گوادر امید کا دروازہ
ترقی کا عمل کہاں تک پہنچا، کن منصوبوں پر کام ہورہا ہے؟
بلوچستان میں پس ماندگی کے خاتمے، امن وامان کی بہتری، وفاق کے ساتھ متوازن خوش گوار تعلقات اور صوبے کے عوام کے جائز حقوق کے تحفظ کے حوالے سے موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری اور ان کی حکومت کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ دہشت گردی اور امن مخالف عناصر کے لیے انہوں نے دوٹوک انداز میں زیرو ٹالرنس کی پالیسی کو آگے بڑھایا ہے۔
انہوں نے کسی مصلحت کے بغیر بحالی امن میں سیکیوریٹی فورسز کے کردار کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بل کہ ہر موقع پر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت کے برسراقتدار آنے کے فوراً بعد بلوچستان اسمبلی نے وفاقی محکموں، اداروں ور کارپوریشنوں میں بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے اور صوبے میں صنعتی ترقی کے مفقود ہونے پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے ایک متفقہ قرارداد کی منظوری دی، جس میں وفاق سے مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی محکموں، اداروں میں بلوچستان کے کوٹے پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور بلوچستان میں صنعتی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
اس مسئلے کو وفاقی حکومت کے سامنے اٹھانے کے لیے صوبائی اسمبلی نے وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ زہری کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ زہری نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی ترقی میں جس ذاتی دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپیزنڈ سے کچلاک تک ماس ٹرانزٹ ٹرین شروع کرنے کا اعلان، پیڈ پارکنگ کا خاتمہ، بس ٹرک اڈے کی ہزار گنجی منتقلی اور وزیراعظم کے کوئٹہ پیکیج پر عمل درآمد میں تیزی جیسے اقدامات وزیراعلیٰ کی کوئٹہ کے شہریوں کے مسائل حل کرنے میں خصوصی دل چسپی کا مظہر ہیں۔
بلوچستان کے ساحلی علاقوں خاص طور پر گوادر کی ترقی آج ہر حلقے میں زیربحث ہے لیکن وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ زہری نے برسراقتدار آتے ہی گوادر کی ترقی کو حقیقی شکل دینے کے لیے تیزی کے ساتھ اور متحرک انداز میں کام کا آغاز کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ گوادر کا دورہ کیا اور ترقیاتی عمل کو تیز کرنے کے لیے ہدایات جاری کیں۔
اس میں شبہہ نہیں کہ گوادر کی ترقی اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر عمل درآمد سے نہ صرف بلوچستان اور پاکستان کی معیشت بہتر ہوگی بل کہ پورے خطے کی تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں غیرمعمولی تیزی آئے گی۔ سی پیک کے تحت ژوب، کوئٹہ، خضدار، گوادر اور دیگر علاقوں میں انڈسٹریلسٹ پارکس تعمیر کیے جائیں گے، جہاں بجلی کے منصوبوں اور بھاری صنعتیں قائم کرنے پر 0.7بلین ڈالر سے زائد خرچ کیے جائیں گے۔
گوادر میں نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تعمیر کے علاوہ ۔ گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے، ہسپتال، پیشہ ورانہ تربیتی انسٹی ٹیوٹ اور کول پاور پراجیکٹ بھی زیرتعمیر ہے۔گوادر میں پانی کی کمی کے سنگین مسئلے کے پیش نظر وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ زہری کی ہدایت پر محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی ایک ٹیم نے گوادر کا دورہ کرکے وہاں فراہمی آب کے اہم منصوبوں کی نشان دہی کی تھی۔ اس سلسلے میں باقاعدہ سمری وزیراعلیٰ کو پیش کی گئی، جس کی وزیراعلیٰ نے منظوری دے دی ہے۔
اس منصوبے کے تحت 55.604ملین روپے کے فنڈز جاری کئے جائیں گے ۔ منظور کی گئی سمری کے مطابق ڈی سیلی نیشن پلانٹ، پمپنگ، سپلائی مشینری اور ٹینکروں کے ذریعے عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر مذکورہ رقم خرچ کی جائے گی۔ تمام فنڈز ڈپٹی کمشنر گوادر کی زیرصدارت قائم کی گئی کمیٹی کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے۔
گوادر کو بلوچستان کی ترقی میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں خاص طور سے گوادر کی ترقی سے صوبے اور ملک کی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی، لیکن گوادر کی ترقی کا عمل مقامی آبادی کو ساتھ لے کر چلنے سے اب تک قاصر رہا ہے۔ بجلی، پانی اور دیگر بنیادی ضرورتوں سے گوادر کے عوام آج بھی محروم ہیں اور کسی نے جدید ترقی کی اس راہ گزر کے باسیوں کی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ یہ حیران کن اور دل چسپ حقیقت ہے کہ ہم ایک طرف گوادر کو بین الاقوامی شہر بنانے کی تیاری کر رہے ہیں اور دوسری طرف اس شہر کے رہائشی آج بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ بہرحال موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری نے صورت حال کا نوٹس لیا ہے جو لائق ستائش ہے۔
انہوں نے متعلقہ حکام کو گوادر کا دورہ کرنے اور وہاں کے شہریوں کو فراہمی آب کے لیے فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد حکام نے گوادر کا دورہ کرکے اپنی سفارشات مرتب کیں، جنہیں ایک سمری کی شکل میں وزیراعلیٰ کو پیش کیا گیا اور وزیراعلیٰ نے ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر ان منصوبوں کی منظوری دے دی ہے۔
توقع کی جاتی ہے کہ ان پر بلاتاخیر عملدرآمد کرنے سے گوادر کے شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے گی۔اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت پاکستان کے ساحلی شہر گوادر کو چین کے شہر کاشغر سے ملایا جائے گا۔
اس منصوبے کے تحت ملک میں انرجی اور ٹرانسپورٹیشن سیکٹر پر کام کیا جائے گا۔ 12بلین ڈالر کی لاگت سے گوادر کو کاشغر سے ریل نیٹ ورک اور سڑکوں سے ملانے سمیت قراقرم ہائی وے کو وسیع، گوادر ایئرپورٹ کی جدید طرز پر تعمیر اور 125میل لمبی ٹنل کی تعمیرکے منصوبے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 34بلین ڈالر کی سرمایہ کاری توانائی کے شعبے پر کی جائے گی، جس سے کوئٹہ ونڈ، سوپر اور ہائیڈرو انرجی پلانٹس لگا کر تقریباً10ہزار میگا واٹس بجلی 2018 تک وقومی سسٹم میں شامل کرنے کی جامع منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی چینی سرمایہ کاری نہ صرف پاکستان کی حیثیت میں استحکام لائے گی بل کہ بلوچستان سمیت مشرق وسطیٰ میں بھی اقتصادی ترقی کے شان دار مواقع پیدا ہوں گے۔
حال ہی میں وزیراعظم نوازشریف نے قومی قیادت کے ساتھ بلوچستان کے علاقے ژوب کا دورہ کیا، جہاں پر انہوں نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ این - 50ژوب -مفل کوٹ سیکشن اور این 70- قلعہ سیف اللہ، ویگم ڑد سیکشن کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا اور اس طرح راہ داری کے مغربی روٹ کے آغاز سے منصوبے کو متنازع بنانے کے پروپیگنڈے کا خاتمہ ہوگیا۔ ژوب سے مفل کوٹ سیکشن 81کلو میٹر طویل ہوگا جس پر 9ارب روپے لاگت آئے گی، جب کہ قلعہ سیف اﷲ سے ویگم رُد کے 128کلو میٹر سیکشن کی تعمیر پر 8ارب روپے خرچ ہوں گے۔
دونوں منصوبوں کی تعمیر کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینگ (ADB) مالی معاونت فراہم کرے گا اور منصوبہ دو سال یعنی 2018میں مکمل ہوں گے۔ وفاق کے فعال تعاون سے بلوچستان میں قومی شاہ راہوں کی تعمیر و ترقی کے لیے شروع کیے گئے منصوبوں کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بلوچستان میں سڑکوں کا جال بچھ رہا ہے۔
گوادر سے ہوشاب تک 194کلو میٹر طویل سڑک تعمیر کی جا رہی ہے، جو آئندہ ماہ جنوری میں مکمل ہو جائے گی۔ اسی طرح بلوچستان میں شاہ راہوں کی تعمیر پر 200ارب روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ قومی شاہ راہوں کے جال بچھ جانے سے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کے درمیان نہ صرف تجارت سیاسی ، معاشی و ثقافتی تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا بل کہ قومی یک جہتی کو بھی زبردست فروغ ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ویسٹرن کوریڈور کی تکمیل سے بلوچستان میں ترقیاتی اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا، جس سے صنعت وتجارت کو فروغ ملے گا، تعلیم کی سہولت تک رسائی آسان ہوگی اور سفر میں آسانی بھی میسر آئے گی۔
گوادر بندرگاہ منصوبہ۔۔۔
مقامی افراد کے تندوتیز سوالات
''بلوچستان پورے خطے کے لیے تجارتی گیٹ وے بننے جارہا ہے''
گوادر میں ہونے والے سیمینار کی روداد
''گوادر'' بلوچی کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے یعنی ''گوا'' کھلی ہوا اور ''در'' یعنی دروازہ۔ کھلی ہوا کا یہ دروازہ گوادر اس وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی ترقی و خوش حالی اسی کھلی ہوا کے دروازے سے وابستہ ہے جہاں چین کے تعاون سے اقتصادی راہداری کے ایک عظیم منصوبے پر کام ہورہا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے جہاں پاکستان کی معیشت مضبوط ہوگی وہیں بلوچستان کے عوام کی بھی تقدیر بدل جائے گی۔
اس منصوبے کو سونے کی چڑیا سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اقتصادی راہداری اور گوادر کی ترقی و خوش حالی کے حوالے سے مختلف باتیں ہورہی ہیں۔ شاید اسی لیے ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو یہ ترقی و خوش حالی ایک آنکھ نہیں بھارہی اور وہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے سازشیں کررہا ہے۔ حال ہی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس گرفتار ایجنٹ نے جو انکشافات کیے ہیں ان سے بھی بھارت کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
گذشتہ دنوں گوادر میں حکومت بلوچستان کے زیراہتمام تربت یونیورسٹی، ڈیووٹ آرگنائزیشن اور پاک فوج کی سدرن کمانڈ کے اشتراک سے گوادر کی بندرگاہ کے منصوبے کے اغراض و مقاصد اور ترقی و خوش حالی کے حوالے سے ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف تھے۔ اس سیمینار میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض سمیت اعلیٰ سول و فوجی حکام نے شرکت کی۔ سیمینار کے تین حصے تھے، جن کا مقصد اس عظیم منصوبے کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے آگاہی دینا اور اس حوالے سے صوبے کی قوم پرست و دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے جن تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے ان کو دور کرنا تھا۔
اس ایک روزہ سیمینار میں ملکی اور غیرملکی میڈیا کے نمائندوں کے علاوہ اراکین پارلیمنٹ پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے راہ نماؤں نے بھی شرکت کی۔ سیمینار کا پہلا حصہ جامعات کے اساتذہ اور طلباء کے لیے تھا۔ اس سیشن میں طلباء کو اقتصادی راہداری اور گوادر کے منصوبے کے حوالے سے سوالات کے جواب دیے گئے۔ دوسرا سیشن میڈیا سے تعلق رکھنے والے اینکر پرسنز اور سنیئر صحافیوں کا تھا، جنہوں نے اس منصوبے پر میڈیا کے کردار سے آگاہ کیا۔ تیسرے حصے میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے حصہ لیا اور اس منصوبے کے حوالے سے اپنی جماعتوں کے موقف کو اُجاگر کیا۔
سیمینار کے شرکاء خصوصاً مکران اور گوادر کے مقامی لوگوں، بزنس مینوں اور طلباء و طالبات نے اپنے خدشات کا اظہار کیا اور اس ضمن میں مقامی آبادی کو نظرانداز کرنے کے حوالے سے سیمینار کے تینوں سیشنز میں تندوتیز سوالات کیے۔ سیمینار کے آخر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے خطاب میں یہ بات زور دے کر کہی کہ پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان اور چین کے گہرے تعلقات کی عکاس ہے اور دونوں ملکوں کے مضبوط رشتوں کی مظہر ہے۔ یہ پورے خطے کے لیے امن اور خوش حالی کی راہداری ہوگی۔
یہ راہ داری پورے خطے کے امن اور استحکام کا راستہ اور ترقی کی ضامن ہوگی۔ اس موقع پر اُنہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ چین سے گوادر کارگو اسی سال آنا شروع ہوگا اور ہم کسی کو رکاوٹ یا گڑ بڑ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی پاکستان میں عدم استحکام میں ملوث ہے اور ہماری دُشمن خفیہ ایجنسیاں پاک چین اقتصادی راہداری کی مخالف ہیں اور بھارت نے سرعام اس ترقیاتی منصوبے کو چیلنج کیا ہے، لیکن ہم کسی کو اس منصوبے کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے۔ آرمی چیف نے گوادر میں کیڈٹ کالج بنانے کا بھی اعلان کیا۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری نے اپنے خطاب میں کہا کہ گوادر نہ صرف بلوچستان اور پاکستان بل کہ پورے خطے کے لیے تجارتی گیٹ وے بننے جارہا ہے۔ گوادر کی ترقی میں مقامی لوگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا اور اس سلسلے میں جلد ہی بلوچستان اسمبلی کے ذریعے قانون سازی کی جائے گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گوادر میں پہلا حق یہاں کے مقامی لوگوں کا ہے، دوسرا حق بلوچستان کے عوام کا اور تیسرا حق پاکستان کے عوام کا ہوگا۔ اقتصادی راہداری اور گوادر کی ترقی کے تناظر میں مقامی لوگوں اور مکران کے عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا اور ان کے خدشات کو دور کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بلوچستان کی ترقی کی سمت متعین کرکے اس راہ پر سفر کا آغاز کردیا ہے۔ ہماری منزل اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ایک پُرامن اور ترقی یافتہ بلوچستان ہے۔ بلوچستان میں قیام امن اور ترقی و خوش حالی کے لیے ہم اور پاک افواج ایک صفحے پر ہیں۔
سیمینار کے مندوبین، ملکی و غیرملکی میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض کا کہنا تھا کہ بلوچستان ملک کا مستقبل ہے۔ پاکستان کی ترقی کا راستہ گوادر سے گزرتا ہے۔ اقتصادی راہداری خطے میں معاشی انقلاب کا باعث بنے گی۔
اس سیمینار میں مکران اور گوادر سے تعلق رکھنے والے تاجروں، سماجی و سیاسی راہ نماؤں اور طلباء و طالبات کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جہاں اس منصوبے پر مقامی لوگوں کے خدشات و تحفظات کے حوالے سے سوالات بھی اُٹھائے گئے۔ سیمینار کے شرکاء نے مکران اور گوادر کے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ وہ ترقی کے خلاف نہیں، لیکن انہیں جس بات کا زیادہ خدشہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ کہیں اقلیت میں تبدیل نہ ہوجائیں، جیسا کہ کراچی میں ہوا ہے۔ انہیں ترقی کے اس عمل میں شامل کرتے ہوئے نہ صرف روزگار فراہم کیا جائے بل کہ باہر سے آنے والے لوگوں اور سرمایہ کاروں کے مقابلے ان کے حقوق کا تحفظ بھی کیا جائے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایسے سیمینارز کا انعقاد خوش آئند ہے۔ بحث و مباحثے کے اس عمل سے لوگوں کے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں اور خدشات جنم لے رہے ہیں انہیں دور کرنے میں مدد ملے گی۔ ان تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ ایک مثبت اور صحت مند پریکٹس تھی۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے اسے بھی ایسے مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کرنا چاہیے اور بلوچستان کو میڈیا پر نظر انداز کرنے کی اپنی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے اور ترقی و خوش حالی کے سفر میں بلوچستان کے عوام کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے مثبت پہلوؤں کو بھی پوری دُنیا کو دکھانا چاہیے، تاکہ میڈیا کے حوالے سے بلوچستان کے عوام کی رائے تبدیل ہو۔ ان تجزیہ نگاروں کے مطابق ماضی میں گوادر کی ترقی و خوش حالی کے حوالے سے حکومتی سطح پر کئی دعوے کیے جاتے رہے لیکن دیکھنے میں یہی آیا کہ یہ ترقی و خوش حالی صرف کاغذوں اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر میٹنگز تک محدود رہیں۔
نشتاً گفتاً برخاستاً کا وہ سلسلہ چلتا رہا جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام میں مایوسی پھیلی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مکران و گوادر کے مقامی لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا اب بھی کچھ ہوگا؟ یا صرف زبانی جمع خرچ ہورہا ہے۔ کیا گوادر کو ترقی ملے گی؟ یہاں کے عوام بھی معاشی لحاظ سے مضبوط ہوں گے؟ روزگار کے مواقع میسر آئیں گے؟ گوادر کے مقامی لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا؟ باہر سے یہاں آنے والے انہیں اقلیت میں تو تبدیل نہیں کردیں گے؟ اس ترقی و خوش حالی کے ثمرات سے وہ بھی مستفید ہوسکیں گے؟
اپنے بچوں کو اچھی تعلیم سے آراستہ کرسکیں گے؟ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں یہاں بھی بنیں گی؟ صحت کی سہولتیں انہیں بھی ملیں گی اور ہسپتال قائم ہوں گے؟ انہیں پینے کا صاف پانی انہیں ملے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کہ آج بھی ان کی زبان پر ہیں۔ اس سیمینار میں کسی حد تک انہیں جوابات ملے اور وہ بھی محسوس کررہے تھے کہ اب جو ان سے وعدے کیے جارہے ہیں اور یقین دہانیاں کرائی جارہی ہیں ان پر عمل درآمد ہوگا۔ یقیناً ترقی اور خوش حالی کا یہ سفر خلوص سے جاری رہا تو عوام کی تقدیر بدل دے گا۔
انہوں نے کسی مصلحت کے بغیر بحالی امن میں سیکیوریٹی فورسز کے کردار کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بل کہ ہر موقع پر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت کے برسراقتدار آنے کے فوراً بعد بلوچستان اسمبلی نے وفاقی محکموں، اداروں ور کارپوریشنوں میں بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے اور صوبے میں صنعتی ترقی کے مفقود ہونے پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے ایک متفقہ قرارداد کی منظوری دی، جس میں وفاق سے مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی محکموں، اداروں میں بلوچستان کے کوٹے پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور بلوچستان میں صنعتی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
اس مسئلے کو وفاقی حکومت کے سامنے اٹھانے کے لیے صوبائی اسمبلی نے وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ زہری کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ زہری نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی ترقی میں جس ذاتی دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپیزنڈ سے کچلاک تک ماس ٹرانزٹ ٹرین شروع کرنے کا اعلان، پیڈ پارکنگ کا خاتمہ، بس ٹرک اڈے کی ہزار گنجی منتقلی اور وزیراعظم کے کوئٹہ پیکیج پر عمل درآمد میں تیزی جیسے اقدامات وزیراعلیٰ کی کوئٹہ کے شہریوں کے مسائل حل کرنے میں خصوصی دل چسپی کا مظہر ہیں۔
بلوچستان کے ساحلی علاقوں خاص طور پر گوادر کی ترقی آج ہر حلقے میں زیربحث ہے لیکن وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ زہری نے برسراقتدار آتے ہی گوادر کی ترقی کو حقیقی شکل دینے کے لیے تیزی کے ساتھ اور متحرک انداز میں کام کا آغاز کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ گوادر کا دورہ کیا اور ترقیاتی عمل کو تیز کرنے کے لیے ہدایات جاری کیں۔
اس میں شبہہ نہیں کہ گوادر کی ترقی اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر عمل درآمد سے نہ صرف بلوچستان اور پاکستان کی معیشت بہتر ہوگی بل کہ پورے خطے کی تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں غیرمعمولی تیزی آئے گی۔ سی پیک کے تحت ژوب، کوئٹہ، خضدار، گوادر اور دیگر علاقوں میں انڈسٹریلسٹ پارکس تعمیر کیے جائیں گے، جہاں بجلی کے منصوبوں اور بھاری صنعتیں قائم کرنے پر 0.7بلین ڈالر سے زائد خرچ کیے جائیں گے۔
گوادر میں نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تعمیر کے علاوہ ۔ گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے، ہسپتال، پیشہ ورانہ تربیتی انسٹی ٹیوٹ اور کول پاور پراجیکٹ بھی زیرتعمیر ہے۔گوادر میں پانی کی کمی کے سنگین مسئلے کے پیش نظر وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ زہری کی ہدایت پر محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی ایک ٹیم نے گوادر کا دورہ کرکے وہاں فراہمی آب کے اہم منصوبوں کی نشان دہی کی تھی۔ اس سلسلے میں باقاعدہ سمری وزیراعلیٰ کو پیش کی گئی، جس کی وزیراعلیٰ نے منظوری دے دی ہے۔
اس منصوبے کے تحت 55.604ملین روپے کے فنڈز جاری کئے جائیں گے ۔ منظور کی گئی سمری کے مطابق ڈی سیلی نیشن پلانٹ، پمپنگ، سپلائی مشینری اور ٹینکروں کے ذریعے عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر مذکورہ رقم خرچ کی جائے گی۔ تمام فنڈز ڈپٹی کمشنر گوادر کی زیرصدارت قائم کی گئی کمیٹی کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے۔
گوادر کو بلوچستان کی ترقی میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں خاص طور سے گوادر کی ترقی سے صوبے اور ملک کی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی، لیکن گوادر کی ترقی کا عمل مقامی آبادی کو ساتھ لے کر چلنے سے اب تک قاصر رہا ہے۔ بجلی، پانی اور دیگر بنیادی ضرورتوں سے گوادر کے عوام آج بھی محروم ہیں اور کسی نے جدید ترقی کی اس راہ گزر کے باسیوں کی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ یہ حیران کن اور دل چسپ حقیقت ہے کہ ہم ایک طرف گوادر کو بین الاقوامی شہر بنانے کی تیاری کر رہے ہیں اور دوسری طرف اس شہر کے رہائشی آج بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ بہرحال موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری نے صورت حال کا نوٹس لیا ہے جو لائق ستائش ہے۔
انہوں نے متعلقہ حکام کو گوادر کا دورہ کرنے اور وہاں کے شہریوں کو فراہمی آب کے لیے فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد حکام نے گوادر کا دورہ کرکے اپنی سفارشات مرتب کیں، جنہیں ایک سمری کی شکل میں وزیراعلیٰ کو پیش کیا گیا اور وزیراعلیٰ نے ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر ان منصوبوں کی منظوری دے دی ہے۔
توقع کی جاتی ہے کہ ان پر بلاتاخیر عملدرآمد کرنے سے گوادر کے شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے گی۔اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت پاکستان کے ساحلی شہر گوادر کو چین کے شہر کاشغر سے ملایا جائے گا۔
اس منصوبے کے تحت ملک میں انرجی اور ٹرانسپورٹیشن سیکٹر پر کام کیا جائے گا۔ 12بلین ڈالر کی لاگت سے گوادر کو کاشغر سے ریل نیٹ ورک اور سڑکوں سے ملانے سمیت قراقرم ہائی وے کو وسیع، گوادر ایئرپورٹ کی جدید طرز پر تعمیر اور 125میل لمبی ٹنل کی تعمیرکے منصوبے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 34بلین ڈالر کی سرمایہ کاری توانائی کے شعبے پر کی جائے گی، جس سے کوئٹہ ونڈ، سوپر اور ہائیڈرو انرجی پلانٹس لگا کر تقریباً10ہزار میگا واٹس بجلی 2018 تک وقومی سسٹم میں شامل کرنے کی جامع منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی چینی سرمایہ کاری نہ صرف پاکستان کی حیثیت میں استحکام لائے گی بل کہ بلوچستان سمیت مشرق وسطیٰ میں بھی اقتصادی ترقی کے شان دار مواقع پیدا ہوں گے۔
حال ہی میں وزیراعظم نوازشریف نے قومی قیادت کے ساتھ بلوچستان کے علاقے ژوب کا دورہ کیا، جہاں پر انہوں نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ این - 50ژوب -مفل کوٹ سیکشن اور این 70- قلعہ سیف اللہ، ویگم ڑد سیکشن کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا اور اس طرح راہ داری کے مغربی روٹ کے آغاز سے منصوبے کو متنازع بنانے کے پروپیگنڈے کا خاتمہ ہوگیا۔ ژوب سے مفل کوٹ سیکشن 81کلو میٹر طویل ہوگا جس پر 9ارب روپے لاگت آئے گی، جب کہ قلعہ سیف اﷲ سے ویگم رُد کے 128کلو میٹر سیکشن کی تعمیر پر 8ارب روپے خرچ ہوں گے۔
دونوں منصوبوں کی تعمیر کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینگ (ADB) مالی معاونت فراہم کرے گا اور منصوبہ دو سال یعنی 2018میں مکمل ہوں گے۔ وفاق کے فعال تعاون سے بلوچستان میں قومی شاہ راہوں کی تعمیر و ترقی کے لیے شروع کیے گئے منصوبوں کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بلوچستان میں سڑکوں کا جال بچھ رہا ہے۔
گوادر سے ہوشاب تک 194کلو میٹر طویل سڑک تعمیر کی جا رہی ہے، جو آئندہ ماہ جنوری میں مکمل ہو جائے گی۔ اسی طرح بلوچستان میں شاہ راہوں کی تعمیر پر 200ارب روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ قومی شاہ راہوں کے جال بچھ جانے سے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کے درمیان نہ صرف تجارت سیاسی ، معاشی و ثقافتی تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا بل کہ قومی یک جہتی کو بھی زبردست فروغ ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ویسٹرن کوریڈور کی تکمیل سے بلوچستان میں ترقیاتی اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا، جس سے صنعت وتجارت کو فروغ ملے گا، تعلیم کی سہولت تک رسائی آسان ہوگی اور سفر میں آسانی بھی میسر آئے گی۔
گوادر بندرگاہ منصوبہ۔۔۔
مقامی افراد کے تندوتیز سوالات
''بلوچستان پورے خطے کے لیے تجارتی گیٹ وے بننے جارہا ہے''
گوادر میں ہونے والے سیمینار کی روداد
''گوادر'' بلوچی کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے یعنی ''گوا'' کھلی ہوا اور ''در'' یعنی دروازہ۔ کھلی ہوا کا یہ دروازہ گوادر اس وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی ترقی و خوش حالی اسی کھلی ہوا کے دروازے سے وابستہ ہے جہاں چین کے تعاون سے اقتصادی راہداری کے ایک عظیم منصوبے پر کام ہورہا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے جہاں پاکستان کی معیشت مضبوط ہوگی وہیں بلوچستان کے عوام کی بھی تقدیر بدل جائے گی۔
اس منصوبے کو سونے کی چڑیا سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اقتصادی راہداری اور گوادر کی ترقی و خوش حالی کے حوالے سے مختلف باتیں ہورہی ہیں۔ شاید اسی لیے ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو یہ ترقی و خوش حالی ایک آنکھ نہیں بھارہی اور وہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے سازشیں کررہا ہے۔ حال ہی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس گرفتار ایجنٹ نے جو انکشافات کیے ہیں ان سے بھی بھارت کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
گذشتہ دنوں گوادر میں حکومت بلوچستان کے زیراہتمام تربت یونیورسٹی، ڈیووٹ آرگنائزیشن اور پاک فوج کی سدرن کمانڈ کے اشتراک سے گوادر کی بندرگاہ کے منصوبے کے اغراض و مقاصد اور ترقی و خوش حالی کے حوالے سے ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف تھے۔ اس سیمینار میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض سمیت اعلیٰ سول و فوجی حکام نے شرکت کی۔ سیمینار کے تین حصے تھے، جن کا مقصد اس عظیم منصوبے کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے آگاہی دینا اور اس حوالے سے صوبے کی قوم پرست و دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے جن تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے ان کو دور کرنا تھا۔
اس ایک روزہ سیمینار میں ملکی اور غیرملکی میڈیا کے نمائندوں کے علاوہ اراکین پارلیمنٹ پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے راہ نماؤں نے بھی شرکت کی۔ سیمینار کا پہلا حصہ جامعات کے اساتذہ اور طلباء کے لیے تھا۔ اس سیشن میں طلباء کو اقتصادی راہداری اور گوادر کے منصوبے کے حوالے سے سوالات کے جواب دیے گئے۔ دوسرا سیشن میڈیا سے تعلق رکھنے والے اینکر پرسنز اور سنیئر صحافیوں کا تھا، جنہوں نے اس منصوبے پر میڈیا کے کردار سے آگاہ کیا۔ تیسرے حصے میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے حصہ لیا اور اس منصوبے کے حوالے سے اپنی جماعتوں کے موقف کو اُجاگر کیا۔
سیمینار کے شرکاء خصوصاً مکران اور گوادر کے مقامی لوگوں، بزنس مینوں اور طلباء و طالبات نے اپنے خدشات کا اظہار کیا اور اس ضمن میں مقامی آبادی کو نظرانداز کرنے کے حوالے سے سیمینار کے تینوں سیشنز میں تندوتیز سوالات کیے۔ سیمینار کے آخر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے خطاب میں یہ بات زور دے کر کہی کہ پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان اور چین کے گہرے تعلقات کی عکاس ہے اور دونوں ملکوں کے مضبوط رشتوں کی مظہر ہے۔ یہ پورے خطے کے لیے امن اور خوش حالی کی راہداری ہوگی۔
یہ راہ داری پورے خطے کے امن اور استحکام کا راستہ اور ترقی کی ضامن ہوگی۔ اس موقع پر اُنہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ چین سے گوادر کارگو اسی سال آنا شروع ہوگا اور ہم کسی کو رکاوٹ یا گڑ بڑ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی پاکستان میں عدم استحکام میں ملوث ہے اور ہماری دُشمن خفیہ ایجنسیاں پاک چین اقتصادی راہداری کی مخالف ہیں اور بھارت نے سرعام اس ترقیاتی منصوبے کو چیلنج کیا ہے، لیکن ہم کسی کو اس منصوبے کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے۔ آرمی چیف نے گوادر میں کیڈٹ کالج بنانے کا بھی اعلان کیا۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری نے اپنے خطاب میں کہا کہ گوادر نہ صرف بلوچستان اور پاکستان بل کہ پورے خطے کے لیے تجارتی گیٹ وے بننے جارہا ہے۔ گوادر کی ترقی میں مقامی لوگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا اور اس سلسلے میں جلد ہی بلوچستان اسمبلی کے ذریعے قانون سازی کی جائے گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گوادر میں پہلا حق یہاں کے مقامی لوگوں کا ہے، دوسرا حق بلوچستان کے عوام کا اور تیسرا حق پاکستان کے عوام کا ہوگا۔ اقتصادی راہداری اور گوادر کی ترقی کے تناظر میں مقامی لوگوں اور مکران کے عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا اور ان کے خدشات کو دور کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بلوچستان کی ترقی کی سمت متعین کرکے اس راہ پر سفر کا آغاز کردیا ہے۔ ہماری منزل اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ایک پُرامن اور ترقی یافتہ بلوچستان ہے۔ بلوچستان میں قیام امن اور ترقی و خوش حالی کے لیے ہم اور پاک افواج ایک صفحے پر ہیں۔
سیمینار کے مندوبین، ملکی و غیرملکی میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض کا کہنا تھا کہ بلوچستان ملک کا مستقبل ہے۔ پاکستان کی ترقی کا راستہ گوادر سے گزرتا ہے۔ اقتصادی راہداری خطے میں معاشی انقلاب کا باعث بنے گی۔
اس سیمینار میں مکران اور گوادر سے تعلق رکھنے والے تاجروں، سماجی و سیاسی راہ نماؤں اور طلباء و طالبات کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جہاں اس منصوبے پر مقامی لوگوں کے خدشات و تحفظات کے حوالے سے سوالات بھی اُٹھائے گئے۔ سیمینار کے شرکاء نے مکران اور گوادر کے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ وہ ترقی کے خلاف نہیں، لیکن انہیں جس بات کا زیادہ خدشہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ کہیں اقلیت میں تبدیل نہ ہوجائیں، جیسا کہ کراچی میں ہوا ہے۔ انہیں ترقی کے اس عمل میں شامل کرتے ہوئے نہ صرف روزگار فراہم کیا جائے بل کہ باہر سے آنے والے لوگوں اور سرمایہ کاروں کے مقابلے ان کے حقوق کا تحفظ بھی کیا جائے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایسے سیمینارز کا انعقاد خوش آئند ہے۔ بحث و مباحثے کے اس عمل سے لوگوں کے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں اور خدشات جنم لے رہے ہیں انہیں دور کرنے میں مدد ملے گی۔ ان تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ ایک مثبت اور صحت مند پریکٹس تھی۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے اسے بھی ایسے مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کرنا چاہیے اور بلوچستان کو میڈیا پر نظر انداز کرنے کی اپنی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے اور ترقی و خوش حالی کے سفر میں بلوچستان کے عوام کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے مثبت پہلوؤں کو بھی پوری دُنیا کو دکھانا چاہیے، تاکہ میڈیا کے حوالے سے بلوچستان کے عوام کی رائے تبدیل ہو۔ ان تجزیہ نگاروں کے مطابق ماضی میں گوادر کی ترقی و خوش حالی کے حوالے سے حکومتی سطح پر کئی دعوے کیے جاتے رہے لیکن دیکھنے میں یہی آیا کہ یہ ترقی و خوش حالی صرف کاغذوں اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر میٹنگز تک محدود رہیں۔
نشتاً گفتاً برخاستاً کا وہ سلسلہ چلتا رہا جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام میں مایوسی پھیلی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مکران و گوادر کے مقامی لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا اب بھی کچھ ہوگا؟ یا صرف زبانی جمع خرچ ہورہا ہے۔ کیا گوادر کو ترقی ملے گی؟ یہاں کے عوام بھی معاشی لحاظ سے مضبوط ہوں گے؟ روزگار کے مواقع میسر آئیں گے؟ گوادر کے مقامی لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا؟ باہر سے یہاں آنے والے انہیں اقلیت میں تو تبدیل نہیں کردیں گے؟ اس ترقی و خوش حالی کے ثمرات سے وہ بھی مستفید ہوسکیں گے؟
اپنے بچوں کو اچھی تعلیم سے آراستہ کرسکیں گے؟ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں یہاں بھی بنیں گی؟ صحت کی سہولتیں انہیں بھی ملیں گی اور ہسپتال قائم ہوں گے؟ انہیں پینے کا صاف پانی انہیں ملے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کہ آج بھی ان کی زبان پر ہیں۔ اس سیمینار میں کسی حد تک انہیں جوابات ملے اور وہ بھی محسوس کررہے تھے کہ اب جو ان سے وعدے کیے جارہے ہیں اور یقین دہانیاں کرائی جارہی ہیں ان پر عمل درآمد ہوگا۔ یقیناً ترقی اور خوش حالی کا یہ سفر خلوص سے جاری رہا تو عوام کی تقدیر بدل دے گا۔