معتبر ہے آپ کا فرمایا ہوا مگر
ردعمل میں اپوزیشن نے بھی کسی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے
ایک ہی موضوع پر لکھتے رہنا، کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہوتا ۔بلکہ اکثر اوقات قارئین کے علاوہ لکھنے والا بھی اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے، مگر وطن عزیز میں جب کوئی نیا مسئلہ ابھر کر سامنے آتا ہے ، تو عوامی توجہ کئی روز بلکہ کئی ہفتوں تک اسی پر مرکوز ہوکر رہ جاتی ہے۔ وہ کسی اور معاملے پر پڑھنے اور سننے کے بجائے صرف اسی ایک مسئلے پر گفتگو پسند کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ تجزیہ نگار بھی اسی ایک موضوع پر زور قلم صرف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
یہی کچھ معاملہ آج کل آف شور کمپنیوں کا ہے جنہوں نے طوفان گرد و باراں کی طرح پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہر طرف انھی کا چرچا ہے۔گئی پیر اس لحاظ سے اہم تصور کی جا رہی تھی کہ اس روز یہ توقع تھی کہ حکمران جماعت اور متحدہ اپوزیشن کی جماعتیں سیاسی بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے، اس مسئلے کا کوئی صائب اور ٹھوس حل نکالنے کی کوشش کریں گی۔
مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا، یعنی دونوں طرف Doves کی جگہHawksحاوی آگئے جنہوں نے صائب حل کی متوقع کوششوںکو سبوتاژکردیا۔ حکمران جماعت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم اول تو تاخیر سے اسمبلی میں آئے۔ دوئم انھوں نے اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ سوالات کے ٹھوس جوابات دینے کے بجائے تمام وقت اپنے خاندان کی دولت مندی کے بارے وضاحتیں دینے میں صرف کردیا۔
ردعمل میں اپوزیشن نے بھی کسی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ایوان کا بائیکاٹ کرکے معاملات و مسائل کو پارلیمانی طریقے سے حل کے راستے بند کرکے احتجاجی سیاست کی راہ ہموار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ لہٰذامحسوس یہ ہو رہا ہے کہ افہام و تفہیم کے بجائے ملک ایک بار پھر سیاسی تناؤ اور ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہا ہے جو جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکمران پارٹی اور اپوزیشن دونوں ہی ملک کو درپیش مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ خاص طور پر کرپشن اور بدعنوانیاں، جو اچھی حکمرانی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، ان کے سدباب کے لیے کسی قسم کی کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار کرنا ان کی ترجیح نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا ہوجانے کی صورت میں ان کے مسلسل اقتدار میں رہنے کی راہیں مسدود ہوسکتی ہیں۔
پھر عرض ہے کہ سنجیدگی اور بردباری کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مکمل آزاد اور با اختیار پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا جائے جو ملک سے کرپشن اور بدعنوانیوں جیسی عفریتوں سے نجات دلانے کے علاوہ ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز مرتب کرے۔ ہم نے اپنے گزشتہ اظہاریے میں مشورہ دیا تھا کہ ملک سے بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہNAB، FBR اور FIAجیسے اداروں کو حکومتی اثرات سے آزاد کرکے مکمل بااختیار ادارہ بنایا جائے جوصرف پارلیمان کو جوابدہ ہوں۔ مگراس قسم کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اس Rhetoricکو ہوا دے رہے ہیں،جو سوائے وقت کی بربادی کے کچھ اور نہیں ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت عالمی سطح پر اصل مسئلہ آف شور کمپنیاں نہیں، بلکہ سرمایے کی گلوبلائزیشن ہے جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد منہ زور گھوڑے کی طرح بے لگام ہوا ہے۔اس کے نتیجے میں سیاست بھی اصول وضوابط کی بندشوں کی رسی تڑا کر شتر بے مہار ہوگئی ہے۔ نتیجتاً پوری دنیا میں حکمرانی کے معیارات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔خاص طور پر عوام کے لیے فلاحی سہولیات میں تیزی کے ساتھ کمی واقع ہوئی ہے جب کہ سرمایہ داروں اور صاحب ثروت افراد کی مراعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے کرپشن اور بدعنوانیوں میں بھی قابل ذکر حد تک اضافہ ہوا ہے۔
عالمی سطح پر ایک اور تبدیلی یہ آئی ہے کہ سیاست نظریات کے بجائے دولت مندی کے اظہار کا ذریعہ بن گئی ہے۔ خاص طور پر ہم جیسے فکری، سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ معاشروں میں اخلاق باختگی کی آخری حدود کو چھو رہی ہے۔
یہی سبب ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی و انتظامی معاملات کچھ اس طرح ترتیب دیے جاتے ہیں کہ سیاست میں تو وقتا ًفوقتاً ہلچل پیدا ہوتی رہے، مگر کوئی ایسی تبدیلی واقع نہ ہو جو اشرافیائی طبقے کو اقتدار سے محروم کرنے کا باعث بن جائے۔لہٰذا حکمران اشرافیہ کی شروع ہی سے یہ کوشش ہے کہ اسٹیج پر ایکٹر ضرور تبدیل ہوتے رہیں، مگرStatus quoکسی طور ٹوٹنے نہ پائے۔ چنانچہ آف شور کمپنیوں کے معاملے پر حکمران جماعت اور متحدہ اپوزیشن کی جماعتوں کا رویہ اس بات کا غماز ہے کہ ٹھوس اور قابل عمل اقدامات کے بجائے تناؤ پیدا کرکے عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹائی رکھی جائے۔
اب جہاں تک کاروباری طبقات کا سیاست میں عمل دخل کا معاملہ ہے تو ایک سے زائد مرتبہ افلاطون کے اس قول کو ان صفحات پر بیان کیا ہے کہ تاجروں اور فوجیوں کو کبھی اقتدار نہیں سونپنا چاہیے ۔ وہ حکمرانی کے لیے فلسفی بادشاہ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے جس کی تعلیم وتربیت کا نصاب بھی پیش کیا تھا۔ سولہویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بعد جب جمہوری نظم حکمرانی نے مقبولیت حاصل کرنا شروع کی تو وکلا سمیت مختلف ماہرین (Professionals)سیاسی نظام کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ سرد جنگ کے خاتمے تک جاری رہا۔ لیکن سرد جنگ کے بعد جہاں ایک طرف نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہوا، وہیں دوسری طرف کاروباری حلقوں کے سیاست میں حصہ لینے کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا۔
کاروباری حلقے جو چند دہائیوں قبل تک اپنے معاملات و مسائل Professionals کے ذریعے ایوانوں تک پہنچاتے تھے، اب براہ راست ایوانوں میں پہنچنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے حکمرانی کے معاملات پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔پڑوسی ملک بھارت کی سیاست پر نظر ڈالیں تو وہاں کاروباری حلقے کبھی براہ راست سرگرم سیاست کا حصہ نہیں بنے، بلکہ وکلاء، اساتذہ اور صحافیوں سمیت اہل دانش اور ٹریڈ یونین سے آنے والے کیڈرز سیاست میں فعال کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔ برطانوی دور میں انڈین نیشنل کانگریس دو بڑے سرمایہ داروں ٹاٹا اور برلا سے چندے کی مد میں خطیر رقم حاصل کیا کرتی تھی۔ گاندھی جی جب بھی ممبئی جاتے تو برلاہاؤس میں قیام کرتے۔
مگر انھوں نے ان دونوں صنعتکاروں کو کبھی نہ تو کانگریس میں کوئی عہدہ دیا اور نہ ہی انتخابات میں کبھی ٹکٹ دیا۔ اور نہ ہی انھوں نے کبھی سیاست میں آنے میں کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار کیا۔ کہا جارہا ہے کہ اب وہاں بھی کلچر تبدیل ہوا ہے اور صنعتکار و سرمایہ دار براہ راست سیاست میں حصہ لینے لگے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آج بھی وہاں دونوں ایوانوں میں اکثریت پروفیشنلز ہی کی ہے، لیکن ہمارے یہاں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے بالخصوص فیوڈلز اور کاروباری لوگوں کی دونوں ایوانوں میںبالادستی قائم ہوگئی ہے جس کی وجہ سےStatus quo کے ٹوٹنے کے امکانات کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔
پہلے بھی کئی بار لکھا ہے، اب پھر عرض ہے کہ اچھی حکمرانی کے لیے ادارہ جاتی بااختیاریت(Institutional Empowerment)کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ جمہوریت کو خطرے کا راگ الاپنے سے جمہوریت کو نہیں بچایا جاسکتا۔ اگر جمہوریت کو محفوظ بنانے میں دلچسپی ہے، تو جمہوری اداروں کو مستحکم کرنا ہوگا۔ یہ بھی طے ہے کہ جمہوری اداروں کا استحکام اس وقت ممکن ہوتا ہے، جب اقتدار و اختیار ریاستی انتظام کی نچلی سطح تک منتقل ہوجائے اور اس میں مناسب فاصلہ پیدا کردیا جائے۔
مگر ان اقدامات پر حکمرانوں اور اپوزیشن سمیت کوئی بھی فریق توجہ دینے پر آمادہ نہیں ہے جس کی وجہ سے جمہوریت کے استحکام کی وہ منزل جو آسان ہوسکتی تھی، طولانی ہوتی جارہی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکمران جماعت اور اپوزیشن کی جماعتوں کی حالیہ روش کسی بھی طور جمہوریت کو بچانے کا سبب نہیں بن سکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنے رویوں پر دونوں فریق نظرثانی کریں اور بہتری کا کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کریں۔
یہی کچھ معاملہ آج کل آف شور کمپنیوں کا ہے جنہوں نے طوفان گرد و باراں کی طرح پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہر طرف انھی کا چرچا ہے۔گئی پیر اس لحاظ سے اہم تصور کی جا رہی تھی کہ اس روز یہ توقع تھی کہ حکمران جماعت اور متحدہ اپوزیشن کی جماعتیں سیاسی بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے، اس مسئلے کا کوئی صائب اور ٹھوس حل نکالنے کی کوشش کریں گی۔
مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا، یعنی دونوں طرف Doves کی جگہHawksحاوی آگئے جنہوں نے صائب حل کی متوقع کوششوںکو سبوتاژکردیا۔ حکمران جماعت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم اول تو تاخیر سے اسمبلی میں آئے۔ دوئم انھوں نے اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ سوالات کے ٹھوس جوابات دینے کے بجائے تمام وقت اپنے خاندان کی دولت مندی کے بارے وضاحتیں دینے میں صرف کردیا۔
ردعمل میں اپوزیشن نے بھی کسی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ایوان کا بائیکاٹ کرکے معاملات و مسائل کو پارلیمانی طریقے سے حل کے راستے بند کرکے احتجاجی سیاست کی راہ ہموار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ لہٰذامحسوس یہ ہو رہا ہے کہ افہام و تفہیم کے بجائے ملک ایک بار پھر سیاسی تناؤ اور ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہا ہے جو جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکمران پارٹی اور اپوزیشن دونوں ہی ملک کو درپیش مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ خاص طور پر کرپشن اور بدعنوانیاں، جو اچھی حکمرانی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، ان کے سدباب کے لیے کسی قسم کی کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار کرنا ان کی ترجیح نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا ہوجانے کی صورت میں ان کے مسلسل اقتدار میں رہنے کی راہیں مسدود ہوسکتی ہیں۔
پھر عرض ہے کہ سنجیدگی اور بردباری کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مکمل آزاد اور با اختیار پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا جائے جو ملک سے کرپشن اور بدعنوانیوں جیسی عفریتوں سے نجات دلانے کے علاوہ ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز مرتب کرے۔ ہم نے اپنے گزشتہ اظہاریے میں مشورہ دیا تھا کہ ملک سے بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہNAB، FBR اور FIAجیسے اداروں کو حکومتی اثرات سے آزاد کرکے مکمل بااختیار ادارہ بنایا جائے جوصرف پارلیمان کو جوابدہ ہوں۔ مگراس قسم کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اس Rhetoricکو ہوا دے رہے ہیں،جو سوائے وقت کی بربادی کے کچھ اور نہیں ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت عالمی سطح پر اصل مسئلہ آف شور کمپنیاں نہیں، بلکہ سرمایے کی گلوبلائزیشن ہے جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد منہ زور گھوڑے کی طرح بے لگام ہوا ہے۔اس کے نتیجے میں سیاست بھی اصول وضوابط کی بندشوں کی رسی تڑا کر شتر بے مہار ہوگئی ہے۔ نتیجتاً پوری دنیا میں حکمرانی کے معیارات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔خاص طور پر عوام کے لیے فلاحی سہولیات میں تیزی کے ساتھ کمی واقع ہوئی ہے جب کہ سرمایہ داروں اور صاحب ثروت افراد کی مراعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے کرپشن اور بدعنوانیوں میں بھی قابل ذکر حد تک اضافہ ہوا ہے۔
عالمی سطح پر ایک اور تبدیلی یہ آئی ہے کہ سیاست نظریات کے بجائے دولت مندی کے اظہار کا ذریعہ بن گئی ہے۔ خاص طور پر ہم جیسے فکری، سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ معاشروں میں اخلاق باختگی کی آخری حدود کو چھو رہی ہے۔
یہی سبب ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی و انتظامی معاملات کچھ اس طرح ترتیب دیے جاتے ہیں کہ سیاست میں تو وقتا ًفوقتاً ہلچل پیدا ہوتی رہے، مگر کوئی ایسی تبدیلی واقع نہ ہو جو اشرافیائی طبقے کو اقتدار سے محروم کرنے کا باعث بن جائے۔لہٰذا حکمران اشرافیہ کی شروع ہی سے یہ کوشش ہے کہ اسٹیج پر ایکٹر ضرور تبدیل ہوتے رہیں، مگرStatus quoکسی طور ٹوٹنے نہ پائے۔ چنانچہ آف شور کمپنیوں کے معاملے پر حکمران جماعت اور متحدہ اپوزیشن کی جماعتوں کا رویہ اس بات کا غماز ہے کہ ٹھوس اور قابل عمل اقدامات کے بجائے تناؤ پیدا کرکے عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹائی رکھی جائے۔
اب جہاں تک کاروباری طبقات کا سیاست میں عمل دخل کا معاملہ ہے تو ایک سے زائد مرتبہ افلاطون کے اس قول کو ان صفحات پر بیان کیا ہے کہ تاجروں اور فوجیوں کو کبھی اقتدار نہیں سونپنا چاہیے ۔ وہ حکمرانی کے لیے فلسفی بادشاہ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے جس کی تعلیم وتربیت کا نصاب بھی پیش کیا تھا۔ سولہویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بعد جب جمہوری نظم حکمرانی نے مقبولیت حاصل کرنا شروع کی تو وکلا سمیت مختلف ماہرین (Professionals)سیاسی نظام کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ سرد جنگ کے خاتمے تک جاری رہا۔ لیکن سرد جنگ کے بعد جہاں ایک طرف نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہوا، وہیں دوسری طرف کاروباری حلقوں کے سیاست میں حصہ لینے کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا۔
کاروباری حلقے جو چند دہائیوں قبل تک اپنے معاملات و مسائل Professionals کے ذریعے ایوانوں تک پہنچاتے تھے، اب براہ راست ایوانوں میں پہنچنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے حکمرانی کے معاملات پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔پڑوسی ملک بھارت کی سیاست پر نظر ڈالیں تو وہاں کاروباری حلقے کبھی براہ راست سرگرم سیاست کا حصہ نہیں بنے، بلکہ وکلاء، اساتذہ اور صحافیوں سمیت اہل دانش اور ٹریڈ یونین سے آنے والے کیڈرز سیاست میں فعال کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔ برطانوی دور میں انڈین نیشنل کانگریس دو بڑے سرمایہ داروں ٹاٹا اور برلا سے چندے کی مد میں خطیر رقم حاصل کیا کرتی تھی۔ گاندھی جی جب بھی ممبئی جاتے تو برلاہاؤس میں قیام کرتے۔
مگر انھوں نے ان دونوں صنعتکاروں کو کبھی نہ تو کانگریس میں کوئی عہدہ دیا اور نہ ہی انتخابات میں کبھی ٹکٹ دیا۔ اور نہ ہی انھوں نے کبھی سیاست میں آنے میں کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار کیا۔ کہا جارہا ہے کہ اب وہاں بھی کلچر تبدیل ہوا ہے اور صنعتکار و سرمایہ دار براہ راست سیاست میں حصہ لینے لگے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آج بھی وہاں دونوں ایوانوں میں اکثریت پروفیشنلز ہی کی ہے، لیکن ہمارے یہاں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے بالخصوص فیوڈلز اور کاروباری لوگوں کی دونوں ایوانوں میںبالادستی قائم ہوگئی ہے جس کی وجہ سےStatus quo کے ٹوٹنے کے امکانات کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔
پہلے بھی کئی بار لکھا ہے، اب پھر عرض ہے کہ اچھی حکمرانی کے لیے ادارہ جاتی بااختیاریت(Institutional Empowerment)کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ جمہوریت کو خطرے کا راگ الاپنے سے جمہوریت کو نہیں بچایا جاسکتا۔ اگر جمہوریت کو محفوظ بنانے میں دلچسپی ہے، تو جمہوری اداروں کو مستحکم کرنا ہوگا۔ یہ بھی طے ہے کہ جمہوری اداروں کا استحکام اس وقت ممکن ہوتا ہے، جب اقتدار و اختیار ریاستی انتظام کی نچلی سطح تک منتقل ہوجائے اور اس میں مناسب فاصلہ پیدا کردیا جائے۔
مگر ان اقدامات پر حکمرانوں اور اپوزیشن سمیت کوئی بھی فریق توجہ دینے پر آمادہ نہیں ہے جس کی وجہ سے جمہوریت کے استحکام کی وہ منزل جو آسان ہوسکتی تھی، طولانی ہوتی جارہی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکمران جماعت اور اپوزیشن کی جماعتوں کی حالیہ روش کسی بھی طور جمہوریت کو بچانے کا سبب نہیں بن سکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنے رویوں پر دونوں فریق نظرثانی کریں اور بہتری کا کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کریں۔