پاناما معاملہ ٹی او آرز کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کی تعداد پر تنازع تعداد 16 سے 12 کردی گئی
اپوزیشن کو کمیٹی میں اپنے کوٹے سے ایم کیو ایم کی شمولیت کے لیے ارکان کی تعداد 12 کے بجائے 16 کرنے پر اعتراض تھا
پاناما معاملے کے ٹی او آرز کی تیاری کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی تحریک قومی اسمبلی میں منظوری کے بعد تنازع کا شکار ہوگئی جس کے بعد ایوان نے ارکان کی تعداد 16 سے گھٹا کر 12 کردی۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو وزیر قانون زاہد حامد نے پاناما معاملے کے ٹی او آرز کی تیاری کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی تحریک پیش کی، تحریک کے مطابق پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور متحدہ اپوزیشن کے 8،8 ارکان شامل ہوں گے۔ پارلیمانی کمیٹی پانامہ پیپرز، آف شور کمپنیوں پر ٹی او آرز بنائے گی، پارلیمانی کمیٹی فنڈز کی منتقلی، کک بیکس اور قرضوں کی معافی کو بھی ٹی او آرز میں شامل کرے گی، اس کے علاوہ کمیٹی بیرون ملک قرضےمعاف کرانے کے معاملات کی تحقیقات کیلیے فورم کا تعین بھی کرے گی۔ بعد ازاں ایوان نے متفقہ طور پر تحریک منظور کرلی۔
تاہم بعد میں کمیٹی کی تعداد پر ایوان میں تنازع کھڑا ہوگیا۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گزشتہ روز حکومت اور اپوزیشن کے اجلاس میں طے پایا تھا کہ کمیٹی میں حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 6،6 ہوگی لیکن بعد میں اس پر اضافہ کردیا گیا۔ جس پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایوان میں کہا کہ انہیں فاروق ستار کا ٹیلی فون موصول ہوا جس میں انہوں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے 25 ارکان ہیں لیکن کمیٹی میں انہیں نمایندگی نہیں دی گئی، ان کا موقف مناسب تھا لیکن اس کے باوجود اگر اپوزیشن چاہے تو کمیٹی میں ارکان کی تعداد 12 کرنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔
ایم کیو ایم کے آصف حسنین نے کہا کہ ایم کیو ایم اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی ہے، اگرکسی کو ایم کیو ایم پراعتراض تھا تو اسپیکر کے چیمبر پر ہونے والی میٹنگ میں اعتراض کرتا، کسی ایک سیاسی جماعت کو حق نہیں کہ پوری اپوزیشن کو ڈکٹیشن دے، ہمیں کمیٹی کے ارکان کی تعداد پراعتراض نہیں۔ جس پیمانے پر دیگر جماعتوں کوشامل کیا اسی پر ایم کیو ایم کو شامل کیا جائے۔ ملک کی چوتھی بڑی جماعت کو نظر انداز کرنا کسی طوردرست نہیں۔ جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جوائنٹ اپویشن کے ٹی او آرز اور اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیےمیں ایم کیو ایم شامل تھی لیکن خورشید شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں ایم کیو ایم شریک نہیں ہوئی، ایم کیو ایم اگر خود کواپوزیشن کا حصہ سمجھتی ہے تو اپوزیشن سے رابطہ کرے۔
وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کوپارلیمانی عمل سے باہر نہیں رکھا جاسکتا، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک سیاسی جماعت کے اوپر سے گزر جائیں۔ جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ سعد رفیق کی بات سے متفق ہیں،ایم کیو ایم کی ایوان میں موجودگی سے کوئی انکار نہیں کرتا،اگر بات کی گئی تو دور تک جائے گی، اس لئے ایم کیو ایم کو کمیٹی میں حکومت کے کوٹے میں شامل کیا جائے۔ بعد ازاں اسپیکر نے وزیر قانون کو کمیٹی کے ارکان کی تعداد میں کمی کے لیئے ترمیم کی ہدایت کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو معاملہ حل کرنے کے لیے اپنے چیمبر میں بلالیا۔ اسی دوران ایوان نے کمیٹی کے ارکان کی تعداد 16 کے بجائے 12 کرنے کی قرارداد منظور کرلی۔
واضح رہے کہ پاناما لیکس سامنے آنے پر وزیر اعظم نے چیف جسٹس کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے خط لکھا تھا تاہم چیف جسٹس نے کمیشن کے ٹی او آرز کو کافی وسیع قرار دیا تھا، جس کے بعد وزیر اعظم نے اسپیکر کو ٹی او آر کی تشکیل کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی درخواست کی تھی۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو وزیر قانون زاہد حامد نے پاناما معاملے کے ٹی او آرز کی تیاری کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی تحریک پیش کی، تحریک کے مطابق پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور متحدہ اپوزیشن کے 8،8 ارکان شامل ہوں گے۔ پارلیمانی کمیٹی پانامہ پیپرز، آف شور کمپنیوں پر ٹی او آرز بنائے گی، پارلیمانی کمیٹی فنڈز کی منتقلی، کک بیکس اور قرضوں کی معافی کو بھی ٹی او آرز میں شامل کرے گی، اس کے علاوہ کمیٹی بیرون ملک قرضےمعاف کرانے کے معاملات کی تحقیقات کیلیے فورم کا تعین بھی کرے گی۔ بعد ازاں ایوان نے متفقہ طور پر تحریک منظور کرلی۔
تاہم بعد میں کمیٹی کی تعداد پر ایوان میں تنازع کھڑا ہوگیا۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گزشتہ روز حکومت اور اپوزیشن کے اجلاس میں طے پایا تھا کہ کمیٹی میں حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 6،6 ہوگی لیکن بعد میں اس پر اضافہ کردیا گیا۔ جس پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایوان میں کہا کہ انہیں فاروق ستار کا ٹیلی فون موصول ہوا جس میں انہوں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے 25 ارکان ہیں لیکن کمیٹی میں انہیں نمایندگی نہیں دی گئی، ان کا موقف مناسب تھا لیکن اس کے باوجود اگر اپوزیشن چاہے تو کمیٹی میں ارکان کی تعداد 12 کرنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔
ایم کیو ایم کے آصف حسنین نے کہا کہ ایم کیو ایم اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی ہے، اگرکسی کو ایم کیو ایم پراعتراض تھا تو اسپیکر کے چیمبر پر ہونے والی میٹنگ میں اعتراض کرتا، کسی ایک سیاسی جماعت کو حق نہیں کہ پوری اپوزیشن کو ڈکٹیشن دے، ہمیں کمیٹی کے ارکان کی تعداد پراعتراض نہیں۔ جس پیمانے پر دیگر جماعتوں کوشامل کیا اسی پر ایم کیو ایم کو شامل کیا جائے۔ ملک کی چوتھی بڑی جماعت کو نظر انداز کرنا کسی طوردرست نہیں۔ جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جوائنٹ اپویشن کے ٹی او آرز اور اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیےمیں ایم کیو ایم شامل تھی لیکن خورشید شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں ایم کیو ایم شریک نہیں ہوئی، ایم کیو ایم اگر خود کواپوزیشن کا حصہ سمجھتی ہے تو اپوزیشن سے رابطہ کرے۔
وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کوپارلیمانی عمل سے باہر نہیں رکھا جاسکتا، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک سیاسی جماعت کے اوپر سے گزر جائیں۔ جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ سعد رفیق کی بات سے متفق ہیں،ایم کیو ایم کی ایوان میں موجودگی سے کوئی انکار نہیں کرتا،اگر بات کی گئی تو دور تک جائے گی، اس لئے ایم کیو ایم کو کمیٹی میں حکومت کے کوٹے میں شامل کیا جائے۔ بعد ازاں اسپیکر نے وزیر قانون کو کمیٹی کے ارکان کی تعداد میں کمی کے لیئے ترمیم کی ہدایت کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو معاملہ حل کرنے کے لیے اپنے چیمبر میں بلالیا۔ اسی دوران ایوان نے کمیٹی کے ارکان کی تعداد 16 کے بجائے 12 کرنے کی قرارداد منظور کرلی۔
واضح رہے کہ پاناما لیکس سامنے آنے پر وزیر اعظم نے چیف جسٹس کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے خط لکھا تھا تاہم چیف جسٹس نے کمیشن کے ٹی او آرز کو کافی وسیع قرار دیا تھا، جس کے بعد وزیر اعظم نے اسپیکر کو ٹی او آر کی تشکیل کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی درخواست کی تھی۔