بازی گر

’’یار مجھ سے سیدھی بات کرو سیاست نہ کرو‘‘ اس کی تو ہر بات میں سیاست ہوتی ہے

Amjadislam@gmail.com

''یار مجھ سے سیدھی بات کرو سیاست نہ کرو'' اس کی تو ہر بات میں سیاست ہوتی ہے، یہ اور اس طرح کے بے شمار جملے آپ کو عام بول چال میں سنائی دیں گے جن میں سیاست کا مطلب ہی ''دھوکہ بازی، چکر دینا یا منافقت وغیرہ'' لیا جاتا ہے۔ یعنی یہ معاملہ اپنی بنیاد ہی میں تصحیح طلب ہے۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ اپنے اپنے نظریات کے مطابق مختلف لوگ کسی بلدیاتی ادارے صوبے یا ملک کے معاملات کو اپنے طریقے سے چلانے کے لیے سیاست میں حصہ لیتے ہیں تا کہ ان کا ملک اور معاشرہ آگے بڑھ سکیں۔

اب چونکہ سیاسی پلیٹ فارم پر جمع ہونے والے لوگوں یا ان کے گروہوں یعنی سیاسی جماعتوں کے پاس اپنا اپنا پروگرام ہوتا ہے اس لیے سیاسی اختلافات کا پیدا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ اختلاف معاشروں میں مخالفت، گالی گلوچ، کردار کشی، غداری کے الزامات اور عدم برداشت کے بجائے بات چیت، تبادلۂ خیال، افہام و تفہیم اور مشترکہ لائحہ عمل کو فروغ دیتا ہے کہ آخری تجزیے میں سب کے سب لوگ ہی اجتماعی خیر اور فلاح کے متلاشی ہوتے ہیں۔

بدقسمتی سے تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں سمیت وطن عزیز میں بھی سیاست کا مفہوم وہ نہیں رہا جو اس کے اصل معانی ہیں۔ سیاست کسی مسئلے کو سلجھانے اس کا بہتر حل نکالنے اور اپنی بات کو بہتر اور مؤثر انداز میں کہنے کا نام تو یقینا ہے مگر اس کا مطلب اختلاف کرنے والوں کو بے وقوف بنانا، انھیں چکمہ اور دھوکہ دینا یا ہر قیمت پر ان کو نیچا دکھانا ہرگز ہرگز نہیں ہے۔

ہمارے یہاں سیاست کا یہ منفی روپ کیسے سکۂ رائج الوقت کی صورت اختیار کر گیا یہ ایک لمبی کہانی ہے جو ہزاروں بار کہی اور سنی جا چکی ہے اور حالات کا شعور رکھنے والے تقریباً تمام ہی لوگ اس سے اچھی طرح واقف بھی ہیں۔ لیکن تعلیم کی کمی، معاشی تفریق، بے انصافی اور طاقت کی بنیاد پر قائم معاشرتی نظام کی وجہ سے صاحبان اختیار ہمیشہ ''اسٹیٹس کو'' کو ترجیح دیتے ہیں اور باقی کے افتادگان خاک، دانشوروں، ماہرین تعلیم اور صحافیوں سمیت اس تماشے پر سوائے کڑھنے کے اور کچھ نہیں کر پاتے کہ صورتحال کو تبدیل کر سکنے والے تمام عوامل پر اسی مخصوص گروہ کا قبضہ ہوتا ہے جو سیاست کو خدمت کے بجائے کاروبار سمجھتا ہے۔

جن معاشروں میں سیاست دان نچلی سطح سے درجہ بدرجہ ترقی کر کے اپنی خدمت اور صلاحیت کی بنا پر اوپر آتے ہیں ان میں ایسے سیاستدان بھی پیدا ہوتے ہیں جو Politician کی سطح سے اُٹھ کر Statesman کے زمرے میں شامل ہو جاتے ہیں اور یوں اپنے معاشروں کی ہمہ جہت ترقی کے ضامن بن جاتے ہیں۔

ہماری 67 سالہ تاریخ میں قائداعظم کے بعد دو چار ہی ایسے سیاستدان سامنے آئے ہیں جن میں Statesman بننے کے روشن امکانات تھے مگر ہمارے سیاسی نظام کی کمزوریوں اور خرابیوں اور متعلقہ افراد کے کچھ ذاتی رجحانات کے باعث ان میں سے کوئی بھی عملی طور پر اس مقام کا حق دار نہ بن سکا۔ کل کسی نے فیس بک پر مجھے اسی موضوع سے متعلق ایک بہت مزے کا لطیفہ بھیجا ہے جس کے کرداروں کے نام تو ہمارے ہمسایہ ملک سے متعلق ہیں مگر اس کا اطلاق ہم پر بھی پورے طور پر سے ہوتا ہے۔


''ایک لڑکا اعلیٰ تعلیم کے لیے باپ کے خرچ پر ایک مہنگی پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے گیا اور جاتے ہی تعلیم سے بالا بالا مختلف النوع کاموں میں پڑ گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جلد ہی باپ کے دیے ہوئے پیسے ختم ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی وہ پہلے سمیسٹر میں فیل بھی ہو گیا۔ اس نے باپ کو فون پر بتایا کہ سب ٹھیک جا رہا ہے۔ یونیورسٹی بہت زبردست ہے اور یہاں ایک ایسا شعبہ بھی ہے جہاں کتوں کو نہ صرف پڑھنا سکھایا جاتا ہے بلکہ انھیں ڈگری بھی دی جاتی ہے البتہ ایک سمیسٹر کا خرچہ تقریباً دو لاکھ ہے پھر مشورہ دیتا ہے کہ کیوں نہ والد کے چہیتے کتے موتی کو یہ ڈگری دلوا دی جائے۔

باپ خوش ہو کر مان جاتا ہے اور کتے موتی سمیت دو لاکھ روپے اسے بھجوا دیتا ہے۔ اگلے سمیسٹر تک برخوردار وہ اضافی رقم بھی اڑا دیتا ہے اور دوبارہ فیل ہونے کے بعد باپ کو بتاتا ہے کہ موتی نے پڑھنا تو سیکھ لیا ہے لیکن اگر 3 لاکھ مزید خرچ کیے جائیں تو وہ بولنا بھی سیکھ سکتا ہے۔ باپ اس آئیڈیے سے بھی اتفاق کرتا ہے۔ لڑکا حسب معمول یہ رقم بھی خرچ کر دیتا ہے اور باپ کو اطلاع دیتا ہے کہ موتی نے بولنا بھی سیکھ لیا ہے۔

باپ خوش ہو کر کہتا ہے کہ وہ اگلے ہفتے ان سے ملنے آ رہا ہے۔ اب تو لڑکے کی جان پر بن آتی ہے وہ کچھ سوچ کر کتے کو گولی مار دیتا ہے اور باپ کو فون کر کے بتانا شروع کرتا ہے کہ کل ڈنر کے بعد موتی لان میں بیٹھ کر فنانشل ٹائمز پڑھنے کے ساتھ ساتھ موزارٹ کی ایک سمفنی سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا اب بھی تمہارے پتاجی کے تمہاری ہمسائی چمپا آنٹی سے خفیہ تعلقات چل رہے ہیں۔ یہ سن کر باپ گھبرا گیا اور بولا اس سے پہلے کہ وہ کم بخت یہ بات تمہاری ماں کو بتائے اسے فوراً گولی مار دو، لڑکے نے کہا میں نے آپ کے کہنے سے قبل ہی یہ کام کر دیا ہے۔

اس کے بعد وہ لڑکا سیاست کے میدان میں چلا گیا اور آج کل روزانہ رات کو کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر ایکسپرٹ بنا بیٹھا دکھائی دیتا ہے۔

اب ظاہر ہے یہ ایک لطیفہ ہے اور اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سارے سیاستدان اور ٹی وی پر آنے والے سیاسی تجزیہ نگار ایسے ہی ہوتے ہیں مگر یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں بھی سیاست اور سیاستدان کا مطلب کم و بیش وہی ہے جو سرحد کے اس طرف سمجھا جاتا ہے۔ کسی نے کامیاب سیلز مین کی یہ تعریف بتائی تھی کہ وہ قطب شمالی میں مقیم کسی اسکیمو کو فرج خریدنے پر آمادہ کر لے کسی نے لقمہ دیا کہ وہ ایک ایسے سیلز مین کو بھی جانتا ہے جس نے نہ صرف اسکیمو کے ہاتھ فرج بیچا بلکہ اگلے برس اسے اس کا نیا ماڈل خریدنے پر بھی آمادہ کر لیا۔

کاش ان دونوں حضرات نے ہمارے ٹی وی چینلز پر چلنے والے سیاسی مناظرے بھی دیکھے اور سنے ہوتے کہ جہاں کچھ ایسے لوگ بھی سیاست کے نام پر دانشوری کا مظاہرہ کرتے ہیں جو نہ صرف اپنے ملک کے لوگوں کو بیچ کر کھا جاتے ہیں بلکہ اس کے بعد جلسوں میں ان ہی سے اپنے حق میں نعرے بھی لگواتے ہیں۔
Load Next Story