وزیراعظم کے صاحبزادے ٹیکس نہیں دیتے تو ان کے پاس گرین پاسپورٹ بھی نہیں ہونا چاہیئے خورشید شاہ

قائداعظم نے1938 میں 4 ہزار490 روپے ٹیکس ادا کیا لیکن وزیراعظم نوازشریف نے 1992 میں صرف 2700 روپے ٹیکس دیا،اپوزیشن لیڈر

قائداعظم نے1938 میں 4 ہزار490 روپے ٹیکس ادا کیا لیکن وزیراعظم نوازشریف نے 1992 میں صرف 2700 روپے ٹیکس دیا،اپوزیشن لیڈر. فوٹو:فائل

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم کے صاحبزادے پاکستان کو ٹیکس نہیں دے سکتے تو ان کے پاس گرین پاسپورٹ بھی نہیں ہونا چاہیئے۔

قومی اسمبلی میں اظہارخیال کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا وزیراعظم کہتے ہیں میرے بیٹوں پر ملکی قوانین لاگو نہیں ہوتے، اگروزیراعظم کے صاحبزادے پاکستان کو ٹیکس نہیں دے سکتے تو ان کے پاس گرین پاسپورٹ بھی نہیں ہونا چاہیئے، اس ملک کے خزانے، انفرااسٹرکچروقت کی حکومت کے پاس امانت ہوتے ہیں، پاکستان وزیراعظم کے پاس امانت ہے اور جب امانت میں خیانت ہوتو قوم پریشان ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1938 میں 4 ہزار490 روپے ٹیکس ادا کیا لیکن موجودہ وزیراعظم نے 1992 میں صرف 2700 روپے ٹیکس دیا، کیا قائداعظم کی آف شور کمپنیاں، فلیٹس اور کمپنیاں تھیں، ان کے پاس اتفاق فاؤنڈری یا اسٹیل مل نہیں تھی لیکن انہوں نے اپنا قومی فرض ادا کیا، ہم پبلک پراپرٹی ہیں ہمارے بارے میں عوام کو پتہ ہونا چاہیئے۔


اپوزیشن لیڈرکا کہنا تھا کہ 23 سال میں وزیراعظم کی 12 کمپنیوں نے ایک ارب روپے ٹیکس دیا جب کہ مجموعی طور پرانہوں نے 14 سال میں 6 لاکھ 50 ہزارروپے انکم ٹیکس ادا کیا جو اوسطاً 40 ہزار روپے بھی نہیں بنتا، پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کے ایوان میں اظہارخیال کے بعد انہوں نے مزید سوالات اٹھادیئے ہیں، جب سوالات اٹھیں گے تو اس پر ناراض ہونے کی ضرورت نہیں، جب چورچور کی روایت شروع ہوئی تو اس کا فائدہ کسے ہوا، آج بھی کسی کو چور نہیں کہنا چاہتے بلکہ وزیراعظم سے 7 سوالات کے جوابات چاہیئں لیکن وزیراعظم کی تقریرکے بعد نئے سوالات نے جنم لیا ہے، ہم یہ بھی سوال نہیں کرتے کہ جب نیشنلائزیشن ہوئی تو آپ کس طرح پیسے باہر لے کرگئے اورفیکٹری لگائی، پہلی مرتبہ ذہن میں یہ بات آئی کہ گلف اسٹیل مل بھی بنائی گئی ہے۔



خورشید شاہ نے کہا کہ پاناما لیکس کے معاملے پرسپریم کورٹ نے ہمارے موقف کی تائید کی کہ مل کر ٹی او آرز بنائے جائیں، آج بھی حکومت کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں اور مل کر ٹی او آرز بنائیں، ہم نے حکومت کو ڈکٹیشن نہیں دی بلکہ وضاحت مانگی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ کوئی کہے کہ وزیراعظم کرپٹ تھے اور انہوں نے غلط طریقے سے لندن میں فلیٹس خریدے، ہم چاہتے ہیں ہر کوئی قانون کے تابے ہو، ہمارا بھی احتساب ہونا چاہئے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ اشرافیہ کا اس ملک میں احتساب نہیں ہوتا، ہم سے بھی پوچھا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جومسئلے جلسوں میں حل نہیں ہوسکتے وہ پارلیمنٹ حل کرسکتی ہے، ہم اپنے فیصلے باہر کرتے تھے اس لیے پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں ملی، متعدد مرتبہ کہا کہ وزیراعظم کا حلقہ پارلیمنٹ ہے وہ یہاں آکربات کریں، وزیراعظم اس پارلیمنٹ سے کیوں بھاگ رہے تھے انہیں کیا خوف تھا۔

Load Next Story