کیا کمال لوگ تھے
میں اپنی خاندانی عادت کی وجہ سے جی جی والا لہجہ نہ چھوڑ سکا اور میرا یہ انداز آج بھی جاری ہے۔
''یہ آپ جی جی کرکے بات نہ کیا کریں، اس سے آپ کا بہتر امیج نہیں بنتا، آپ کے جی جی کرنے سے سامنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایویں ای ہے۔''
یہ نصیحت مجھے میری ایک ہمدرد سینئر لکھاری نے کی تھی، مگر میں اپنی خاندانی عادت کی وجہ سے جی جی والا لہجہ نہ چھوڑ سکا اور میرا یہ انداز آج بھی جاری ہے۔ حالانکہ بشیر بدر کا مشورہ بھی میرے پیشِ نظر ہے کہ
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا' نہ ملا کرو یوں تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے' ذرا فاصلے سے رہا کرو
مگر مجھ پر اس مشورے کا بھی ذرّہ برابر بھی اثر نہیں ہوا، ہوتا بھی کیسے کہ یہ ہمارا خاندانی وصف ہے اور اب تو یوں بھی عمر گزر گئی، اب خود کو کیا بدلیں گے!
واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ابّا صوفی منش آدمی تھے، بڑے نرم گفتار تھے، انداز یہ کہ نظریں جھکائے، دھیمے لہجے میں بولتے تھے۔ یہ بھی بتا دوں کہ ابّا صرف مزاجاً ہی صوفی نہیں تھے بلکہ انھیں صوفی کے منصب پر حضرت پیر ضیاء القادری نے فائز کیا تھا۔آج بھی بہت سے لوگ پیر ضیاء القادری کو جانتے ہیں۔ حضرت صاحب برصغیر کے معروف شاعر شکیل بدایونی کے اُستاد تھے اور ان کے چچا بھی تھے۔ بٹوارے کے بعد ہمارے خاندان کا پاکستان میں پہلا پڑاؤ جٹ لائن کراچی میں ہوا۔ یہاں سرکاری کوارٹر ہوا کرتے تھے، انھی کوارٹروں میں پیر ضیاء القادری اور ہم رہا کرتے تھے۔ ابّا کو بھی شعر و شاعری سے شغف تھا، ضیاء القادریؒ صاحب کا شمار تو بڑے شعراء میں ہوتا تھا۔ پیر صاحب کے ہاں ذکر کی محفل ہوتی تھی، نعتیہ اور منقبتی مشاعرے بھی ہوتے تھے، ابّا ان میں لازماً شریک ہوتے تھے۔ ابّا نے خود بھی نعتیں اور منقبتیں لکھیں اور ان کے دونوں شاعر بیٹوں مشتاق مبارک اور حبیب جالب نے بھی لکھیں اور ضیاء القادری کی محافل میں پڑھیں۔ مجھے ذرا ذرا سا یاد ہے (میں بہت چھوٹا تھا) کہ شکیل بدایونی ہندوستان سے اپنے چچا سے ملنے کراچی آئے تھے اور ہمارے بڑے بھائیوں کی وجہ سے ہمارے گھر بھی آئے تھے۔ ابّا کا ذکر ہورہا ہے تو ان کی تحریری یاداشتوں سے چند سطریں اور دو اشعار نقل کرتا چلوں۔ بڑی گیارہویں شریف کے موقعے پر حضرت مولانا ضیاء القادری کے مکان 22/2 جٹ لائن کراچی، طرحی مشاعرہ میں پڑھی گئی مدح سرکارِ بغداد۔ مصرعہ طرح ''نجف ہے میکدہ گردش میں جامِ غوثِ اعظم ہے''
مری وردِ زباں ہر دم جو نام غوثِ اعظم ہے
جدھر جاتا ہوں' کہتے ہیں غلامِ غوثِ اعظم ہے
پیو آکر پیو اے عاشقو! سرشار ہو جاؤ
نجف ہے میکدہ گردش میں جامِ غوثِ اعظم ہے
ابّا جی کے قلمی نسخہ جات کی صورت سیکڑوں صفحات میرے پاس محفوظ ہیں، بہت زیادہ نثر پارے اور کچھ شاعری، میں یہ سب کتابی شکل میں چھاپنے جارہا ہوں۔ ''ارمغانِ صوفی'' کے نام سے حضور نبیؐ کا ذکر، صحابہ کرام، غوث، قطب، اولیاء کرام، پیر، فقراء کرام کے تذکرے اور اپنے ذاتی مشاہدات، نیز خاندان کے بارے میں اہم واقعات، اپنے خاندانی بزرگوں کی یادیں، خاندانی پس منظر۔ یہ سب کچھ بہت دلچسپ پیرائے میں ابّا جی نے لکھا ہے اور خوب لکھا ہے۔ ابّا کا لکھا اچھا تو لازمی ہو گا کہ وہ اُردو کے دو معروف شاعروں، مشتاق مبارک اور حبیب جالب کے والد ہیں۔
قارئین سے درخواست ہے کہ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میں یہ اہم کام کر جاؤں۔ ابّا کے منہ سے نکلے الفاظ اس لمحے بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ''میری یہ تحریریں کون چھاپے گا، کون انھیں پڑھے گا؟'' لیجیے ابّا جی! آخر وہ وقت آن پہنچا۔ آپ کی تحریروں کے سوا سو صفحات تو میں اپنی کتاب ''گھر کی گواہی'' میں شایع کرچکا (جون 1994) اب آپ کی تمام تحریریں ''ارمغان صوفی'' کے نام سے کتابی شکل میں آئینگی اور آپ کے نامور شاعر بیٹوں کے پرستار آپ کی کتاب پڑھی ںگے، یوں بھی جالب فہمی کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت ضروری ہوگا۔ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں نکل گئی، تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہمارے والد صاحب کی نرم گفتاری، عجز و انکساری ان کے بچوں میں بھی آگئی۔ ہمارے سب سے بڑے بھائی مشتاق مبارک بھی اس نرم گفتاری اور عجز و انکساری کا شکار رہے۔ ان کا بہت مشہور قطعہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں!
دوستوں کی ستم ظریفی کو
ہم فقط اپنی سادگی سمجھے
دوست میرے خلوص کو اکثر
میرا احساسِ کمتری سمجھے
اور ہمارے دوسرے بھائی حبیب جالب کے مزاج میں ابّا جی اور اماں دونوں شامل ہوگئے۔ ابّا کی نرم گفتاری دیکھنا ہو تو جالب بھائی کو ''حلقۂ یاراں'' میں دیکھیں اور اماں رابعہ بصریٰ کا جلال دیکھنا ہو تو جالب کو ''حلقۂ آمراں'' میں دیکھیں۔ حبیب جالب ، علامہ اقبال کے اس شعر کی ہوبہو تصویر تھے:
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
میں اکثر سوچتا کہ حضرت علامہ کے دور میں اگر جالب اپنے اسی کروفر کے ساتھ موجود ہوتے تو میرا خیال ہے علامہ صاحب کا مومن جالب میں ڈھل جاتا ''فولاد ہے جالب'' بہرحال۔ حبیب جالب ہمیشہ کہا کرتے تھے ''جاتے جاتے حضرت علامہ میری ڈیوٹی لگا گئے ہیں کہ ''اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو'' تو میں حضرت علامہ کی ڈیوٹی بھگتاتے بھگتاتے بہت سی جیلیں اور تھانے بھگتا چکا ہوں۔ حق مغفرت کرے یہ سب کیا کمال لوگ تھے۔
یہ نصیحت مجھے میری ایک ہمدرد سینئر لکھاری نے کی تھی، مگر میں اپنی خاندانی عادت کی وجہ سے جی جی والا لہجہ نہ چھوڑ سکا اور میرا یہ انداز آج بھی جاری ہے۔ حالانکہ بشیر بدر کا مشورہ بھی میرے پیشِ نظر ہے کہ
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا' نہ ملا کرو یوں تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے' ذرا فاصلے سے رہا کرو
مگر مجھ پر اس مشورے کا بھی ذرّہ برابر بھی اثر نہیں ہوا، ہوتا بھی کیسے کہ یہ ہمارا خاندانی وصف ہے اور اب تو یوں بھی عمر گزر گئی، اب خود کو کیا بدلیں گے!
واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ابّا صوفی منش آدمی تھے، بڑے نرم گفتار تھے، انداز یہ کہ نظریں جھکائے، دھیمے لہجے میں بولتے تھے۔ یہ بھی بتا دوں کہ ابّا صرف مزاجاً ہی صوفی نہیں تھے بلکہ انھیں صوفی کے منصب پر حضرت پیر ضیاء القادری نے فائز کیا تھا۔آج بھی بہت سے لوگ پیر ضیاء القادری کو جانتے ہیں۔ حضرت صاحب برصغیر کے معروف شاعر شکیل بدایونی کے اُستاد تھے اور ان کے چچا بھی تھے۔ بٹوارے کے بعد ہمارے خاندان کا پاکستان میں پہلا پڑاؤ جٹ لائن کراچی میں ہوا۔ یہاں سرکاری کوارٹر ہوا کرتے تھے، انھی کوارٹروں میں پیر ضیاء القادری اور ہم رہا کرتے تھے۔ ابّا کو بھی شعر و شاعری سے شغف تھا، ضیاء القادریؒ صاحب کا شمار تو بڑے شعراء میں ہوتا تھا۔ پیر صاحب کے ہاں ذکر کی محفل ہوتی تھی، نعتیہ اور منقبتی مشاعرے بھی ہوتے تھے، ابّا ان میں لازماً شریک ہوتے تھے۔ ابّا نے خود بھی نعتیں اور منقبتیں لکھیں اور ان کے دونوں شاعر بیٹوں مشتاق مبارک اور حبیب جالب نے بھی لکھیں اور ضیاء القادری کی محافل میں پڑھیں۔ مجھے ذرا ذرا سا یاد ہے (میں بہت چھوٹا تھا) کہ شکیل بدایونی ہندوستان سے اپنے چچا سے ملنے کراچی آئے تھے اور ہمارے بڑے بھائیوں کی وجہ سے ہمارے گھر بھی آئے تھے۔ ابّا کا ذکر ہورہا ہے تو ان کی تحریری یاداشتوں سے چند سطریں اور دو اشعار نقل کرتا چلوں۔ بڑی گیارہویں شریف کے موقعے پر حضرت مولانا ضیاء القادری کے مکان 22/2 جٹ لائن کراچی، طرحی مشاعرہ میں پڑھی گئی مدح سرکارِ بغداد۔ مصرعہ طرح ''نجف ہے میکدہ گردش میں جامِ غوثِ اعظم ہے''
مری وردِ زباں ہر دم جو نام غوثِ اعظم ہے
جدھر جاتا ہوں' کہتے ہیں غلامِ غوثِ اعظم ہے
پیو آکر پیو اے عاشقو! سرشار ہو جاؤ
نجف ہے میکدہ گردش میں جامِ غوثِ اعظم ہے
ابّا جی کے قلمی نسخہ جات کی صورت سیکڑوں صفحات میرے پاس محفوظ ہیں، بہت زیادہ نثر پارے اور کچھ شاعری، میں یہ سب کتابی شکل میں چھاپنے جارہا ہوں۔ ''ارمغانِ صوفی'' کے نام سے حضور نبیؐ کا ذکر، صحابہ کرام، غوث، قطب، اولیاء کرام، پیر، فقراء کرام کے تذکرے اور اپنے ذاتی مشاہدات، نیز خاندان کے بارے میں اہم واقعات، اپنے خاندانی بزرگوں کی یادیں، خاندانی پس منظر۔ یہ سب کچھ بہت دلچسپ پیرائے میں ابّا جی نے لکھا ہے اور خوب لکھا ہے۔ ابّا کا لکھا اچھا تو لازمی ہو گا کہ وہ اُردو کے دو معروف شاعروں، مشتاق مبارک اور حبیب جالب کے والد ہیں۔
قارئین سے درخواست ہے کہ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میں یہ اہم کام کر جاؤں۔ ابّا کے منہ سے نکلے الفاظ اس لمحے بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ''میری یہ تحریریں کون چھاپے گا، کون انھیں پڑھے گا؟'' لیجیے ابّا جی! آخر وہ وقت آن پہنچا۔ آپ کی تحریروں کے سوا سو صفحات تو میں اپنی کتاب ''گھر کی گواہی'' میں شایع کرچکا (جون 1994) اب آپ کی تمام تحریریں ''ارمغان صوفی'' کے نام سے کتابی شکل میں آئینگی اور آپ کے نامور شاعر بیٹوں کے پرستار آپ کی کتاب پڑھی ںگے، یوں بھی جالب فہمی کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت ضروری ہوگا۔ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں نکل گئی، تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہمارے والد صاحب کی نرم گفتاری، عجز و انکساری ان کے بچوں میں بھی آگئی۔ ہمارے سب سے بڑے بھائی مشتاق مبارک بھی اس نرم گفتاری اور عجز و انکساری کا شکار رہے۔ ان کا بہت مشہور قطعہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں!
دوستوں کی ستم ظریفی کو
ہم فقط اپنی سادگی سمجھے
دوست میرے خلوص کو اکثر
میرا احساسِ کمتری سمجھے
اور ہمارے دوسرے بھائی حبیب جالب کے مزاج میں ابّا جی اور اماں دونوں شامل ہوگئے۔ ابّا کی نرم گفتاری دیکھنا ہو تو جالب بھائی کو ''حلقۂ یاراں'' میں دیکھیں اور اماں رابعہ بصریٰ کا جلال دیکھنا ہو تو جالب کو ''حلقۂ آمراں'' میں دیکھیں۔ حبیب جالب ، علامہ اقبال کے اس شعر کی ہوبہو تصویر تھے:
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
میں اکثر سوچتا کہ حضرت علامہ کے دور میں اگر جالب اپنے اسی کروفر کے ساتھ موجود ہوتے تو میرا خیال ہے علامہ صاحب کا مومن جالب میں ڈھل جاتا ''فولاد ہے جالب'' بہرحال۔ حبیب جالب ہمیشہ کہا کرتے تھے ''جاتے جاتے حضرت علامہ میری ڈیوٹی لگا گئے ہیں کہ ''اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو'' تو میں حضرت علامہ کی ڈیوٹی بھگتاتے بھگتاتے بہت سی جیلیں اور تھانے بھگتا چکا ہوں۔ حق مغفرت کرے یہ سب کیا کمال لوگ تھے۔