوجھ برداشت نہ کرسکا۔
یہی صورت حال یحییٰ خان کے دور میں بھی رہی۔ ابتدا میں انھوں نے عوامی مطالبے مان کر مقبولیت حاصل کی۔ پارلیمانی نظام، بالغ رائے دہی، ون یونٹ کا خاتمہ اور ون مین ون ووٹ، جب اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ آیا تو دو مقبول ترین شخصیات ان کے سامنے تھے۔ بھٹو اور مجیب کی بیلٹ کی طاقت یحییٰ خان کی بلٹ کی طاقت سے کہیں بڑھ کر تھی۔ یوں اقتدار کی لالچ کی بدولت وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ولن بن کر سامنے آئے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد ان کے اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہ تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو پر گفتگو سے پہلے اگر ایک جوڑے کی بات ہوجائے۔ میاں بیوی غربت کے دن گزار رہے تھے کہ شوہر کو باہر جانے کا موقع مل گیا۔ تین بچوں کے باپ نے شروع میں تو خرچہ بھجوایا اور پھر بند کردیا۔ پتہ چلا کہ کسی گوری میم سے شادی کرلی ہے۔ یہاں تن تنہا اور جوان جہان عورت۔ عزم و ہمت کی پیکر خاتون نے تین چھوٹے چھوٹے بچوں کو پالنے کے لیے اسکول ٹیچر کی جاب کرلی۔ وقت گزرتا گیا اور بچے بڑے ہوتے گئے۔ خاتون نائب پرنسپل بنیں، اس دوران انھوں نے ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا اور کچھ عرصے بعد اپنا اسکول قائم کرلیا۔
اب کالج جانے والے بچے بھی والدہ کا ہاتھ بٹاتے۔ معاشرے میں مقام بنانے کے علاوہ معاشی خوشحالی بھی پالی۔ یہ پی ٹی وی کے سنہرے دور کا ایک ڈرامہ تھا۔ صبح خاتون جب اسکول جانے کی تیاری کررہی ہوتی ہیں تو ان کے شوہر آدھمکتے ہیں۔ دربدر اور برے حال میں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گوری میری بیٹی کے علاوہ میری تمام جمع پونجی بھی لے گئی اور مجھے ڈی پورٹ کروادیا۔ خاتون جلدی میں ہوتی ہیں، ملازم سے کہتی ہے کہ یہ ہمارے جاننے والے ہیں، ان کی چائے بسکٹ سے تواضع کریں۔ گھر کے حالات اور بچوں کی دیوار پر لگی تصویروں سے بے وفا شوہر سمجھ جاتا ہے کہ اس کی پرعزم بیگم نے بچوں کی اچھی تربیت کی ہے۔ شام کو بچے بھی آجاتے ہیں۔ ہرجائی شوہر بیوی بچوں کے سامنے فریاد کرتا ہے کہ اس کی خطا معاف کردی جائے۔
ماں سب کچھ بچوں پر چھوڑ دیتی ہے۔ تینوں کہتے ہیں کہ ''جب ہم کمزور تھے تو آپ ہم کو چھوڑ کر چلے گئے، ہماری ماں نے زمانے سے لڑ کر ہمیں پالا ہے، اب ہمارے گھر میں آپ کی گنجائش نہیں''۔ بوجھل قدموں سے شوہر واپس جاتا ہے کہ وہ اخلاقی برتری کھوچکا ہوتا ہے۔ پاکستان کے مقبول ترین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دھاندلی کے شدید ترین الزام کے بعد اخلاقی برتری کھودی تھی۔ اگر ووٹ کا تقدس برقرار رہتا تو کسی کی جرأت نہ ہوتی کہ انھیں اقتدار یا زندگی سے محروم کرسکتا۔ ایسی ہی صورت حال امریکی صدر نکسن کے ساتھ پیش آئی جو واٹر گیٹ اسکینڈل کے بعد اخلاقی برتری کھو جانے پر وائٹ ہاؤس سے رخصت ہوئے۔
نواز شریف کی بات پہلے کرتے ہیں اور پھر ایک شوہر کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کی بات کریں گے۔ بے نظیر جیسی مقبول، پڑھی لکھی اور کرشماتی شخصیت کے مقابل پاکستان کے عوام نے نواز شریف کو مقبولیت بخشی۔ پچھلی صدی کا آخری عشرہ ان دو نوجوانوں کا عشرہ تھا۔ دونوں نے دو دو مرتبہ ادھوری حکومتیں کیں کہ دونوں ایک دوسرے کی حکومت کو گرانے میں فوراً ہی لگ جاتے۔ مشرف نے نواز شریف کی حکومت ختم کرکے انھیں جلاوطن کردیا۔ ان برے حالات کے باوجود جب شریف برادران حرمین شریفین میں تھے تب بھی وہ ہائی مورال گراؤنڈ پر تھے۔
اس میں کچھ کمی اس وقت آئی جب معاہدے سے انکار کے بعد پانچ سال کی بات کی گئی لیکن وہ دس سال کا نکلا۔ اس کے باوجود بھی کہا گیا کہ قیدی اور جیلر کے درمیان کوئی معاہدہ بھی ہوتا ہے۔ یوں رائے ونڈ پہلے لاہور اور پھر اسلام آباد کے تخت پر بھی حکمرانی کی سند پاگیا۔ عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگایا اور 126 دن کا دھرنا دیا۔ پارلیمنٹ میاں صاحب کی پشت پر کھڑی ہوگئی کہ شاید وہ ہائی مورال گراؤنڈ پر تھے یا اپوزیشن موقع دینا چاہتی تھی۔
پانامہ لیکس میں نواز شریف کے بچوں کے نام آرہے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ وہ اٹھائے گئے سوالوں کے جوابات دے پاتے ہیں؟ عوام اور پارلیمنٹ کو مطمئن کرنا وزیراعظم کی ذمے داری ہے، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون یہ کرچکے ہیں۔ مگر وہاں بھی سوال اخلاقی برتری کا تھا۔ وہ اخلاقی برتری جو بل کلنٹن اپنی سیکریٹری مونیکا لیونسکی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر کھوچکے تھے۔ تصاویر و ویڈیوز میں بے ساختگی اور بے باکی کے باوجود ہلیری کلنٹن نے درگزر کیا۔ جب بیوی نے معاف کردیا تو امریکی عوام نے بھی جھوٹ کو نظر انداز کردیا۔ قائد و لیاقت کے بعد بھٹو و بے نظیر اور اب میاں صاحب پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں، نواز شریف تاریخ کے سامنے سرخرو ہوں گے اگر وہ پانامہ لیکس پر اطمینان بخش جواب دے پائے اور قائم رکھ پائے اپنی اخلاقی برتری۔
ہوبہو وہی ہوا جو اس شخص نے کہا تھا، بیگم فوراً شوہر کے قریب آگئیں۔ بیویاں اپنے خاوند کے حوالے سے بڑی حساس ہوتی اور بہت کم درگزر کرتی ہیں۔ ایک ہرجائی شوہر اور ایک رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے خاوند کا واقعہ بھی ہمارے کالم کا حصہ ہے، ہم دیکھیں گے کہ اخلاقی برتری کیا ہوتی ہے اور انسان اسے کس طرح کھو دیتا ہے۔ سیاسی گفتگو کے ساتھ ساتھ ایک میاں کی بات بھی ہوگی کہ کسی طرح اس نے بیوی کی نظر میں اخلاقی برتری کھودی۔
ایک دیہاتی قائداعظم کی تقریر پر تالیاں بجارہا تھا۔ ایک شخص نے پوچھا کہ جناح صاحب تو انگریزی میں تقریر کررہے ہیں جو تم نہیں جانتے، پھر تالیاں کیوں کر بجارہے ہو۔ اس دیہاتی نے کہا کہ ''میں یہ تو نہیں جانتا کہ قائد کیا کہہ رہے ہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں''۔ یہ ہوتی ہے اخلاقی برتری۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے وزیراعظم بنے۔
گورنر جنرل غلام محمد نے انھیں برطرف کردیا۔ اسمبلی چند دن پہلے بجٹ پاس کرکے خواجہ صاحب پر اعتماد کا اظہار کرچکی تھی، یوں فوراً ہی محمد علی بوگرہ کو قائد ایوان مان کر اسمبلی اپنی اخلاقی برتری کھو بیٹھی۔ ان ہی گورنر جنرل نے اس اسمبلی کو ڈیڑھ سال بعد گھر بھیج دیا۔ بوگرہ کے بعد چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون پاکستان کے وزیراعظم بنتے رہے۔
ہر سال کیلنڈر کی طرح بدلتے ہمارے قائدین، یہ کیوں کر ہوا؟ وزیراعظم ہوتا کیا ہے؟ جو ملک بھر کا سب سے مقبول ترین شخص ہو، جیسے لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف، ہر سال ڈائریوں کی طرح بدلتے پرائم منسٹرز نہ ملک بھر میں مقبول تھے اور نہ ہی ان کی سیاسی پارٹیاں مضبوط تھیں۔ یوں پاکستان کی تاریخ کے ابتدائی وزرائے اعظم، سربراہ مملکت کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ثابت ہونے، عوامی مقبولیت نہ ہونے پر وہ اخلاقی برتری سے محروم تھے۔
ایوب خان کا ملک بھر نے استقبال کیا۔ ان کے دور میں معاشی ترقی بھی ہوئی۔ انھوں نے آئین بھی دیا اور انتخابات بھی کروائے۔ ان تمام تر حقیقتوں کے باوجود فیلڈ مارشل صحیح معنوں میں منتخب صدر نہ تھے۔ ایسے منتخب صدر جیسے امریکا و فرانس اور آج کے ترکی میں ہوتے ہیں۔ یوں جب ایوب کے خلاف تحریک چلی تو محسوس ہوا کہ عوام میں ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ بنیادی جمہوریت کا نظام طلبا، وکلا، صحافیوں و مزدوروں کے نعروں کا بوجھ برداشت نہ کرسکا۔
یہی صورت حال یحییٰ خان کے دور میں بھی رہی۔ ابتدا میں انھوں نے عوامی مطالبے مان کر مقبولیت حاصل کی۔ پارلیمانی نظام، بالغ رائے دہی، ون یونٹ کا خاتمہ اور ون مین ون ووٹ، جب اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ آیا تو دو مقبول ترین شخصیات ان کے سامنے تھے۔ بھٹو اور مجیب کی بیلٹ کی طاقت یحییٰ خان کی بلٹ کی طاقت سے کہیں بڑھ کر تھی۔ یوں اقتدار کی لالچ کی بدولت وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ولن بن کر سامنے آئے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد ان کے اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہ تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو پر گفتگو سے پہلے اگر ایک جوڑے کی بات ہوجائے۔ میاں بیوی غربت کے دن گزار رہے تھے کہ شوہر کو باہر جانے کا موقع مل گیا۔ تین بچوں کے باپ نے شروع میں تو خرچہ بھجوایا اور پھر بند کردیا۔ پتہ چلا کہ کسی گوری میم سے شادی کرلی ہے۔ یہاں تن تنہا اور جوان جہان عورت۔ عزم و ہمت کی پیکر خاتون نے تین چھوٹے چھوٹے بچوں کو پالنے کے لیے اسکول ٹیچر کی جاب کرلی۔ وقت گزرتا گیا اور بچے بڑے ہوتے گئے۔ خاتون نائب پرنسپل بنیں، اس دوران انھوں نے ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا اور کچھ عرصے بعد اپنا اسکول قائم کرلیا۔
اب کالج جانے والے بچے بھی والدہ کا ہاتھ بٹاتے۔ معاشرے میں مقام بنانے کے علاوہ معاشی خوشحالی بھی پالی۔ یہ پی ٹی وی کے سنہرے دور کا ایک ڈرامہ تھا۔ صبح خاتون جب اسکول جانے کی تیاری کررہی ہوتی ہیں تو ان کے شوہر آدھمکتے ہیں۔ دربدر اور برے حال میں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گوری میری بیٹی کے علاوہ میری تمام جمع پونجی بھی لے گئی اور مجھے ڈی پورٹ کروادیا۔ خاتون جلدی میں ہوتی ہیں، ملازم سے کہتی ہے کہ یہ ہمارے جاننے والے ہیں، ان کی چائے بسکٹ سے تواضع کریں۔ گھر کے حالات اور بچوں کی دیوار پر لگی تصویروں سے بے وفا شوہر سمجھ جاتا ہے کہ اس کی پرعزم بیگم نے بچوں کی اچھی تربیت کی ہے۔ شام کو بچے بھی آجاتے ہیں۔ ہرجائی شوہر بیوی بچوں کے سامنے فریاد کرتا ہے کہ اس کی خطا معاف کردی جائے۔
ماں سب کچھ بچوں پر چھوڑ دیتی ہے۔ تینوں کہتے ہیں کہ ''جب ہم کمزور تھے تو آپ ہم کو چھوڑ کر چلے گئے، ہماری ماں نے زمانے سے لڑ کر ہمیں پالا ہے، اب ہمارے گھر میں آپ کی گنجائش نہیں''۔ بوجھل قدموں سے شوہر واپس جاتا ہے کہ وہ اخلاقی برتری کھوچکا ہوتا ہے۔ پاکستان کے مقبول ترین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دھاندلی کے شدید ترین الزام کے بعد اخلاقی برتری کھودی تھی۔ اگر ووٹ کا تقدس برقرار رہتا تو کسی کی جرأت نہ ہوتی کہ انھیں اقتدار یا زندگی سے محروم کرسکتا۔ ایسی ہی صورت حال امریکی صدر نکسن کے ساتھ پیش آئی جو واٹر گیٹ اسکینڈل کے بعد اخلاقی برتری کھو جانے پر وائٹ ہاؤس سے رخصت ہوئے۔
نواز شریف کی بات پہلے کرتے ہیں اور پھر ایک شوہر کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کی بات کریں گے۔ بے نظیر جیسی مقبول، پڑھی لکھی اور کرشماتی شخصیت کے مقابل پاکستان کے عوام نے نواز شریف کو مقبولیت بخشی۔ پچھلی صدی کا آخری عشرہ ان دو نوجوانوں کا عشرہ تھا۔ دونوں نے دو دو مرتبہ ادھوری حکومتیں کیں کہ دونوں ایک دوسرے کی حکومت کو گرانے میں فوراً ہی لگ جاتے۔ مشرف نے نواز شریف کی حکومت ختم کرکے انھیں جلاوطن کردیا۔ ان برے حالات کے باوجود جب شریف برادران حرمین شریفین میں تھے تب بھی وہ ہائی مورال گراؤنڈ پر تھے۔
اس میں کچھ کمی اس وقت آئی جب معاہدے سے انکار کے بعد پانچ سال کی بات کی گئی لیکن وہ دس سال کا نکلا۔ اس کے باوجود بھی کہا گیا کہ قیدی اور جیلر کے درمیان کوئی معاہدہ بھی ہوتا ہے۔ یوں رائے ونڈ پہلے لاہور اور پھر اسلام آباد کے تخت پر بھی حکمرانی کی سند پاگیا۔ عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگایا اور 126 دن کا دھرنا دیا۔ پارلیمنٹ میاں صاحب کی پشت پر کھڑی ہوگئی کہ شاید وہ ہائی مورال گراؤنڈ پر تھے یا اپوزیشن موقع دینا چاہتی تھی۔
پانامہ لیکس میں نواز شریف کے بچوں کے نام آرہے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ وہ اٹھائے گئے سوالوں کے جوابات دے پاتے ہیں؟ عوام اور پارلیمنٹ کو مطمئن کرنا وزیراعظم کی ذمے داری ہے، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون یہ کرچکے ہیں۔ مگر وہاں بھی سوال اخلاقی برتری کا تھا۔ وہ اخلاقی برتری جو بل کلنٹن اپنی سیکریٹری مونیکا لیونسکی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر کھوچکے تھے۔ تصاویر و ویڈیوز میں بے ساختگی اور بے باکی کے باوجود ہلیری کلنٹن نے درگزر کیا۔ جب بیوی نے معاف کردیا تو امریکی عوام نے بھی جھوٹ کو نظر انداز کردیا۔ قائد و لیاقت کے بعد بھٹو و بے نظیر اور اب میاں صاحب پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں، نواز شریف تاریخ کے سامنے سرخرو ہوں گے اگر وہ پانامہ لیکس پر اطمینان بخش جواب دے پائے اور قائم رکھ پائے اپنی اخلاقی برتری۔