پانامہ لیکس پر بااختیارکمیشن وکلا نے ٹی او آرز دیدیے پارلیمانی کمیٹی کو فیصلے کیلیے 2 ہفتے کا الٹی میٹم
کمیشن ضابطہ کارخود طے کرے،سول عدالت کے اختیارات دیے جائیں،وکلا کنونشن،احتساب وزیراعظم سے شروع ہو
وکلا نے پانامہ لیکس پر ٹی او آرز کیلیے پارلیمانی کمیٹی کو 2 ہفتے کا الٹی میٹم دیدیا، سپریم کورٹ بارکے زیراہتمام ملک گیر وکلاکنونشن ہوا جس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل نے نئے مشترکہ ٹی او آرز تجویز کردیے، ان میں کمیشن کو اپنا ضابطہ کار خود طے کرنے اورحاضر یارٹائرڈججز پر مشتمل کمیشن کوسول عدالت کے اختیارات دینے کی شرط رکھی گئی ہے۔
وکلا نے 13 نکاتی ٹی او آرز کوتسلیم کرنے کیلیے پارلیمانی کمیٹی کو2ہفتے کا وقت دیا ہے۔ وکلاکنونشن سے خطاب میں صدر سپریم کورٹ بار علی ظفر نے کہا کہ پانامہ لیکس سے کرپشن کیخلاف ایک امید جاگی ہے، احتساب کاعمل وزیر اعظم سے شروع ہونا چاہیے، امیدکر رہے تھے کہ حکومت اور اپوزیشن مسئلہ کا حل نکالیں گی، حکومت نے ہمارے ٹی او آرز مستردکردیے اورحکومت کے ٹی اوآرزکو چیف جسٹس نے مُستردکردیا،جب تک کرپشن کے خلاف قوانین کی موثر عملداری نہیں ہوگی کرپشن ختم نہیں ہو گی اور انکوائری ایکٹ 1956 کے تحت بنے کمیشنوں کی رپورٹ ہمیشہ غیر موثر رہے گی۔
یہ سنہرا وقت ہے، آج کرپشن کیخلاف آواز بلند نہ کی تو یہ کبھی ختم نہیں ہوگی،تحقیقاتی کمیشن کو مکمل بااختیار بنانے کیلیے قانون سازی کی جائے،کمیشن مخصوص مدت میں مرحلہ وار تحقیقات کرے اوراس کواپنی رپورٹ پبلک کرنے کابھی اختیار ہونا چاہیے۔ نجی ٹی وی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کے خلاف وکلا اٹھ کھڑے ہوں،ضرورت پڑی تو بہت جلدسڑکوں پہ آئیں گے۔پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین بیرسٹر فروغ نسیم نے کہاکہ چیف جسٹس کہتے ہیںکمیشن tooth less (بے اختیار) نہیں ہوناچاہیے، سب سے زیادہ ٹوتھ تو آرٹیکل 184(3) کے ہیں۔
انھوں نے چیف جسٹس سے پانامہ پیپرزکے معاملے پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ کیاجمہوریت کرپشن کا لائسنس دیتی ہے؟اپنی تجاویز اور ٹی او آر پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے، 15 دن میں ٹی او آرز پر فیصلہ نہ ہوا تو تحریک چلانے پر غورکریںگے،کرپشن سے بھری حکومت قائم رہنے کا جوازکھو بیٹھتی ہے،سپریم کورٹ میں درخواست دائرکرنے کا آپشن بھی موجودہے۔نجی ٹی وی کے مطابق انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس پانامہ معاملے پراز خودنوٹس لیں ورنہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیںگے۔
وکلا نے 13 نکاتی ٹی او آرز کوتسلیم کرنے کیلیے پارلیمانی کمیٹی کو2ہفتے کا وقت دیا ہے۔ وکلاکنونشن سے خطاب میں صدر سپریم کورٹ بار علی ظفر نے کہا کہ پانامہ لیکس سے کرپشن کیخلاف ایک امید جاگی ہے، احتساب کاعمل وزیر اعظم سے شروع ہونا چاہیے، امیدکر رہے تھے کہ حکومت اور اپوزیشن مسئلہ کا حل نکالیں گی، حکومت نے ہمارے ٹی او آرز مستردکردیے اورحکومت کے ٹی اوآرزکو چیف جسٹس نے مُستردکردیا،جب تک کرپشن کے خلاف قوانین کی موثر عملداری نہیں ہوگی کرپشن ختم نہیں ہو گی اور انکوائری ایکٹ 1956 کے تحت بنے کمیشنوں کی رپورٹ ہمیشہ غیر موثر رہے گی۔
یہ سنہرا وقت ہے، آج کرپشن کیخلاف آواز بلند نہ کی تو یہ کبھی ختم نہیں ہوگی،تحقیقاتی کمیشن کو مکمل بااختیار بنانے کیلیے قانون سازی کی جائے،کمیشن مخصوص مدت میں مرحلہ وار تحقیقات کرے اوراس کواپنی رپورٹ پبلک کرنے کابھی اختیار ہونا چاہیے۔ نجی ٹی وی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کے خلاف وکلا اٹھ کھڑے ہوں،ضرورت پڑی تو بہت جلدسڑکوں پہ آئیں گے۔پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین بیرسٹر فروغ نسیم نے کہاکہ چیف جسٹس کہتے ہیںکمیشن tooth less (بے اختیار) نہیں ہوناچاہیے، سب سے زیادہ ٹوتھ تو آرٹیکل 184(3) کے ہیں۔
انھوں نے چیف جسٹس سے پانامہ پیپرزکے معاملے پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ کیاجمہوریت کرپشن کا لائسنس دیتی ہے؟اپنی تجاویز اور ٹی او آر پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے، 15 دن میں ٹی او آرز پر فیصلہ نہ ہوا تو تحریک چلانے پر غورکریںگے،کرپشن سے بھری حکومت قائم رہنے کا جوازکھو بیٹھتی ہے،سپریم کورٹ میں درخواست دائرکرنے کا آپشن بھی موجودہے۔نجی ٹی وی کے مطابق انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس پانامہ معاملے پراز خودنوٹس لیں ورنہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیںگے۔