دنیا کے بدلتے رنگ

اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی طرح یہی موصوف امریکا کے صدر منتخب ہو گئے تو پھر امریکا کا کیا بنے گا؟

usmandamohi@yahoo.com

یہ امریکی ری پبلکن پارٹی کی بد قسمتی نہیں تو کیا ہے کہ اسے کئی برس سے دور اندیش اور تعصب سے پاک صدارتی امیدوار دستیاب نہیں ہو سکے، اس کی یہ محرومی صدر ریگن کے بعد سے شروع ہوئی تھی۔ ریگن کے بعد سینئر بش کو صدر منتخب کرایا گیا مگر عراق پر ان کی بے مقصد جنگ نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ دماغی طور پر کمزور واقع ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ دوسری ٹرم کے لیے انتخاب نہ لڑ سکے۔

ان کے بعد ان کے بیٹے جونیئر بش کو صدارت کی کرسی پر بٹھایا گیا ان ہی کے دور میں نائن الیون کا واقعہ پیش آیا تھا اس کے علاوہ ان کے کئی ایسے کام تھے جن سے ان کی ذہنی حالت پر شبہ ہونے لگا تھا۔ چنانچہ جب ایک ماہر نیورو سرجن نے ان کا معائنہ کیا تو اس نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ موصوف کا آدھا دماغ تو کام ہی نہیں کر رہا۔ خیر سے ان دونوں باپ بیٹوں کی دماغی خرابی کے بارے میں تو ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد انکشاف ہوا تھا مگر اسے کیا کہیے کہ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے اس وقت صدارتی انتخاب کی دوڑ میں سر فہرست ڈونلڈ ٹرمپ تو صدر بننے سے پہلے ہی ذہنی مریض ثابت ہو چکے ہیں۔ ان کے اشتعال انگیز اور متعصبانہ بیانات نے پوری دنیا میں امریکا کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی طرح یہی موصوف امریکا کے صدر منتخب ہو گئے تو پھر امریکا کا کیا بنے گا؟ افسوس تو اس امر پر ہے کہ امریکی عوام بھی واضح طور پر ذہنی مریض لگتے ہیں جب ہی تو ایک ذہنی مریض کو صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے لے آئے ہیں۔ مگر سینیٹ کے ممبران کے متعصبانہ رویے اور تکبر سے لگتا ہے کہ اب امریکی ایمپائر نے اپنے دن پورے کر لیے ہیں اور یہ کوئی انہونی بات بھی نہیں ہے۔ رومن اور برٹش ایمپائر کے زوال کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

امریکن ایمپائر بھی اب سوا دو سو سال پرانی ہو چکی ہے۔ اس ایمپائر نے یقینا پوری دنیا پر حکمرانی کی ہے یورپی ممالک جو وسائل کے لحاظ سے امریکا سے کم نہیں ہیں مگر انھیں بھی امریکی حکمرانی کو تسلیم کرنا پڑا ہے پھر ایشیا اور افریقہ کی غریب قوموں کی تو بات ہی کیا ہے۔ امریکا کی ترقی اور عالمی برادری پر اس کی برتری کی سب سے بڑی وجہ ماضی کے امریکی حکمرانوں کا انسان دوست رویہ تھا۔ انھوں نے ہر غریب اور کمزور قوم کی مدد کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا مگر آج کے امریکی حکمرانوں نے خود کو یہود و ہنود کے سامراجی مقاصد کے لیے وقف کر دیا ہے۔

مسلمانوں کے لیے نئے نئے مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں جب کہ پہلے سے ہی ان کے کئی بنیادی مسائل حل طلب ہیں جنھیں حل کرنا امریکا کی ذمے داری ہے کیوں کہ وہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ فلسطین کا مسئلہ 68 برس سے حل طلب ہے، ادھر کشمیریوں کا حق خود اختیاری کا مسئلہ اس سے بھی زیادہ پرانا ہے، ان مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں۔


جن پر عمل در آمد کرا کے مسلمانوں کے یہ دیرینہ مسائل حل کرائے جا سکتے ہیں۔ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ مسئلے تو بدستور اپنی جگہ موجود ہیں مگر مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بغیر ہی آزادی کی نعمت سے سرفراز کر دیاگیا ہے۔ اسلامی مملکت سوڈان کو توڑ کر جنوبی سوڈان کے نام سے نیا عیسائی ملک قائم کر دیا گیا اور اس سے پہلے عوام کی چند ماہ کی جد وجہد کے نتیجے میں انڈونیشیا کو توڑ کر شرقی تیمور کے نام سے نیا ملک وجود میں لایا گیا۔ سپر پاورکی یہی نا انصافی، ظلم نوجوانوں میں بے چینی کی وجہ بن رہی ہے۔

یورپ کے کچھ ملکوں میں مسلم نوجوانوں نے علم بغاوت بلند کیا ہے جسے اصل پیرائے میں دیکھنے کے بجائے ان نوجوانوں کو اسلامی جہادی اور دہشت گرد قرار دے کر سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اس وقت پاکستان کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور دہشتگردی کر گڑھ قرار دیا جا رہا ہے جب کہ پاکستان کو دہشت گردی کی دلدل میں پھنسانے والا امریکا ہے اس کے ایما پر پاکستان نے طالبان کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔ اب حالات یہ ہیں کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر طالبان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہاہے، افغان جنگ کو ختم کرنا سراسر پاکستان کے مفاد میں ہے جب کہ اس جنگ کا جاری رہنا بھارت کے مفاد میں ہے۔ اس چھوٹی سی بات کو آخر امریکی حکمران کیوں نہیں سمجھتے اور وہ آخر کیوں وہاں من مانی کرنے میں اس کا ہاتھ بٹا رہے ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ خود امریکا افغان جنگ کو جلد ختم کرنا نہیں چاہتا، افغانستان کو عملی طور پر بھارت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

افغان حکمران کھلم کھلا پاکستان دشمنی پر کمر بستہ ہیں۔ ابتدا میں جب اشرف غنی نئے نئے صدر بنے تھے ان کا رویہ حقیقت پسندانہ تھا وہ پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کرتے تھے مگر جب انھیں یقین ہو گیا کہ وہ جب تک پاکستان کے خلاف بیان بازی نہیں کریں گے صدارت کے عہدے پر براجمان نہیں رہ سکتے چنانچہ ناچار انھیں پاکستان کے خلاف کرزئی کی پالیسی اختیار کرنا پڑی۔ اب اس وقت حالات اس طرح ہیں کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی راہ میں بھارت سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے اور پاکستان طالبان کا خوامخواہ ترجمان بن کر مغرب کی نظر میں مشکوک بن چکا ہے ہم نے افغان مصالحتی عمل میں طالبان کو شامل کرانے کا نہ جانے کیوں ٹھیکہ اپنے ذمے لے لیا ہے جب کہ طالبان کبھی بھی پاکستان کے دوست نہیں رہے ورنہ وہ پاکستان کو کیوں دہشت گردی کی آگ میں جھونکتے وہ ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل ہیں انھوں نے پاکستان کی ساکھ کو پوری دنیا میں تباہ کیا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کس حکمت عملی کے تحت ان سے رابطہ رکھا گیا ہے جب کہ وہ اپنی دشمنی کا ثبوت پاکستان کے اہم دفاعی اداروں پر حملے کر کے دے چکے ہیں۔

جہاں تک مذاکراتی عمل میں ان کی شمولیت کا معاملہ ہے اس کے لیے خود امریکا یا پھر اس مسئلے کے حل کے لیے کام کر رہے دوسرے ممالک کو انھیں مذاکرات کے لیے آمادہ کرنا چاہیے۔ پاکستان ایک زمانے سے طالبان کی پاکستان میں موجودگی سے انکار کرتا رہا ہے مگر مشیر خارجہ سرتاج عزیز اپنے حالیہ دورۂ واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں طالبان کی پاکستان میں موجودگی کا ذکر کر چکے ہیں۔ چنانچہ طالبان کے بارے میں ہماری گو مگو پالیسی نے ہمیں امریکا ہی نہیں پوری عالمی برادری کے سامنے مشکوک بنا دیا ہے جسکا سب سے زیادہ فائدہ بھارت اٹھا رہا ہے ایک طرف وہ افغانستان میں اپنی پوزیشن مستحکم کر رہا ہے تو دوسری جانب کشمیر کے مسئلے کو دبانے میں کامیابی حاصل کر رہا ہے۔

ادھر امریکا میں بھارتی لابی زیادہ فعال ہو رہی ہے۔ ایف سولہ طیاروں کا حصول بھی اب مشکل ہو گیا ہے اور امریکا نے کولیشن سپورٹ فنڈ کو بھی حقانی نیٹ ورک کے خاتمے سے منسلک کر دیا ہے ساتھ ہی افغان جنگ کو طول دینے کا ذمے دار بھی ہمیں ہی ٹھہرایا جا رہا ہے۔ یہ حیران کن الزام افغانستان میں امریکا کے نئے کمانڈر جنرل جان نکولسن کی واشنگٹن کے لیے تیار کی گئی تازہ رپورٹ میں لگایا گیا ہے۔

کاش کہ ہم نے افغان مسئلے پر شروع سے ہی دو ٹوک پالیسی اپنائی ہوتی اور بھارت کی افغان جنگ کو الجھانے کی سازشوں سے امریکی حکومت کو آگاہ کیا ہوتا پھر اگر بولڈ بن کو ابتدا میں ہی وہاں بھارت کی موجودگی میں افغان مسئلے کے حل کے لیے کسی بھی قسم کا کام کرنے سے معذرت کر لی ہوتی تو آج بھارت ہمارے لیے اتنی مصیبتیں کھڑی نہ کر پاتا۔ بہر حال اب وقت آ گیا ہے کہ افغان مسئلے پر معذرت خواہانہ رویہ ترک کیا جائے۔ افغان حکومت کو اس کی اوقات میں رکھا جائے، امریکا سے سودے بازی کی پالیسی ترک کر کے اسے اس مسئلے کا حل خود نکالنے دیا جائے اور سب سے اہم بات یہ کہ اب افغان بورڈ پر باڑھ لگانے میں ذرا دیر نہ کی جائے۔
Load Next Story