خوش آمدید جناب وزیراعظم
وزیراعظم صاحب اپوزیشن کی فرمائش کڑوی سہی، لیکن کڑوا گھونٹ ہمیشہ بڑوں کو ہی پینا پڑتا ہے۔
خبر ہے کہ پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد جناب وزیراعظم پہلی دفعہ پارلیمنٹ میں جلوہ افروز ہو رہے ہیں جہاں وہ خود پر اور اپنے اہل خانہ پر لگے الزامات کے بارے میں اظہار خیال کریں گے۔ حکومت ارکان سے زیادہ وزیراعظم کی آمد کا انتظار تو اپوزیشن کو ہے کیونکہ اُن کو اپنے 7 سوالوں کے جوابات جو چاہیے۔
پارلیمنٹ کی کارروائی جیسی بھی ہو، لیکن ہمیں اِس بات کی بے حد خوشی ہے کہ عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے ان ارکان کو جس پارلیمنٹ میں بھیجا ہے یہ نمائندے وہیں پر ایک دوسرے سے گلے شکوے کریں گے۔ پھر اگر یہ کارروائی کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور حکومت اور اپوزیشن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوگئے تو یہ عین ممکن ہے کہ عوام کو سڑکوں پر لگے ڈرامے اور اسٹیج شو سے سکون مل جائے گا۔ ہاں ٹی وی پر یہ ضرور لڑتے دکھائی دینگے جس کسی نے بھی انجوائے کرنا ہو ٹی وی لگا کر اسکرین کے آگے بیٹھ جائے خوب مزہ آئے گا۔
پانامہ لیکس نے شاہی خاندان، سیاستدانوں، سرمایہ داروں کی آف شورکمپنیوں کا پردہ کیا چاک کیا کہ ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کو مختلف القابات سے نوازنے پر بات نہیں رکی بلکہ ایک دوسرے کے گھروں میں جانے تک کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں، اور ایسا کرنے کی صورت میں ٹانگیں توڑنے کی دھمکیوں سے اجتناب نہیں کیا گیا۔
وزیراعظم نے خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ اُن سمیت سب کا احتساب ہونا چاہیے جبکہ اپوزیشن کہتی ہے ہاں احتساب سب کا ہونا چاہیے لیکن اس کا آغاز وزیراعظم کی ذات سے ہونا چاہیے۔ ویسے ایک بات سوچنے کی ہے کہ جو لوگ حکومت سے آف شور کمپنیوں کے بارے میں جوابات مانگ رہے ہیں ان کی تو اپنی بھی آف شور کمپنیاں ہیں یا ماضی میں رہی ہیں۔ ایک چور کیا دوسرے چور سے جواب مانگ سکتا ہے؟ حساب تو عوام کو مانگنا چاہیے نا جو سوائے سیاسی تقریروں کے کہیں نظر نہیں آتی۔
ماضی کی فائلوں سے گرد اٹھائی جائے تو اس کمیشن اور پانامہ پیپرز پر شور محض سیاسی اسٹنٹ نظر آتا ہے۔ پاکستان کی 69 سالہ تاریخ میں جب بھی کرپشن، کمیشن کیخلاف شور مچا، چند دن ہلچل پیدا کرنے کے بعد خود ختم ہوگیا یا ختم کردیا گیا۔ ہر دفعہ عوام کی بات کی گئی، عوام کی پائی پائی وصول کرنے کے دعوے کیے گئے، علی بابا اور چالیس چوروں کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا نعرہ بلند کیا گیا۔ لیکن کوئی ہے جو پوچھے کہ جناب کہاں گئے وہ علی بابا اور چالیس چور؟ حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاست کا دستور بن چکا ہے کہ اقتدار میں ہو تو کھاؤ پیو موج اڑاو اور اپوزیشن میں ہو تو شور مچاتے رہو۔
یہاں عمران خان کو وزیراعظم بننے کی جلدی ہے، بلاول کو اپنی پارٹی کی باری آرام نہیں لینے دے رہی، پیپلز پارٹی اپنے دو وزرائے اعظم کو عدالتوں میں گھسیٹے جانے کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ رہی باقی اپوزیشن تو وہ ہمیشہ تماشائی رہی ہے کبھی آمروں کے پیچھے تالیاں پیٹتی ہے تو کبھی دیگر حکومتی خیموں میں پناہ لیتی نظر آئی ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کی صفوں میں لوٹ مار کرنیوالے موجود ہیں، اس لیے یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ معاملات ٹھیک سمت کی طرف جائیں۔ دونوں ''رولا، شولا پائی رکھو'' کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
اگر یہ لوگ عوام سے مخلص ہوتے تو اب تک آئس لینڈ، برطانیہ، نیوزی لینڈ کی طرز پر معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی جاچکی ہوتی مگر افسوس کہ دونوں یہ نہیں چاہتے۔ دونوں عوام کی توجہ اصل ایشوز سے ہٹا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے تین سال نکال لیے ہیں، مزید دو سال بھی اسی شور میں نکل جائیں گے اور اپوزیشن بھی حکمران پارٹی کو گندا کرنے اور آنیوالے انتخابات کی تیاری میں لگی ہوئی ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ اب اگر وزیراعظم صاحب اور ہماری پیاری اپوزیشن اس معاملے کو ایوان میں لے ہی آئی ہے تو اِس کوشش کا کوئی بہتر حل نکلنا چاہیئے۔ وگرنہ یاد رکھے کہ ہر ڈھلتی شام کے ساتھ زندگی کا ایک دن غروب ہوجاتا ہے، صبح کا سورج کس نے دیکھا؟
پاکستان میں اقتدار کا سورج کب غروب ہوجائے، سیاست کی بساط کب لپیٹ دی جائے کسی کو خبر نہیں۔ جس نے تکبر کیا یا حماقت کی وہ دھڑام سے نیچے آگرا۔ خواہ ٹرک ہو یا لفٹر، کرسی ہو یا کنٹینر، جو چیز خدا کو ناپسند ہے وہ ٹھیک ہو ہی نہیں سکتی۔ ابھی بھی وقت ہے اپنی روش بدل لیجئے۔ یہ جو 20 کروڑ گوشت پوست کے انسان ہیں جو بظاہر گونگے، بہرے اور اندھے نظر آتے ہیں، حقیقت میں یہ ایسے ہیں نہیں۔ ان کا ضمیر نیند میں ہے، دماغ سن ہے جس دن جاگ گیا وہ اقتدار اور سیاست کا آخری دن ہوگا۔
وزیراعظم صاحب اپوزیشن کی فرمائش کڑوی سہی، کڑوا گھونٹ ہمیشہ بڑوں کو ہی پینا پڑتا ہے بچے تو ضد کرتے ہی رہتے ہیں۔ اس لیے سب کی بھلائی اِسی میں ہے کہ سب کچھ سچ سچ بتادیں۔ کیونکہ پارلیمنٹ رہے گی تو کاروبار سیاست بھی چلتا رہے گا۔ آپ کی حماقتوں کی وجہ سے خدانخواستہ کوئی گڑبڑ ہوئی تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
[poll id="1114"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پارلیمنٹ کی کارروائی جیسی بھی ہو، لیکن ہمیں اِس بات کی بے حد خوشی ہے کہ عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے ان ارکان کو جس پارلیمنٹ میں بھیجا ہے یہ نمائندے وہیں پر ایک دوسرے سے گلے شکوے کریں گے۔ پھر اگر یہ کارروائی کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور حکومت اور اپوزیشن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوگئے تو یہ عین ممکن ہے کہ عوام کو سڑکوں پر لگے ڈرامے اور اسٹیج شو سے سکون مل جائے گا۔ ہاں ٹی وی پر یہ ضرور لڑتے دکھائی دینگے جس کسی نے بھی انجوائے کرنا ہو ٹی وی لگا کر اسکرین کے آگے بیٹھ جائے خوب مزہ آئے گا۔
پانامہ لیکس نے شاہی خاندان، سیاستدانوں، سرمایہ داروں کی آف شورکمپنیوں کا پردہ کیا چاک کیا کہ ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کو مختلف القابات سے نوازنے پر بات نہیں رکی بلکہ ایک دوسرے کے گھروں میں جانے تک کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں، اور ایسا کرنے کی صورت میں ٹانگیں توڑنے کی دھمکیوں سے اجتناب نہیں کیا گیا۔
وزیراعظم نے خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ اُن سمیت سب کا احتساب ہونا چاہیے جبکہ اپوزیشن کہتی ہے ہاں احتساب سب کا ہونا چاہیے لیکن اس کا آغاز وزیراعظم کی ذات سے ہونا چاہیے۔ ویسے ایک بات سوچنے کی ہے کہ جو لوگ حکومت سے آف شور کمپنیوں کے بارے میں جوابات مانگ رہے ہیں ان کی تو اپنی بھی آف شور کمپنیاں ہیں یا ماضی میں رہی ہیں۔ ایک چور کیا دوسرے چور سے جواب مانگ سکتا ہے؟ حساب تو عوام کو مانگنا چاہیے نا جو سوائے سیاسی تقریروں کے کہیں نظر نہیں آتی۔
ماضی کی فائلوں سے گرد اٹھائی جائے تو اس کمیشن اور پانامہ پیپرز پر شور محض سیاسی اسٹنٹ نظر آتا ہے۔ پاکستان کی 69 سالہ تاریخ میں جب بھی کرپشن، کمیشن کیخلاف شور مچا، چند دن ہلچل پیدا کرنے کے بعد خود ختم ہوگیا یا ختم کردیا گیا۔ ہر دفعہ عوام کی بات کی گئی، عوام کی پائی پائی وصول کرنے کے دعوے کیے گئے، علی بابا اور چالیس چوروں کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا نعرہ بلند کیا گیا۔ لیکن کوئی ہے جو پوچھے کہ جناب کہاں گئے وہ علی بابا اور چالیس چور؟ حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاست کا دستور بن چکا ہے کہ اقتدار میں ہو تو کھاؤ پیو موج اڑاو اور اپوزیشن میں ہو تو شور مچاتے رہو۔
یہاں عمران خان کو وزیراعظم بننے کی جلدی ہے، بلاول کو اپنی پارٹی کی باری آرام نہیں لینے دے رہی، پیپلز پارٹی اپنے دو وزرائے اعظم کو عدالتوں میں گھسیٹے جانے کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ رہی باقی اپوزیشن تو وہ ہمیشہ تماشائی رہی ہے کبھی آمروں کے پیچھے تالیاں پیٹتی ہے تو کبھی دیگر حکومتی خیموں میں پناہ لیتی نظر آئی ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کی صفوں میں لوٹ مار کرنیوالے موجود ہیں، اس لیے یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ معاملات ٹھیک سمت کی طرف جائیں۔ دونوں ''رولا، شولا پائی رکھو'' کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
اگر یہ لوگ عوام سے مخلص ہوتے تو اب تک آئس لینڈ، برطانیہ، نیوزی لینڈ کی طرز پر معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی جاچکی ہوتی مگر افسوس کہ دونوں یہ نہیں چاہتے۔ دونوں عوام کی توجہ اصل ایشوز سے ہٹا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے تین سال نکال لیے ہیں، مزید دو سال بھی اسی شور میں نکل جائیں گے اور اپوزیشن بھی حکمران پارٹی کو گندا کرنے اور آنیوالے انتخابات کی تیاری میں لگی ہوئی ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ اب اگر وزیراعظم صاحب اور ہماری پیاری اپوزیشن اس معاملے کو ایوان میں لے ہی آئی ہے تو اِس کوشش کا کوئی بہتر حل نکلنا چاہیئے۔ وگرنہ یاد رکھے کہ ہر ڈھلتی شام کے ساتھ زندگی کا ایک دن غروب ہوجاتا ہے، صبح کا سورج کس نے دیکھا؟
پاکستان میں اقتدار کا سورج کب غروب ہوجائے، سیاست کی بساط کب لپیٹ دی جائے کسی کو خبر نہیں۔ جس نے تکبر کیا یا حماقت کی وہ دھڑام سے نیچے آگرا۔ خواہ ٹرک ہو یا لفٹر، کرسی ہو یا کنٹینر، جو چیز خدا کو ناپسند ہے وہ ٹھیک ہو ہی نہیں سکتی۔ ابھی بھی وقت ہے اپنی روش بدل لیجئے۔ یہ جو 20 کروڑ گوشت پوست کے انسان ہیں جو بظاہر گونگے، بہرے اور اندھے نظر آتے ہیں، حقیقت میں یہ ایسے ہیں نہیں۔ ان کا ضمیر نیند میں ہے، دماغ سن ہے جس دن جاگ گیا وہ اقتدار اور سیاست کا آخری دن ہوگا۔
وزیراعظم صاحب اپوزیشن کی فرمائش کڑوی سہی، کڑوا گھونٹ ہمیشہ بڑوں کو ہی پینا پڑتا ہے بچے تو ضد کرتے ہی رہتے ہیں۔ اس لیے سب کی بھلائی اِسی میں ہے کہ سب کچھ سچ سچ بتادیں۔ کیونکہ پارلیمنٹ رہے گی تو کاروبار سیاست بھی چلتا رہے گا۔ آپ کی حماقتوں کی وجہ سے خدانخواستہ کوئی گڑبڑ ہوئی تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
[poll id="1114"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔