کرپٹ افراد کی 70 فیصد دولت ملک میں ہی ہے ماہرین معاشیات
کمیشن بنانے کاکوئی فائدہ نہیں،پانامہ لیکس کا معاملہ حل نہیں ہوگا،بینکوںمیں بے نامی کھاتے ہیں،ایکسپریس سروے
ISLAMABAD:
پانامہ لیکس کا معاملہ حل نہیں ہوگا چونکہ تمام پارٹیاں پانامہ پیپرز کے معاملے پر سیاست کررہی ہیں اور عوام کو بیوقوف بنارہی ہیں، پاکستان کے بڑے شہروں کے ہر قدم پر لاکھوں پانامہ موجود ہیں۔
ناجائز طریقے سے کمائی گئی دولت کا 70فیصد حصہ پاکستان میںجبکہ30فیصد حصہ پاکستان سے باہر ہے،پاکستان سے لوٹ کر اور ٹیکس چوری کرکے تقریباً 50ارب ڈالر بیرونی ملکوں میں منتقل کیے جا چکے ہیں،پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کاکوئی فائدہ نہیں ہے،کالے دھن کو سفید بنانے کے قانونی اور غیر قانونی دونوں راستے موجود ہیں،پاکستان 90ارب ڈالر کا مقروض ہوچکا ہے،جس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑے گا،پانامہ لیکس کے باعث بجٹ2016بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے،کالے دھن کا حجم20ہزار ارب روپے ہے،ایک محتاط اندازے کے مطابق ہنڈی اورحوالہ کے ذریعے ایک سال میں 30ارب ڈالر بیرون ملک جاتا ہے،جس کے کوئی شواہد نہیں ملتے ہیں۔
ملک کی 45فیصد آبادی غربت کی لیکر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں،امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہورہا ہے،پبلک مقامات میں عوام حکمرانوں کو چور ڈاکو کے خطاب سے پکارتے ہیں،ان خیالات کا اظہارماہرمعاشیات،ماہر تعلیم،ماہر طب،سماجی رہنماوٗں و دیگر شہریوں نے ایکسپریس سروے کے دوران کیا۔شہریوں کے مطابق پانامہ لیکس کا معاملہ حل نہیں ہوگا چونکہ تمام سیاسی پارٹیاں پانامہ پیپرز کے معاملے پر سیاست کررہی ہیں اور عوام کو بیوقوف بنارہی ہیں، حکمران اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظر انداز کررہے ہیں کہ پاکستان کے بڑے شہروں کے ہر قدم پر لاکھوں پانامہ موجود ہیں، جن کی تمام تر تفصیلات متعلقہ شخص کے شناختی کارڈ نمبر سمیت ریکارڈ میں موجود ہیں، جن پر حکومت کی مکمل دسترس ہے،ٹیکس چوری اورناجائز طریقے سے کمائی گئی دولت کا 70فیصد حصہ پاکستان میں جائیدادوں،گاڑیوں، بینکوں کے ڈپازٹس، قومی بچت اسکیموں و اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی شکل میں موجود ہیں جبکہ30فیصد حصہ پاکستان سے باہر ہے۔
پاکستان سے لوٹ کر اور ٹیکس چوری کرکے تقریباً 50ارب ڈالر بیرونی ملکوں میں منتقل کیے جا چکے ہیں،بیرونی ممالک میں دولت رکھنے والوں میں سیاستدان،صنعتکار،بینکوں سے قرضے معاف کرانے والے اورملک کے اندر اربوں روپے کے اثاثے رکھنے والے و دیگر افراد شامل ہیں،پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کاکوئی فائدہ نہیں ہے،جس کے تحت جرم ثابت ہونے کا امکان صرف 1فیصد ہے،پاکستان میں معیشت دستاویزی نہیں ہے،کالے دھن کا حجم20ہزار ارب روپے ہے،بینکوں میں بے نامی کھاتے ہیں اور کالے دھن کو سفید بنانے کے قانونی اور غیر قانونی دونوں راستے موجود ہیں،اگر ملک سے باہر رہائش اختیار کرکے کسی نے پیسہ بنایا ہے تو جرم ہی نہیں بنتا ہے،پاکستان میں کمائی ہوئی ناجائز دولت ہنڈی کے ذریعے دوسرے ملکوں کو بھیجی جاتی رہی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ہنڈی کے ذریعے ایک سال میں 30ارب ڈالر بیرون ملک جاتا ہے،جس کے کوئی شواہد نہیں ملتے ہیں،بینکوں سے قرضے لیکر معاف کرادیئے جاتے ہیں اور پیسہ باہر بھجوادیا جاتا ہے،اس حوالے سے سپریم کورٹ میں 2007سے مقدمات زیر التوا ہے،جس میں کئی ہزار ارب پتی بااثر شخصیات شامل ہیں، پاکستان 90 ارب ڈالر کا مقروض ہوچکا ہے،جس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑے گا،1948سے2007تک ملک پر6ہزار7سو 48روپے کا قرضہ تھا لیکن 2008سے 2013 کے دوران 14ہزار ارب ڈالر کا قرضہ چڑھ چکا ہے جبکہ موجودہ دور حکومت کے دورانیے میں سوا6ارب ڈالر کا قرضہ لیا جاچکا ہے،مذکورہ اعدادو شمار کے مطابق دور جمہوریت میں قرضہ کی شرح میں مزید اضافہ ہوا،پانامہ لیکس کے باعث بجٹ2016بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے چونکہ حکومت و اپوزیشن کے مابین پانامہ لیکس معاملے پر تنازعہ چل رہا ہے۔
ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے لوٹی ہوئی 70فیصدملکی دولت کے اثاثوں کا تعین کیا جائے اور یہ اثاثے جن رقوم سے بنائے گئے تھے ان پر مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس وصول کیا جائے اور قانون کے تحت کارروائی کی جائے تو اگلے مالی سال میں تقریباً 2 ہزار ارب روپے کی وصولی ممکن ہے،حکمران ملک سے لوٹی ہوئی رقوم کی بیرون ملک منتقلی کو روکنے کے لیے قانون سازی کرنے کے حوالے سے بات نہیں کررہے ہیں۔
ماہر تعلیم عبدالمتین کا کہنا تھا کہ عوام لاشعور نہیں ہیں بلکہ باشعور ہوچکی ہیں ان کو معلوم ہیں کہ حکمراں اقتدار میں پیسہ بنانے آتے ہیں،جس کی وجہ سے انتخابات میں ووٹرز کا ٹرن آوٗٹ کم رہا ہے،عوام حقیقی جمہوریت سے محروم ہیں،سماجی رہنما انصار برنی کا کہنا تھا کہ پانامہ میں اکاؤنٹ قانونی ہے،غیر قانونی نہیں ہے،غیر قانونی صرف اس وقت ہے جب اس میں پیسہ ناجائز طریقے سے کماکر منتقل کیا گیا ہو، امیر طبقہ اپنی دولت چھپانے کے لیے پانامہ کے علاوہ یورپی ملکوں میں مختلف آئر لینڈ میں کمپنیوں کو استعمال کرتا ہے ،ڈاکٹر جاوید خان کے مطابق پانامہ لیکس کو حل کرنے کے حوالے سے فوج کو کردار ادا کرنا چاہیے،مچھلی اوپری حصے سے سڑنا شروع ہوتی ہے اسی طرح کرپشن کا خاتمہ کے لیے وزیر اعظم پاکستان کو حساب دینے کا آغاز کرنا چاہیے۔
پانامہ لیکس کا معاملہ حل نہیں ہوگا چونکہ تمام پارٹیاں پانامہ پیپرز کے معاملے پر سیاست کررہی ہیں اور عوام کو بیوقوف بنارہی ہیں، پاکستان کے بڑے شہروں کے ہر قدم پر لاکھوں پانامہ موجود ہیں۔
ناجائز طریقے سے کمائی گئی دولت کا 70فیصد حصہ پاکستان میںجبکہ30فیصد حصہ پاکستان سے باہر ہے،پاکستان سے لوٹ کر اور ٹیکس چوری کرکے تقریباً 50ارب ڈالر بیرونی ملکوں میں منتقل کیے جا چکے ہیں،پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کاکوئی فائدہ نہیں ہے،کالے دھن کو سفید بنانے کے قانونی اور غیر قانونی دونوں راستے موجود ہیں،پاکستان 90ارب ڈالر کا مقروض ہوچکا ہے،جس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑے گا،پانامہ لیکس کے باعث بجٹ2016بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے،کالے دھن کا حجم20ہزار ارب روپے ہے،ایک محتاط اندازے کے مطابق ہنڈی اورحوالہ کے ذریعے ایک سال میں 30ارب ڈالر بیرون ملک جاتا ہے،جس کے کوئی شواہد نہیں ملتے ہیں۔
ملک کی 45فیصد آبادی غربت کی لیکر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں،امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہورہا ہے،پبلک مقامات میں عوام حکمرانوں کو چور ڈاکو کے خطاب سے پکارتے ہیں،ان خیالات کا اظہارماہرمعاشیات،ماہر تعلیم،ماہر طب،سماجی رہنماوٗں و دیگر شہریوں نے ایکسپریس سروے کے دوران کیا۔شہریوں کے مطابق پانامہ لیکس کا معاملہ حل نہیں ہوگا چونکہ تمام سیاسی پارٹیاں پانامہ پیپرز کے معاملے پر سیاست کررہی ہیں اور عوام کو بیوقوف بنارہی ہیں، حکمران اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظر انداز کررہے ہیں کہ پاکستان کے بڑے شہروں کے ہر قدم پر لاکھوں پانامہ موجود ہیں، جن کی تمام تر تفصیلات متعلقہ شخص کے شناختی کارڈ نمبر سمیت ریکارڈ میں موجود ہیں، جن پر حکومت کی مکمل دسترس ہے،ٹیکس چوری اورناجائز طریقے سے کمائی گئی دولت کا 70فیصد حصہ پاکستان میں جائیدادوں،گاڑیوں، بینکوں کے ڈپازٹس، قومی بچت اسکیموں و اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی شکل میں موجود ہیں جبکہ30فیصد حصہ پاکستان سے باہر ہے۔
پاکستان سے لوٹ کر اور ٹیکس چوری کرکے تقریباً 50ارب ڈالر بیرونی ملکوں میں منتقل کیے جا چکے ہیں،بیرونی ممالک میں دولت رکھنے والوں میں سیاستدان،صنعتکار،بینکوں سے قرضے معاف کرانے والے اورملک کے اندر اربوں روپے کے اثاثے رکھنے والے و دیگر افراد شامل ہیں،پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کاکوئی فائدہ نہیں ہے،جس کے تحت جرم ثابت ہونے کا امکان صرف 1فیصد ہے،پاکستان میں معیشت دستاویزی نہیں ہے،کالے دھن کا حجم20ہزار ارب روپے ہے،بینکوں میں بے نامی کھاتے ہیں اور کالے دھن کو سفید بنانے کے قانونی اور غیر قانونی دونوں راستے موجود ہیں،اگر ملک سے باہر رہائش اختیار کرکے کسی نے پیسہ بنایا ہے تو جرم ہی نہیں بنتا ہے،پاکستان میں کمائی ہوئی ناجائز دولت ہنڈی کے ذریعے دوسرے ملکوں کو بھیجی جاتی رہی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ہنڈی کے ذریعے ایک سال میں 30ارب ڈالر بیرون ملک جاتا ہے،جس کے کوئی شواہد نہیں ملتے ہیں،بینکوں سے قرضے لیکر معاف کرادیئے جاتے ہیں اور پیسہ باہر بھجوادیا جاتا ہے،اس حوالے سے سپریم کورٹ میں 2007سے مقدمات زیر التوا ہے،جس میں کئی ہزار ارب پتی بااثر شخصیات شامل ہیں، پاکستان 90 ارب ڈالر کا مقروض ہوچکا ہے،جس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑے گا،1948سے2007تک ملک پر6ہزار7سو 48روپے کا قرضہ تھا لیکن 2008سے 2013 کے دوران 14ہزار ارب ڈالر کا قرضہ چڑھ چکا ہے جبکہ موجودہ دور حکومت کے دورانیے میں سوا6ارب ڈالر کا قرضہ لیا جاچکا ہے،مذکورہ اعدادو شمار کے مطابق دور جمہوریت میں قرضہ کی شرح میں مزید اضافہ ہوا،پانامہ لیکس کے باعث بجٹ2016بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے چونکہ حکومت و اپوزیشن کے مابین پانامہ لیکس معاملے پر تنازعہ چل رہا ہے۔
ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے لوٹی ہوئی 70فیصدملکی دولت کے اثاثوں کا تعین کیا جائے اور یہ اثاثے جن رقوم سے بنائے گئے تھے ان پر مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس وصول کیا جائے اور قانون کے تحت کارروائی کی جائے تو اگلے مالی سال میں تقریباً 2 ہزار ارب روپے کی وصولی ممکن ہے،حکمران ملک سے لوٹی ہوئی رقوم کی بیرون ملک منتقلی کو روکنے کے لیے قانون سازی کرنے کے حوالے سے بات نہیں کررہے ہیں۔
ماہر تعلیم عبدالمتین کا کہنا تھا کہ عوام لاشعور نہیں ہیں بلکہ باشعور ہوچکی ہیں ان کو معلوم ہیں کہ حکمراں اقتدار میں پیسہ بنانے آتے ہیں،جس کی وجہ سے انتخابات میں ووٹرز کا ٹرن آوٗٹ کم رہا ہے،عوام حقیقی جمہوریت سے محروم ہیں،سماجی رہنما انصار برنی کا کہنا تھا کہ پانامہ میں اکاؤنٹ قانونی ہے،غیر قانونی نہیں ہے،غیر قانونی صرف اس وقت ہے جب اس میں پیسہ ناجائز طریقے سے کماکر منتقل کیا گیا ہو، امیر طبقہ اپنی دولت چھپانے کے لیے پانامہ کے علاوہ یورپی ملکوں میں مختلف آئر لینڈ میں کمپنیوں کو استعمال کرتا ہے ،ڈاکٹر جاوید خان کے مطابق پانامہ لیکس کو حل کرنے کے حوالے سے فوج کو کردار ادا کرنا چاہیے،مچھلی اوپری حصے سے سڑنا شروع ہوتی ہے اسی طرح کرپشن کا خاتمہ کے لیے وزیر اعظم پاکستان کو حساب دینے کا آغاز کرنا چاہیے۔