غزہ خوفزدہ درندے کا نشانہ

کمسن بچوں سے لے کرناتواں بوڑھوں تک ہر روز دو درجن سے زیادہ فلسطینی اپنی کمزوری کے جرم میں موت کے گھاٹ اتاردیے جاتے ہیں

Abbasather@express.com.pk

آہ فلسطین۔ ایک بار پھر ہر روز درجنوں گھروں سے جنازے اٹھ رہے ہیں۔

نہتے شہریوں پر آسمان سے آگ برسائی جا رہی ہے۔ بوڑھے بچے اور جوان، مرد اور عورتیں، ہر کوئی نشانہ بن رہا ہے۔ زخمیوں کے علاج کی کوئی صورت نہیں کہ اسپتال کم ہیں اور جتنے ہیں ان میں دوا نہیں اور اسپتال لے جانے کے لیے ایمبولینس نہیں۔ غزہ انسانی سہولیات کے حوالے سے پہلے ہی پتھرکے دور میں رہ رہا ہے، لیکن اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اسے پتھر کے دور میں دھکیل دے گا۔ گویا وہ موجودہ پتھر کے دور پر مطمئن نہیں، خدا جانے وہ فلسطینیوں کو کس پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ صدر اوباما کا کہنا ہے کہ امریکا اسرائیل کے حق دفاع کا حامی ہے۔

کس سے دفاع؟ پتھر کے دور میں رہنے والوں کے پتھرائو سے دفاع؟ فلسطینی جارحیت پتھروں اور غلیلوں پر مشتمل ہے۔ اسرائیل سے اُن کی جنگی طاقت کا موازنہ ایسے ہی ہے جیسے ہاتھی اور گلہری کا موازنہ اور امریکا کہتا ہے، وہ ہاتھی اور گلہری کی اس جنگ میں ہاتھی کے ساتھ ہے کہ مظلوم گلہری کو سزا ملنی چاہیے کہ وہ ظالم ہے اور جارحیت کی مرتکب ہوئی ہے۔

کیسا انوکھا دور ہے۔ امریکا نے نائن الیون میں ضائع ہونے والی دو تین ہزار قیمتی جانوں کا بدلہ کئی لاکھ غیر قیمتی جانیں ضائع کر کے لیا اور ابھی تک لے رہا ہے۔ اسرائیل پتھروں کے حملے کا جواب ایف سولہ سے راکٹ داغ کر اور بمبار طیاروں سے کلسٹر بم گرا کر دیتا ہے۔ ساری دنیا اس ظلم پر چیخ اٹھی ہے، ہر ملک میں مظاہرے ہو رہے ہیں، جن میں اسرائیل کو جارح اور ظالم کہا جاتا ہے لیکن امریکا انہیں بتاتا ہے کہ جارح اور ظالم اسرائیل نہیں، فلسطینی ہیں۔ وہ اس بات کا کوئی ذکر تک نہیں کرتا کہ اسرائیلی حملوں کے جواب میں مرنے والے تمام کے تمام عام شہری تھے۔

کمسن بچوں سے لے کر ناتواں بوڑھوں تک۔ ہر روز دو درجن سے زیادہ فلسطینی اپنی کمزوری کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں اور زخمی سسک سسک کر مر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دور انسانی حقوق کا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسانی معاشرہ جنگوں سے دور جا رہا ہے۔ شاید مسلمان انسان ہیں نہ انسانی معاشرہ۔ اس لیے ان کے علاقے جنگ کے جہنم بنے ہوئے ہیں، کیا فلسطین، کیا عراق، کیا افغانستان، کیا برما، کیا کشمیر، کیا صومالیہ اور کیا یمن۔ فلسطین کی موجودہ صورتحال کوئی نئی نہیں۔ اُس کے قیام کے آغاز سے اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا تھا، اس میں وقفے ضرور آتے رہے ہیں لیکن ان وقفوں کو نکال دیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ وہ قتل عام ہے جو 1948ء کواسرائیل کے قیام سے اب تک جاری ہے۔ اسرائیل دنیا کا انوکھا ملک ہے جو دوسروں کی سرزمین پر، انھیں بے دخل کر کے آباد کیا گیا۔


یہودیوں کو یورپ بھر سے لایا گیا اور فلسطین نامی ملک میں آباد کیا گیا اور ان آبادیوں کو اسرائیل کا نام دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہودی مزید زمینوں پر قابض ہوتے گئے اور فلسطینی اپنی زمینوں سے بے دخل۔ صرف اتنا ہی نہیں، ان کی بہت بڑی آبادی کو فلسطین سے نکال دیا گیا اور آج بھی لبنان، اردن، شام اور دوسرے ممالک میں بے گھر فلسطینیوں کے بڑے بڑے مہاجر کیمپ ہیں۔ 1967ء کی جنگ سے پہلے تک اسرائیل فلسطین کے دو تہائی سے زیادہ رقبے پر قابض ہو گیا۔ تقریباً ایک تہائی سے بھی کم رقبہ فلسطینیوں کے پاس رہ گیا جو مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل تھا۔1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے اُس پر بھی قبضہ جما لیا جو 1973ء کی جنگ میں مصر کے ہاتھوں شکست کے بعد کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کی روشنی میں اس طرح ختم ہوا کہ اعلان کی حد تک یہ علاقے آزاد ہو گئے اور ان پر بلدیاتی ادارے کی طرز پر آزاد فلسطینی حکومت بھی قائم کر دی گئی لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسرائیلی فوج نے ان سارے علاقوں کی اس طرح سے ناکہ بندی کر رکھی ہے کہ فلسطینیوں تک غذائی سامان پہنچ سکتا ہے نہ دوائیں۔

اسرائیلی فوجیں جب چاہیں گولہ باری اور فائرنگ کرنے کے لیے فلسطینیوں کو شہید کر دیتی ہیں۔ جنون بڑھ جائے تو فضائیہ بھی بمباری کیلیے طلب کر لی جاتی ہے۔ غزہ کی صورتحال میں تباہ کن موڑ تب آیا جب مصر کے اسرائیلی کٹھ پتلی صدر حسنی مبارک نے سینائی کی سرحدیں غزہ کے لیے بند کر دیں۔ مصر واحد سرزمین تھا جہاں سے غزہ والوں کو کچھ نہ کچھ غذا اور دوائیں مل جاتی تھیں۔ حسنی مبارک کے اس اقدام سے غزہ عملاً فاقہ کشی کا شکار ہو گیا۔

نئی صورتحال اس تناظر میں اہم ہے کہ اسرائیل کے دائیں بائیں پرامن علاقوں سے تشویش کے بادل اٹھ رہے ہیں۔ مغرب میں مصر جہاں حسنی مبارک کی حکومت ختم ہو گئی اور وہاں اخوان المسلمون کی حکومت قائم ہو گئی جو اسرائیل کی روایتی دشمن ہے۔ اس حکومت نے برسر اقتدار آ کر مصر کی فوج کے اسرائیل نواز جرنیل فارغ کر کے اسرائیل کی پریشانی کو اور بڑھا دیا۔ شمال مشرق میں شام ہے جس کے ساتھ 1973ء سے جنگ بندی چلی آ رہی تھی لیکن اب یہ ملک عوامی بغاوت کی زد میں ہے اور بغاوت کی سرخیل اخوان المسلمون ہے بلکہ امریکی ایوانوں کے مطابق القاعدہ کے لوگ بھی اس میں شامل ہیں۔ شام میں حکومت ختم ہوتی ہے تو سیز فائر بھی ٹوٹ جائے گا اور انتہا پسند عناصر اسرائیل کی اس مشرقی اور شمالی سرحدوں کو بھی غیر محفوظ بنا دیں گے۔

تیسری طرف مشرق میں اردن ہے جہاں اسرائیل کی محبوب حکومت قائم ہے اور یہاں بھی عوامی بے چینی شروع ہو گئی ہے۔ چوتھی طرف، شام اور لبنان سے پرے ترکی ہے جو اسرائیل کا سمندری پڑوسی بھی ہے۔ ترکی کچھ عرصہ پہلے تک اسرائیل کا دوست اور اتحادی ملک تھا لیکن اب وہاں کی حکومت کھلے عام اسرائیل کی مخالف ہے۔ یہ سارے ملک مل کر بھی اسرائیل کو تباہ نہیں کر سکتے لیکن ان کی بدلی ہوئی حکومتیں اسرائیل کو چین سے سونے کے قابل بھی نہیں رہنے دیں گی۔ گویا ایک واضح خوف نے اسرائیل کو جکڑ لیا ہے اور خوفزدہ درندے کے وار زیادہ خطرناک ہوتے ہیں یعنی نہتے فلسطینیوں کے لیے تباہی اب پہلے سے زیادہ ہو گی۔

بظاہر فلسطینیوں کے لیے امید کا کوئی دروازہ کھلا ہوا نہیں ہے۔ واحد طاقت جو انہیں بچا سکتی ہے، امریکا ہے جو پوری طرح اسرائیل کے ساتھ ہے لیکن منظر اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ اب تک امریکا کی اسرائیل نوازی پر مصر، شام، اردن اور ترکی کی مہر ثبت ہوتی تھی۔ اب امریکا اسرائیل کے ان چار قریب ترین پڑوسیوں کی ناراضی مول لے کر ہی اپنی پالیسی جاری رکھ سکے گا جس کی قیمت اسرائیل کو تو نہیں، امریکا کو ضرور چکانی پڑے گی۔ کیا ایسا زیادہ عرصے کے لیے ممکن ہو گا۔ ان چاروں ملکوں میں امریکا مرضی کے نتائج لانے کی پوزیشن میں نہیں۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ پاکستان اور دوسرے ممالک کے مسلمان فلسطینی بچوں کی لاشیں دیکھ کر کڑھتے رہنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے، اس لیے فلسطینی کے باب میں بھی انتظارکے سوا کوئی چارہ نہیں۔
Load Next Story