اہم کردار
پاکستان میں اکثر سیاسی بحران آتے رہتے ہیں۔ سیاستدان جب کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے
پاکستان میں اکثر سیاسی بحران آتے رہتے ہیں۔ سیاستدان جب کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے تو غیر جمہوری مقتدر قوتیں ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ تاریخ میں آٹھ مرتبہ ایسے مواقع آئے ہیں۔ چار مرتبہ مارشل لا نافذ ہوا۔ بے نظیر بھٹو کو ایوان اقتدار میں بلایا گیا تو نواز شریف کو رخصت کیا گیا۔ ایک موقع پر منتخب حکومت لائی گئی تو ایک مرتبہ چیف جسٹس کو بحال کروایا گیا۔ یہ انوکھے واقعات تاریخ اور حالات حاضرہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بڑے اہم ہیں۔
اسکندر مرزا نے 56 کا آئین منسوخ کردیا، اسمبلیاں توڑ دیں اور وزیراعظم فیروز خان نون کو برطرف کردیا۔ اس مارشل لا کے چیف ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان تھے۔ اسکندر مرزا کی بنیاد آئین تھا، جب وہ نہ رہا تو وہ بھی نہ رہے اور تین ہفتوں بعد جلا وطن کردیے گئے۔ ایوب خان نے دس سال تک حکومت کی۔ جب ان کے خلاف تحریک چلی تو فیصلہ کن کردار کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کا تھا۔
الطاف گوہر جیسے افسران نے ایوب کو اقتدار سے دستبرداری سے انکار کا مشورہ دیا۔ ایوب نے کہا کہ ''جب فوج کا سربراہ نو کہہ دے تو اس کا مطلب نو ہی ہوتا ہے۔'' یحییٰ خان نے 70 کے انتخابات کروائے لیکن منتخب نمایندوں کو اقتدار کی منتقلی میں ناکام رہے۔ انھوں نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا۔ یوں بنگال میں احتجاجی تحریک شروع ہوگئی۔ پاکستان کو بچانے یا توڑنے کی ایک جنگ کی ابتدا ہوئی۔
بھارت نے مداخلت کی اور ملک دولخت ہوگیا۔ یحییٰ خان اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے۔ ان سے استعفیٰ کس نے لیا اور اقتدار بھٹو کے حوالے کس نے کیا؟ سقوط ڈھاکہ کے بعد یحییٰ کے خلاف لاہور کی سڑکوں پر جلوس نکل رہے تھے۔ صدر نے گورنر پنجاب سے پوچھا کہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ جنرل عتیق نے کہا کہ ''سر یہ لوگ آپ کا سر چاہتے ہیں۔'' سینئر ترین جنرل گل حسن تھے۔ انھوں نے ایئرمارشل رحیم کے ساتھ مل کر یحییٰ کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔
بھٹو کو اقوام متحدہ سے بلاکر اقتدار سونپا گیا۔ انھوں نے فوج کے سربراہ کے لیے کمانڈر انچیف کے بجائے چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ تخلیق کیا۔ جب بھٹو نے 77 میں انتخابات کروائے تو دھاندلی کا الزام لگا۔ نو پارٹیوں کے اتحاد نے احتجاج شروع کردیا۔ تین شہروں میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ تین مہینے سے جاری مذاکرات کا کوئی نتیجہ ہی نہیں نکل رہا تھا۔ ایک طرف بھٹو ایک ہفتے کے غیر ملکی دورے پر چلے گئے تو دوسری طرف اصغر خان اور بیگم نسیم ولی خان مذاکرات کو ناکام دیکھنا چاہتے تھے۔ غلام مصطفیٰ کھر نے دوبارہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔
وہ جیالوں کو سڑکوں پر لاکر مقابلے کی کیفیت پیدا کرنا چاہتے تھے۔ یوں خانہ جنگی کا خطرہ ایک طرف تھا تو دوسری طرف عوام پر گولی چلانے سے انکار کردیا گیا۔ جنرل ضیا نے مارشل لا لگا کر آئین معطل کردیا۔ بھٹو اور ان کے ساتھیوں کے علاوہ پاکستان قومی اتحاد کی قیادت گرفتار ہوگئی۔ گویا سیاسی بحران حل نہ کرنے پر فیصلہ کن حیثیت آرمی چیف اختیار کرگئے۔
جنرل ضیا کی حکومت گیارہ سال تک رہی۔ اگست 88 میں ان کا طیارہ بہاولپور کے قریب تباہ ہوگیا۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں نہ اسمبلیاں تھیں اور نہ کابینہ۔ یہاں بھی فیصلہ کن حیثیت وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کی تھی۔ انھوں نے سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحق خان سے قائم مقام صدر بننے کی درخواست کی۔ انتخابات ہوئے اور بے نظیر بھٹو برسر اقتدار آگئیں۔ بیس ماہ بعد صدر اسحق نے آئین کی دفعہ کا سہارا لے کر حکومت کو برطرف کردیا۔
93 میں غلام اسحق خان کی صدارتی میعاد پوری ہو رہی تھی۔ وہ مزید پانچ سال کے لیے منتخب ہونے کے لیے نواز شریف کی رضامندی کے محتاج تھے۔ مسلم لیگ اس کے لیے تیار نہ تھی۔ یوں صدر اور وزیراعظم کے درمیان تلخی شروع ہوگئی۔ غلام اسحق نے نواز حکومت برطرف کردی۔ سپریم کورٹ نے تقریباً چالیس دنوں میں حکومت بحال کردی۔ غلام اسحق نے کہا کہ ''ابھی کھیل ختم نہیں ہوا۔'' چاروں وزرائے اعلیٰ صدر کے ساتھ تھے۔
جب وزیراعظم کسی دارالخلافے جاتے تو کوئی وزیراعلیٰ ان کے استقبال کو نہ آتا۔ نواز شریف کا اقتدار اسلام آباد تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔ حکومتی معاملات ٹھپ ہوگئے تھے۔ ایسے میں جنرل وحید کاکڑ سامنے آئے اور صدر و وزیراعظم سے استعفیٰ لے کر نئے انتخابات کروائے گئے۔ بے نظیر بھٹو کامیاب ہوئیں اور وزیراعظم بنیں۔ تین سال گزرے تو ان کی پارٹی کے صدر پاکستان فاروق لغاری نے حکومت برخاست کردی۔ اب نواز شریف انتخابات میں کامیاب ہوکر دوسری مرتبہ برسر اقتدار آئے۔
نواز شریف نے صدر لغاری کے علاوہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو عہدوں سے نکال باہر کیا تھا۔ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے فوج کو بھی شریک اقتدار کرنے کا بیان دیا۔ نواز شریف نے ان سے استعفیٰ طلب کرلیا اور جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا۔ 99 کے وسط میں کارگل کا ایڈونچر ہوا۔ اس کیفیت نے وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان خلیج پیدا کردی۔
مشرف سری لنکا کے دورے پر گئے تو نواز شریف نے انھیں برطرف کردیا اور ان کے طیارے کو کراچی ایئرپورٹ پر اترنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ فوج پہلے ہی اپنے چیف جنرل جہانگیر کرامت کی برطرفی پر ناراض تھی۔ جنرل مشرف کی برطرفی کو گوارا نہ کیا گیا۔ نواز حکومت کا خاتمہ کرکے مسلم لیگ کے قائدین کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس موقع پر بھی سیاسی بحران میں آرمی چیف کا کردار اہمیت حاصل کرگیا۔
مشرف نے 2007 میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کردیا۔ وکلا نے اپنے چیف کی برطرفی کو گوارا نہ کیا۔ ''کالا کوٹ کالی ٹائی'' کی گونج میں مشرف حکومت کمزور ہوگئی۔ بے نظیر و نواز شریف کی جلاوطنی ختم ہوئی اور انتخابات کا اعلان ہوا۔ اس دوران بے نظیر بھٹو کی شہادت کا واقعہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری صدر اور یوسف رضاگیلانی وزیراعظم بنے۔
حکومت ججوں کو بحال کرنے کو تیار نہ تھی۔ وکلا کے علاوہ اب میدان میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور نواز لیگ تھیں۔ جلوس کو اسلام آباد جانا تھا۔ ابھی وہ راستے میں تھا کہ آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے مداخلت کی۔ وزیراعظم گیلانی نے افتخار چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کرنے کا اعلان کیا۔ یہاں بھی سیاسی بحران میں آرمی چیف کا کردار اہم ثابت ہوا۔
پانامہ لیکس کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ T-20 کی مار دھاڑ کے بعد ون ڈے اور اب ٹیسٹ میچ کی کیفیت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اگر پارلیمنٹ میں مسئلہ حل نہیں کریں گے تو اہم کردار ایک شخصیت کا ابھر کر سامنے آئے گا ۔ مورخ ایک بار پھر دیکھے گا سیاسی بحران میں آرمی چیف کا کردار۔
اسکندر مرزا نے 56 کا آئین منسوخ کردیا، اسمبلیاں توڑ دیں اور وزیراعظم فیروز خان نون کو برطرف کردیا۔ اس مارشل لا کے چیف ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان تھے۔ اسکندر مرزا کی بنیاد آئین تھا، جب وہ نہ رہا تو وہ بھی نہ رہے اور تین ہفتوں بعد جلا وطن کردیے گئے۔ ایوب خان نے دس سال تک حکومت کی۔ جب ان کے خلاف تحریک چلی تو فیصلہ کن کردار کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کا تھا۔
الطاف گوہر جیسے افسران نے ایوب کو اقتدار سے دستبرداری سے انکار کا مشورہ دیا۔ ایوب نے کہا کہ ''جب فوج کا سربراہ نو کہہ دے تو اس کا مطلب نو ہی ہوتا ہے۔'' یحییٰ خان نے 70 کے انتخابات کروائے لیکن منتخب نمایندوں کو اقتدار کی منتقلی میں ناکام رہے۔ انھوں نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا۔ یوں بنگال میں احتجاجی تحریک شروع ہوگئی۔ پاکستان کو بچانے یا توڑنے کی ایک جنگ کی ابتدا ہوئی۔
بھارت نے مداخلت کی اور ملک دولخت ہوگیا۔ یحییٰ خان اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے۔ ان سے استعفیٰ کس نے لیا اور اقتدار بھٹو کے حوالے کس نے کیا؟ سقوط ڈھاکہ کے بعد یحییٰ کے خلاف لاہور کی سڑکوں پر جلوس نکل رہے تھے۔ صدر نے گورنر پنجاب سے پوچھا کہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ جنرل عتیق نے کہا کہ ''سر یہ لوگ آپ کا سر چاہتے ہیں۔'' سینئر ترین جنرل گل حسن تھے۔ انھوں نے ایئرمارشل رحیم کے ساتھ مل کر یحییٰ کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔
بھٹو کو اقوام متحدہ سے بلاکر اقتدار سونپا گیا۔ انھوں نے فوج کے سربراہ کے لیے کمانڈر انچیف کے بجائے چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ تخلیق کیا۔ جب بھٹو نے 77 میں انتخابات کروائے تو دھاندلی کا الزام لگا۔ نو پارٹیوں کے اتحاد نے احتجاج شروع کردیا۔ تین شہروں میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ تین مہینے سے جاری مذاکرات کا کوئی نتیجہ ہی نہیں نکل رہا تھا۔ ایک طرف بھٹو ایک ہفتے کے غیر ملکی دورے پر چلے گئے تو دوسری طرف اصغر خان اور بیگم نسیم ولی خان مذاکرات کو ناکام دیکھنا چاہتے تھے۔ غلام مصطفیٰ کھر نے دوبارہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔
وہ جیالوں کو سڑکوں پر لاکر مقابلے کی کیفیت پیدا کرنا چاہتے تھے۔ یوں خانہ جنگی کا خطرہ ایک طرف تھا تو دوسری طرف عوام پر گولی چلانے سے انکار کردیا گیا۔ جنرل ضیا نے مارشل لا لگا کر آئین معطل کردیا۔ بھٹو اور ان کے ساتھیوں کے علاوہ پاکستان قومی اتحاد کی قیادت گرفتار ہوگئی۔ گویا سیاسی بحران حل نہ کرنے پر فیصلہ کن حیثیت آرمی چیف اختیار کرگئے۔
جنرل ضیا کی حکومت گیارہ سال تک رہی۔ اگست 88 میں ان کا طیارہ بہاولپور کے قریب تباہ ہوگیا۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں نہ اسمبلیاں تھیں اور نہ کابینہ۔ یہاں بھی فیصلہ کن حیثیت وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کی تھی۔ انھوں نے سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحق خان سے قائم مقام صدر بننے کی درخواست کی۔ انتخابات ہوئے اور بے نظیر بھٹو برسر اقتدار آگئیں۔ بیس ماہ بعد صدر اسحق نے آئین کی دفعہ کا سہارا لے کر حکومت کو برطرف کردیا۔
93 میں غلام اسحق خان کی صدارتی میعاد پوری ہو رہی تھی۔ وہ مزید پانچ سال کے لیے منتخب ہونے کے لیے نواز شریف کی رضامندی کے محتاج تھے۔ مسلم لیگ اس کے لیے تیار نہ تھی۔ یوں صدر اور وزیراعظم کے درمیان تلخی شروع ہوگئی۔ غلام اسحق نے نواز حکومت برطرف کردی۔ سپریم کورٹ نے تقریباً چالیس دنوں میں حکومت بحال کردی۔ غلام اسحق نے کہا کہ ''ابھی کھیل ختم نہیں ہوا۔'' چاروں وزرائے اعلیٰ صدر کے ساتھ تھے۔
جب وزیراعظم کسی دارالخلافے جاتے تو کوئی وزیراعلیٰ ان کے استقبال کو نہ آتا۔ نواز شریف کا اقتدار اسلام آباد تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔ حکومتی معاملات ٹھپ ہوگئے تھے۔ ایسے میں جنرل وحید کاکڑ سامنے آئے اور صدر و وزیراعظم سے استعفیٰ لے کر نئے انتخابات کروائے گئے۔ بے نظیر بھٹو کامیاب ہوئیں اور وزیراعظم بنیں۔ تین سال گزرے تو ان کی پارٹی کے صدر پاکستان فاروق لغاری نے حکومت برخاست کردی۔ اب نواز شریف انتخابات میں کامیاب ہوکر دوسری مرتبہ برسر اقتدار آئے۔
نواز شریف نے صدر لغاری کے علاوہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو عہدوں سے نکال باہر کیا تھا۔ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے فوج کو بھی شریک اقتدار کرنے کا بیان دیا۔ نواز شریف نے ان سے استعفیٰ طلب کرلیا اور جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا۔ 99 کے وسط میں کارگل کا ایڈونچر ہوا۔ اس کیفیت نے وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان خلیج پیدا کردی۔
مشرف سری لنکا کے دورے پر گئے تو نواز شریف نے انھیں برطرف کردیا اور ان کے طیارے کو کراچی ایئرپورٹ پر اترنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ فوج پہلے ہی اپنے چیف جنرل جہانگیر کرامت کی برطرفی پر ناراض تھی۔ جنرل مشرف کی برطرفی کو گوارا نہ کیا گیا۔ نواز حکومت کا خاتمہ کرکے مسلم لیگ کے قائدین کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس موقع پر بھی سیاسی بحران میں آرمی چیف کا کردار اہمیت حاصل کرگیا۔
مشرف نے 2007 میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کردیا۔ وکلا نے اپنے چیف کی برطرفی کو گوارا نہ کیا۔ ''کالا کوٹ کالی ٹائی'' کی گونج میں مشرف حکومت کمزور ہوگئی۔ بے نظیر و نواز شریف کی جلاوطنی ختم ہوئی اور انتخابات کا اعلان ہوا۔ اس دوران بے نظیر بھٹو کی شہادت کا واقعہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری صدر اور یوسف رضاگیلانی وزیراعظم بنے۔
حکومت ججوں کو بحال کرنے کو تیار نہ تھی۔ وکلا کے علاوہ اب میدان میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور نواز لیگ تھیں۔ جلوس کو اسلام آباد جانا تھا۔ ابھی وہ راستے میں تھا کہ آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے مداخلت کی۔ وزیراعظم گیلانی نے افتخار چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کرنے کا اعلان کیا۔ یہاں بھی سیاسی بحران میں آرمی چیف کا کردار اہم ثابت ہوا۔
پانامہ لیکس کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ T-20 کی مار دھاڑ کے بعد ون ڈے اور اب ٹیسٹ میچ کی کیفیت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اگر پارلیمنٹ میں مسئلہ حل نہیں کریں گے تو اہم کردار ایک شخصیت کا ابھر کر سامنے آئے گا ۔ مورخ ایک بار پھر دیکھے گا سیاسی بحران میں آرمی چیف کا کردار۔