نگلا جائے ہے اُن سے اور نہ اُگلا جائے ہے

حکمرانوں کی یہ مجبوری ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے فی الحال کوئی دشمنی کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔

mnoorani08@hotmail.com

LONDON:
اصغر خان پٹیشن جوگزشتہ سولہ برس سے عدلیہ کے زیرِالتوفائلوں میں کہیں دبی ہوئی تھی،موجودہ سیاسی دور میں اِسے بڑی اہمیت دیکر محض اِس لیے دوبارہ زندہ کیا گیاکہ اِس میں جن سیاست دانوں کو پیسے دیکر ایک سیاسی اتحاد بنانے پر مائل کیا گیا اُس میں میاں نواز شریف کا نام بھی آتا ہے۔

قطع نظر اِس کے کہ 1990 میں آئی ایس آئی نے آئی جے آئی بنانے کا فیصلہ کیونکر کیا گیا اور اِس میں مسلم لیگ (ن)کے علاوہ دیگر سات سیاسی جماعتیں بھی شامل تھیں سارا زور صرف مسلم لیگ (ن) ہی کو نشانہ بنانے پر صرف کیا جانے لگا اور ایک تیر سے دو شکار کھیلے گئے ۔لیکن اب جب ہماری اعلیٰ عدلیہ نے فریقوں کے دلائل سننے کے بعد ایک خوب صورت تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کے لیے خود حکومت ہی کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی ہی زیرِ نگرانی ایف آئی اے سے اِس کی تحقیقات کروائے تو بے چاری اِس حکومت کی ساری خوشی پر جیسے پانی ہی پھر گیا ہو۔اِس تاریخی فیصلے کا ایک ایک پہلو اتنا جامع اور با وزن ہے کہ حکومت اگر اِس سے جان چھڑانا بھی چاہے تو نہیں چھڑا سکتی۔ الیکشن سے پہلے سیاسی اتحاد بنانا کوئی ناپسندیدہ عمل نہیں ہوا کرتا ۔

خود پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے دورکے اختتام کے وقت ملک کے اندر نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد کے نام سے ایک ایسا مضبوط اتحاد بنایا گیا تھا جس نے اُس وقت کی حکومت کو انتخابات میں ایک ایسی مشکل سے دوچار کر دیا تھا کہ اُس کے سارے اوسان خطا ہوگئے اور وہ الیکشن میں دھاندلی پر مجبور ہوگئی۔لیکن اِس دھاندلی کا خمیازہ اُسے بالاخر اقتدار سے محرومی کی صورت میں ہی اُٹھانا پڑا۔ پاکستان قومی اتحاد اورآئی جے آئی دونوں پیپلز پارٹی مخالف سیاسی اتحاد تھے لیکن اِن میںایک بڑا فرق یہ تھا کہ پاکستان قومی اتحاد کو کسی غیر سیاسی فریق یا ادارے کی سرپرستی حاصل نہ تھی جب کہ آئی جے آئی کی تشکیل ہی ہماری عسکری قوت نے کی تھی۔کہا جا تا ہے کہ اِس سیاسی اتحاد کو بنانے کے لیے ہمارے کچھ سیاسی رہنماؤں کی مالی اعانت بھی کی گئی اور اِن میں سے ایک شخص میاں نواز شریف بھی ہیں جنھیں بقول جناب یونس حبیب پینتیس لاکھ روپے دیے گئے۔ صرف اِس ایک الزام کو لے کر میاں صاحب کے مخالفوں نے یہ سمجھا کہ اُن کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی آ گئی ہے اور وہ اِسے گھما کر میاں صاحب کو سیاست سے باہر کر دینگے ۔

لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے اُنہیں خود ایک ایسی شش و پنج کی کیفیت سے دوچار کردیا ہے اور وہ نگلا جائے ہے اُن سے اور نہ اُگلا جائے ہے کی مثل اِس نوالے کو اپنے حلق میں ہی اٹکائے لیے پھر رہے ہیں۔ آئی جے آئی بنانے کا الزام اُس وقت کے صدرِ مملکت یعنی جناب غلام اسحق خان سمیت جناب اسلم بیگ اور اسد درانی پررہا ہے ۔ جناب غلام اسحق خان تو اب اِس دنیا میں نہیں رہے لیکن دیگر تمام افراد جن کا تعلق ایک ایسے ادارے سے رہا ہے جس پر آج سے پہلے کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا تھا وہ کھلے بندوں اپنے اِس جرم کا اعتراف کر چکے ہیں۔


اِن کے علاوہ آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ جناب حمید گُل ببانگِ دُہل اِس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالنے کا اقرار الیکٹرانک میڈیا پر کئی بار کر چکے ہیں اور حکام ِ بالا کو اپنے خلاف کارروائی کا چیلنج بھی دے چکے ہیں مگراُن کے خلاف کوئی کارروائی تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔ہمارے موجودہ حکمرانوں کی یہ مجبوری ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے فی الحال کوئی دشمنی کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔ اور ملکی طاقت کے اِس اصل سر چشمہ سے اپنے نئے اورتازہ مراسموں کو کوئی زک پہنچانا نہیں چاہتے۔ رہ گئے میاں نواز شریف تو آئی جے آئی بنانے کے اِس سارے معاملے میں سے صرف ایک شخص کو سزا دینا کسی طور ممکن نہیں ہے جب کہ سب کے خلاف ایک غیر جانبدارانہ تحقیقات کروا کے قرار واقعی سزا دینا ایک ایسے حوصلے اور ہمت کا تقاضا کرتا ہے جو ہمارے موجودہ حکمرانوں میں ہرگز نہیں ہے۔

وہ انتخابات کو بہانہ بناکر اِس تحقیقات کو پسِ پشت ڈالنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں اور کسی طرح اِس مصیبت سے اپنی جان چھڑانے کی فکروں میںغوطہ زن ہیں۔ اُنہیں شاید سپریم کورٹ کے کسی ایسے فیصلے کی کوئی اُمید نہ تھی جس میں اُنہی کی جان ایک عذاب میں پھنس جائے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ نے اصغر خان پٹیشن کا جو تاریخی فیصلہ صادر فرمایا ہے اُس میں سیاست اورجمہوریت کے تحفظ کی خاطر مستقبل میں کسی ایسے اقدام کی بیخ کنی کے طور پر آئی ایس آئی کو اپنا سیاسی سیل بند کر نے اور ایوانِ صدر کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کا بھی حکم فرمایا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا یہی حصہ ہمارے حکمرانوں کو انتہائی غیر مناسب، نا پسندیدہ اور دل خراش معلوم ہوا اور یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی تک اِس سارے فیصلے پر عمل پیرا ہونے سے اجتناب کر رہے ہیں ۔

کہنے کو تو بہت کہا جاتا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد ہمارے صدرِ مملکت نے اپنے تمام اختیارات پارلیمنٹ کو تفویض کر دیے ہیں لیکن عملاً دیکھا یہ گیا ہے کہ حکومت کے تمام اہم فیصلے اب بھی صرف ایوانِ صدر ہی میں کیے جاتے ہیں ۔موجودہ صدرِ پاکستان نہ صرف صدرِ کے عہدے تک جا پہنچے ہیں بلکہ مقبولِ عام سیاسی پارٹی کی سربراہی بھی انھیں بلا رکاوٹ مل گئی ہے۔ اب ایک ایسے شخص کو جس کا اُٹھنا بیٹھنا،جینا جاگنا سب ہی سیاست کے گرد گھومتا ہو اور جو سیاسی شطرنج کی چالوں کا عظیم ماہر ہو اور جس نے گزشتہ پانچ سالوں سے سیاست کے سوا کچھ کیا ہی نہ ہو ،سیاست سے بھلا دور کیسے رہ سکتا ہے، لہذا سپریم کورٹ کے فیصلے کا یہی ایک حصہ ہمارے حکمرانوں کو بہت تلخ اور ناگوار معلوم ہو رہا ہے ۔

یہ بھی کتنا عجیب اور حیران کن لمحہ ہے کہ اصغر خان پٹیشن جن کے خلاف لکھی گئی تھی اُن میں سے کسی نے اِس فیصلے پر نظرِ ثانی کی کوئی درخواست داخل نہیں کی جب کہ وفاق کی جانب سے ایک درخواست صدر سے متعلق حصے کو حذف کروانے کی غرض سے داخل کی گئی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو معلوم ہے کہ اُن کی یہ درخواست کمزور اور غیر ضروری ہے اور شاید وقت کے زیاں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ فیصلہ وہی ہوگا جو ہمارا آئین و دستور کہتا ہے۔ البتہ حکمرانوں کو اِس نظرِ ثانی کی اپیل سے فیصلے پر فوری عمل درآمد سے وقتی چھٹکارا ضرور مل جائے گا اور وہ کچھ دنوں کے لیے ریلیف محسوس کر سکیں گے۔ جس کے بعد ہمارے یہاں نئے الیکشنوں کی گرما گرمی ہوگی اور بس یہ کام پھر آنے والی حکومت کے سر تھوپ دیا جائے گا۔
Load Next Story