خدا کی حاکمیت یا آزادی

یقیناً ہمارے قارئین کی ایک بڑی تعداد اوباما کے اس بیان پر حیرت کا اظہارکر رہی ہوگی

apro_ku@yahoo.com

لیبیا میں جب توہین رسالت اور توہین قرآن کے خلاف مظاہرے ہوئے، تو ان مظاہروں کے دوران مشتعل لوگوں نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کردیا جس سے چند امریکی ہلاک ہوگئے۔ صدر اوباما نے یو این او کے اجلاس سے خطاب کیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ توہین قرآن اور توہین رسالت آزادی اظہار رائے کی ایک شکل ہے، امریکی آئین اس آزادی کا تحفظ کرتا ہے، آزادی اظہار رائے پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی، امریکیوں کی اکثریت عیسائی ہے، ہم اپنے مقدس عیسائی نظریات اور حضرت عیسیٰ کی توہین پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کرتے۔ دنیا کے سب لوگ آزادی کے الحق اور الخیر ہونے کے اصول کو تسلیم کرتے ہیں، لہٰذا ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔

یقیناً ہمارے قارئین کی ایک بڑی تعداد اوباما کے اس بیان پر حیرت کا اظہارکر رہی ہوگی، یہ حیرت اپنی جگہ سہی، لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ اب امریکا سمیت مغربی ممالک میں آزادی کے ایسے ہی نظریات پائے جاتے ہیں اور یہی ان کا نظریہ حیات بھی ہے۔ مغربی اور جدید ریاستیں ایسے ہی نظریات پر اپنا ایمان رکھتی ہیں جب کہ جو ریاستیں ان نظریات پر قائم نہیں ہیں وہ بھی رفتہ رفتہ اس جانب گامزن ہیں۔

ایسی ہی ریاستوں میں پاکستان اور بنگلہ دیش جیسی ریاستیں بھی شامل ہیں کہ جہاں مذہب کے عمل دخل کو ریاست کے اجتماعی نظام سے دور کرکے فرد کی انفرادی زندگی تک محدود کیے جانے کی کوششیں جاری ہیں۔ یوں ایسی ریاستیں 'آدھا تیتر، آدھا بٹیر' کی صورتحال سے دوچار ہیں اور یہ صورتحال ریاست میں بدنظمی کا باعث بھی ہے۔

پاکستان جب آزاد ریاست کی شکل میں وجود میں آیا تو یہ مغربی اور مشرقی حصوں پر مشتمل تھا، دونوں طرف کے عوام کی جدوجہد کا مقصد صرف اپنے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانا نہیں تھا بلکہ بحیثیت مسلم تشخص بہتر مستقبل کی تمنا بھی تھی۔ مشرقی حصے نے پاکستان سیعلیحدگی حاصل کرنے کے بعد بھی آزادی کے 1947 والے مسلم تشخص کے تصورکو سامنے رکھا۔ جماعت اسلامی بھی بنگلہ دیش میں کام کرتی رہی، یہاں تک کہ 1991 میں بنگلہ دیش کے باسیوں نے انھیں اٹھارہ نشستیں دے ڈالیں، جس کے باعث اس وقت جماعت اسلامی کی حیثیت ایک کنگ میکر کی سی ہوگئی کہ جس کی جانب جھکاؤ کردے وہ پارٹی حکومت بنالے۔

پاکستان میں دینی جماعتیں ایک بڑی قوت رکھتی ہیں مگر ان دونوں ممالک میں بھی جدید ریاست کے تصورات کو اپنایا جارہا ہے جس کی بنیاد اوباما کے مذکورہ بالا تصور آزادی پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بنگلہ دیش میں دینی جماعت کے رہنماؤں کو نہ صرف پھانسیاں دی جا رہی ہیں بلکہ دینی قوتوں کو اس قدر دیوار سے لگا دیا گیا ہے کہ ان کا احتجاج بھی اس عمل کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرسکا ہے۔


پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے، اصولاً اور قانوناً جب جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا تھا تو اس وقت ہی اس پر پاکستانی حکومت کو سخت احتجاج کرنا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا، کیونکہ یہاں بھی 1948 والا نظریہ پاکستان کا تصور یعنی ریاستی سطح پر خدا کی حاکمیت کا تصور اپنے خاتمے کی جانب رواں دواں ہے اور اس کا اظہار اب کھل کر عوامی سطح پر بھی ہونے لگا ہے۔

پاکستان کو جدید ریاست بنانے کی طرف اب تیزی سے پیش قدمی جاری ہے، جدید ریاستیں منشور انسانی حقوق کے تحت آئین بناتی ہیں اور پھر اس آئین کے تحت خدا کی حاکمیت نہیں رہتی۔ اس بات کو ترکی کی ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جب یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس (UCHR) نے رفاہ پارٹی کے نجم الدین اربکان کی حکومت کی ترکی سپریم کورٹ کے ایک حکم کے ذریعے برطرفی کے خلاف 'رفاہ' کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ کسی ریاست میں خدا کی حاکمیت کے قیام کا مطلب ہے بندوں کی حاکمیت اور مساوات کے اصولوں کا خاتمہ، جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، لہٰذا جمہوری عمل سے منتخب ہونے والوں کو جمہوریت کے مقاصد واہداف کے خلاف عمل کرنے کی آزادی نہیں دی جاسکتی یعنی جمہوریت کسی بھی مذہب کی حاکمیت قائم ہی نہیں کرسکتی، یہ منشور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

لہٰذا تمھاری حکومت کی برطرفی منشور انسانی حقوق کی شقوں اورآزادی کے عقیدے کے مطابق بالکل جائز ہے۔ (یہ فیصلہ {UCHR Rafah vs Turkey کی ویب سائٹ پر موجود ہے)۔چنانچہ اس تناظر میں پاکستان کے نظریاتی بحران کو بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جہاں بظاہر تو یہ نعرہ ہے کہ کوئی قانون سازی قرآن کی تعلیمات کے خلاف نہیں کی جائیں گی لیکن عملاً کچھ اور ہی معاملات ہیں ۔ یہاں ایک تلخ حقیت آشکار ہورہی ہے کہ ہماری ریاست ایک ایسی کشتی بن چکی ہے کہ جس میں ریاست چلانیوالے اسے جدید ریاست کی منزل پر لے جانا چاہتے ہیں جب کہ دینی سوچ رکھنے والے ریاست کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں کہ جہاں صرف خدا کی حاکمیت ہو۔

ہمارے ایک محترم محقق کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاالحق سے لے کر سوڈان، انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش، ایران اور برونائی تک میں اسلامی علمیت، معاشرت، شخصیت، انفرادیت، روحانیت، تہذیب کے غلبے کے بغیر صرف اور صرف اسلامی قوانین کے نفاذ کی حکمت عملی بری طرح ناکام ثابت ہورہی ہے۔ دین میں پورے کے پورے داخل ہونے کا حکم ہے، مگر اس اصول کے خلاف پیوندکاری اسلام کے لیے مہلک خطرات تخلیق کررہی ہے۔ 1988 میں جنرل ضیاالحق کی جانب سے اسلامی قوانین نافذ کرنے کے باوجود چالیس سال کے عرصے میں کسی ایک شخص کو بھی حدود، تعزیر اور توہین رسالت کے تحت سزا نہیں دی جاس کی۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 1980 سے 2016 تک پاکستان میں اسلامی قوانین کی عبرت ناک شکست اس کا ثبوت ہے کہ دو تصورات خیر ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ دونوں میں سے ایک تصور خیر دوسرے کو اپنے اندر تحلیل کرلے گا۔ ہمارے محترم محقق کی بات میں بہت وزن ہے۔ 1953 کی 'منیر رپورٹ' میں بھی اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا تھا مگر تاحال یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔ آج یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر ہوچکا ہے کیونکہ اب ن لیگ جیسی جماعت بھی پاکستان پیپلزپارٹی، تحریک انصاف وغیرہ جیسی جماعتوں اور دیگر مخالف قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک کو سیکولر بنانے کا کھلے عام اظہار کررہی ہے جب کہ عوام اور دینی جماعتیں دوسری طرف ہیں۔

یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس (UCHR) نے رفاہ پارٹی کے نجم الدین اربکان کو حقیقت پر مبنی جواب دیا تھا کہ کسی ریاست میں خدا کی حاکمیت کے قیام کا مطلب ہے، بندوں کی حاکمیت اور مساوات کے اصولوں کا خاتمہ، جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اور اسی طرح امریکی صدر اوباما نے بھی کہا تھا کہ توہین قرآن اور توہین رسالت، آزادی اظہار رائے کی ایک شکل ہے اور ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں اب ہمیں یہ طے کرلینا چاہیے کہ ہماری ریاست کی ضرورت کیا ہے؟ خدا کی حاکمیت یا جدید ریاستوں جیسی جمہوریت اور آزادی؟
Load Next Story