ٹریفک بتائے قوم کا مزاج

سڑکوں پر رواں ٹریفک اور قوانین کی پابندی، قوم کی تہذیب کا لٹمس ٹیسٹ تو نہیں لیکن عکاس ضرور ہوتی ہے۔

ٹریفک سگنل کھلنے کے بعد اگر کسی وجہ سے آگے کھڑی گاڑی والے کا فوراً دھیان نہیں پڑا تو ایک سیکنڈ ضائع کئے بغیر پیچھے سے ہارن بجانے کا باجماعت سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

کسی بھی معاشرے میں سڑکوں پر رواں ٹریفک اور قوانین کی پابندی، اُس قوم کی تہذیب کا لٹمس ٹیسٹ تو نہیں لیکن ہلکی پھلکی عکاس ضرور ہوتی ہے۔ پاکستانی عوام کو سمجھنے کے لئے اگر سڑکوں پر چلتی ٹریفک سے مدد لیں تو قوم کے مزاج کی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔ تو آئیں چند مثالوں سے جانتے ہیں کہ ٹریفک کے پیمانے سے قوم کا مزاج کیسے اور کس حد تک ماپا جاسکتا ہے۔
ہارن دو راستہ لو

ہارن بجا کر یا ڈپر (Dipper) مار کر ٹیک اوور کرنے والے حضرات تربیت کا فقدان ظاہر کرجاتے ہیں تو دوسری طرف کچھ ایسے بھی مست ڈرائیور یا پیدل چلنے والے حضرات بکثرت پائے جاتے ہیں جو سڑک کو جہیز میں ملی جائیداد سمجھتے ہیں۔ کچھ ٹرک والوں نے تو نوٹس لکھ کر لگایا ہوتا ہے کہ ''ہارن دو راستہ لو''۔ مہذب معاشرے میں ہارن بجانا گالی سمجھی جاتی ہے لیکن پاکستان میں ہارن بجانا اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ٹریفک سگنل کھلنے کے بعد اگر کسی وجہ سے آگے کھڑی گاڑی والے کا فوراً دھیان نہیں پڑا تو ایک سیکنڈ ضائع کئے بغیر پیچھے سے ہارن بجانے کا باجماعت سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

ایسے لوگوں کو جب ریلوے پھاٹک بند ملتا ہے تو 2 منٹ ضائع نہیں ہونے دیتے اور موٹر سائیکل کندھوں پر اٹھا کر پھاٹک پھلانگ جاتے ہیں۔ آگے جا کر بے شک آدھا گھنٹہ بندر کا تماشہ دیکھنے میں ضائع کردیں۔ ہارن بجانا اگرچہ بد تہذیبی ہے لیکن ہارن بجائے بغیر چارہ بھی نہیں کیونکہ آگے گاڑی والا غلط لین میں سست رفتار کے ساتھ آپ کو رستہ نہ دے تو آپ کے پاس ایک یہی چارہ رہ جاتا ہے۔ یعنی سمجھ یہ آیا کہ ہر کوئی غلطی پر ہے۔ نہ لوگوں کو یہ علم ہے کہ تیز رفتاری کے لیے گاڑی کس لین پر چلانی چاہیے اور نہ سست رفتار والے کو یہ علم ہے کہ وہ آخری لین پر گاڑی نہ رکھے، یہی خرابی سڑک پر ہیجان برپا کردیتی ہے اور معاملات خرابی کی طرف چلے جاتے ہیں۔
ٹریفک حادثے میں عدم برداشت کی جھلک

معاشرے میں عدم برداشت کس حد تک ہے، ٹریفک حادثہ سب بتا دیتا ہے۔ ایکسیڈنٹ کے بعد گاڑیوں کا جیسے ہی حلیہ بگڑتا ہے دونوں متاثرہ ڈرائیورز باہر نکل کر ایک دوسرے کا حلیہ بگاڑنا شروع کردیتے ہیں۔ قصور بے شک دونوں ڈرائیوروں کا ہو لیکن سزا ملتی ہے مقدس رشتوں کو۔ خود ہی ملزم، خود ہی وکیل اور خود ہی جج بننے کی عملی مثال اس بحث سے ایسے نکلتی ہے جیسے گاڑیوں سے دھواں، اور ہاں اگر پولیس بیچ بچاؤ کرانے آ بھی جائے تو معافی تلافی کا قانونی نظام موجود ہی نہیں، بلکہ جس کی لاٹھی مضبوط ہوتی ہے وہ حق لے لیتا ہے اور قانون صرف چالان کاٹنے تک ہی محدود محسوس ہوتا ہے۔ عدم برداشت کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہاں انصاف نہ ملنے کا تاثر بہت مضبوط ہے۔
وی آئی پی چال اور بھیڑ چال

پاکستان کے آئین کے مطابق کوئی شخص وی آئی پی نہیں ہے، لیکن سڑکوں پر قانون کے رکھوالے قانون بنانے والوں کے لئے ہی وی آئی پی روٹ کا انتظام کردیتے ہیں۔ وارڈن کے ایک اشارے پر ٹریفک رک جاتی ہے۔ صاحب فراٹے بھرتی گاڑیوں کے ساتھ عوام پر دھول اڑاتے چلے جاتے ہیں اور گرمی میں کھڑی عوام کی طرف سے گالیوں کی ہوائی فائرنگ بھی وقفے وقفے سے جاری رہتی ہے۔ وی آئی پی موومنٹ گزرنے کے بعد اگر ٹریفک وارڈن سگنل نہیں کھولتا تو ایک شخص کے ہارن بجانے کی دیر ہوتی ہے، بس پھر ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا، غرض پچھلے 10 منٹ سے سکون سے انتظار کرنے والوں کو ناجانے اتنی جلدی کس بات کی آجاتی ہے کہ وہ اب چند سیکنڈز بھی رکنے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ مثال نہ صرف قوم میں بھیڑچال مزاج کی عکاسی کرتی ہے بلکہ عوام اور خواص میں قانون کے واضح فرق کے تاثر کو بھی مضبوط کرتی ہے۔
ٹریفک سگنل

ٹریفک وارڈن کی موجودگی میں سگنل نہ توڑنا اور اُن کی غیر موجودگی میں سگنل توڑنا اب لوگوں نے اپنا فرض سمجھ لیا ہے۔ اِس مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ قانون پر صرف اُس وقت تک عمل کرنے کے لیے تیار ہیں جب تک اُن کو یہ خوف رہتا ہے کہ اگر انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی تو سزا ملنے کا پورا پورا امکان ہے، لیکن جب یہ خوف نکل جاتا ہے تو پھر وہ کسی کی نہیں سنتے۔ اس پوری بات سے یہ خلاصہ نکلتا ہے کہ اگر یہاں بھی قانون پر عملداری کے لیے سختی کی جائے تو لوگ بالکل اُسی طرح عمل کریں گے جس طرح ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔
ٹریفک جام اور خودغرضی

معاشرے میں دوسروں کا حق کس حد تک مارا جاتا ہے، اس کی مثال ٹریفک جام میں ملتی ہے۔ جلدی نکلنے کے چکر میں لین اور لائن خراب کرکے دوسروں کا نہ صرف رستہ روکا جاتا ہے بلکہ ٹریفک کے اژدھام کی اذیت اور بڑھا دی جاتی ہے۔ اگر ٹریفک جام میں دو گاڑیوں کے درمیان خالی جگہ سے موٹر سائیکل گزارنی ہو تو پچھلی گاڑی والا صورتحال بھانپتے ہوئے اپنی گاڑی کو تھوڑا اور آگے کرکے موٹر سائیکل گزرنے کا رستہ بند کردے گا۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں حق دینے والے کم ہی ملیں گے۔ البتہ حق چھیننے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ایسے لوگوں کو پنجابی میں چول کہا جاتا ہے اور چول ایسی چیز ہوتی ہے جو دکھائی تو جاسکتی ہے سمجھائی نہیں جاسکتی۔

معاشرے میں بد تہذیبی اور شہری شعور کے فقدان کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ گاڑی کی کھڑکی کھول کر کچرا سڑک پر پھینک دیا جائے، چلتی گاڑی سے پچکاری ماری جائے اور پان اور گٹکے کی پیک سے فٹ پاتھ رنگین کی جائے۔ جانے وہ وقت کب آئے گا جب ایسے لوگ گاڑی اور گھر کو صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کو بھی صاف رکھنے کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے۔

بیچ چوراہے پر تماشا

اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کچھ کرکے حالات بدلنے کے بجائے صرف خاموش تماشائی بننے کا رواج کس حد تک سرائیت کرچکا ہے تو اِس کی جھلک بھی سڑکوں پر ہی ملے گی۔ کوئی حادثہ یا لڑائی ہوجائے، تماشا دیکھنے والوں کا کوئی شمار ہی نہیں، تماش بینوں کو دیکھ کر مزید افراد اُس کی جانب ایسے بڑھتے جاتے ہیں جیسے شہد گرتے ہی چیونٹیاں اکھٹی ہوجاتی ہیں۔ ہر نیا آنے والا پوچھے گا کیا ہوا؟ اور کچھ لوگ تو اس تماشے کو ڈیجیٹل یاداشت میں قید کرنے کے لئے اسمارٹ فون نکال لیں گے۔ اس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر لوگ کچھ مثبت کرنے کا ارادہ رکھتے تو معاشرے میں بدعنوانی، رشوت، ظلم اور دوسری سماجی برائیاں صرف تماشا ہی نہ بنتیں بلکہ ختم ہوچکی ہوتیں۔
آخر میں ایک ایک اچھی بات

بھائی جان اسٹینڈ اٹھا لو، باجی دوپٹہ ٹھیک کرلو، میاں صاحب لائیٹ بند کرو

پاکستانی قوم میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور احساس کا جذبہ کتنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے کبھی آپ موٹر سائیکل کا اسٹینڈ اٹھائے بغیر روڈ پر آجائیں۔ ہر ایک کلومیٹر میں آپ کو دو ایسے لوگ ضرور مل جائیں گے جو آپ کو اسٹیںڈ اٹھانے کی نصیحت کریں گے۔ دن کے وقت ہیڈ لائیٹ آن ہو تو ہاتھ کے مخصوص اشارے سے لائیٹ بند کرنے کا کہیں گے۔ اگر پیچھے بیٹھی کسی خاتون کا دوپٹہ لٹک رہا ہے تو قریب جا کر با آواز بلند خبردار کیا جائے گا تاکہ ممکنہ حادثہ سے بچا جاسکے۔ کوئی چیز گرگئی ہے تو پیچھا کرکے ڈرائیور کو اطلاع دیں گے بھیا بوری پھٹ گئی ہے، آپ کے آلو گررہے ہیں۔

سچ پوچھیں تو خوشی ہوتی ہے کہ قوم میں ایک دوسرے کو کسی مصیبت سے پہلے خبردار کرنے کا جذبہ موجود ہے۔ کاش ہم بھائی جان اسٹیںڈ اٹھانے کے ساتھ یہ بھی کہا کریں کہ بھائی جان! رشوت نہ لو، اوئے شہزادے! لائن میں آؤ، نہیں یارا سفارش کروا کر کسی کا حق نہیں مارنا۔

خیر ٹریفک تو چلتی رہے گی، ملک بھی چلتا رہے گا لیکن ملک ایسے آگے نہیں بڑھے گا، بلکہ کچھ کرنا پڑے گا خود کو بدلنا پڑے گا تب جاکر بدلے گا پاکستان۔

[poll id="1122"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story