جب انسان بھونکتا ہے اور ہوا دیوار گرا دیتی ہے
پاکستانی فوج کی برتری کی ایک بڑی وجہ اس کے جوانوں کے دلوں میں زندہ وہ جذبہ ہے جو انھیں شہادت کی طرف لے جاتا ہے
ہمارا صحافت کا پیشہ کچھ ایسا خوشگوار نہیں اس میں آپ کو لاتعداد مشکلات کے ساتھ ایسی خبروں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو بہت ہی ناگوار ہوتی ہیں مثلاً صرف ایک دن 22 مئی کی خبروں میں ایک خبر یہ ہے کہ ووٹ نہ دینے پر ناراضی اس حد تک پہنچی کہ ووٹ نہ دینے والے دونوں بھائیوں کے منہ میں جوتا دے کر انھیں بھونکنے پر مجبور کیا۔
ماں چھڑانے کے لیے آئی تو اس کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا۔ دوسری خبر یہ ہے کہ دریائے جہلم پر ایک پل ڈیڑھ سال سے تعمیر کیا جا رہا تھا، کوئی 33 کروڑ روپے صرف بھی ہو چکے تھے کہ ہوا کا ایک بے رحم جھونکا نہ جانے کس نشے میں جھومتا ہوا آیا اور پل کے ایک حصے کو گرا گیا جس سے پل دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ یہ پل میاں شہباز شریف کے نام سے موسوم کر دیا گیا تھا۔ خبریں تو کچھ اور بھی ہیں مگر مذکورہ خبروں کے مقابلے میں کچھ کمزور ہیں یعنی نہ تو کسی انسان کے منہ میں جوتا ٹھونس کر اسے بھونکنے پر مجبور کیا گیا ہے اور نہ ہی سیمنٹ اور لوہے کا بنا ہوا مضبوط پل ہوا کے کسی آوارہ جھونکے کو برداشت نہ کرتے ہوئے ٹوٹ کر گیا ہے۔
سب سے پہلے انسانوں کی اولاد دو نوجوانوں کو کتا بنانے کی خبر کی بات کرتے ہیں۔ ووٹ نہ دینے کی سزا کے طور پر دو طالب علم بھائیوں کو پکڑ لیا گیا اور ان کے منہ میں جوتا ٹھونس دیا گیا اور اس طرح انھیں کسی کتے کی طرح بھونکنے پر مجبور کیا گیا ان کی والدہ انھیں چھڑانے آئی تو اس کو بالوں سے پکڑ کر سڑک پر گھسیٹا گیا۔
یہ دونوں طالب علم اسکول سے فارغ ہو کر اپنے کھیتوں میں چاول کاشت کر رہے تھے کہ کچھ بااثر لوگ آ گئے اور ان طلبہ کو پکڑ لیا اور ووٹ نہ دینے پر ان دونوں نوجوانوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ کچھ لوگ آ گئے اور یہ بھاگ گئے لیکن اپنی بیٹھک پر بیٹھے تھے کہ ملزمان دوبارہ آ گئے اور پولیس کو درخواست دینے کے رنج میں ان بھائیوں کو پکڑ لیا۔ ان کو اپنے ڈیرے پر لے گئے جہاں ان کے منہ میں ان کے جوتے ٹھونس کر انھیں بھونکنے پر مجبور کیا گیا اس دوران ان کی ماں بھی آ گئی تو اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا۔ دونوں بھائی تشدد کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے۔
خبر میں خاصی تفصیل ہے جس کو نقل کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے ایسے موقعوں پر مجھے اپنے ماضی کے حکمران یاد آ جاتے ہیں جن کی خلق پروری کے واقعات آج بالکل غیر یقینی نظر آتے ہیں۔ صبح سویرے ایک بوڑھی مائی کے گھر جا کر آٹا گوندھتے اور پھر روٹی پکا کر اسے کھلانے کے بعد واپس دفتر میں آتے جہاں سے وہ خلافت کے فرائض سر انجام دیتے۔ خلیفہ اول کے جانشین کسی صبح کو پہل کر جاتے اور جب خلیفہ المومنین اس بڑھیا کی خدمت میں حاضر ہوتے تو پتہ چلتا کہ عمر ان پر بازی لے گئے ہیں۔ آج ایک مسلمان ملک میں کسی بڑھیا کو بالوں سے پکڑ کر گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کے ہاں حاضری کے وقت ہمارا کیا حال ہو گا۔
اسی کہانی کے وہ نوجوان جو آٹھویں نویں جماعت کے طالب علم ہیں ان کے منہ میں ہم جوتے ٹھونس کر ان کو کتوں کی طرح بھونکنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ نوجوان جو کل ایک مسلمان ملک میں کچھ بھی ہو سکتے ہیں، ہماری خواہش کے مطابق وہ کتے ہیں اور ان کے جوتے منہ میں لے کر ان کے بھونکنے کی آواز پر ہم بہت خوش ہوتے ہیں۔ ہم ان کی اس جواں عمری میں ہی ان کے راستے روک رہے ہیں۔
وہ کل اپنی فوج کے سربراہ بھی ہو سکتے ہیں ،کسی محکمے کے نگران بھی ہو سکتے ہیں اور اس ملک کے جہاں وہ بھونک رہے ہیں اس کے صدر بھی بن سکتے ہیں لیکن ہم اپنے نوجوانوں کی عزت کرنا نہیں جانتے جب کہ یہ نوجوان ہمیں کئی گنا بڑے دشمن سے بچاتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں ایٹم بم پکڑا دیتے ہیں اور ہماری فوج کو دنیا کی ایک بہترین فوج بنا دیتے ہیں۔ پوری دنیا ان کی فوج کی مہارت کا اعتراف کرتی ہے۔ پاکستانی فوج کی برتری کی ایک بڑی وجہ اس کے جوانوں کے دلوں میں زندہ وہ جذبہ ہے جو انھیں شہادت کی طرف لے جاتا ہے اور شہادت کی آرزو میں وہ معمولی تنخواہ میں جوانی گزار دیتے ہیں مگر بہت کم ان میں سے شہادت کا مرتبہ پاتے ہیں بس اس کی تمنا میں عمر گزار دیتے ہیں۔
ایک بار ایک ہوائی جہاز تباہ ہو گیا تو اس میں سوار بعض سابق اور حاضر فوجی بھی اس دنیا سے گزر گئے۔ میں انھی دنوں امام امین احسن اصلاحی کی مجلس میں حاضر تھا کہ شہادت کا سوال سامنے آیا۔ اصلاحی صاحب کی رائے پوچھی گئی تو انھوں نے کھل کر کہا کہ جس شخص نے فوجی وردی پہن رکھی ہے وہ شہید ہے خواہ وہ اس وقت کسی بھی حالت میں ہے۔ کھا پی رہا ہے ، سو رہا ہے یا محاذ جنگ میں ہے۔ اس پر اس جہاز میں سوار بعض مرحوم فوجیوں کا ذکر ہوا تو اصلاحی صاحب نے انھیں شہید قرار دیا کہ ان کی وردی انھیں شہداء کی صف میں شامل کرتی ہے۔
آپ کسی بھی پاکستانی فوجی کے سامنے شہادت کا ذکر کریں تو وہ جذباتی ہو جائے گا اور گلوگیر آواز میں کہے گا کہ اپنی ایسی قسمت کہاں۔ ایک سرگرم معرکے میں جب پاکستانی جوان موت کے ساتھ کھیل رہے تھے تو ایک جرنیل نے ایک دم بلب زخمی سپاہی سے کہا کہ جوان ہماری بھی سفارش کرنا اور یہ بات کہتے اور سنتے ہوئے دونوں فوجی سسکیاں لے رہے تھے۔
آپ کسی بھی پاکستانی فوجی سے کہیں کہ معرکا جنگ میں اس کے دل میں کیا معرکا سرگرم رہتا ہے تو وہ شہادت کی طلب کا اعلان کرے گا کیونکہ یہ ایک واقعہ ہوتا ہے کہ ہر سپاہی اور کسی بھی درجے کا فوجی اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا۔ گھریلو ماحول میں ایک شہید کی بیوہ سے باتیں ہو رہی تھیں کہ باتوں باتوں میں اس خاتون نے بتایا کہ آپ کا بھائی آتا جاتا رہتا ہے اور دور سے اپنی جھلک دکھاتا ہے اور حوصلے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ جب کبھی کوئی اہم فیصلہ درپیش ہوتا ہے تو میری رہنمائی کرتا ہے۔
اس خاتون نے کئی واقعات بھی بیان کیے۔ بہرکیف ایک مسلمان کے دل سے شہادت کی ابدی زندگی کی تمنا ختم نہیں کی جا سکتی اور ایک فوجی اپنی زندگی کی اس سب سے بڑی خواہش کو کیسے بھول سکتا ہے اور شہادت کی تڑپ رکھنے والی سپاہ کو کون شکست دے سکتا ہے۔ آپ ہوا سے گرنے والے پل کو بھی قربان ہی سمجھیں۔ یہ فوجی علاقے میں بن رہا تھا۔
ماں چھڑانے کے لیے آئی تو اس کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا۔ دوسری خبر یہ ہے کہ دریائے جہلم پر ایک پل ڈیڑھ سال سے تعمیر کیا جا رہا تھا، کوئی 33 کروڑ روپے صرف بھی ہو چکے تھے کہ ہوا کا ایک بے رحم جھونکا نہ جانے کس نشے میں جھومتا ہوا آیا اور پل کے ایک حصے کو گرا گیا جس سے پل دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ یہ پل میاں شہباز شریف کے نام سے موسوم کر دیا گیا تھا۔ خبریں تو کچھ اور بھی ہیں مگر مذکورہ خبروں کے مقابلے میں کچھ کمزور ہیں یعنی نہ تو کسی انسان کے منہ میں جوتا ٹھونس کر اسے بھونکنے پر مجبور کیا گیا ہے اور نہ ہی سیمنٹ اور لوہے کا بنا ہوا مضبوط پل ہوا کے کسی آوارہ جھونکے کو برداشت نہ کرتے ہوئے ٹوٹ کر گیا ہے۔
سب سے پہلے انسانوں کی اولاد دو نوجوانوں کو کتا بنانے کی خبر کی بات کرتے ہیں۔ ووٹ نہ دینے کی سزا کے طور پر دو طالب علم بھائیوں کو پکڑ لیا گیا اور ان کے منہ میں جوتا ٹھونس دیا گیا اور اس طرح انھیں کسی کتے کی طرح بھونکنے پر مجبور کیا گیا ان کی والدہ انھیں چھڑانے آئی تو اس کو بالوں سے پکڑ کر سڑک پر گھسیٹا گیا۔
یہ دونوں طالب علم اسکول سے فارغ ہو کر اپنے کھیتوں میں چاول کاشت کر رہے تھے کہ کچھ بااثر لوگ آ گئے اور ان طلبہ کو پکڑ لیا اور ووٹ نہ دینے پر ان دونوں نوجوانوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ کچھ لوگ آ گئے اور یہ بھاگ گئے لیکن اپنی بیٹھک پر بیٹھے تھے کہ ملزمان دوبارہ آ گئے اور پولیس کو درخواست دینے کے رنج میں ان بھائیوں کو پکڑ لیا۔ ان کو اپنے ڈیرے پر لے گئے جہاں ان کے منہ میں ان کے جوتے ٹھونس کر انھیں بھونکنے پر مجبور کیا گیا اس دوران ان کی ماں بھی آ گئی تو اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا۔ دونوں بھائی تشدد کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے۔
خبر میں خاصی تفصیل ہے جس کو نقل کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے ایسے موقعوں پر مجھے اپنے ماضی کے حکمران یاد آ جاتے ہیں جن کی خلق پروری کے واقعات آج بالکل غیر یقینی نظر آتے ہیں۔ صبح سویرے ایک بوڑھی مائی کے گھر جا کر آٹا گوندھتے اور پھر روٹی پکا کر اسے کھلانے کے بعد واپس دفتر میں آتے جہاں سے وہ خلافت کے فرائض سر انجام دیتے۔ خلیفہ اول کے جانشین کسی صبح کو پہل کر جاتے اور جب خلیفہ المومنین اس بڑھیا کی خدمت میں حاضر ہوتے تو پتہ چلتا کہ عمر ان پر بازی لے گئے ہیں۔ آج ایک مسلمان ملک میں کسی بڑھیا کو بالوں سے پکڑ کر گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کے ہاں حاضری کے وقت ہمارا کیا حال ہو گا۔
اسی کہانی کے وہ نوجوان جو آٹھویں نویں جماعت کے طالب علم ہیں ان کے منہ میں ہم جوتے ٹھونس کر ان کو کتوں کی طرح بھونکنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ نوجوان جو کل ایک مسلمان ملک میں کچھ بھی ہو سکتے ہیں، ہماری خواہش کے مطابق وہ کتے ہیں اور ان کے جوتے منہ میں لے کر ان کے بھونکنے کی آواز پر ہم بہت خوش ہوتے ہیں۔ ہم ان کی اس جواں عمری میں ہی ان کے راستے روک رہے ہیں۔
وہ کل اپنی فوج کے سربراہ بھی ہو سکتے ہیں ،کسی محکمے کے نگران بھی ہو سکتے ہیں اور اس ملک کے جہاں وہ بھونک رہے ہیں اس کے صدر بھی بن سکتے ہیں لیکن ہم اپنے نوجوانوں کی عزت کرنا نہیں جانتے جب کہ یہ نوجوان ہمیں کئی گنا بڑے دشمن سے بچاتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں ایٹم بم پکڑا دیتے ہیں اور ہماری فوج کو دنیا کی ایک بہترین فوج بنا دیتے ہیں۔ پوری دنیا ان کی فوج کی مہارت کا اعتراف کرتی ہے۔ پاکستانی فوج کی برتری کی ایک بڑی وجہ اس کے جوانوں کے دلوں میں زندہ وہ جذبہ ہے جو انھیں شہادت کی طرف لے جاتا ہے اور شہادت کی آرزو میں وہ معمولی تنخواہ میں جوانی گزار دیتے ہیں مگر بہت کم ان میں سے شہادت کا مرتبہ پاتے ہیں بس اس کی تمنا میں عمر گزار دیتے ہیں۔
ایک بار ایک ہوائی جہاز تباہ ہو گیا تو اس میں سوار بعض سابق اور حاضر فوجی بھی اس دنیا سے گزر گئے۔ میں انھی دنوں امام امین احسن اصلاحی کی مجلس میں حاضر تھا کہ شہادت کا سوال سامنے آیا۔ اصلاحی صاحب کی رائے پوچھی گئی تو انھوں نے کھل کر کہا کہ جس شخص نے فوجی وردی پہن رکھی ہے وہ شہید ہے خواہ وہ اس وقت کسی بھی حالت میں ہے۔ کھا پی رہا ہے ، سو رہا ہے یا محاذ جنگ میں ہے۔ اس پر اس جہاز میں سوار بعض مرحوم فوجیوں کا ذکر ہوا تو اصلاحی صاحب نے انھیں شہید قرار دیا کہ ان کی وردی انھیں شہداء کی صف میں شامل کرتی ہے۔
آپ کسی بھی پاکستانی فوجی کے سامنے شہادت کا ذکر کریں تو وہ جذباتی ہو جائے گا اور گلوگیر آواز میں کہے گا کہ اپنی ایسی قسمت کہاں۔ ایک سرگرم معرکے میں جب پاکستانی جوان موت کے ساتھ کھیل رہے تھے تو ایک جرنیل نے ایک دم بلب زخمی سپاہی سے کہا کہ جوان ہماری بھی سفارش کرنا اور یہ بات کہتے اور سنتے ہوئے دونوں فوجی سسکیاں لے رہے تھے۔
آپ کسی بھی پاکستانی فوجی سے کہیں کہ معرکا جنگ میں اس کے دل میں کیا معرکا سرگرم رہتا ہے تو وہ شہادت کی طلب کا اعلان کرے گا کیونکہ یہ ایک واقعہ ہوتا ہے کہ ہر سپاہی اور کسی بھی درجے کا فوجی اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا۔ گھریلو ماحول میں ایک شہید کی بیوہ سے باتیں ہو رہی تھیں کہ باتوں باتوں میں اس خاتون نے بتایا کہ آپ کا بھائی آتا جاتا رہتا ہے اور دور سے اپنی جھلک دکھاتا ہے اور حوصلے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ جب کبھی کوئی اہم فیصلہ درپیش ہوتا ہے تو میری رہنمائی کرتا ہے۔
اس خاتون نے کئی واقعات بھی بیان کیے۔ بہرکیف ایک مسلمان کے دل سے شہادت کی ابدی زندگی کی تمنا ختم نہیں کی جا سکتی اور ایک فوجی اپنی زندگی کی اس سب سے بڑی خواہش کو کیسے بھول سکتا ہے اور شہادت کی تڑپ رکھنے والی سپاہ کو کون شکست دے سکتا ہے۔ آپ ہوا سے گرنے والے پل کو بھی قربان ہی سمجھیں۔ یہ فوجی علاقے میں بن رہا تھا۔