یہ کون سا کراچی ہے جہاں پر…حصہ اول
کراچی کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ جس کی آبادی کئی ممالک سے بھی زیادہ ہے
کراچی کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ جس کی آبادی کئی ممالک سے بھی زیادہ ہے، مگر افسوس یہ ہے کہ اس شہر کا کوئی وارث نہیں۔ جو چاہتا ہے اس کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا جب کہ یہ شہر ہر نئے آنے والے کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس شہر کا ماضی کیا بیان کروں آزادی سے پہلے اور اس کے بعد کافی عرصے تک بھی یہ شہر حسین اور پرکشش تھا، مگر اب تو اس شہر کا کچھ بھی نہیں بچا سب کچھ تباہ و برباد کر دیا گیا۔
اب یہ عالم ہے کہ سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک اور رات بھر بھی کانوں میں ایمبولینس اور وی آئی پی کی اسکواڈ (Squad) کی گاڑیوں کے سائرن بجتے رہتے ہیں جس سے ہم پر سکون نہیں سوتے اور اگر اس میں کچھ کمی ہو بھی جائے تو پھر بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اچانک اس کی سپلائی میں بندش ہمیں سونے نہیں دیتی۔ جب صبح دفتر جانے کی تیاری کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ نہانے دھونے کے لیے پانی نہیں ہے، امیر لوگ تو ٹینکرز منگوا کر پانی کا استعمال کرتے ہیں، جنریٹر چلا کر، یو پی ایس یا پھر سولر سسٹم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اب کچھ بھی کر کے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ٹریفک جام، زندگی کو داؤ پر لگا کر لٹکتے ہوئے چل پڑتے ہیں، اس منی بس، مزدا وغیرہ پر جس سے نکلتا ہوا دھواں چہرے اور پھیپھڑوں کو کالا کر دیتا ہے کئی گھنٹوں اور مشقت کے بعد جب آپ دفتر پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لیٹ ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے یا تو دھاڑی کٹے گی یا پھر باس کی ڈانٹ سننا پڑے گی۔
اس ماحول سے ہمارے مزاج میں تلخی پیدا ہو جاتی ہے، جس سے ہم آنے والے لوگوں یا پھر گھر میں بیوی بچوں پر غصہ اتارتے ہیں جو خود بھی مسائل کے شکار ہیں۔ بیوی گھر میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے برتن کیسے دھوئے، کپڑوں کی دھلائی کیسے ہو اور گرمی میں تپتے ہوئے کچن میں کھانا کیسے تیار کرے۔ جب کہ بچے اسکول جاتے ہیں تو وہاں پر بھی بجلی نہیں ہوتی گھر میں بھی یہی عالم ہوتا ہے جس سے ان کی طبیعت، ذہنی اور جسمانی طور پر بگڑ جاتی ہے۔
ہم جب دفتر پہنچتے ہیں تو فون آتا ہے کہ گھر کا گٹر بند ہو گیا ہے اور گندا پانی گھر کے اندر آ رہا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ آپ دفتر کا کام کریں یا پھر گھر واپس جائیں۔ سوئیپر گٹر صاف کرنے کا 500 روپے مانگتا ہے، پانی والے پیسے مانگتے ہیں، اگر بیوی بھی نوکری کرتی ہے تو گھر کا اﷲ حافظ۔ بچے گھر واپس آ کر خود ہی جو چاہے کھاتے ہیں کیوں کہ کھانا پکا کر فریج میں رکھ کر خود اپنے کاموں پر چلے جاتے ہیں۔
میں جب صبح گھر کے لیے سبزی اور کچھ سامان لینے جاتا ہوں تو وہاں سے مجھے دوسری جانب جانے کے لیے یا تو سڑک پار کرنا پڑتی ہے یا پھر پیڈسٹرین پل پر چڑھنا پڑتا ہے جس کا یہ حال ہے کہ وہاں پر ہیروئنیچیوں نے قبضہ کیا ہوا ہے جو وہاں پر بول براز بھی کرتے ہیں جس کی بدبو ہر طرف پھیل جاتی ہے اس عالم میں نہ میں نہ کوئی اور اس پل کو استعمال کرتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے بالکل برابر نیچے پولیس کی چیک پوسٹ بنی ہوئی ہے اور ایک بڑا اسپتال بھی ہے۔
اگر ہم روڈ کراس کرتے ہیں تو ہمارے دوست جو گاڑی، موٹر سائیکل یا رکشے پر ہوتے ہیں ہمیں دیکھ کر اپنی گاڑی اور تیز کر دیتے ہیں تا کہ ہم ان سے پہلے نہ کراس کر لیں۔ ایک دوسری مصیبت یہ کہ اب کراچی میں ہر طرف الٹی ٹریفک چل رہی ہے اور وہ بھی تیز رفتاری کے ساتھ۔ اگر دونوں طرف دھیان نہ دیا تو گیند کی طرح اڑا دیے جائیں گے۔ یہ تماشا ٹریفک پولیس دیکھتی رہتی ہے۔
میں نے سڑک پر وہ گاڑیاں چلتی ہوئی دیکھی ہیں جن سے فیکٹری کی طرح دھواں نکلتا رہتا ہے اور وہ چاروں طرف سے ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ جس سے نہ صرف کپڑے پھٹ جاتے ہیں بلکہ ہاتھ پاؤں زخمی کروا لیتے ہیں۔ سڑکوں پر فروٹ اور سبزی کی ریڑھیاں آدھی سڑک پر کھڑی ہوئی ہیں اور عوام روڈ پر کھڑے ہو کر اپنی پسند کی چیزیں خریدتے ہیں چاہے پیچھے گاڑیوں کی قطار کیوں نہ لگ جائے۔
ہارن کی آواز کو سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ دھویں سے سانس کی بیماری لگ جاتی ہے۔ گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ہارن اتنے زور دار آواز والے ہوتے ہیں کہ کان کے پردے پھٹنے لگتے ہیں پوری کراچی میں لوگوں نے فٹ پاتھوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ عورتوں کے لیے گزرنا زیادہ مشکل ہے۔ اب آپ حکومت کا کام دیکھیں اس نے 8 سیٹرز رکشے چلانے کی اجازت دی ہے جس میں عورتوں کے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اگر وہ بیٹھ جائیں تو پھر مرد حضرت انتظار کرتے رہتے ہیں جس سے رکشہ چلانے والے کو مالی نقصان ہوتا ہے عام آدمی کو سواری کے سلسلے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایک دن میں نے صدر کے علاقے سے لے کر کراچی کے بڑے بڑے پوش ایریا کو بھی گھوم کر دیکھا اور اتنا افسوس ہوا کہ میں کہہ نہیں سکتا، قائد اعظم کے مزار کا کیا حال کر دیا ہے۔ اس کے پارکس سوکھے ہوئے ہیں، درخت مرجھائے ہوئے ہیں، اس کے چاروں اطراف جو فٹ پاتھ ہے وہ ٹوٹی ہوئی ہیں اس کے باہر سڑکوں پر گندا پانی کھڑا ہوا ہے، بالکل مزار کے سامنے جو جناح پارک ہے جہاں پر اکثر حکومت اور اپوزیشن والے اپنے جلسے کرتے ہیں، اتنی بری حالت ہے کہ غصہ آتا ہے۔
وہاں پر تقریر کرتے ہوئے سیاسی لیڈر کہتے ہیں کہ وہ ہماری حالت کو بہتر بنائیں گے جب کہ جہاں سے وہ یہ اعلان کرتے ہیں وہاں پارک کا کیا حال بنا دیا ہے۔ آپ صدر میں آئیں، ایمپریس مارکیٹ کے سامنے جہانگیر پارک کا کیا حال ہے جو مکمل طور پر تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ اطراف میں لوگ پوٹی کرتے ہیں اور اس کی گھاس کو اکھاڑ کر مٹی کا ڈھیر بنا دیا ہے، چاروں طرف فروٹ والے اور دکاندار اپنا کچرا اور گندگی پھینکنے آتے ہیں۔
ایم اے جناح روڈ پر واقع 7-Day اسپتال اسٹاپ کے سگنل سے الٹے ہاتھ پر ایمپریس مارکیٹ جائیں گے تو کونے پر ایک مارکیٹ تباہ حال ملے گی جس کے نیچے دن کے وقت بھی لوگ پیشاب وغیرہ کرتے آپ کو نظر آئیں گے اور وہاں سے اٹھتی ہوئی سڑاند اور گندگی آپ کا پیچھا کرتے ہوئے ایمپریس مارکیٹ اور اس کے سامنے ریمبو سینٹر تک ساتھ ساتھ چلے گی۔ کراچی شہر صدر جس کا دل ہے اس کا یہ حال ہے کہ وہاں پر چاروں طرف آپ کے راستے اور فٹ پاتھ مختلف اشیاء لدی ریڑھیوں نے گھیرا ہوا ہے۔ اس کے برابر میں آٹھ سیٹرز ایک بڑی تعداد میں ہر وقت کھڑے رہتی ہے جس سے راستہ اتنا تنگ ہو جاتا ہے کہ پیدل بھی ایک آدمی نہیں چل سکتا۔ وہاں پر ہی ٹریفک پولیس کا دفتر ہے جسے دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ اس صورتحال پر مجھے کسی نے کہا کہ بھائی اس جگہ سے کروڑوں روپے کا بھتہ ملتا ہے جسے وہ کیسے چھوڑیں گے، بات تو دل کو لگتی ہے۔
(جاری ہے)
اب یہ عالم ہے کہ سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک اور رات بھر بھی کانوں میں ایمبولینس اور وی آئی پی کی اسکواڈ (Squad) کی گاڑیوں کے سائرن بجتے رہتے ہیں جس سے ہم پر سکون نہیں سوتے اور اگر اس میں کچھ کمی ہو بھی جائے تو پھر بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اچانک اس کی سپلائی میں بندش ہمیں سونے نہیں دیتی۔ جب صبح دفتر جانے کی تیاری کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ نہانے دھونے کے لیے پانی نہیں ہے، امیر لوگ تو ٹینکرز منگوا کر پانی کا استعمال کرتے ہیں، جنریٹر چلا کر، یو پی ایس یا پھر سولر سسٹم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اب کچھ بھی کر کے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ٹریفک جام، زندگی کو داؤ پر لگا کر لٹکتے ہوئے چل پڑتے ہیں، اس منی بس، مزدا وغیرہ پر جس سے نکلتا ہوا دھواں چہرے اور پھیپھڑوں کو کالا کر دیتا ہے کئی گھنٹوں اور مشقت کے بعد جب آپ دفتر پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لیٹ ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے یا تو دھاڑی کٹے گی یا پھر باس کی ڈانٹ سننا پڑے گی۔
اس ماحول سے ہمارے مزاج میں تلخی پیدا ہو جاتی ہے، جس سے ہم آنے والے لوگوں یا پھر گھر میں بیوی بچوں پر غصہ اتارتے ہیں جو خود بھی مسائل کے شکار ہیں۔ بیوی گھر میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے برتن کیسے دھوئے، کپڑوں کی دھلائی کیسے ہو اور گرمی میں تپتے ہوئے کچن میں کھانا کیسے تیار کرے۔ جب کہ بچے اسکول جاتے ہیں تو وہاں پر بھی بجلی نہیں ہوتی گھر میں بھی یہی عالم ہوتا ہے جس سے ان کی طبیعت، ذہنی اور جسمانی طور پر بگڑ جاتی ہے۔
ہم جب دفتر پہنچتے ہیں تو فون آتا ہے کہ گھر کا گٹر بند ہو گیا ہے اور گندا پانی گھر کے اندر آ رہا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ آپ دفتر کا کام کریں یا پھر گھر واپس جائیں۔ سوئیپر گٹر صاف کرنے کا 500 روپے مانگتا ہے، پانی والے پیسے مانگتے ہیں، اگر بیوی بھی نوکری کرتی ہے تو گھر کا اﷲ حافظ۔ بچے گھر واپس آ کر خود ہی جو چاہے کھاتے ہیں کیوں کہ کھانا پکا کر فریج میں رکھ کر خود اپنے کاموں پر چلے جاتے ہیں۔
میں جب صبح گھر کے لیے سبزی اور کچھ سامان لینے جاتا ہوں تو وہاں سے مجھے دوسری جانب جانے کے لیے یا تو سڑک پار کرنا پڑتی ہے یا پھر پیڈسٹرین پل پر چڑھنا پڑتا ہے جس کا یہ حال ہے کہ وہاں پر ہیروئنیچیوں نے قبضہ کیا ہوا ہے جو وہاں پر بول براز بھی کرتے ہیں جس کی بدبو ہر طرف پھیل جاتی ہے اس عالم میں نہ میں نہ کوئی اور اس پل کو استعمال کرتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے بالکل برابر نیچے پولیس کی چیک پوسٹ بنی ہوئی ہے اور ایک بڑا اسپتال بھی ہے۔
اگر ہم روڈ کراس کرتے ہیں تو ہمارے دوست جو گاڑی، موٹر سائیکل یا رکشے پر ہوتے ہیں ہمیں دیکھ کر اپنی گاڑی اور تیز کر دیتے ہیں تا کہ ہم ان سے پہلے نہ کراس کر لیں۔ ایک دوسری مصیبت یہ کہ اب کراچی میں ہر طرف الٹی ٹریفک چل رہی ہے اور وہ بھی تیز رفتاری کے ساتھ۔ اگر دونوں طرف دھیان نہ دیا تو گیند کی طرح اڑا دیے جائیں گے۔ یہ تماشا ٹریفک پولیس دیکھتی رہتی ہے۔
میں نے سڑک پر وہ گاڑیاں چلتی ہوئی دیکھی ہیں جن سے فیکٹری کی طرح دھواں نکلتا رہتا ہے اور وہ چاروں طرف سے ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ جس سے نہ صرف کپڑے پھٹ جاتے ہیں بلکہ ہاتھ پاؤں زخمی کروا لیتے ہیں۔ سڑکوں پر فروٹ اور سبزی کی ریڑھیاں آدھی سڑک پر کھڑی ہوئی ہیں اور عوام روڈ پر کھڑے ہو کر اپنی پسند کی چیزیں خریدتے ہیں چاہے پیچھے گاڑیوں کی قطار کیوں نہ لگ جائے۔
ہارن کی آواز کو سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ دھویں سے سانس کی بیماری لگ جاتی ہے۔ گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ہارن اتنے زور دار آواز والے ہوتے ہیں کہ کان کے پردے پھٹنے لگتے ہیں پوری کراچی میں لوگوں نے فٹ پاتھوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ عورتوں کے لیے گزرنا زیادہ مشکل ہے۔ اب آپ حکومت کا کام دیکھیں اس نے 8 سیٹرز رکشے چلانے کی اجازت دی ہے جس میں عورتوں کے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اگر وہ بیٹھ جائیں تو پھر مرد حضرت انتظار کرتے رہتے ہیں جس سے رکشہ چلانے والے کو مالی نقصان ہوتا ہے عام آدمی کو سواری کے سلسلے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایک دن میں نے صدر کے علاقے سے لے کر کراچی کے بڑے بڑے پوش ایریا کو بھی گھوم کر دیکھا اور اتنا افسوس ہوا کہ میں کہہ نہیں سکتا، قائد اعظم کے مزار کا کیا حال کر دیا ہے۔ اس کے پارکس سوکھے ہوئے ہیں، درخت مرجھائے ہوئے ہیں، اس کے چاروں اطراف جو فٹ پاتھ ہے وہ ٹوٹی ہوئی ہیں اس کے باہر سڑکوں پر گندا پانی کھڑا ہوا ہے، بالکل مزار کے سامنے جو جناح پارک ہے جہاں پر اکثر حکومت اور اپوزیشن والے اپنے جلسے کرتے ہیں، اتنی بری حالت ہے کہ غصہ آتا ہے۔
وہاں پر تقریر کرتے ہوئے سیاسی لیڈر کہتے ہیں کہ وہ ہماری حالت کو بہتر بنائیں گے جب کہ جہاں سے وہ یہ اعلان کرتے ہیں وہاں پارک کا کیا حال بنا دیا ہے۔ آپ صدر میں آئیں، ایمپریس مارکیٹ کے سامنے جہانگیر پارک کا کیا حال ہے جو مکمل طور پر تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ اطراف میں لوگ پوٹی کرتے ہیں اور اس کی گھاس کو اکھاڑ کر مٹی کا ڈھیر بنا دیا ہے، چاروں طرف فروٹ والے اور دکاندار اپنا کچرا اور گندگی پھینکنے آتے ہیں۔
ایم اے جناح روڈ پر واقع 7-Day اسپتال اسٹاپ کے سگنل سے الٹے ہاتھ پر ایمپریس مارکیٹ جائیں گے تو کونے پر ایک مارکیٹ تباہ حال ملے گی جس کے نیچے دن کے وقت بھی لوگ پیشاب وغیرہ کرتے آپ کو نظر آئیں گے اور وہاں سے اٹھتی ہوئی سڑاند اور گندگی آپ کا پیچھا کرتے ہوئے ایمپریس مارکیٹ اور اس کے سامنے ریمبو سینٹر تک ساتھ ساتھ چلے گی۔ کراچی شہر صدر جس کا دل ہے اس کا یہ حال ہے کہ وہاں پر چاروں طرف آپ کے راستے اور فٹ پاتھ مختلف اشیاء لدی ریڑھیوں نے گھیرا ہوا ہے۔ اس کے برابر میں آٹھ سیٹرز ایک بڑی تعداد میں ہر وقت کھڑے رہتی ہے جس سے راستہ اتنا تنگ ہو جاتا ہے کہ پیدل بھی ایک آدمی نہیں چل سکتا۔ وہاں پر ہی ٹریفک پولیس کا دفتر ہے جسے دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ اس صورتحال پر مجھے کسی نے کہا کہ بھائی اس جگہ سے کروڑوں روپے کا بھتہ ملتا ہے جسے وہ کیسے چھوڑیں گے، بات تو دل کو لگتی ہے۔
(جاری ہے)