حاسدوں کی کارستانیاں

جس ملک میں کوئی شعبہ زندگی بدعنوانی سے مبرا نہ ہو وہاں اگر کوئی واقعی نیک دل ہو

najmalam.jafri@gmail.com

جس ملک میں کوئی شعبہ زندگی بدعنوانی سے مبرا نہ ہو وہاں اگر کوئی واقعی نیک دل ہو، انسانیت کی خدمت کرتا ہو وہ بھی کسی ذاتی فائدے کو مد نظر رکھے بغیر، اس کی نجی زندگی بھی سوائے خدمت انسانی کے کچھ نہ ہو ایسے معاشرے میں ایسے شخص کو عظیم شخصیت کی بجائے پاگل یا دیوانہ ہی قرار دیا جائے گا، کیونکہ بدعنوان معاشرہ تو خدمت خلق کے بجائے لوگوں کے حقوق سلب کرنے کو بہترین طرز زندگی سمجھتا ہے۔

چلیے اس حد تک بھی ٹھیک ہے کہ انسانی سرشت میں حسد و جلن بھی موجود ہے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے بندے کو جن اصولوں پر عمل کرنا چاہیے ان کا ذکر اس وقت اتنا ضروری نہیں کہ ہم پہلے ہی کون کون سے اسلامی اصولوں کی پاسداری کررہے ہیں؟ بہرحال اگر لوگوں کی اکثریت خود کچھ نہیں کرسکتی تو ''کچھ کرنے والوں'' سے حسد تو کر ہی سکتی ہے اور یہ کام ہم بحیثیت قوم بڑی دلجمعی سے کر رہے ہیں۔

رشک کریں تو کسی کا کچھ نہیں بگڑتا البتہ اپنا ہی کچھ فائدہ ہوجاتا ہے۔ مگر حسد سے ہم دوسروں کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے ہاں اپنا نقصان ضرورکرلیتے ہیں، جس سے حسد کیا جائے وہ تو اپنی دھن میں آگے ہی بڑھتا رہتا ہے، اپنے ارادوں کو حقیقت بناتا، اپنے منصوبوں کو مکمل کرتا رہتا ہے کامیابیاں اس کے قدم چومتی ہیں اور حسد کرنے والا اپنی تمام تر منفی، حاسدانہ کوششوں کے باوجود اس کا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ کامیابی سے ہمکنار ہونے سے روک سکتا ہے، خود البتہ جہاں تھا وہیں رہ جاتا ہے۔

سیاسی، سماجی، خاندانی اور تعلیمی اداروں میں ایسے حاسدوں سے ہم سب کا سابقہ پڑتا رہتا ہے، اگر کسی گھر میں کوئی تعلیم یافتہ، ہنر مند اور سلیقہ شعار بہو آجائے اور اس گھر کی بیٹیوں کو اماں جان نے لاڈ میں کچھ نہ سکھایا ہو تو بجائے اس بہو کی قدر کرنے کے اس کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ کہیں بہو کے ہنر سے متاثر ہوکر داماد اپنی بیویوں (اس گھرکی بیٹیوں) سے بھی اسی سلیقے کا مطالبہ نہ کردیں۔ غرض بیٹیوں کو یہ بتانے کے بجائے کہ اپنی بھابی سے تم بھی کچھ سیکھ لو، کل تمہارے کام آئے گا، الٹا بہو میں عیب نکالے جاتے ہیں۔ تعریف کرنا تو کجا کوئی پوچھے کہ اتنا اچھا کام کس نے کیا تو زبان پر تالے پڑ جاتے ہیں۔ مگر اس صورتحال سے نقصان بہو کا نہیں ہوتا دنیا اس کی صلاحیتوں کو چاہے دیر ہی میں سہی مگر مان لیتی ہے۔

یوں ہی ملازمت پیشہ خواتین و حضرات کا معاملہ ہے، اگر کچھ لوگوں میں خود کوئی صلاحیت نہ ہو (جوکہ سفارش اور رشوت کے ذریعے آئے ہوتے ہیں) تو ترقی ہونا مشکل ہوجاتی ہے جب کہ باصلاحیت لوگ اپنی کارکردگی کی بنا پر آگے بڑھتے رہتے ہیں، مگر ان کے حاسد انھیں نقصان پہنچانے کے لیے کئی منصوبے تیارکرتے ہیں اور عموماً ان میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔

اس شخص کو کسی بھی طرح ادارے سے نکلوا دیتے ہیں مگر خود تو اس کا مقام حاصل نہیں کرپاتے البتہ وہ باصلاحیت شخص کسی دوسرے ادارے میں اپنی کارکردگی سے خود کو منوا لیتا ہے، تعلیمی اداروں میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے، کچھ مکھن باز اور چمچہ گیر اپنے دوسرے ساتھیوں کے بارے میں انتظامیہ کے کان بھرتے رہتے ہیں مگر جب کوئی موقع ایسا آتا ہے کہ ادارے میں کوئی تقریب ہو تو باصلاحیت افراد (اساتذہ) ہی اپنے ہنر، صلاحیت اور سلیقے سے اس کو کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں اور چمچہ گیر اس کامیابی کو بھی انتظامیہ کی کامیابی قرار دے کر انتظامیہ کی ''گڈ بک'' میں اپنا نام لکھوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں مگر کسی نہ کسی موقعے پر ان کی یہ مکھن لگانے کی پالیسی بھی ان کے کام نہیں آتی۔


یہ تو کچھ ذاتی سی مثالیں ہیں مگر اجتماعی صورتحال کو ہم اپنی ملکی سیاست میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ایک جماعت دوسری جماعت کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہے، دوسروں کو بدعنوان، راشی، اقربا پرور کہنے والوں کے اپنے دامن ہر طرح کی غلاظت سے آلود ہ ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے والے خود اسی نوعیت کے جرم میں ملوث ہیں، دوسروں سے حساب طلب کرنے والے اپنے جرائم چھپا کر پاک دامنی کی حکایت مجمع لگا لگا کر بیان کر رہے ہیں ، چور چور کا شور مچانے والوں میں خود چور بھی شامل ہے۔ اللہ رے حسد کی کارستانیاں۔

گزشتہ دنوں ذرایع ابلاغ پر ایک خبر نے چونکا دیا کہ ایک شہرہ آفاق اسپتال میں ایک مریض خاتون سے اجتماعی زیادتی کی گئی، جس کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے۔ خبر پڑھ کر اس پر یقین کرنا تو خیر یوں بھی ناممکن تھا، جو شخص اس ادارے میں صرف ایک بار بھی گیا ہو وہ کبھی یقین کر ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ وہ اسپتال ہے جہاں لکھ پتی سے لے کر فٹ پاتھ پر بھیک مانگنے والے بھکاری کا بھی ایک ہی سطح اور طریقے سے علاج بلا معاوضہ ہوتا ہے۔ اس اسپتال کے سب سے اہم کردار ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے تج دی ہے۔

وہ اپنی خاندانی و نجی تقریبات میں شرکت کے لیے وقت نہیں نکال پاتے مگر اسپتال کے لیے امدادی تقریبات میں رات بھر شرکت کرسکتے ہیں، اپنے نام اور کام کو سامنے لانے سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں بلکہ پوری ٹیم کو ہر کام کے اعزاز کا حقدار قرار دیتے ہیں ان کی زندگی کا مقصد خدمت انسانیت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ وہ اپنے کام میں اس قدر منہمک رہتے ہیں کہ کھانے پینے اور سونے تک کا وقت نہیں نکال پاتے۔ پورے ادارے میں ان کا کوئی دفتر نہیں وہ کسی بھی وارڈ، آپریشن تھیٹر یا کسی مریض کے بستر کے آس پاس ہی پائے جاتے ہیں۔ غرض اس خبر نے ان کے قریبی جاننے والوں اور قدردانوں کو دھچکا ضرور لگایا اگرچہ دل ماننے کو تیار نہ تھا۔

مگر آج کل کی اخلاقی صورتحال کے باعث وہم ہوا کہ خدانخواستہ کچھ بدعنوان عناصر اس منفرد اسپتال میں جگہ بنانے میں تو کامیاب نہیں ہوگئے؟ مگر دوسرا خیال یہی تھا کہ یہ ادارے اور ڈاکٹر ادیب کی شہرت و مقبولیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ کسی کی نیک نامی بطور خاص خدمت خلق سے منسلک افراد کے دامن کو آلود ہونے سے بچانے کا ازخود بندوبست کرتا ہے، ورنہ تو اس مکروہ دنیا میں کیا کیا نہیں ہوجاتا۔ ہمارا خیال درست ثابت ہوا یہ منصوبہ ادارے کو بدنام کرنے کے لیے اس کے حاسدوں کا تیار کردہ تھا جس کا پردہ چاک ہونے میں ذرا دیر نہ لگی۔

آج سے کئی برس قبل جناب عبدالستار ایدھی کی خدمت خلق کے جذبے کو بھی اسی حاسد ذہنیت نے سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کی تھی اور یہ خبر اڑائی گئی تھی کہ ایدھی ایمبولینس کے ذریعے جو زخمی لائے جاتے ہیں یا لاوارث لاشیں ایدھی سردخانوں میں امانتاً رکھوائی جاتی ہیں وہاں ان کے اعضا (گردے، جگر وغیرہ) نکال لیے جاتے ہیں، زخمی جو حادثے سے تو جانبر ہوسکتے ہیں مگر اس طرح اعضا نکالنے کے باعث موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔

مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس مکروہ الزام میں بھی کوئی صداقت ثابت نہ ہوسکی۔ عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ہماری قوم کا وہ سرمایہ ہیں کہ جن پر ہم سے زیادہ بیرونی دنیا ناز کرتی ہے۔ مگر ہم ایسے مخلص و بے لوث انسانی خدمت گزاروں کو بھی اپنے حسد کی بھینٹ چڑھانے سے نہیں چوکتے۔ نتیجتاً عذاب الٰہی میں طرح طرح سے مبتلا رہتے ہیں مگر جب قوم دولت احساس سے تہی دامن ہوجائے تو اس صورتحال سے بھی کوئی سبق نہیں حاصل کرتی۔

اس سلسلے میں ذرایع ابلاغ کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس ہونا چاہیے کہ ایسے نیک نام افراد یا اداروں کے بارے میں (محض سب سے پہلے خبر دینے کا اعزاز حاصل کرنے کی خاطر) بلا مکمل تحقیق خبر سامنے لانے سے گریز کریں ۔ ذرایع ابلاغ کو معلوم ہے کہ ان کا کسی کی نیک نامی پر حرف اٹھانے کا مطلب پوری قوم کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔
Load Next Story