امت مسلمہ کے اتحاد کا خواب
عشایے میں دنیا کے پونے دو ارب مسلمانوں کو قریب لانے کے عزم کا اظہار کیا۔
خون مسلم کی ارزانی کوئی نئی بات نہیں، کشمیر سے چیچنیا تک اور افغانستان سے فلسطین تک مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور پھر بھی دہشت گردی کا لیبل مسلمانوں ہی پر چسپاں ہے۔ اقوام عالم کی دو رنگی اور منافقت تو ایک طرف خود مسلم حکمرانوں کی بے حسی بھی عروج پر ہے۔ ایک وقت تھا کہ تعداد میں قلیل ہونے کے باوجود مسلمانوں نے اس دورکی دو سپر پاورز، روم اور فارس کو ریت کے گھروندوں کی مانند روند کر ان ملکوں میں اللہ کی حکومت قائم کر دی تھی اور ایک وقت آج ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اپنی اپنی جگہ مشکلات، بحران اور مصائب میں مبتلا ہیں۔
برما اور فلسطین کے مظلوم مسلمان بچے، عورتیں، بوڑھے چیخ چیخ کر دنیا بھر میں پھیلے پونے 2 ارب مسلمانوں اور پچاس سے زائد اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو اپنی مدد کے لیے پکار رہے ہیں مگر افسوس ان کی مدد کے لیے کوئی موجود نہیں۔ اللہ کی زمین اللہ کو وحدہ لاشریک ماننے والوں کے لیے تنگ کی جا رہی ہے، برما ہوکہ فلسطین یا مشرق وسطیٰ ہر جگہ خون مسلم پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، یورپی ممالک میں مسلمانوں کو کلمہ گو ہونے کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
گزشتہ ماہ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کی تیرہویں سربراہی کانفرنس ترکی کے دارالحکومت استنبول میں ہوئی جس میں دہشتگردی کو عالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا گیا اور فرقہ ورانہ اختلافات کو امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا گیا۔ کانفرنس کا موضوع اتحاد و یکجہتی برائے امن و انصاف تھا جس کے مقاصد میں سر فہرست امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرنا اور ان کا مناسب حل ڈھونڈنا تھا۔ اوآئی سی کے سربراہ اجلاس کے بعد ترکی کے صدرطیب اردگان نے مہمانوں کے اعزاز میں دیے گئے۔
عشایے میں دنیا کے پونے دو ارب مسلمانوں کو قریب لانے کے عزم کا اظہار کیا۔ بلاشبہ دنیا کے پونے دو ارب مسلمانوں کو قریب لانے کا خیال قابل تحسین ہے مگر مسلم ممالک کی آپس کی عداوت اور امت مسلمہ کی عملی صورتحال بہت مختلف ہے، مسلم ممالک کے باہمی تضادات اس قدر گہرے ہیں کہ انھیں قریب لانا انتہائی مشکل کام ہے۔ آج عالم اسلام کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو متعدد اسلامی ممالک کو داخلی سطح پر اپنے امور میں مداخلت، فرقہ واریت، تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
اصل میں گزشتہ کئی دہائیوں سے اسلام جس تیزی سے پھیل رہا تھا اور جس کے ہوشربا اعداد و شمار نے یورپی طاقتوں کی نیندیں اڑا رکھی تھیں، جس کے جواب میں ان قوتوں نے القاعدہ، طالبان بوکو حرام اور داعش جیسی منفی تنظیموں کے ذریعے دین محمدی کے بڑھتے اور چڑھتے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی بھرپور کوشش کی اور فی زمانہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی آبیاری کے لیے ایک کے بعد ایک دوسرے محاذ کھولنے ہی کو اپنی بقاء کا نسخہ سمجھ رہے ہیں۔
اسلامی دنیا سوچے سمجھے مغربی طاقتوں کے اشارے پر چل رہی ہے اور آپس میں گتھم گتھا ہو رہی ہے، یہ طاقتیں کبھی عراق سے ایران پر حملہ کرواتی ہیں اور پھر دونوں کے مالی وسائل کی بربادی کا تماشا دیکھتی ہے، کبھی خاموشی نیم رضا کے اشارے کے ذریعے عراق سے کویت پر حملہ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور پھر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی ہیں اور صدام حسین کو پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیتی ہیں۔
عراق کے بعد شام کو تباہی سے دوچار کر دیا گیا یہی صورتحال لیبیا میں ہے، پہلے ہمارے خطے کے دو بڑے مسلمان ملک پراکسی وار کا تکلف کرتے تھے مگر اب انھیں یمن میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے۔ اسلامی دنیا میں آپ جہاں کہیں چلے جائیں آپ کو مسلمان پر بریدہ پرندوں کی طرح تڑپتے اور پھڑکتے ہوئے نظر آئینگے۔ ہمیں کیوں نظر نہیں آتا کہ عراق، شام، لیبیا، یمن، افغانستان میں ہماری بربادی کے مناظر سے ایک ہی قوت فرحاں و شاداں ہے اور وہ ارض فلسطین میں غاصب اسرائیلی ریاست ہے۔
ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ ہم عالمی طاقتوں کی پراکسی وار لڑ رہے ہیں، عالمی طاقتیں ہمارے فروعی اختلافات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں، ہماری قیادت اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لیے ان کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہے، مسلمانوں کی ابتدائی نسلوں نے علم و دولت پیدا کی جس کی وجہ سے انھیں دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کرنے کی قوت حاصل ہوئی مگر اب دنیا کے تقریباً آدھے مسلمان ناخواندہ ہیں۔
ان سب کی اصل وجہ ہماری اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ ہم نے اللہ اور اس کے پیارے نبی کریم ﷺ کے احکامات کو طاق نسیاں میں سجا دیا ہے، ہم مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم قومیتوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ہم مسلمان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات اور تعلیمات کو فراموش کر چکے ہیں ہم تو امریکا و یورپ کے بنائے ہوئے اصولوں کی پیروی کرنیوالے مسلمان ہیں۔ قرآن پاک ہم ثواب کے لیے پڑھتے ہیں عمل تو ہمیں اقوام متحدہ کے قوانین پر کرنا ہے جس نے مسلمانوں کو امریکا و یورپ کا غلام بنا دیا ہے، پاکستانی، افغانی، سعودی، ایرانی، مصری، شامی، عراقی وغیرہ وغیرہ جیسی الگ الگ قومیتوں میں تقسیم کردیا ہے۔ دین اسلام ہمیں ایک امت بتاتا ہے۔
اسلام میں امت کی مثال ایک جسم کی مانند دی گئی جس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے مگر ہم نے اپنے آپ کو اسلام دشمنوں کے اصولوں کے تابع بنالیا ہے۔ یہ حالات ہیں اس تباہی کے جو ہم جیسے مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے اور اسی وجہ سے ہمیں ہر طرف سے ذلت اور رسوائی کا سامنا ہے۔
اگر ہمیں اس ذلت و رسوائی سے جان چھڑانی ہے تو اس کا واحد حل اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ دنیا کروٹ لے رہی ہے، جنگ و جدل اور دہشتگردی کے جہنم سے نکلنے کے لیے اسی طرح کی صف بندیاں ہورہی ہیں جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد قومی و معاشی آزادیوں کے لیے صف بندیاں ہوئی تھیں، مسلم دنیا کے لیے بڑے امکانات ہیں اسے نئی صف بندیوں میں شامل ہونے، نئے بلاکس بنانے اور پہلے کی طرح دنیا کی رہنمائی کرنے کا کردار ادا کرنے سے روکنے کے لیے الجھایا جا رہا ہے۔
مسلم ممالک کا اتحاد مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے یا عشائیوں سے خوش کن خطاب کرنے سے عمل پذیر نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ شام و عراق، صومالیہ وغیرہ کے بحران تو بہت بڑے ہیں اور ان میں عالمی قوتیں بھی اثر پذیر ہیں لیکن اگر مسلم ممالک ایک دوسرے کے باشندوں کے حوالے سے ہی عزت واحترام کے معاملات کر لیں تو یہی بڑی بات ہو گی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ شام کے مہاجرین یورپ کی طرف ہجرت کررہے ہیں اور کسی خوشحال عرب ملک میں یہ حوصلہ نہیں کہ شامی باشندوں کو اپنے ہاں آباد ہونے کی کھلی پیش کش کردے۔ مسلمان حکمرانوں کو عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان نہیں کرنا چاہیے، عالم اسلام میں امن کے قیام کے لیے تمام مسلمان حکمرانوں کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والی پالیسیاں بدلنا ہوں گی۔
شیعہ اور سنی کی تفریق سے جان چھڑانا ہوگی۔ اگرچہ اس وقت او آئی سی ایک بے جان ادارہ بن چکا ہے مگر پاکستان، ترکی، ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے اسلامی ملکوں کو مل کر اس ادارے کے تن مردہ میں نئی روح پھونکنا ہو گی تا کہ یہ فورم ایک بار پھر اتحاد عالم اسلامی کی راہ ہموار کرے اور مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی بن جانے کی تلقین کرے۔ مسلم ممالک کو ایک بار پھر علم اور جدید تصورات کی شمعیں فروزاں کرنے کا ایجنڈا مرتب کرنا ہو گا، مسلم ممالک کے پاس جو دولت ہے وہ تاریخ کا رخ بدلنے کی قوت رکھتی ہے۔
برما اور فلسطین کے مظلوم مسلمان بچے، عورتیں، بوڑھے چیخ چیخ کر دنیا بھر میں پھیلے پونے 2 ارب مسلمانوں اور پچاس سے زائد اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو اپنی مدد کے لیے پکار رہے ہیں مگر افسوس ان کی مدد کے لیے کوئی موجود نہیں۔ اللہ کی زمین اللہ کو وحدہ لاشریک ماننے والوں کے لیے تنگ کی جا رہی ہے، برما ہوکہ فلسطین یا مشرق وسطیٰ ہر جگہ خون مسلم پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، یورپی ممالک میں مسلمانوں کو کلمہ گو ہونے کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
گزشتہ ماہ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کی تیرہویں سربراہی کانفرنس ترکی کے دارالحکومت استنبول میں ہوئی جس میں دہشتگردی کو عالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا گیا اور فرقہ ورانہ اختلافات کو امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا گیا۔ کانفرنس کا موضوع اتحاد و یکجہتی برائے امن و انصاف تھا جس کے مقاصد میں سر فہرست امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرنا اور ان کا مناسب حل ڈھونڈنا تھا۔ اوآئی سی کے سربراہ اجلاس کے بعد ترکی کے صدرطیب اردگان نے مہمانوں کے اعزاز میں دیے گئے۔
عشایے میں دنیا کے پونے دو ارب مسلمانوں کو قریب لانے کے عزم کا اظہار کیا۔ بلاشبہ دنیا کے پونے دو ارب مسلمانوں کو قریب لانے کا خیال قابل تحسین ہے مگر مسلم ممالک کی آپس کی عداوت اور امت مسلمہ کی عملی صورتحال بہت مختلف ہے، مسلم ممالک کے باہمی تضادات اس قدر گہرے ہیں کہ انھیں قریب لانا انتہائی مشکل کام ہے۔ آج عالم اسلام کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو متعدد اسلامی ممالک کو داخلی سطح پر اپنے امور میں مداخلت، فرقہ واریت، تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
اصل میں گزشتہ کئی دہائیوں سے اسلام جس تیزی سے پھیل رہا تھا اور جس کے ہوشربا اعداد و شمار نے یورپی طاقتوں کی نیندیں اڑا رکھی تھیں، جس کے جواب میں ان قوتوں نے القاعدہ، طالبان بوکو حرام اور داعش جیسی منفی تنظیموں کے ذریعے دین محمدی کے بڑھتے اور چڑھتے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی بھرپور کوشش کی اور فی زمانہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی آبیاری کے لیے ایک کے بعد ایک دوسرے محاذ کھولنے ہی کو اپنی بقاء کا نسخہ سمجھ رہے ہیں۔
اسلامی دنیا سوچے سمجھے مغربی طاقتوں کے اشارے پر چل رہی ہے اور آپس میں گتھم گتھا ہو رہی ہے، یہ طاقتیں کبھی عراق سے ایران پر حملہ کرواتی ہیں اور پھر دونوں کے مالی وسائل کی بربادی کا تماشا دیکھتی ہے، کبھی خاموشی نیم رضا کے اشارے کے ذریعے عراق سے کویت پر حملہ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور پھر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی ہیں اور صدام حسین کو پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیتی ہیں۔
عراق کے بعد شام کو تباہی سے دوچار کر دیا گیا یہی صورتحال لیبیا میں ہے، پہلے ہمارے خطے کے دو بڑے مسلمان ملک پراکسی وار کا تکلف کرتے تھے مگر اب انھیں یمن میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے۔ اسلامی دنیا میں آپ جہاں کہیں چلے جائیں آپ کو مسلمان پر بریدہ پرندوں کی طرح تڑپتے اور پھڑکتے ہوئے نظر آئینگے۔ ہمیں کیوں نظر نہیں آتا کہ عراق، شام، لیبیا، یمن، افغانستان میں ہماری بربادی کے مناظر سے ایک ہی قوت فرحاں و شاداں ہے اور وہ ارض فلسطین میں غاصب اسرائیلی ریاست ہے۔
ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ ہم عالمی طاقتوں کی پراکسی وار لڑ رہے ہیں، عالمی طاقتیں ہمارے فروعی اختلافات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں، ہماری قیادت اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لیے ان کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہے، مسلمانوں کی ابتدائی نسلوں نے علم و دولت پیدا کی جس کی وجہ سے انھیں دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کرنے کی قوت حاصل ہوئی مگر اب دنیا کے تقریباً آدھے مسلمان ناخواندہ ہیں۔
ان سب کی اصل وجہ ہماری اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ ہم نے اللہ اور اس کے پیارے نبی کریم ﷺ کے احکامات کو طاق نسیاں میں سجا دیا ہے، ہم مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم قومیتوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ہم مسلمان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات اور تعلیمات کو فراموش کر چکے ہیں ہم تو امریکا و یورپ کے بنائے ہوئے اصولوں کی پیروی کرنیوالے مسلمان ہیں۔ قرآن پاک ہم ثواب کے لیے پڑھتے ہیں عمل تو ہمیں اقوام متحدہ کے قوانین پر کرنا ہے جس نے مسلمانوں کو امریکا و یورپ کا غلام بنا دیا ہے، پاکستانی، افغانی، سعودی، ایرانی، مصری، شامی، عراقی وغیرہ وغیرہ جیسی الگ الگ قومیتوں میں تقسیم کردیا ہے۔ دین اسلام ہمیں ایک امت بتاتا ہے۔
اسلام میں امت کی مثال ایک جسم کی مانند دی گئی جس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے مگر ہم نے اپنے آپ کو اسلام دشمنوں کے اصولوں کے تابع بنالیا ہے۔ یہ حالات ہیں اس تباہی کے جو ہم جیسے مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے اور اسی وجہ سے ہمیں ہر طرف سے ذلت اور رسوائی کا سامنا ہے۔
اگر ہمیں اس ذلت و رسوائی سے جان چھڑانی ہے تو اس کا واحد حل اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ دنیا کروٹ لے رہی ہے، جنگ و جدل اور دہشتگردی کے جہنم سے نکلنے کے لیے اسی طرح کی صف بندیاں ہورہی ہیں جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد قومی و معاشی آزادیوں کے لیے صف بندیاں ہوئی تھیں، مسلم دنیا کے لیے بڑے امکانات ہیں اسے نئی صف بندیوں میں شامل ہونے، نئے بلاکس بنانے اور پہلے کی طرح دنیا کی رہنمائی کرنے کا کردار ادا کرنے سے روکنے کے لیے الجھایا جا رہا ہے۔
مسلم ممالک کا اتحاد مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے یا عشائیوں سے خوش کن خطاب کرنے سے عمل پذیر نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ شام و عراق، صومالیہ وغیرہ کے بحران تو بہت بڑے ہیں اور ان میں عالمی قوتیں بھی اثر پذیر ہیں لیکن اگر مسلم ممالک ایک دوسرے کے باشندوں کے حوالے سے ہی عزت واحترام کے معاملات کر لیں تو یہی بڑی بات ہو گی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ شام کے مہاجرین یورپ کی طرف ہجرت کررہے ہیں اور کسی خوشحال عرب ملک میں یہ حوصلہ نہیں کہ شامی باشندوں کو اپنے ہاں آباد ہونے کی کھلی پیش کش کردے۔ مسلمان حکمرانوں کو عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان نہیں کرنا چاہیے، عالم اسلام میں امن کے قیام کے لیے تمام مسلمان حکمرانوں کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والی پالیسیاں بدلنا ہوں گی۔
شیعہ اور سنی کی تفریق سے جان چھڑانا ہوگی۔ اگرچہ اس وقت او آئی سی ایک بے جان ادارہ بن چکا ہے مگر پاکستان، ترکی، ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے اسلامی ملکوں کو مل کر اس ادارے کے تن مردہ میں نئی روح پھونکنا ہو گی تا کہ یہ فورم ایک بار پھر اتحاد عالم اسلامی کی راہ ہموار کرے اور مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی بن جانے کی تلقین کرے۔ مسلم ممالک کو ایک بار پھر علم اور جدید تصورات کی شمعیں فروزاں کرنے کا ایجنڈا مرتب کرنا ہو گا، مسلم ممالک کے پاس جو دولت ہے وہ تاریخ کا رخ بدلنے کی قوت رکھتی ہے۔