’ہائے دہائے‘ میرے گائوں میں

مسلمانوں میں شیعہ سنی کی تفریق مجھے لاہور آنے کے بعد معلوم اور محسوس ہوئی اور تعجب ہوا کہ ایسا کب اور کیوں ہوا۔

Abdulqhasan@hotmail.com

بچپن میں سوائے اس کے اور کچھ پتہ نہیں تھا کہ روزوں کی طرح ایک مہینہ ہائے دہائے کا بھی آتا ہے جس میں کھانے پینے کو زیادہ ملتا ہے۔ ہائے دہائے یعنی ماتم اور ہائے کے دس دن۔

جب گائوں میں زندگی معمول سے ہٹ کر خاموش ہو جاتی تھی، والدہ گڑ کا میٹھا پانی تیار کرتیں اور ایک جگ میں ڈال کر کہتیں کہ باہر جائو اور اپنے دوستوں اور بچوں کو یہ میٹھا پانی پلائو۔ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ وہ میدان کربلا کے معصوم پیاسے بچوں کی پیاس کی یاد میں میٹھا پانی بناتی تھیں اور گائوں کے بچوں کو پلاتی تھیں۔ ہمارے گائوں سو فیصد سُنی تھا۔ شیعہ سے کوئی واقف نہیں تھا، ہاں ایک محمدی نام کا دھوبی تھا جو ہر وقت سیاہ کپڑوں میں ملبوس رہتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ کسی دوسرے مسلک کا ہے مگر یہ بھی گائوں میں گھل مل کر رہتا تھا اور اسے غالباً کچھ زیادہ معلوم بھی نہیں تھا کہ شیعہ کون ہوتے ہیں۔

مجھے یاد نہیں کہ اس نے سیاہ کپڑے کیوں کب اور کس طرح پہننے شروع کر دیے۔ ہماری پوری وادی کے بائیس دیہات میں کوئی شیعہ گھر نہیں تھا۔ ہمارے میراثی ہمیں بتاتے تھے کہ ہم سب سیدنا حضرت علیؓ کی اولاد ہیں لیکن شیعہ نہیں ہیں۔ مجھے یاد ہے ہمارے گائوں کے محمدی دھوبی کے علاوہ بھی کوئی شیعہ تھا یا نہیں لیکن شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ ہر گز نہیں تھا۔ ہائے دہائے یعنی دسویں محرم تک شادیاں نہیں ہوتی تھیں ،کوئی میلہ نہیں لگتا تھا اور ایک طرح سے خاموشی رہتی تھی۔

اس زمانے کے مولوی حضرات بھی جمعہ کے خطبوں میں صرف کربلا کے مصائب بیان کرتے تھے اور حضرت امام کی مدح کی جاتی تھی۔ پنجتن پاک کی اصطلاح بھی میں نے بچپن میں سنی تھی کہ پنجتن پاک کے صدقے یہ بات اور وہ بات۔ دسویں دن قبروں پر پانی ڈالا جاتا تھا اور ان کی مرمت بھی کی جاتی تھی۔ سوگوار خاموشی کے یہ دن ہم بچوں کے شربت پیتے اور بڑوں کے مسجدوں میں ذکر کربلا سنتے گزر جاتے اور پھر زندگی فوراً ہی معمول پر آجاتی، صرف خانوادہ رسول پاکؐ کے ذکر کی برکت باقی رہ جاتی۔


مسلمانوں میں شیعہ سنی کی تفریق مجھے لاہور آنے کے بعد معلوم اور محسوس ہوئی اور تعجب ہوا کہ ایسا کب اور کیوں ہوا۔ ان دنوں میں نے ایک اخبار میں کسی برطانوی پروفیسر برنارڈ کا مضمون پڑھا کہ عیسائی بے فکر رہیں مسلمان شیعہ سنی کے اختلاف سے باہر نہیں نکلیں گے۔ یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی کہ دربار نبوت کے چاند ستارے جس مقام پر فائز تھے اس میں تفریق کا اختیار ہمیں کہاں سے ملا ہے۔ آپ بے لاگ کسی وجہ سے کسی کو کسی پر فضیلت دیں مگر یہ نفرت اور دشمنی کہاں سے آ گئی۔

اگر عمر بن خطابؓ معتوب ٹھہرتے ہیں تو پھر اﷲ ہی حافظ ہے۔ ویسے کون شیعہ اس سے انکار کر سکتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ کے بچوں نے شکایت کی کہ حسنؓ اور حسینؓ ہمیں اپناغلام سمجھتے ہیں تو حضرت عمرؓ نے اچھل کر کہا بھاگ کر جائو ان سے لکھوا لائو کہ ہم ان کے غلام ہیں۔ اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ ہمیں اپنا غلام سمجھیں۔ مسلمانوں کے ابتدائی دور میں جو ہدایت اور صداقت کا دور تھا شیعہ سنی موجود نہیں تھے۔ بعد میں جب خلافت کا مسئلہ ہوا تو اس کے حوالے سے بعض شکایات سامنے آئی ہیں لیکن میں اس مقام پر نہیں ہوں کہ اس نازک مسئلہ پر کچھ عرض کر سکوں سوائے اس کے اس افتراق اور خلاف پر آنسو بہا سکوں۔ حضور پاکؐ نے فرمایا تھا کہ میری امت کا اختلاف رائے رحمت اور خلاف بدقسمتی۔

میں جو محدود معلومات اور دانش رکھتا ہوں کبھی سوچتا ہوں کہ اسلام جیسے سیدھے صاف اور واضح دین و مذہب میں تو اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ برطانیہ میں اس ملک کے دو فرقوں کی آبادیوں کے درمیان ایک دیوار بنا دی گئی ہے مگر اسے ایسا چھپایا جاتا ہے جیسے کچھ ہے ہی نہیں جب کہ ہم مسلمان اپنے اختلافات کو خوب خوب اچھالتے ہیں اور اس پر سیاست کرتے ہیں بلکہ ہمارے اختیار میں ہو تو ہر شہر اور آبادی میں دیواریں بنا دیں لیکن بدقسمتی سے عملاً ایسا نہیں ہے، شیعہ سنی ایک ساتھ رہتے ہیں اور بعض اوقات تو محرم میں پتہ چلتا ہے کہ کون سنی اور کون شیعہ ہے۔ ہمارے استاد اور ایڈیٹر سید سبط حسن جو پکے کمیونسٹ تھے، محرم میں سیاہ رنگ کی قمیض پہن لیتے تھے ،جب اس کا ذکر کیا جاتا تو وہ جواب دیتے یہ ہمارا کلچر ہے۔

وہ لکھنو کے تھے جہاں محرم کلچر کا حصہ بھی تھا۔ اختلاف رائے زندگی کی علامت ہے لیکن اختلاف جب دشمنی بن جائے تو پھر یہ موت کی علامت بن جاتا ہے۔ شیعہ سنی فساد اسی موت کی علامت ہیں۔ ہمیں کوئی فراخدل حکومت ہی اس مصیبت سے نجات دلا سکتی ہے یا پھر میرے گائوں کے ہائے دہائے جو سنی اپنے شیعہ بھائیوں کے لیے کرتے تھے یا خود اپنے لیے کہ ہر مسلمان جو رسول پاکؐ کا امتی ہے تھوڑا سا شیعہ بھی ہے۔
Load Next Story