ملتے ہیںٹیکنو کریٹک بریک بعد…
نتیجہ آیا تو سابق وزیر اعظم کی چھوڑی سیٹ پر ان کے بیٹے عبدالقادر...
جوں جوںشام ڈھل رہی تھی اور ملتان حلقہ 151 کے ضمنی الیکشن کے نتائج سامنے آ رہے تھے۔ ٹی وی اسکرین پر بہت سی ''مستند'' سچائیاں اور ایماندارانہ فیصلے کرپشن کے اسی بلیک ہول میںغرق ہو رہے تھے جنہیں ''راندہ درگاہ'' کیا گیا تھا مگر عوام نے ایک مرتبہ پھر اسی آستانہ کو اپنا سیاسی مرشد خانہ قرار دیا۔
19جولائی کی اس شام نواز لیگ کے ممبر قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے سلسلہ میںمیرے پاس' ایکسپریس نیوز' تشریف لائے ہوئے تھے۔ اس وقت تک گیلانیوں اور بوسنوں میںکانٹے کا مقابلہ چل رہا تھا۔ شیخ صاحب نے ٹی وی اسکرین پر چلتی پٹیوں کو دیکھ کر سگریٹ کا ایک لمبا کش لگاتے ہوئے کہا کہ... آج شاید اپ سیٹ ہو جائے... مگر یہ نہ ہوسکا... نتیجہ آیا تو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی چھوڑی سیٹ پر ان کے بیٹے عبدالقادر گیلانی 64628 ہزار ووٹ لے کر جیت چکے تھے۔
عبدالقادر گیلانی اپنے انتخابی حریف شوکت بوسن سے اگرچہ 4096 ہزار ووٹوںسے جیتے ہیں جو پارلیمانی طرز انتخاب اورایک مشکل حلقے میں بہرحال ایک کامیابی ہے مگر ''جیٹھانیوں'' کی طبعیت رکھنے والے احباب اس جیت کو ''کھڑکی توڑ'' ماننے سے انکاری ہیں۔ ملتان کا مذکورہ حلقہ ایک طویل عرصہ سے گیلانیوں اور بوسنوں کے درمیان رن کا میدان بنا ہواہے۔ اس حلقہ میں 2008ء کے الیکشن میں یوسف رضاگیلانی نے 70498 ہزار ووٹ لے کر اپنے حریف سکندر بوسن کو 24734 ہزار ووٹوںکی اکثریت سے شکست دی تھی۔
بعدازاں ضمنی انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے موسیٰ گیلانی نے این اے 148 ملتان سے 93106 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ ان کے حریف ملک عبدالغفار ڈوگر جو نون لیگ کے امیدوار تھے 42819 ہزار ووٹ لے کر آدھے سے بھی زیادہ مارجن سے ہارے تھے۔2008ء کے انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی میں ایک تاریخی مینڈیٹ سے وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم منتخب کرانے میں جہاں لگ بھگ ہر جماعت کے ووٹ شامل تھے وہاں نواز لیگ نے بھی ان کو شرف قبولیت بخشا تھا۔
یوسف رضا گیلانی کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ محترم نے نواز شریف کے ہیوی مینڈیٹ ہونے کا ناقابل تسخیر ریکارڈ بھی توڑا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب جنرل پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا تھا جب کہ وطن عزیز اورہماری زندگیوںکے ساحل پر ہمارے جمہوری سندباد لنگرانداز ہوتے ہوئے اپنا سیاسی جیون ایک ساتھ بیتانے کی قسمیںکھا رہے تھے۔
ڈکٹیٹرشپ کی 8 سالہ تپتی زندگی کے بعد وطن عزیز سیاسی رانجھوں، پنووں اور مہینوالوں کے واسطے ایک LOVE SPOT (محبت کرنے کی لوکیشن) کا روپ دھار چکا تھا... جی ہاں... یہ ان دنوں کی بات ہے جب پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے درمیان سے ہوا نہیںگذرتی تھی، جناب صدر آصف زرداری اپنے ہاتھ میں میاں نواز شریف کا ہاتھ تھام کر فضاوں میں لہراتے ہوئے جیون بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں کھایاکرتے تھے، صدر زرداری اور میاں نواز شریف کو یوں ایک دوسرے میں شیروشکر دیکھ کر مجھے بھیا محمد علی اور زیبا بھابی پر فلمبند وہ گانا یاد آجایا کرتا تھا جسے مہدی حسن اور نور جہاں نے گایا تھا... جیون بھر ساتھ نبھائیں گے ہم دونوں...
فلموں میں عموماً کہانی اورکرداروں کے رویوں میں تبدیلی ہاف ٹائم کے بعد نمودار ہوتی ہے مگر پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی ''WE MET جب'' تو پہلی پہلی ریلوں میں ہی پٹ گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نظریاتی طور پر پاکستان میں دو طرح کے ووٹر پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو پیپلزپارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اور دوسرے وہ جو ان کے مخالفین ہیں۔ 2008ء کے انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں لائے گئے ''پولیوزدہ'' جمہوری سیٹ اپ کے بعد جس میںغریب کے دکھ اور مشکلات لامحدود ہوگئیں۔
اگرچہ یہ تصور کوئی بھولی بسری کہانی لگتی ہے کہ ہمارے ہاں ووٹروں کی عمومی قسمیں صرف دو قسم کی ہیں مگر ضمنی انتخابات میںیکے بعد دیگرے پیپلز پارٹی کی کامیابی اس سبق آموز کہانی کو دہرانے کی طرف آمادگی کی دعوت دے رہی ہے کہ ''اتفاق میںبرکت ہے ''( براہ کرم اتفاق کو اتفاق فونڈری نہ پڑھاجائے )۔ 1970 میںیہ تقسیم اس قدر نمایاں ہوکر سامنے آئی کہ اسٹبلشمنٹ کے لیے غیرجانبداررہنا ''سیکورٹی رسک'' قرار پایا ۔پیپلز پارٹی اورنون لیگ سمیت دیگر بڑی جماعتوںکے اتفاق رائے سے چیف الیکشن کمشنر منتخب ہونے والے جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کا کہنا ہے کہ وہ 70کے بعد ہونے والے کسی الیکشن کو نہیںمانتے ۔
اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے ان الیکشنز کے نتیجہ میں وجود میںآنے والی اسمبلیوں اوران کے سربراہان محترمہ بے نظیر بھٹو اورنوازشریف کو ان کی مدت پوری نہیںکرنے دی گئی ۔اس طرح کی بات کرنا تو فخرو بھائی کا طبعاََ انصاف اور جمہور پسند ہونے کی علامت ہے ۔ مگر اس حقیقت کو کیسے فراموش کیاجاسکتا ہے کہ ماضی میں مختلف انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کے مقابلے میںدائیںبازو کی تمام جماعتیںیوںاکٹھی ہوتی رہی ہیںجیسے ''نیٹواتحاد'' مبینہ عالمی دہشت گردوںکو برباد کرنے کے لیے افغانستان پر چڑھائی کیے ہوئے ہے۔
حضرات ! آپ سوچ رہے ہوںگے کہ گیلانیوں اور بوسنوں کے الیکشن میںتو ظاہری طور پر کوئی '' آئی جے آئی '' نہیںبنائی گئی تو پھر اس موقعہ پر بوسیدہ زخموںپر تازہ نمک کیوںچھڑکا جارہاہے ؟مذکورہ انتخا بی معرکہ کوجس طرح ہمارے ''حق پرست'' میڈیا نے کرپشن اور ایمانداری کے مابین حق وباطل کامعرکہ بنا کرپیش کیااس میںکچھ حقائق بھی سامنے آتے رہے ۔
شوکت بوسن کی انتخابی مہم کے سلسلہ میںجو تشہیری بینر سجائے گئے ان میںعمران خان اور میاں نوازشریف کے کلر پوٹریٹس نمایاں تھے ۔یوں تاثر دیا گیا کہ شوکت بوسن ، جناب عمران خان اور محترم نوازشریف کے مشترکہ منظور شدہ امیدوار ہیں جس کی تردید آج تک نہیںکی گئی۔مذکورہ دوسیاسی جماعتوںسے وابستہ ٹی وی ٹاک شوز '' رجمنٹ'' میںشامل درجنوںشعلہ بیانوں سمیت ان کے میزبان انکر پرسنز چیخ،چیخ کر بیلٹ پیپر کے ذریعے انقلاب لانے کا پرچار کررہے تھے۔
جب ان کے لاکھ کہنے کے باوجود آڈر پر مال تیار کرنے کی مصداق من پسند انقلاب نہ آسکا تو اصولوں کی سیاست کرنے کے پیکروں کے مشیروں اور تھینک ٹینکس نے یہ کہناشروع کیاکہ نون لیگ اورتحریک انصاف کے ووٹ تقسیم ہوئے تو فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوگا۔ عمراں خان کی اب تک کی سیاست ایک اینگری مین کی کہانی، اسکرین پلے اورڈائیلاگ سے بھرپور سنیما اسکوپ فلم کی طرح ہے جس میں وہ پیپلز پارٹی اورنون لیگ کے لیڈروںکو قومی معیشت کی روح قبض کرنے والے قرار دیتے رہے ہیں۔
عمران خان نے راقم الحروف کو دیے انٹرویو سمیت سیکڑوں بار کہا ہے کہ...ممکن ہے کسی مرحلے پر وہ آصف زرداری سے سیاسی اتحادکرلیںمگر میاں برادران سے سمجھوتہ کرنے کا تصور بھی ناممکن ہے کیونکہ انھوںنے انھیںکئی مرتبہ دھوکہ دیاہے... یہ کہتے ہوئے عمران خان اس قدر جذباتی ہوگئے تھے کہ میرے لیے ان کے ''جذبات'' کو یہاں بیان کرناممکن نہیںہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج نے مستقبل قریب میںکسی ممکنہ ''آئی جے آئی '' کے تصور میںابھی سے رنگ بھرنے شروع کر دیے ہیں۔
سیاسی خوابوں میںحقیقت کا رنگ بھرنے والے یہ کہہ رہے ہیںکہ... ضمنی انتخابات میںپیپلز پارٹی کی کامیابی نے آیندہ عام انتخابات میںنئے امکانات کوجنم دیا ہے...طریقہ واردات... معاف کیجیے گا... طریقہ کار یہ طے پارہا ہے کہ سیاسی حلقوں کے منہ میںیہ نعرہ ڈال دیاگیاہے کہ آیندہ انتخابات میںدائیںبازو کی تمام جماعتیں پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہوکر الیکشن لڑیں تو پھر ہی''قومی مفادات'' کے اہداف حاصل کیے جاسکیںگے او ر''ملکی سلامتی''محفوظ ہاتھوںمیںرہے گی... علاوہ ازیںہمارے ہاں ایک مرتبہ پھر وہی ڈرامہ سیریل نشر کرنے کی تیاریاںدیکھنے کو مل رہی ہیںجو اکثر طوالت اختیار کرجایاکرتی ہے... یہاں لیتے ہیںکہ ایک ''ٹیکنوکریٹک بریک ''اورملتے ہیںکسی متوقع یا غیرمتوقع ''بریک''کے بعد...
19جولائی کی اس شام نواز لیگ کے ممبر قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے سلسلہ میںمیرے پاس' ایکسپریس نیوز' تشریف لائے ہوئے تھے۔ اس وقت تک گیلانیوں اور بوسنوں میںکانٹے کا مقابلہ چل رہا تھا۔ شیخ صاحب نے ٹی وی اسکرین پر چلتی پٹیوں کو دیکھ کر سگریٹ کا ایک لمبا کش لگاتے ہوئے کہا کہ... آج شاید اپ سیٹ ہو جائے... مگر یہ نہ ہوسکا... نتیجہ آیا تو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی چھوڑی سیٹ پر ان کے بیٹے عبدالقادر گیلانی 64628 ہزار ووٹ لے کر جیت چکے تھے۔
عبدالقادر گیلانی اپنے انتخابی حریف شوکت بوسن سے اگرچہ 4096 ہزار ووٹوںسے جیتے ہیں جو پارلیمانی طرز انتخاب اورایک مشکل حلقے میں بہرحال ایک کامیابی ہے مگر ''جیٹھانیوں'' کی طبعیت رکھنے والے احباب اس جیت کو ''کھڑکی توڑ'' ماننے سے انکاری ہیں۔ ملتان کا مذکورہ حلقہ ایک طویل عرصہ سے گیلانیوں اور بوسنوں کے درمیان رن کا میدان بنا ہواہے۔ اس حلقہ میں 2008ء کے الیکشن میں یوسف رضاگیلانی نے 70498 ہزار ووٹ لے کر اپنے حریف سکندر بوسن کو 24734 ہزار ووٹوںکی اکثریت سے شکست دی تھی۔
بعدازاں ضمنی انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے موسیٰ گیلانی نے این اے 148 ملتان سے 93106 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ ان کے حریف ملک عبدالغفار ڈوگر جو نون لیگ کے امیدوار تھے 42819 ہزار ووٹ لے کر آدھے سے بھی زیادہ مارجن سے ہارے تھے۔2008ء کے انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی میں ایک تاریخی مینڈیٹ سے وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم منتخب کرانے میں جہاں لگ بھگ ہر جماعت کے ووٹ شامل تھے وہاں نواز لیگ نے بھی ان کو شرف قبولیت بخشا تھا۔
یوسف رضا گیلانی کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ محترم نے نواز شریف کے ہیوی مینڈیٹ ہونے کا ناقابل تسخیر ریکارڈ بھی توڑا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب جنرل پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا تھا جب کہ وطن عزیز اورہماری زندگیوںکے ساحل پر ہمارے جمہوری سندباد لنگرانداز ہوتے ہوئے اپنا سیاسی جیون ایک ساتھ بیتانے کی قسمیںکھا رہے تھے۔
ڈکٹیٹرشپ کی 8 سالہ تپتی زندگی کے بعد وطن عزیز سیاسی رانجھوں، پنووں اور مہینوالوں کے واسطے ایک LOVE SPOT (محبت کرنے کی لوکیشن) کا روپ دھار چکا تھا... جی ہاں... یہ ان دنوں کی بات ہے جب پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے درمیان سے ہوا نہیںگذرتی تھی، جناب صدر آصف زرداری اپنے ہاتھ میں میاں نواز شریف کا ہاتھ تھام کر فضاوں میں لہراتے ہوئے جیون بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں کھایاکرتے تھے، صدر زرداری اور میاں نواز شریف کو یوں ایک دوسرے میں شیروشکر دیکھ کر مجھے بھیا محمد علی اور زیبا بھابی پر فلمبند وہ گانا یاد آجایا کرتا تھا جسے مہدی حسن اور نور جہاں نے گایا تھا... جیون بھر ساتھ نبھائیں گے ہم دونوں...
فلموں میں عموماً کہانی اورکرداروں کے رویوں میں تبدیلی ہاف ٹائم کے بعد نمودار ہوتی ہے مگر پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی ''WE MET جب'' تو پہلی پہلی ریلوں میں ہی پٹ گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نظریاتی طور پر پاکستان میں دو طرح کے ووٹر پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو پیپلزپارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اور دوسرے وہ جو ان کے مخالفین ہیں۔ 2008ء کے انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں لائے گئے ''پولیوزدہ'' جمہوری سیٹ اپ کے بعد جس میںغریب کے دکھ اور مشکلات لامحدود ہوگئیں۔
اگرچہ یہ تصور کوئی بھولی بسری کہانی لگتی ہے کہ ہمارے ہاں ووٹروں کی عمومی قسمیں صرف دو قسم کی ہیں مگر ضمنی انتخابات میںیکے بعد دیگرے پیپلز پارٹی کی کامیابی اس سبق آموز کہانی کو دہرانے کی طرف آمادگی کی دعوت دے رہی ہے کہ ''اتفاق میںبرکت ہے ''( براہ کرم اتفاق کو اتفاق فونڈری نہ پڑھاجائے )۔ 1970 میںیہ تقسیم اس قدر نمایاں ہوکر سامنے آئی کہ اسٹبلشمنٹ کے لیے غیرجانبداررہنا ''سیکورٹی رسک'' قرار پایا ۔پیپلز پارٹی اورنون لیگ سمیت دیگر بڑی جماعتوںکے اتفاق رائے سے چیف الیکشن کمشنر منتخب ہونے والے جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کا کہنا ہے کہ وہ 70کے بعد ہونے والے کسی الیکشن کو نہیںمانتے ۔
اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے ان الیکشنز کے نتیجہ میں وجود میںآنے والی اسمبلیوں اوران کے سربراہان محترمہ بے نظیر بھٹو اورنوازشریف کو ان کی مدت پوری نہیںکرنے دی گئی ۔اس طرح کی بات کرنا تو فخرو بھائی کا طبعاََ انصاف اور جمہور پسند ہونے کی علامت ہے ۔ مگر اس حقیقت کو کیسے فراموش کیاجاسکتا ہے کہ ماضی میں مختلف انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کے مقابلے میںدائیںبازو کی تمام جماعتیںیوںاکٹھی ہوتی رہی ہیںجیسے ''نیٹواتحاد'' مبینہ عالمی دہشت گردوںکو برباد کرنے کے لیے افغانستان پر چڑھائی کیے ہوئے ہے۔
حضرات ! آپ سوچ رہے ہوںگے کہ گیلانیوں اور بوسنوں کے الیکشن میںتو ظاہری طور پر کوئی '' آئی جے آئی '' نہیںبنائی گئی تو پھر اس موقعہ پر بوسیدہ زخموںپر تازہ نمک کیوںچھڑکا جارہاہے ؟مذکورہ انتخا بی معرکہ کوجس طرح ہمارے ''حق پرست'' میڈیا نے کرپشن اور ایمانداری کے مابین حق وباطل کامعرکہ بنا کرپیش کیااس میںکچھ حقائق بھی سامنے آتے رہے ۔
شوکت بوسن کی انتخابی مہم کے سلسلہ میںجو تشہیری بینر سجائے گئے ان میںعمران خان اور میاں نوازشریف کے کلر پوٹریٹس نمایاں تھے ۔یوں تاثر دیا گیا کہ شوکت بوسن ، جناب عمران خان اور محترم نوازشریف کے مشترکہ منظور شدہ امیدوار ہیں جس کی تردید آج تک نہیںکی گئی۔مذکورہ دوسیاسی جماعتوںسے وابستہ ٹی وی ٹاک شوز '' رجمنٹ'' میںشامل درجنوںشعلہ بیانوں سمیت ان کے میزبان انکر پرسنز چیخ،چیخ کر بیلٹ پیپر کے ذریعے انقلاب لانے کا پرچار کررہے تھے۔
جب ان کے لاکھ کہنے کے باوجود آڈر پر مال تیار کرنے کی مصداق من پسند انقلاب نہ آسکا تو اصولوں کی سیاست کرنے کے پیکروں کے مشیروں اور تھینک ٹینکس نے یہ کہناشروع کیاکہ نون لیگ اورتحریک انصاف کے ووٹ تقسیم ہوئے تو فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوگا۔ عمراں خان کی اب تک کی سیاست ایک اینگری مین کی کہانی، اسکرین پلے اورڈائیلاگ سے بھرپور سنیما اسکوپ فلم کی طرح ہے جس میں وہ پیپلز پارٹی اورنون لیگ کے لیڈروںکو قومی معیشت کی روح قبض کرنے والے قرار دیتے رہے ہیں۔
عمران خان نے راقم الحروف کو دیے انٹرویو سمیت سیکڑوں بار کہا ہے کہ...ممکن ہے کسی مرحلے پر وہ آصف زرداری سے سیاسی اتحادکرلیںمگر میاں برادران سے سمجھوتہ کرنے کا تصور بھی ناممکن ہے کیونکہ انھوںنے انھیںکئی مرتبہ دھوکہ دیاہے... یہ کہتے ہوئے عمران خان اس قدر جذباتی ہوگئے تھے کہ میرے لیے ان کے ''جذبات'' کو یہاں بیان کرناممکن نہیںہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج نے مستقبل قریب میںکسی ممکنہ ''آئی جے آئی '' کے تصور میںابھی سے رنگ بھرنے شروع کر دیے ہیں۔
سیاسی خوابوں میںحقیقت کا رنگ بھرنے والے یہ کہہ رہے ہیںکہ... ضمنی انتخابات میںپیپلز پارٹی کی کامیابی نے آیندہ عام انتخابات میںنئے امکانات کوجنم دیا ہے...طریقہ واردات... معاف کیجیے گا... طریقہ کار یہ طے پارہا ہے کہ سیاسی حلقوں کے منہ میںیہ نعرہ ڈال دیاگیاہے کہ آیندہ انتخابات میںدائیںبازو کی تمام جماعتیں پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہوکر الیکشن لڑیں تو پھر ہی''قومی مفادات'' کے اہداف حاصل کیے جاسکیںگے او ر''ملکی سلامتی''محفوظ ہاتھوںمیںرہے گی... علاوہ ازیںہمارے ہاں ایک مرتبہ پھر وہی ڈرامہ سیریل نشر کرنے کی تیاریاںدیکھنے کو مل رہی ہیںجو اکثر طوالت اختیار کرجایاکرتی ہے... یہاں لیتے ہیںکہ ایک ''ٹیکنوکریٹک بریک ''اورملتے ہیںکسی متوقع یا غیرمتوقع ''بریک''کے بعد...