سچ اور صرف سچ

یہ میرا ایکسپریس میں 100واں کالم ہے 20 مئی 2014 سے اس کالم تک یہ سفر اس قدر ہے

یہ میرا ایکسپریس میں 100واں کالم ہے 20 مئی 2014 سے اس کالم تک یہ سفر اس قدر ہے جتنا ابھی میں نے عرض کیا۔ میں نے اس اعتبار سے تقریباً 500 صفحات کتابی لکھ دیے ہیں جن میں اس ملک کے لوگوں کی منافقت، محبت، ریاکاری، اعتبار، دھوکے اور سیاست کی جادوگری اور سیاست کے جادوگروں کے کمالات موجود ہیں، یہ پتھر کو روٹی اور روٹی کو پتھر کر دینے کے ماہر ہیں اور یہ ہر جگہ ہیں ہر جماعت میں ہیں۔ ہر پارٹی میں ہیں اور عوام ان تمام جادوگروں کی پرستش کرتے ہیں ان کے سیاسی علوم کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے لیے جان کی بازیاں تک لگاتے ہیں۔ کسی تصادم میں جو ہمیشہ سیاسی ہوتا ہے لیڈر کا بھانجا بھتیجا تک نہیں مارا گیا۔ مرے تو عوام اور ان کے بچے، عوام تصادم میں اور بچے بھوک سے، انھیں کاغذ کی روٹیاں تقسیم کی گئیں۔ پرچیوں پمفلٹ کی صورت میں ان سے ان کی روٹی چھین لی گئی۔

ایک انصاف والے میدان میں اترے۔ انھیں بھی سب کچھ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لیے چاہیے بلوچستان تو وہ شاید ڈر کے مارے جاتے ہی نہیں وہاں اصل میں سرداروں کے ہاتھ میں سب کچھ ہے اور سرداروں کے ہاتھ میں کیا ہوتا ہے اچھی طرح جانتے ہیں۔ سندھ کو سیاسی پارٹیوں نے شکارگاہ بنا رکھا ہے، جب اپنے علاقے سے اکتا گئے سندھ چلے آئے، سندھ کی دو پارٹیوں پر لفظوں کے تیر برسائے اور واپس چلے گئے، سندھ کو دیا کیا۔

جو انصاف کے ساتھ ہیں وہ بھی ایک مخصوص علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، رینجرز اور حکومت کی چھتری میں بھی وہ عوام کا شکار نہ کرسکے اور شکست ہی ملی انھیں بلدیات میں بھی اور قومی صوبائی میں بھی۔ یہ سب روز روشن کی طرح ہے مگر کراچی سیاسی ہدف ہے پورا ملک کراچی، کراچی چلاتا رہتا ہے ،کراچی کے لیے کرتا کچھ نہیں، کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص اور دوسرے شہر سندھ کا حصہ ہیں، صرف کراچی کو کیوں سندھ سمجھ لیا گیا ہے اور کیوں وہاں سے لوگ سندھ کو آزاد کرکے قید کرنے چلے آتے ہیں۔ یہاں تو پہلے ہی کوٹہ سسٹم نے سندھ کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ نااہلوں کی ایک برات افسر شاہی میں داخل ہے اور ہوتی جا رہی ہے مختلف دروازوں سے، سندھ کو دوسروں سے نہیں خود اپنوں سے خطرہ ہے جو اس کی نیا ڈبو دیں گے۔

سندھ سے وفاق یا دوسرے صوبوں میں جانے والے کبھی ایسے لدے پھندے نہ آسکے آج تک بلکہ وہاں تو گھر کے کرایوں نے ہی کمر توڑ دی۔ میں خود اپنے محکمے کے ایک کمرے میں 2500 روپے ماہوار سرکاری کرایہ ادا کرکے رہ آیا ہوں اسلام آباد میں، جو لوگوں کا خیال ہے کہ کم تھا پھر بھی کیونکہ سرکاری رہائش تھی۔ لوگ پہلے وہاں مفت رہا کرتے تھے، کیا پتا بعد میں بھی مفت رہتے ہوں؟ خیر بات کہیں سے کہیں چلی گئی۔ ہم تو یہ عرض کرنا چاہ رہے تھے کہ ہم نے ان سو کالموں سے کیا نتیجہ اخذ کیا تو ہم نے اندازہ لگایا کہ سچ بات چاہے آپ سو مرتبہ کہیں لوگوں کے لیے دلکشی کا باعث نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک کھردرا پن، ایک بے ذائقہ پن اور شاید نمک کی زیادتی لگتی ہے۔

یہ معاشرہ اور اس کے لوگ جھوٹ کی خوبصورتی کے دیوانے ہیں، جھوٹ دراصل فلم کی وہ ہیروئن ہے جو کسی کے بھی ہاتھ نہیں آتی مگر ہر فلم دیکھنے والا اسے اپنے خوابوں کی ملکہ بنا کے رکھتا ہے، جس طرح مختلف ہیروئنوں کے مختلف Fans ہوتے ہیں اسی طرح جھوٹ کی بھی بہت سی ہیروئن اور اس کے الگ الگ Fans ہوتے ہیں۔


ان تمام چیزوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہ محض خواب و خیال ہوتا ہے اور جو زیادہ اچھے خواب دکھا سکتا ہے وہی زیادہ پسندیدہ جو ہم نے شروع میں عرض کیا کہ یہ سیاسی لیڈر دراصل بازی گر اور جادوگر ہیں اور ہمارے عوام کے ذہنوں میں ان کی جادوگری اور بازیگری اس طرح رچ بس گئی ہے کہ وہ ان کے بنا رہ نہیں سکتے۔ عوام کو بھی روز نت نئے تماشے چاہئیں اور جس طرح میلوں ٹھیلوں میں غریب آدمی اپنی محنت سے کمائی ہوئی پونجی بھی خرچ کردیتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے عوام ان لیڈروں کے کرتبوں کو دیکھنے کے لیے جوق در جوق آتے جاتے اور اپنے وقت اور پیسے کا ضیاع کرتے رہتے ہیں۔ ہم ایک ہلہ گلہ قوم ہیں ہمارے پاس برباد کرنے کو وقت اور پیسہ بہت ہے۔

اس میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ ایدھی، برنی، چھیپا یا کچھ اور لوگ کیا کر رہے ہیں کیونکہ وہ ہمارے لیڈر نہیں ہیں، وہ تو ضرورت کے وقت کام آنے والے لوگ ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں اگر وہ الیکشن میں کھڑے ہوجائیں تو ووٹ نہیں دیں گے ان کو صرف احترام دیں گے، گردوں کے اسپتال میں قائم کرنے والے ڈاکٹر صاحب بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ کینسر اسپتال والے صاحب کو لوگوں نے دیکھ لیا ہے وہ بھی کسی اور کے اشارے پر ہی کام کرتے نظر آتے ہیں۔ نیا پاکستان اور اصل پاکستان کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے۔ آپ نے تو اپنے اسپتال کا نام بھی پاکستان کے نام پر نہیں رکھا۔ پاکستان سے کیا محبت ہوگی آپ کو؟ بات تلخ تو ہے مگر سچ ہے۔ وطن ماں باپ سے زیادہ پیارا ہوتا ہے اس پر سب کچھ قربان کیا جاتا ہے۔

ہم کسی کے بھی برا مان جانے کی وجہ سے سچ بیان کرنے سے نہیں رہ سکتے۔ جو سچ ہے وہ سچ ہے۔ تو ان سو کالموں نے ہمیں بھی بہت کچھ سکھایا ہے۔ ایک درس یہ ملا ہے کہ سچ ایک بار بولنے کی چیز نہیں ہے یہ بار بار بولنا چاہیے، بولتے رہنا چاہیے جب تک زبان اور قلم میں طاقت ہے۔ اس کا درس ہمیں اپنے دین سے ملا ہے۔ مذہبی کتابیں جو باقی ہے اور جو منسوخ ہوگئیں ان سب میں سچ تھا، سچ ہے۔

اگر یہ ضروری نہ ہوتا کہ اسے قیامت تک بیان کیا جائے تو پروردگار عالم نے کہیں اسے مکمل کرکے انسانوں کو دنیا میں بھیجنا بند کردیا ہوتا۔ مگر قدرت نے کہا ہم نے دین مکمل کردیا دین پر عمل تو ہماری ذمے داری ہے قدرت کی نہیں۔ قدرت نے ایک ایسا سچ دے دیا جو قیامت تک سچ ہے اور اس کی پیروی ہماری ذمے داری۔ بالکل اسی طرح قدرت یہ بھی چاہتی ہے کہ لوگ سچ کو بیان کریں۔ سچ کو رواج دیں، سچے بنیں، جھوٹوں کا مقابلہ کریں، سچ کو فتحیاب کریں اور یہ سلسلہ قیامت تک چلے گا۔ قیامت تک لوگ سچ بیان کریں گے، سچ جھوٹ کا مقابلہ چلتا رہے گا، مارکنگ قدرت کے پاس ہے اور فیصلہ کرنے والی قوت بھی وہی ہے جس کا فیصلہ آخری ہوگا تو ہم بھی اس کھیل کے ایک چھوٹے سے کھلاڑی ہیں سچ کے کھلاڑی ۔ ہمیں اپنے راؤنڈز دیانتداری سے کھیلنے ہیں سو ہم کھیل رہے ہیں، بلا کسی خوف کے کیونکہ ہمارا بھی تو کھیل ایک دن ختم ہوجائے گا اور ہم بھی روانہ ہوجائیں گے وہاں جہاں سب کو جانا ہی ہوتا ہے۔

اخبار کا شکریہ ضرور ادا کرنا ہے کیونکہ چیزوں، معاملات اور حالات کے بارے میں میری Direct Approach اور میرے جارحانہ طرز تحریر کے باوجود انھیں اپنے صفحات کی زینت بنا کر میرے یقین کو ایمان میں بدلا کہ سچ لکھا جائے تو شایع بھی ہوسکتا ہے۔
Load Next Story