باتیں کچھ نئے لکھنے والوں کی
بلاگنگ کےمیدان میں سنجیدہ سرگرمیوں کامشاہدہ کرنےکیلئےیہ کتاب سیاستدانوں،علمائے حق اورسماجی رہنماوں تک بھی پہنچنی چائیے
ISLAMABAD:
ابو شامل کی قلمی دھار ہو یا خاور کھوکھر کی شوخیاں، ریاض شاہد کے دانش نامے ہوں یا علی حسن کی ادبی بے ادبیاں، جعفر حسین کا طنز و مزاح ہو یاسر جاپانی کے قلم سے نکلے الفاط کی مست بیانیاں، شعیب صفدر کی کھلی عدالت ہو یا خرم ابن شبیر کی بند کلیاں اور بلال محمود کی تیکنیکی تجاویز ہوں یا سکندر حیات بابا کی گستاخیاں۔ اردو بلاگنگ کے یہ سارے پھول اگر آپکو بلاگستان کی دنیا سے باہر کہیں یکجا نظر آئیں تو اس گلدستے کو دراصل ''بےلاگ'' کہتے ہیں۔
جی ہاں اس وقت میرے ہاتھوں میں اردو بلاگنگ سے متعلق وہ پہلی باقاعدہ کتاب ہے، جس نے اپنی اشاعت کےساتھ ہی کئی اعزازات اپنے نام لکھوالئے ہیں۔ کوئی 6 ماہ قبل ڈنمارک میں مقیم اردو بلاگر اور محقق برادرم رمضان رفیق اس کتاب کے خیال کو لے کرمجروح سلطان پوری کے معروف شعر کی مثل اکیلے ہی چلے تھے جانب منزل مگر، لیکن لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔
کتاب کے مرتبین میں رمضان رفیق کےعلاوہ جاپان سے تعلق رکھنے والے سینئر بلاگر خاور کھوکھر بھی شامل ہیں۔ ان دونوں احباب نےانتہائی سلیقے اور دیانت کے ساتھ 34 بلاگرز کے 67 بلاگ منتخب کئے ہیں۔ یہ یقیناً ایک انتہائی مشکل اور تنازعات میں الجھا دینے والا پیچیدہ کام تھا۔ لیکن کتاب پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہی یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ دونوں احباب نے اس انتخاب میں ذاتی تعلقات اور پسند و ناپسند کے بجائے، موضوعات کی ہمہ گیریت، تحریر کے معیار اور زبان و بیان کی بلاغت پر توجہ دی ہے۔ سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ انتہائی مختلف اور متنوع موضوعات کمال قاعدے کے ساتھ باہم پیوستہ نظر آتے ہیں۔ اس کتاب کی تیاری میں بلاگرز کمیونٹی کی رضاکارانہ خدمات بھی داد و تحسین کی مستحق ہے۔ بےلاگ جیسا دلچسپ نام فہد کہیر (ابوشامل) نے تجویز کیا تو سرخ پس منظر اور سفید لکھائی والا جاذب نظر ٹائٹل ساجد شیخ اور فخر نوید نے تیار کیا۔ 208 صفحات پر مشتمل اس منفرد کتاب کی قیمت صرف 300 پاکستانی روپے رکھی گئی ہے، اور یہ باآسانی کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دستیاب ہے۔
بلاگ کیا ہے؟ بلاگرزکیا کر رہے ہیں اور سماجی نشوونما میں انکے کام کی کتنی ضرورت ہے۔ یہ آج کی دنیا کے بڑے اہم سوالات ہیں، جن کا جواب اس کتاب کی صورت مل گیا ہے۔ اسی طرح وہ تمام لوگ جو لکھنے پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن سوشل میڈیا سے دور ہیں یا معلومات کی کمی کی وجہ سے بلاگستان فیڈ تک رسائی حاصل نہیں کرسکے، اس کتاب کے زریعے وہ باآسانی ان غیر روایتی اہل قلم سے تعارف حاصل کرسکتے ہیں۔ بلاگرز پاکستانی سماج اور اسکے مسائل کو روایتی اور پیشہ ور کالم نگاروں سے کس قدر مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اس کتاب میں اس اہم پہلو کا بھی بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی اکابرین، علمائےدین، سماجی رہنما اور کاروباری شخصیات آج کے جدید دور میں بھی انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور بلاگنگ کی افادیت کو سمجھنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔ انہیں یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ آج کے نوجوان کا سارا انحصار روایتی میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا پر ہے۔ یہ کتاب ان طبقات کی نمائندہ شخصیات تک بھی ضرور پہنچنی چاہئیے تاکہ وہ بالواسطہ بلاگنگ کے میدان میں ہونے والی سنجیدہ سرگرمیوں کا مشاہدہ کرسکیں۔ شاید کہ کوئی بات ان کے دل میں گھر کرجائے۔
کہتے ہیں کہ انسان کا کوئی بھی کام کامل نہیں ہوتا اور اس میں ہمیشہ ہی بہتری کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں بھی بہتری کی بہت سی گنجائش موجود ہے۔ پہلا یہ کہ ورق گردانی کرتے ہوئے بعض مقامات پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ناشر میاں (پبلیشر) ماضی میں کسی مذہبی میگزین کے ایڈیٹر رہے ہیں اور وہ بے لاگ کو بھی کوئی میگزین سمجھ بیٹھے ہیں۔ انہیں باور کرانا چاہیئے تھا کہ سنجیدہ اور اکیڈمک کتابوں میں مضامین کے بعد خالی جگہوں کو ایسے ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان کی جگہ قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور مسنون دعائیں نہیں لگائی جاتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ مجھ سمیت بہت سے دوستوں نےعنیقہ ناز، مہتاب عزیز، فیض اللہ خان، فرنود عالم، فہیم پٹیل، غلام اصغر ساجد، اسد اسلم اور عاصم بخشی کی کمی کو شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے۔ میرے خیال سے اگلی طباعت میں ان ممتاز بلاگرز کی تحاریر کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے۔
[poll id="1118"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ابو شامل کی قلمی دھار ہو یا خاور کھوکھر کی شوخیاں، ریاض شاہد کے دانش نامے ہوں یا علی حسن کی ادبی بے ادبیاں، جعفر حسین کا طنز و مزاح ہو یاسر جاپانی کے قلم سے نکلے الفاط کی مست بیانیاں، شعیب صفدر کی کھلی عدالت ہو یا خرم ابن شبیر کی بند کلیاں اور بلال محمود کی تیکنیکی تجاویز ہوں یا سکندر حیات بابا کی گستاخیاں۔ اردو بلاگنگ کے یہ سارے پھول اگر آپکو بلاگستان کی دنیا سے باہر کہیں یکجا نظر آئیں تو اس گلدستے کو دراصل ''بےلاگ'' کہتے ہیں۔
جی ہاں اس وقت میرے ہاتھوں میں اردو بلاگنگ سے متعلق وہ پہلی باقاعدہ کتاب ہے، جس نے اپنی اشاعت کےساتھ ہی کئی اعزازات اپنے نام لکھوالئے ہیں۔ کوئی 6 ماہ قبل ڈنمارک میں مقیم اردو بلاگر اور محقق برادرم رمضان رفیق اس کتاب کے خیال کو لے کرمجروح سلطان پوری کے معروف شعر کی مثل اکیلے ہی چلے تھے جانب منزل مگر، لیکن لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔
کتاب کے مرتبین میں رمضان رفیق کےعلاوہ جاپان سے تعلق رکھنے والے سینئر بلاگر خاور کھوکھر بھی شامل ہیں۔ ان دونوں احباب نےانتہائی سلیقے اور دیانت کے ساتھ 34 بلاگرز کے 67 بلاگ منتخب کئے ہیں۔ یہ یقیناً ایک انتہائی مشکل اور تنازعات میں الجھا دینے والا پیچیدہ کام تھا۔ لیکن کتاب پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہی یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ دونوں احباب نے اس انتخاب میں ذاتی تعلقات اور پسند و ناپسند کے بجائے، موضوعات کی ہمہ گیریت، تحریر کے معیار اور زبان و بیان کی بلاغت پر توجہ دی ہے۔ سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ انتہائی مختلف اور متنوع موضوعات کمال قاعدے کے ساتھ باہم پیوستہ نظر آتے ہیں۔ اس کتاب کی تیاری میں بلاگرز کمیونٹی کی رضاکارانہ خدمات بھی داد و تحسین کی مستحق ہے۔ بےلاگ جیسا دلچسپ نام فہد کہیر (ابوشامل) نے تجویز کیا تو سرخ پس منظر اور سفید لکھائی والا جاذب نظر ٹائٹل ساجد شیخ اور فخر نوید نے تیار کیا۔ 208 صفحات پر مشتمل اس منفرد کتاب کی قیمت صرف 300 پاکستانی روپے رکھی گئی ہے، اور یہ باآسانی کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دستیاب ہے۔
بلاگ کیا ہے؟ بلاگرزکیا کر رہے ہیں اور سماجی نشوونما میں انکے کام کی کتنی ضرورت ہے۔ یہ آج کی دنیا کے بڑے اہم سوالات ہیں، جن کا جواب اس کتاب کی صورت مل گیا ہے۔ اسی طرح وہ تمام لوگ جو لکھنے پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن سوشل میڈیا سے دور ہیں یا معلومات کی کمی کی وجہ سے بلاگستان فیڈ تک رسائی حاصل نہیں کرسکے، اس کتاب کے زریعے وہ باآسانی ان غیر روایتی اہل قلم سے تعارف حاصل کرسکتے ہیں۔ بلاگرز پاکستانی سماج اور اسکے مسائل کو روایتی اور پیشہ ور کالم نگاروں سے کس قدر مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اس کتاب میں اس اہم پہلو کا بھی بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی اکابرین، علمائےدین، سماجی رہنما اور کاروباری شخصیات آج کے جدید دور میں بھی انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور بلاگنگ کی افادیت کو سمجھنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔ انہیں یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ آج کے نوجوان کا سارا انحصار روایتی میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا پر ہے۔ یہ کتاب ان طبقات کی نمائندہ شخصیات تک بھی ضرور پہنچنی چاہئیے تاکہ وہ بالواسطہ بلاگنگ کے میدان میں ہونے والی سنجیدہ سرگرمیوں کا مشاہدہ کرسکیں۔ شاید کہ کوئی بات ان کے دل میں گھر کرجائے۔
کہتے ہیں کہ انسان کا کوئی بھی کام کامل نہیں ہوتا اور اس میں ہمیشہ ہی بہتری کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں بھی بہتری کی بہت سی گنجائش موجود ہے۔ پہلا یہ کہ ورق گردانی کرتے ہوئے بعض مقامات پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ناشر میاں (پبلیشر) ماضی میں کسی مذہبی میگزین کے ایڈیٹر رہے ہیں اور وہ بے لاگ کو بھی کوئی میگزین سمجھ بیٹھے ہیں۔ انہیں باور کرانا چاہیئے تھا کہ سنجیدہ اور اکیڈمک کتابوں میں مضامین کے بعد خالی جگہوں کو ایسے ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان کی جگہ قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور مسنون دعائیں نہیں لگائی جاتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ مجھ سمیت بہت سے دوستوں نےعنیقہ ناز، مہتاب عزیز، فیض اللہ خان، فرنود عالم، فہیم پٹیل، غلام اصغر ساجد، اسد اسلم اور عاصم بخشی کی کمی کو شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے۔ میرے خیال سے اگلی طباعت میں ان ممتاز بلاگرز کی تحاریر کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے۔
[poll id="1118"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔