یہ ’’دن‘‘ جو منائے جاتے ہیں

ہم دوسروں کی نقل میں کسی بھی موقعے کی مناسبت سے ’’دن‘‘ منانے میں خاصے فراخ دل ہیں

fatimaqazi7@gmail.com

ہم دوسروں کی نقل میں کسی بھی موقعے کی مناسبت سے ''دن'' منانے میں خاصے فراخ دل ہیں۔ مدر ڈے، فادر ڈے، ویلنٹائن ڈے، تھیلیسمیا ڈے، عالمی یوم صحافت، عالمی یوم خواتین وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر سچائی کو قبول کرلیا جائے تو یہ سب محض دکھاوا اورفضولیات کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں بے کار خواتین کو جمع کرلیا،کہیں حضرات بھی آگئے، فنڈزکہیں نہ کہیں سے مل ہی جاتے ہیں۔

تقاریب ہوتی ہیں، ٹی وی کیمرے کوریج کرتے ہیں، رپورٹرز خبریں اور تصاویر بناتے ہیں، اخبارات اور خبرنامے میں جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں،دس ہزارکے خرچ کو آپس کی ملی بھگت سے دس لاکھ میں بدلنا کوئی مشکل بات نہیں۔ اندھوں نے ریوڑیاں بڑی ہوشیاری سے اپنوں اپنوں میں بانٹیں۔ اور بس اللہ اللہ خیر صلّا۔ دوسرے دن کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ کوئی دن منایا گیا تھا۔ مثال کے طور پر گزشتہ اتوار کو منائے جانے والے ''مدر ڈے'' ہی کو لے لیجیے۔

کتنی بدنصیب ماؤں نے یہ دن کس کرب سے گزارا ہوگا، اس کا اندازہ صرف انھیں ہی ہوسکتا ہے جنھوں نے بچوں کے پیار بھرے جملے سننے کے لیے سارا دن موبائل فون سامنے رکھا، لیکن کسی کو ماں یاد نہ آئی، یہ دن اور بھی تکلیف دیتے ہیں۔گھروں میں کام کرنے والی عورتیں، محنت مزدوری کرنے والی مائیں، چھابڑی لگانے والی وہ مائیں جو بچوں کی پرورش کے لیے دھوپ اورگرمی کی پرواہ کیے بغیر سودا بیچ رہی ہیں۔ انھیں کیا پتہ ہے کہ ''مدر ڈے''کس چڑیا کا نام ہے۔ یا وہ مائیں جنھوں نے تنہا محنت کرکے اولاد کو پروان چڑھایا لیکن بڑھاپے میں صرف تنہائی اور اداسی مقدر بنی تو ان کے دل پر یہ نام نہاد ''مدر ڈے'' کیا قیامت ڈھاگیا۔ بھلا کون اس کا ادراک کرسکتا ہے۔ دن منانے سے زخموں کے منہ کھل جاتے ہیں اورکچھ نہیں ہوتا۔

اسی طرح خواتین کے عالمی دن ہی کو لے لیجیے۔ بڑے شہروں میں دھوم دھام سے تقاریب اور تقاریر ہوتی ہیں، ''ہائی ٹی '' لازمی جزو ہے، لیکن اسی پاکستان میں روزانہ کتنی عورتیں جاہلانہ رسومات کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں۔ اگر وہ پسند کی شادی کرلیں تو زندہ درگور کردیا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل قبائلی کلچر کا طرہ امتیاز ہے۔ ''سوارہ'' ...''ونی'' ...''قرآن سامنے رکھ کر حق بخشوا لینا (بی بی) بنا دینا اور نہ جانے کتنے جاہلانہ رسم و رواج کے نام پر عورتوں کو بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ لیکن کسی کو اس کا ادراک نہیں ہے۔ صرف ایک تقریرکرکے عورتوں کے حقوق بحال نہیں کیے جاسکتے۔

جہاں مذہبی عالم اور انتہا پسند مولوی حضرات عورتوں پر تشدد کو ضروری سمجھتے ہوں وہاں ایک دن عورتوں کے نام پر منانے سے کون سا انقلاب آیا ہے؟ جہاں گاؤں گوٹھوں میں عورتوں کو وڈیرے اور جاگیردار سر عام برہنہ کرکے انھیں بے آبروکرتے ہوں، جہاں عورتوں کو زندہ دفن کرنا کسی قوم کی میراث ہو، وہاں ایک دن عورتوں کے نام کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

شہری عورت خاص کر ملازمت پیشہ دہرے عذاب کا شکار ہے۔ گھر بھی چلائے، بچے بھی پالے، لیکن پھر بھی معتوب ٹھہرے۔ وہ پچیس سال کی ہو یا ستر سال کی مورد الزام ہی ٹھہرے گی۔ البتہ شہروں کی ہاؤس وائف خوش نصیب عورتیں ہوتی ہیں جنھیں نہ ملازمت کے لیے جلتی دھوپ میں نکلنا پڑتا ہے نہ چولہا جھونکنا پڑتا ہے۔ میاں تنخواہیں لاکر ہتھیلی پہ رکھ دیتے ہیں، پھر وہ سیاہ کریں یا سفید کوئی نہیں پوچھتا کہ 90 فیصد ہاؤس وائف کی اولین ترجیح صرف شاپنگ ہوتی ہے۔ شہری مرد محض بار برداری کے لیے استعمال ہونے والا جانور ہے جس کا کام صرف بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرنا ہے۔


اسی لیے ہماری سوسائٹی میں مردوں کو ہارٹ اٹیک زیادہ ہوتے ہیں لیکن یہ مخصوص دن منانے والے کبھی اصل مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ کہنے کو ''غربت مٹاؤ'' دن بھی منایا جاتا ہے لیکن باقاعدہ پلاننگ سے غریب کو مٹایا جا رہا ہے۔ تیزاب سے جھلسنے کی وارداتیں کم کیوں نہیں ہوتیں، کیا کسی NGO یا سرکاری ادارے نے یا اسمبلی کی خواتین نے یہ کوشش کی کہ تیزاب پھینکنے والے اور غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو فوری پھانسی کی سزا دی جائے اور فوراً عمل بھی کیا جائے؟

کہنے کو پچھلے ہفتے تھیلیسمیا کا دن بھی منایا گیا اور ہر سال منایا جاتا ہے لیکن کیا ہوا؟ بڑے بڑے سیمینارز ہوئے تقاریر ہوئیں لیکن سب بے کار۔ چند مخلص لوگ اپنی اپنی کوششوں سے لوگوں میں آگہی اور شعور پیدا کررہے ہیں لیکن سب بیکار ۔ آج تک نکاح نامے میں لڑکی اور لڑکے کا شادی سے قبل تھیلیسمیا کا ٹیسٹ لازمی قرار نہیں دیا گیا۔ اسی لیے مائنر اور میجر تھیلیسمیا کے کیس مسلسل سامنے آرہے ہیں۔

لوگوں میں شعور نہیں ہے اور بظاہر پڑھے لکھے لوگ بھی اس مسئلے کو اہمیت نہیں دیتے۔ لیکن جب شادی کے بعد اولاد ہوتی ہے اور مختلف کیسز سامنے آتے ہیں تو سر بھی پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ انتقال خون کتنا مہنگا اور کتنا تکلیف دہ طریقہ علاج ہے۔ یہ ذرا ان والدین سے پوچھیں جن کے جگرگوشے اس کی وجہ سے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

سرکاری طور پر کوئی سرپرستی نہیں۔ بچے پرائیویٹ اسپتالوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہمارے ہاں جہالت کا یہ عالم ہے کہ اخبار پڑھا نہیں جاتا، خبریں سنی نہیں جاتیں، ٹی وی چینل سارا وقت بے مقصد ٹاک شوز اور احمقانہ کوکنگ شوز سے 24/7 چینل چلاتے ہیں اور خوب کماتے ہیں۔ تھیلیسمیا سے بچاؤ ممکن ہے۔ کیا حرج ہے اگر رشتہ طے ہونے کے بعد دونوں کا تھیلیسمیا کا ٹیسٹ کرالیا جائے۔ لیکن یہاں ہر بات اور ہر مشکل کو ''اللہ کی مرضی'' کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اپنی کوتاہیوں سے بچنے کا یہ اچھا طریقہ ہے۔ جب کہ خدا نے انسان کو عقل و شعور عطا کرکے اسے اشرف المخلوقات کا درجہ اسی لیے دیا ہے کہ وہ غلط اور صحیح میں تمیز کرسکے۔

عمیر ثناء فاؤنڈیشن جیسے مخلص ادارے سے وابستہ سمجھ دار لوگوں اور ڈاکٹروں کی ہزار کوششوں کے باوجود آج تک نکاح نامے میں تھیلیسمیا کے ٹیسٹ کی رپورٹ کا اندراج نہیں ہوسکا۔ کیونکہ ہمیں پانامہ لیکس، سرے محل، فرانس کے شاطو، رائے ونڈ کے محلات سے فرصت ملے تو کسی اور طرف دیکھیں؟

اور بھلا یہ قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران کیوں ایسے بل پاس کروائیں، یہ مولوی صاحبان اور مذہبی جماعتوں کے امیرکیوں اس طرف دیکھیں۔ ان کی نگاہیں، ان کا ناشتہ، حلوہ، روٹی پانی سب ''ڈنڈا برداروں'' اور جمہوریت کی بندریا کی حرکات و سکنات پر رہتی ہیں، انھیں صرف ڈگڈگی کی آواز کو سننا ہوتا ہے، کسی طرح الیکشن ہوں اور بندریا اپنا ناچ دکھانا شروع کرے؟ ایسے میں تھیلیسمیا جیسے مہلک مسئلے کی طرف توجہ کون دے؟ کم از کم لوگوں کو خود یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے کبھی کبھار کوئی ٹاک شو بھی اس پر ہوسکتا ہے۔
Load Next Story