ٹیلی ویژن ڈراموں میں تبدیلی آچکی ہے۔۔۔
یہ ایک عام حقیقت ہے کہ ہمارے سماج میں خاندان کو جوڑنے اور اسے سنوارنے میں عورت کا بڑا دخل ہوتا ہے ۔
ہندوستانی ٹیلی ویژن چینلوں پر ڈراموں کی کہانیوں میں زیادہ تر عورتوں اور ان کے گھریلو، سماجی اور معاشی مسائل کو موضوع بنایا جاتا ہے، جب کہ مرکزی کرداروں کے لیے بھی عورت کو اہمیت دی جاتی ہے۔
ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ آج بھی '' کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی'' کی تلسی اور ''کہانی گھر گھر کی'' کی پاروتی کو ہندوستانی عورت کی اصل تصویر سمجھا جاتا ہے۔ یہ کردار ٹیلی ویژن کی نام ور ایکٹریسز نے ادا کیے اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی، لیکن انڈسٹری میں ایکٹریسز کی حکم رانی کے باوجود میل آرٹسٹوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی مثال اداکار رونت رائے، رام کپور، حسین اور دیگر ہیں۔ شوبزنس کے مختلف شعبوں سے وابستہ آرٹسٹوں نے 'عورت اور ٹیلی ویژن ڈراما' کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس کا خلاصہ پیش ہے۔
دراصل ''ساس بھی کبھی بہو تھی'' کی مقبولیت کے بعد ہی سے 'عورت مرکز' کہانیوں کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس سوپ نے بھارتی ٹی وی انڈسٹری کا نقشہ یک سر بدل دیا۔ پچھلے چند سال کے دوران بیش تر ڈراموں میں عورتوں کی زندگی کو موضوع بنایا گیا۔ کبھی وفادار بیوی، کبھی شفیق ماں، کبھی اپنے حقوق کے لیے لڑنے والی لڑکی کے روپ میں عورت کو پیش کیا گیا۔ 'عورت مرکز' کہانیوں اور ٹیلی ویژن ایکٹریسز کی اہمیت سے متعلق بات کرنے پر معروف پروڈیوسر ویدراج نے کہا، ''تحقیق کے مطابق مرد زیادہ تر حالاتِ حاضرہ کے پروگرام دیکھتے ہیں، اس کے برعکس خواتین سوپس اور دیگر ڈرامے دیکھنا پسند کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پروڈیوسر اور کہانی کار انھیں اپنے اسکرپٹ میں پیش کر رہے ہیں۔''
ہندوستان کے '' گڈ انٹرٹینمینٹ'' نامی پروڈکشن ہاؤس کے سربراہ اشیش کول کا خیال ہے کہ ٹی وی سوپس ہمارے معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ تر ایسے سوپس اور سیریلز دیکھنا پسند کرتی ہیں، جن میں ان کے مسائل کی عکاسی کی گئی ہو۔ یہ سروے واضح کرتا ہے کہ ایسے ہی سوپس مقبول ہو سکتے ہیں، جن میں عورت کی مظلومیت، جدوجہد اور قربانیوں کے بارے میں بتایا گیا ہو، اس لیے اب اس قسم کے پروگرام پیش کرنے کی روایت مستحکم ہوتی جارہی ہے۔
ایکتا کپور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ان سوپس کے کردار عام عورت کو اپنے جیسے معلوم ہوتے ہیں، ''تلسی'' کی جدوجہد اور ''پاروتی'' کی قربانیوں میں وہ اپنی جھلک دیکھتی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ یہ کردار کبھی غیرحقیقی بھی معلوم ہوتے ہیں، اس کے باوجود انھیں پسند کیا جاتا ہے۔ تاہم ان کا مثبت اثر بھی پڑتا ہے۔ ہندوستانی عورتیں ان کرداروں کو دیکھ کر اپنے مسائل کا حل نکالنے کے لیے متحرک ہوتی ہیں۔''
80 کی دہائی میں انڈین چینلز پر پیش کیے جانے والے اکثر ڈراموں کا محور ''خاندان'' ہوا کرتا تھا۔ 90 کی دہائی میں نوجوان نسل کے مسائل پر کہانیاں پیش کرنے کے رجحان نے زور پکڑا اور اب 'عورت مرکز' کہانیوں کی ٹیلی ویژن پر بہتات ہے۔ کیا یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ عورت کے گِرد گھومنے والی کہانیاں دراصل خاندان مرکز کہانیوں کی ہی ترمیم شدہ شکل ہیں؟ سینئر اداکار رونت رائے اس بارے میں کہتے ہیں، ''انڈیا میں تمام سوپس دراصل خاندانی نظام سے متعلق کہانیوں کی وجہ سے مقبول ہیں۔ یہ ایک عام حقیقت ہے کہ ہمارے سماج میں خاندان کو جوڑنے اور اسے سنوارنے میں عورت کا بڑا دخل ہوتا ہے، چوں کہ سوپس کے لیے مواد خاصا درکار ہے، اس لیے ان میں ہر قسم کے گھریلو مسائل کا عکس نظر آتا ہے، جس کی بنیاد عورت ہے۔''
اگرچہ آج انڈین سوپس میں ایکٹریسز زیادہ اہم خیال کی جاتی ہیں، لیکن کئی اداکار بھی ان کے ذریعے مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ اس کی مثال کاجل میں اپروا اگنی ہوتری، کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی میں رونت رائے، با، بہو اور بے بی میں شرد ملہوترا اور وراثت میں امر اپادھیائے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ مرد کیریکٹرز کے بغیر کوئی ڈراما مکمل نہیں ہو سکتا۔ معروف اداکار ہیتن تیجوانی کہتے ہیں کہ مرد کرداروں کی سوپ میں موجودگی ضروری ہے، انھیں اہم اور جان دار انداز میں پیش کرنا چاہیے، اس کے بغیر ڈراما کام یاب نہیں ہوسکتا۔ ''کہانی گھر گھر کی'' کے علی اصغر بھی اسی خیال کے حامی ہیں۔ ان کے بقول کام یاب سوپ کے جان دار مرد کیریکٹرز متعارف کروانا ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ''ڈراموں میں عام طور پر ہمارے ساتھی فن کار رونت کے تمام کردار بے حد اہم ہوتے ہیں۔ یہ اچھا لگتا ہے۔ میرے بھی چند کرداروں میں خاصی گنجائش تھی اور یہی وجہ ہے میں نے ان پر محنت کی۔ وقت تبدیلیاں لاتا ہے اور اب صرف عورت کو مرکز اور بنیاد بنا کر اچھی کہانی کا تصور ختم ہو رہا ہے۔''
امید کی جاسکتی ہے کہ پروڈیوسر اور کہانی کار ناظرین کے مزاج اور رجحانات میں تبدیلی لانے کا ذریعہ بنیں گے اور آنے والے وقت میں سوپس اور دیگر ڈراموں میں موضوع اور مرکزی کرداروں کے لیے میل آرٹسٹوں کو اہمیت دیں گے۔
ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ آج بھی '' کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی'' کی تلسی اور ''کہانی گھر گھر کی'' کی پاروتی کو ہندوستانی عورت کی اصل تصویر سمجھا جاتا ہے۔ یہ کردار ٹیلی ویژن کی نام ور ایکٹریسز نے ادا کیے اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی، لیکن انڈسٹری میں ایکٹریسز کی حکم رانی کے باوجود میل آرٹسٹوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی مثال اداکار رونت رائے، رام کپور، حسین اور دیگر ہیں۔ شوبزنس کے مختلف شعبوں سے وابستہ آرٹسٹوں نے 'عورت اور ٹیلی ویژن ڈراما' کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس کا خلاصہ پیش ہے۔
دراصل ''ساس بھی کبھی بہو تھی'' کی مقبولیت کے بعد ہی سے 'عورت مرکز' کہانیوں کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس سوپ نے بھارتی ٹی وی انڈسٹری کا نقشہ یک سر بدل دیا۔ پچھلے چند سال کے دوران بیش تر ڈراموں میں عورتوں کی زندگی کو موضوع بنایا گیا۔ کبھی وفادار بیوی، کبھی شفیق ماں، کبھی اپنے حقوق کے لیے لڑنے والی لڑکی کے روپ میں عورت کو پیش کیا گیا۔ 'عورت مرکز' کہانیوں اور ٹیلی ویژن ایکٹریسز کی اہمیت سے متعلق بات کرنے پر معروف پروڈیوسر ویدراج نے کہا، ''تحقیق کے مطابق مرد زیادہ تر حالاتِ حاضرہ کے پروگرام دیکھتے ہیں، اس کے برعکس خواتین سوپس اور دیگر ڈرامے دیکھنا پسند کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پروڈیوسر اور کہانی کار انھیں اپنے اسکرپٹ میں پیش کر رہے ہیں۔''
ہندوستان کے '' گڈ انٹرٹینمینٹ'' نامی پروڈکشن ہاؤس کے سربراہ اشیش کول کا خیال ہے کہ ٹی وی سوپس ہمارے معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ تر ایسے سوپس اور سیریلز دیکھنا پسند کرتی ہیں، جن میں ان کے مسائل کی عکاسی کی گئی ہو۔ یہ سروے واضح کرتا ہے کہ ایسے ہی سوپس مقبول ہو سکتے ہیں، جن میں عورت کی مظلومیت، جدوجہد اور قربانیوں کے بارے میں بتایا گیا ہو، اس لیے اب اس قسم کے پروگرام پیش کرنے کی روایت مستحکم ہوتی جارہی ہے۔
ایکتا کپور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ان سوپس کے کردار عام عورت کو اپنے جیسے معلوم ہوتے ہیں، ''تلسی'' کی جدوجہد اور ''پاروتی'' کی قربانیوں میں وہ اپنی جھلک دیکھتی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ یہ کردار کبھی غیرحقیقی بھی معلوم ہوتے ہیں، اس کے باوجود انھیں پسند کیا جاتا ہے۔ تاہم ان کا مثبت اثر بھی پڑتا ہے۔ ہندوستانی عورتیں ان کرداروں کو دیکھ کر اپنے مسائل کا حل نکالنے کے لیے متحرک ہوتی ہیں۔''
80 کی دہائی میں انڈین چینلز پر پیش کیے جانے والے اکثر ڈراموں کا محور ''خاندان'' ہوا کرتا تھا۔ 90 کی دہائی میں نوجوان نسل کے مسائل پر کہانیاں پیش کرنے کے رجحان نے زور پکڑا اور اب 'عورت مرکز' کہانیوں کی ٹیلی ویژن پر بہتات ہے۔ کیا یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ عورت کے گِرد گھومنے والی کہانیاں دراصل خاندان مرکز کہانیوں کی ہی ترمیم شدہ شکل ہیں؟ سینئر اداکار رونت رائے اس بارے میں کہتے ہیں، ''انڈیا میں تمام سوپس دراصل خاندانی نظام سے متعلق کہانیوں کی وجہ سے مقبول ہیں۔ یہ ایک عام حقیقت ہے کہ ہمارے سماج میں خاندان کو جوڑنے اور اسے سنوارنے میں عورت کا بڑا دخل ہوتا ہے، چوں کہ سوپس کے لیے مواد خاصا درکار ہے، اس لیے ان میں ہر قسم کے گھریلو مسائل کا عکس نظر آتا ہے، جس کی بنیاد عورت ہے۔''
اگرچہ آج انڈین سوپس میں ایکٹریسز زیادہ اہم خیال کی جاتی ہیں، لیکن کئی اداکار بھی ان کے ذریعے مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ اس کی مثال کاجل میں اپروا اگنی ہوتری، کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی میں رونت رائے، با، بہو اور بے بی میں شرد ملہوترا اور وراثت میں امر اپادھیائے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ مرد کیریکٹرز کے بغیر کوئی ڈراما مکمل نہیں ہو سکتا۔ معروف اداکار ہیتن تیجوانی کہتے ہیں کہ مرد کرداروں کی سوپ میں موجودگی ضروری ہے، انھیں اہم اور جان دار انداز میں پیش کرنا چاہیے، اس کے بغیر ڈراما کام یاب نہیں ہوسکتا۔ ''کہانی گھر گھر کی'' کے علی اصغر بھی اسی خیال کے حامی ہیں۔ ان کے بقول کام یاب سوپ کے جان دار مرد کیریکٹرز متعارف کروانا ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ''ڈراموں میں عام طور پر ہمارے ساتھی فن کار رونت کے تمام کردار بے حد اہم ہوتے ہیں۔ یہ اچھا لگتا ہے۔ میرے بھی چند کرداروں میں خاصی گنجائش تھی اور یہی وجہ ہے میں نے ان پر محنت کی۔ وقت تبدیلیاں لاتا ہے اور اب صرف عورت کو مرکز اور بنیاد بنا کر اچھی کہانی کا تصور ختم ہو رہا ہے۔''
امید کی جاسکتی ہے کہ پروڈیوسر اور کہانی کار ناظرین کے مزاج اور رجحانات میں تبدیلی لانے کا ذریعہ بنیں گے اور آنے والے وقت میں سوپس اور دیگر ڈراموں میں موضوع اور مرکزی کرداروں کے لیے میل آرٹسٹوں کو اہمیت دیں گے۔