ملکی قوانین ٹیکس چوری منی لانڈرنگ میں معاون پانامہ لیکس کا نتیجہ نہیں نکلے گا
پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ، انکم ٹیکس آرڈیننس کی موجودگی میں کوئی ایکشن نہیں لیا جاسکتا
منی لانڈررز اور ٹیکس چوروں کیخلاف اقدامات کے دعوؤں کے برعکس پاکستانی قوانین منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری میں معاونت کرتے ہیں اور متعلقہ حکام ملزمان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کرسکتے، ان قوانین کی موجودگی میں پانامہ لیکس کے کسی ملزم کیخلاف کچھ ثابت نہیں ہوسکتا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر یاسین انور کے اکتوبر 2013 میں دیے گئے ایک بیان کے مطابق ملک سے 9 ارب ڈالر غیرقانونی طور پر باہر بھیجے گئے جبکہ پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992 کے تحت غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کے ذریعے باہر بھیجی رقوم کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ نوازشریف جب پہلی بار وزیراعظم بنے تو انھوں نے 1992 کے قانون میں ترمیم کی اور اس وقت کے عدالتی ریکارڈ اور بیانات کے مطابق اس ترمیم کے بعد صنعت کاروں اور سیاستدانوں نے اپنے کالے دھن کو سفید کیا۔
پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992 کے سیکشن 5 اور 9 اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کا سیکشن 3(4) منی لانڈررز اور ٹیکس چوروں کو مکمل تحفظ دیتا ہے۔پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ کو جولائی 1992 میں ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کے نام پر پاس کیا گیا۔ ایکٹ کے سیکشن 4 کے مطابق پاکستان کے اندر اور باہر رہائش پذیر تمام پاکستانی شہریوں اور تمام دیگر افراد کو زرمبادلہ ملک میں لانے، اپنے پاس رکھنے، ٹرانسفر کرنے یا ملک سے باہر منتقل کرنے کا حق حاصل ہے اور کسی بھی مرحلے پر فارن کرنسی ڈیکلریشن کی ضرورت نہیں ہوگی اور اس حوالے سے کوئی پوچھ گچھ بھی نہیں کی جائیگی۔
ایکٹ کی کلاز 5 فارن کرنسی اکاؤنٹ ہولڈرز کو مکمل تحفظ دیتی ہے کہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اکاؤنٹ کی فنانسنگ کے حوالے سے کوئی انکوائری نہیں کرسکتا جبکہ فارن کرنسی اکاؤنٹس میں موجود رقم کو ویلتھ ٹیکس، انکم ٹیکس اور زکوۃ سے بھی مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ان اکاؤنٹس کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا اور مرکزی بینک بھی اس حوالے سے کوئی پابندی عائد نہیں کرسکتا۔ اس ایکٹ سے قبل زرمبادلہ کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ تاہم 1999 میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے ایک آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت پاکستان میں رہائش پذیر افراد کا تحفظ (Immunity) ختم کردیا گیا۔
2001 میں پرویز مشرف نے فارن کرنسی اکاؤنٹس پروٹیکشن آرڈیننس جاری کیا جس میں فارن کرنسی اکاؤنٹ ہولڈرز کو مکمل تحفظ دیا گیا تھا۔ اسی طرح انکم ٹیکس قانون کا سیکشن 3(4) ترسیلات زر کی مد میں کالے دھن کو سفید کرنے میں مدددیتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 19 ارب ارب ڈالر کی ترسیلات زر میں سے 20 فیصد رقم ملک سے جانے والا کالا دھن ہوتا ہے جسے قانون کا استعمال کرکے سفید کیا جاتا ہے۔ انکم ٹیکس حکام کا کہنا ہے کہ 1992 کے ایکٹ اور 2001 کے آرڈیننس کی وجہ سے ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ٹیکس ماہرین کے مطابق ان قانونی نقائص کی موجودگی میں پانامہ پیپرز میں آنے والے کسی نام کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکتا۔
پانامہ گیٹ اسکینڈل قانونی نقائص کا نتیجہ ہے اور حکومت ان نقائص کو دور کرنے کے لیے کام کا آغازکرچکی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ایکسپریس ٹرییبون سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومت ان قانونی نقائص کو دورکرنے کے لیے تیار ہیں اور اس کے لیے تجاویز کوجلد ہی حتمی شکل دیدی جائے گی اور انھیں بجٹ سے پہلے یا فوری بعد منظوری کے لیے پیش کردیا جائے گا۔تاہم اسحق ڈار کا کہنا تھا کہ نئے قانون کا اطلاق ماضی کے معاملات پرنہیں ہوگا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی اور ایف بی آر اپنی اپنی رپورٹس پیش کرچکے ہیں مگر اسحق ڈار ان سے مطمئن نہیں ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر یاسین انور کے اکتوبر 2013 میں دیے گئے ایک بیان کے مطابق ملک سے 9 ارب ڈالر غیرقانونی طور پر باہر بھیجے گئے جبکہ پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992 کے تحت غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کے ذریعے باہر بھیجی رقوم کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ نوازشریف جب پہلی بار وزیراعظم بنے تو انھوں نے 1992 کے قانون میں ترمیم کی اور اس وقت کے عدالتی ریکارڈ اور بیانات کے مطابق اس ترمیم کے بعد صنعت کاروں اور سیاستدانوں نے اپنے کالے دھن کو سفید کیا۔
پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992 کے سیکشن 5 اور 9 اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کا سیکشن 3(4) منی لانڈررز اور ٹیکس چوروں کو مکمل تحفظ دیتا ہے۔پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ کو جولائی 1992 میں ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کے نام پر پاس کیا گیا۔ ایکٹ کے سیکشن 4 کے مطابق پاکستان کے اندر اور باہر رہائش پذیر تمام پاکستانی شہریوں اور تمام دیگر افراد کو زرمبادلہ ملک میں لانے، اپنے پاس رکھنے، ٹرانسفر کرنے یا ملک سے باہر منتقل کرنے کا حق حاصل ہے اور کسی بھی مرحلے پر فارن کرنسی ڈیکلریشن کی ضرورت نہیں ہوگی اور اس حوالے سے کوئی پوچھ گچھ بھی نہیں کی جائیگی۔
ایکٹ کی کلاز 5 فارن کرنسی اکاؤنٹ ہولڈرز کو مکمل تحفظ دیتی ہے کہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اکاؤنٹ کی فنانسنگ کے حوالے سے کوئی انکوائری نہیں کرسکتا جبکہ فارن کرنسی اکاؤنٹس میں موجود رقم کو ویلتھ ٹیکس، انکم ٹیکس اور زکوۃ سے بھی مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ان اکاؤنٹس کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا اور مرکزی بینک بھی اس حوالے سے کوئی پابندی عائد نہیں کرسکتا۔ اس ایکٹ سے قبل زرمبادلہ کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ تاہم 1999 میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے ایک آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت پاکستان میں رہائش پذیر افراد کا تحفظ (Immunity) ختم کردیا گیا۔
2001 میں پرویز مشرف نے فارن کرنسی اکاؤنٹس پروٹیکشن آرڈیننس جاری کیا جس میں فارن کرنسی اکاؤنٹ ہولڈرز کو مکمل تحفظ دیا گیا تھا۔ اسی طرح انکم ٹیکس قانون کا سیکشن 3(4) ترسیلات زر کی مد میں کالے دھن کو سفید کرنے میں مدددیتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 19 ارب ارب ڈالر کی ترسیلات زر میں سے 20 فیصد رقم ملک سے جانے والا کالا دھن ہوتا ہے جسے قانون کا استعمال کرکے سفید کیا جاتا ہے۔ انکم ٹیکس حکام کا کہنا ہے کہ 1992 کے ایکٹ اور 2001 کے آرڈیننس کی وجہ سے ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ٹیکس ماہرین کے مطابق ان قانونی نقائص کی موجودگی میں پانامہ پیپرز میں آنے والے کسی نام کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکتا۔
پانامہ گیٹ اسکینڈل قانونی نقائص کا نتیجہ ہے اور حکومت ان نقائص کو دور کرنے کے لیے کام کا آغازکرچکی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ایکسپریس ٹرییبون سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومت ان قانونی نقائص کو دورکرنے کے لیے تیار ہیں اور اس کے لیے تجاویز کوجلد ہی حتمی شکل دیدی جائے گی اور انھیں بجٹ سے پہلے یا فوری بعد منظوری کے لیے پیش کردیا جائے گا۔تاہم اسحق ڈار کا کہنا تھا کہ نئے قانون کا اطلاق ماضی کے معاملات پرنہیں ہوگا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی اور ایف بی آر اپنی اپنی رپورٹس پیش کرچکے ہیں مگر اسحق ڈار ان سے مطمئن نہیں ہیں۔