بیزاری مگر کس سے
فرانس میں ’’لوئی‘‘ بہت زیادہ ہو گئے تھے اور عوام اس...
امریکی جریدے نیوز ویک نے لکھا ہے کہ نئے پاکستانی وزیراعظم پرویز اشرف کو ملک بھر میں وسیع پیمانے پر ''بیزاری'' کا سامنا ہے، معلوم نہیں نیوز ویک کو اس ''بیزاری'' کا پتہ کیسے چلا کیونکہ یہ تو انتہائی ٹاپ سیکرٹ بات ہے، اتنی زیادہ رازدارانہ اور خفیہ کہ آج تک خود پاکستانی لیڈروں کو بھی یہ پتہ نہیں چلا ہے کہ عوام ان سے کتنے بیزار ہو چکے ہیں حالانکہ عوام کے لبوں سے قومی ترانے کی طرح یہ الفاظ نکلتے رہتے ہیں کہ جب بھی کوئی نیا ''سیاسی تماشا'' ہوتا ہے وہ گانا شروع کر دیتے ہیں کہ
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم ''بیزار'' بیٹھے ہیں
اس ھمہ گیر بیزاری کے باعث ایک تو وہ مخصوص چہرے اور خاندان ہیں جو گویا پاکستانی بدنصیب عوام اپنے مقدر میں پکے پکے لکھوا کر لائے ہیں۔ یہ چہرے نہایت ہی زیادہ استعمال بلکہ غلط کثرت استعمال سے اتنے زیادہ بدرنگ ہو چکے ہیں کہ یہ لوگ خود بھی اپنے چہرے آئینے میں دیکھنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں اپنی ہی نحوست خود ان پر مسلط نہ ہو جائے۔ ہمیں باوثوق ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مخصوص اور منحوس چہرے آجکل آئین اور آئینے دونوں کو توڑنے میں لگتے رہتے ہیں کہ اگر اپنا چہرہ کہیں خود دیکھ لیا تو سارے سیاسی کیریئر پر نحوست چھا جائے گی، اصل میں ان کو پتہ چلا ہے کہ پاکستانی عوام کی بدنصیبی کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ دن رات ٹی وی
اور اخباروں میں یہی چہرے دیکھتے رہتے ہیں
مجھ کو بے رنگ نہ کر دیں کہیں یہ اتنے رنگ
زرد موسم ہے، ہوا سرخ، فضا نیلی ہے
اگر صرف چہروں کا معاملہ ہوتا تو پھر بھی غنیمت تھا لیکن یہاں تو کچھ نام بھی بہت زیادہ کثرت استعمال میں ہیں ۔۔۔ انقلاب فرانس کے بارے میں کسی نے کہیں مزاحیہ طور پر لکھا ہے کہ ''انقلاب فرانس'' کی وجہ کیا تھی؟ تو جواب یہ دیا گیا کہ وہاں ''لوئی'' بہت زیادہ ہو گئے اور عوام اس ''لوئی'' نام سے تنگ آ کر انقلاب پر اتر آئے تھے اور یہ بات دل کو لگتی ہے کیونکہ انقلاب فرانس کے وقت وہاں جو ''لوئی'' بادشاہ تھا وہ غالباً سترھواں لوئی (لوئی ہفت دہم) تھا، فرانس کے لوگ بڑے دل والے تھے اتنے زیادہ لوئیوں کو برداشت کرنا واقعی دل گردے کا کام ہے اور ہماری تو ابھی ابتداء ہے زیادہ سے زیادہ چار پانچ ''پرویز'' ہی ہم نے بھگتے ہوں گے اور اتنے میں نیوز ویک کہتا ہے کہ
عوام بیزار ہو چکے ہیں
مشتاق اس قدح کے بہت دردمند تھے
اے داغ تم تو بیٹھ گئے ایک آہ میں
اس میں لوگوں کا کوئی خاص قصور نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے پرویز مشرف نے اس نام کو اتنا غلط اور کثرت سے استعمال کیا ہے کہ لوگ اس سے الرجک سے ہو چکے ہیں چنانچہ اب اچھے پرویزوں سے بھی لوگ بیزار ہو جاتے ہیں، پرویز مشرف سے پہلے بھی اس نام کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں رہا ہے، ایران کے خسرو پرویز نے بے چارے فرہاد کے ساتھ بہت برا برتاؤ کیا تھا، اسے تیشہ دے کر پہاڑ کھودنے پر لگا دیا کہ اگر تم اس میں سرنگ بنا لو تو ''شیریں'' تمہیں دے دی جائے گی لیکن جب وہ کامیاب ہونے ہی لگا تھا تو ایک منحوس بڑھیا کے ذریعے بے چارے کو خودکشی پر مجبور کر دیا، بے چارے نے وہی تیشہ اٹھایا اور اپنی کھوپڑی پر دے مارا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد
سرگشتہِ خمارِ رسوم و قیود تھا
دیکھا جائے تو پاکستانی عوام کی کہانی بھی فرہاد ہی کی کہانی سے ملتی جلتی ہے یہاں بھی چونسٹھ سال سے عوام نامی فرہاد کو ''خوش حالی کی شیریں'' کا جھانسہ دے کر پہاڑ کھودنے پر لگایا گیا ہے لیکن ساری زندگی ''پہاڑ'' کھودنے کے بعد وقت کی بڑھیا انھیں بتاتی ہے کہ کون شیریں ،کہاں کی شیریں؟ اکثر تو مارے دکھ کے تیشہ سر پر مار کر چلے جاتے ہیں لیکن کچھ مہم جو لگے رہتے ہیں،
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
مانا کہ ہمارے موجود تین چار پرویز وہ نہیں ہیں، بڑے بیبے لوگ ہیں لیکن خسرو پرویز اور پرویز مشرف نے اس نام کو اتنا رسوا کیا ہے کہ اچھے پرویزوں کو بھی لوگ شک سے دیکھتے ہیں جس کا نیوز ویک جیسے جریدے خواہ مخواہ بتنگڑ بنا دیتے ہیں بلکہ ہمیں تو شک ہے کہ نیوز ویک نے کہیں جنرل پرویز مشرف کے وقت کی کوئی سروے رپورٹ اٹھا کر شایع کر دی ہے، ماشاء اﷲ ہمارے عوام اس وقت کے سب پرویزوں سے بیزار نہیں ہیں بلکہ حسب روایت، حسب عادت اور حسب معمول ان سے توقعات ہی وابستہ کیے ہوئے ہیں ویسے وہ بے چارے اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں،
ہر منزل غربت پہ گمان ہوتا ہے گھر کا
بہلایا ہے ہر گام ہمیں دربدری نے
نیوز ویک والے تو امریکی ہیں ان کو معلوم ہی نہیں ہے کہ پاکستانی عوام ''بیزاری'' کی عیاشی کر ہی نہیں سکتے کیونکہ ان کے پاس امیدوں، توقعات اور خوش فہمیوں کے سوا اور کچھ بھی باقی نہیں رہا ہے، ''بیزاری'' کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے پاس کوئی دوسرا آپشن بھی ہو اور یہاں
مزے جہاں کے ہماری نظر میں خاک نہیں
سوائے خون جگر سو جگر میں خاک نہیں
ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ...نیز
سوائے حسرت تعمیر گھر میں خاک نہیں
اور اگر پاکستانی عوام ''بیزار'' ہونا بھی چاہیں تو صرف اپنے آپ سے یا اپنی زندگی سے بیزار ہو سکتے ہیں، اس لیے ہم نہایت ہی زوردار الفاظ میں نیوز ویک کی تردید کرتے ہوئے ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ پاکستانی عوام کسی سے بھی بیزار نہیں ہیں بلکہ ان سے تو کچھ زیادہ ہی توقعات رکھی جا رہی ہیں ۔ ایک زمانے میں پنجاب کو ''لکھا پڑھا'' بنانے کا منصوبہ بھی شروع ہوا تھا۔
اگر آپ کو یاد ہو تو ان دنوں ایک لیڈر ٹی وی پر آ کر پڑھا لکھا پنجاب کہتے تھے تو اپنی شہادت کی انگلی ٹیڑھی کر کے یہ الفاظ کہتے تھے ،گویا وہ لوگوں پر واضح کرتے تھے کہ پنجاب کو لکھا پڑھا بنانے کے لیے وہ اپنی انگلی ٹیڑھی بھی کر سکتے ہیں اور انھوں نے کیا بھی، اچھا خاصا پڑھائی لکھائی کا ''گھی'' بھی نکالا لیکن خود پنجاب ہی نالائق نکلا تو وہ کیا کر سکتے تھے، پڑھائی لکھائی کا امتحان دیتے ہوئے پنجاب نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا اور فیل ہو کر باقی لیڈروں کا ہم جماعت ہو گیا لیکن اب کے ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کو تو ضرور پڑھا لکھا پاکستان بنا کر چھوڑیں گے...
اجمال اس تفصیل یہ ہے کہ نیوز ویک نے پاکستانی عوام کی بیزاری کی خبر غلط طور پر دی ہے پاکستانی عوام اپنے پرویزوں سے بیزار بالکل بھی نہیں ہیں ''بے جان'' البتہ آپ ان کو کہہ سکتے ہیں لیکن بیزار بالکل بھی نہیں، کیونکہ چونسٹھ سال کی مسلسل بیزاری نے ان کو بے زاری سے ہی بیزار کر دیا ہے۔
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہئے کہ آرزو کیا ہے
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم ''بیزار'' بیٹھے ہیں
اس ھمہ گیر بیزاری کے باعث ایک تو وہ مخصوص چہرے اور خاندان ہیں جو گویا پاکستانی بدنصیب عوام اپنے مقدر میں پکے پکے لکھوا کر لائے ہیں۔ یہ چہرے نہایت ہی زیادہ استعمال بلکہ غلط کثرت استعمال سے اتنے زیادہ بدرنگ ہو چکے ہیں کہ یہ لوگ خود بھی اپنے چہرے آئینے میں دیکھنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں اپنی ہی نحوست خود ان پر مسلط نہ ہو جائے۔ ہمیں باوثوق ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مخصوص اور منحوس چہرے آجکل آئین اور آئینے دونوں کو توڑنے میں لگتے رہتے ہیں کہ اگر اپنا چہرہ کہیں خود دیکھ لیا تو سارے سیاسی کیریئر پر نحوست چھا جائے گی، اصل میں ان کو پتہ چلا ہے کہ پاکستانی عوام کی بدنصیبی کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ دن رات ٹی وی
اور اخباروں میں یہی چہرے دیکھتے رہتے ہیں
مجھ کو بے رنگ نہ کر دیں کہیں یہ اتنے رنگ
زرد موسم ہے، ہوا سرخ، فضا نیلی ہے
اگر صرف چہروں کا معاملہ ہوتا تو پھر بھی غنیمت تھا لیکن یہاں تو کچھ نام بھی بہت زیادہ کثرت استعمال میں ہیں ۔۔۔ انقلاب فرانس کے بارے میں کسی نے کہیں مزاحیہ طور پر لکھا ہے کہ ''انقلاب فرانس'' کی وجہ کیا تھی؟ تو جواب یہ دیا گیا کہ وہاں ''لوئی'' بہت زیادہ ہو گئے اور عوام اس ''لوئی'' نام سے تنگ آ کر انقلاب پر اتر آئے تھے اور یہ بات دل کو لگتی ہے کیونکہ انقلاب فرانس کے وقت وہاں جو ''لوئی'' بادشاہ تھا وہ غالباً سترھواں لوئی (لوئی ہفت دہم) تھا، فرانس کے لوگ بڑے دل والے تھے اتنے زیادہ لوئیوں کو برداشت کرنا واقعی دل گردے کا کام ہے اور ہماری تو ابھی ابتداء ہے زیادہ سے زیادہ چار پانچ ''پرویز'' ہی ہم نے بھگتے ہوں گے اور اتنے میں نیوز ویک کہتا ہے کہ
عوام بیزار ہو چکے ہیں
مشتاق اس قدح کے بہت دردمند تھے
اے داغ تم تو بیٹھ گئے ایک آہ میں
اس میں لوگوں کا کوئی خاص قصور نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے پرویز مشرف نے اس نام کو اتنا غلط اور کثرت سے استعمال کیا ہے کہ لوگ اس سے الرجک سے ہو چکے ہیں چنانچہ اب اچھے پرویزوں سے بھی لوگ بیزار ہو جاتے ہیں، پرویز مشرف سے پہلے بھی اس نام کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں رہا ہے، ایران کے خسرو پرویز نے بے چارے فرہاد کے ساتھ بہت برا برتاؤ کیا تھا، اسے تیشہ دے کر پہاڑ کھودنے پر لگا دیا کہ اگر تم اس میں سرنگ بنا لو تو ''شیریں'' تمہیں دے دی جائے گی لیکن جب وہ کامیاب ہونے ہی لگا تھا تو ایک منحوس بڑھیا کے ذریعے بے چارے کو خودکشی پر مجبور کر دیا، بے چارے نے وہی تیشہ اٹھایا اور اپنی کھوپڑی پر دے مارا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد
سرگشتہِ خمارِ رسوم و قیود تھا
دیکھا جائے تو پاکستانی عوام کی کہانی بھی فرہاد ہی کی کہانی سے ملتی جلتی ہے یہاں بھی چونسٹھ سال سے عوام نامی فرہاد کو ''خوش حالی کی شیریں'' کا جھانسہ دے کر پہاڑ کھودنے پر لگایا گیا ہے لیکن ساری زندگی ''پہاڑ'' کھودنے کے بعد وقت کی بڑھیا انھیں بتاتی ہے کہ کون شیریں ،کہاں کی شیریں؟ اکثر تو مارے دکھ کے تیشہ سر پر مار کر چلے جاتے ہیں لیکن کچھ مہم جو لگے رہتے ہیں،
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
مانا کہ ہمارے موجود تین چار پرویز وہ نہیں ہیں، بڑے بیبے لوگ ہیں لیکن خسرو پرویز اور پرویز مشرف نے اس نام کو اتنا رسوا کیا ہے کہ اچھے پرویزوں کو بھی لوگ شک سے دیکھتے ہیں جس کا نیوز ویک جیسے جریدے خواہ مخواہ بتنگڑ بنا دیتے ہیں بلکہ ہمیں تو شک ہے کہ نیوز ویک نے کہیں جنرل پرویز مشرف کے وقت کی کوئی سروے رپورٹ اٹھا کر شایع کر دی ہے، ماشاء اﷲ ہمارے عوام اس وقت کے سب پرویزوں سے بیزار نہیں ہیں بلکہ حسب روایت، حسب عادت اور حسب معمول ان سے توقعات ہی وابستہ کیے ہوئے ہیں ویسے وہ بے چارے اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں،
ہر منزل غربت پہ گمان ہوتا ہے گھر کا
بہلایا ہے ہر گام ہمیں دربدری نے
نیوز ویک والے تو امریکی ہیں ان کو معلوم ہی نہیں ہے کہ پاکستانی عوام ''بیزاری'' کی عیاشی کر ہی نہیں سکتے کیونکہ ان کے پاس امیدوں، توقعات اور خوش فہمیوں کے سوا اور کچھ بھی باقی نہیں رہا ہے، ''بیزاری'' کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے پاس کوئی دوسرا آپشن بھی ہو اور یہاں
مزے جہاں کے ہماری نظر میں خاک نہیں
سوائے خون جگر سو جگر میں خاک نہیں
ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ...نیز
سوائے حسرت تعمیر گھر میں خاک نہیں
اور اگر پاکستانی عوام ''بیزار'' ہونا بھی چاہیں تو صرف اپنے آپ سے یا اپنی زندگی سے بیزار ہو سکتے ہیں، اس لیے ہم نہایت ہی زوردار الفاظ میں نیوز ویک کی تردید کرتے ہوئے ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ پاکستانی عوام کسی سے بھی بیزار نہیں ہیں بلکہ ان سے تو کچھ زیادہ ہی توقعات رکھی جا رہی ہیں ۔ ایک زمانے میں پنجاب کو ''لکھا پڑھا'' بنانے کا منصوبہ بھی شروع ہوا تھا۔
اگر آپ کو یاد ہو تو ان دنوں ایک لیڈر ٹی وی پر آ کر پڑھا لکھا پنجاب کہتے تھے تو اپنی شہادت کی انگلی ٹیڑھی کر کے یہ الفاظ کہتے تھے ،گویا وہ لوگوں پر واضح کرتے تھے کہ پنجاب کو لکھا پڑھا بنانے کے لیے وہ اپنی انگلی ٹیڑھی بھی کر سکتے ہیں اور انھوں نے کیا بھی، اچھا خاصا پڑھائی لکھائی کا ''گھی'' بھی نکالا لیکن خود پنجاب ہی نالائق نکلا تو وہ کیا کر سکتے تھے، پڑھائی لکھائی کا امتحان دیتے ہوئے پنجاب نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا اور فیل ہو کر باقی لیڈروں کا ہم جماعت ہو گیا لیکن اب کے ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کو تو ضرور پڑھا لکھا پاکستان بنا کر چھوڑیں گے...
اجمال اس تفصیل یہ ہے کہ نیوز ویک نے پاکستانی عوام کی بیزاری کی خبر غلط طور پر دی ہے پاکستانی عوام اپنے پرویزوں سے بیزار بالکل بھی نہیں ہیں ''بے جان'' البتہ آپ ان کو کہہ سکتے ہیں لیکن بیزار بالکل بھی نہیں، کیونکہ چونسٹھ سال کی مسلسل بیزاری نے ان کو بے زاری سے ہی بیزار کر دیا ہے۔
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہئے کہ آرزو کیا ہے