سیاسی دباؤ کے باعث دہشت گردوں کیخلاف کارروائی نہیں کر سکتے پولیس
آزادانہ آپریشن کی اجازت دیدی جائے تو کراچی میں امن قائم کردینگے اور ’’بڑے آپریشن‘‘ کی ضرورت نہیں ہوگی،اعلیٰ پولیس حکام
سندھ پولیس کے اعلیٰ حکام نے سندھ حکومت پر کھلے لفظوں میں واضح کردیا ہے کہ وہ سیاسی دباؤ اور فری ہینڈ ملے بغیر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گروپوں کے خلاف نتیجہ خیز کارروائی سے قاصر ہیں۔
اگر ان کو آزادانہ ماحول میں آپریشن کی اجازت دیدی جائے تو وہ نہ صرف کراچی میں مکمل طور پر امن قائم کردیں گے بلکہ ان کی کارروائی کے بعد کسی اور ''بڑے آپریشن'' کی بھی ضرورت نہیں ہوگی تاہم اس کیلیے ضروری ہے کہ ان کی کارروائی کے دوران معمولی نوعیت کی بھی مداخلت نہ کی جائے یہ بات محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام نے گورنر ہاؤس میں منعقدہ امن وامان سے متعلق اجلاس میں کی ۔ اجلاس کی صدارت گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے کی جبکہ اجلاس میں آئی جی سندھ پولیس ، ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس ، کمشنر کراچی ، ڈی آئی جیز ، ڈپٹی کمشنرز ، ایس ایس پیز اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی ۔ امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس میں رینجرز حکام موجود نہیں تھے ۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ اجلاس سے قبل ایک اور اہم اجلاس گورنر سندھ کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا جس میں ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم ، ایس پی سی آئی ڈی انویسٹی گیشن مظہر مشوانی ، ایس پی اینٹی انکروچمنٹ سیل عرفان بہادر ، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن منظور مغل نے شرکت کی۔
اجلاس میں حیرت انگیز طور پر رینجرز کے حکام موجود نہیں تھے تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ رینجرز کے حکام کو امن وامان کے حوالے سے اس انتہائی اہم نوعیت کے اجلاس میں بلایا نہیں گیا تھا یہ پھر وہ بلانے کے باوجود اجلاس میں شریک نہیں ہوئے پولیس کے افسران نے گورنر سندھ کو عباس ٹاؤن بم دھماکے اور شہر میں بڑھتے ہوئے طالبان کے اثر رسوخ اور بھتا خوری کے حوالے سے آگاہ کیا اور بتایا کہ بعض افراد کو گرفتارکرلیا گیا ہے جن کی نشاندہی پر مزید افرادگرفتار کیے جا رہے ہیں جبکہ عباس ٹاؤن امام بارگاہ کے بعد دیگر امام بارگاہوں اور مساجد پر حملوں کا بھی خطرہ ہے جبکہ شیعہ اور سنی فرقے سے تعلق رکھنے والے علماء کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہیں ۔ طالبان نے مختلف گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں کے ذریعے خود کش حملوں کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے ۔
بعدازاں گورنر سندھ کی زیر صدارت پولیس اور انتظامیہ کے اجلاس میں بتایا گیا کہ پولیس کا مورال بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بغیر کسی دباؤ کے کارروائی کی اجازت دی جائے ، نفری اور گاڑیوں کی شدید قلت ہے ، فنڈز دستیاب نہیں ، پانچوں اضلاع میں 70 سے زائد تھانوں کی حدود انتہائی حساس ہیں،گورنر سندھ نے اجلاس میں ہدایت کی کہ تھانوں کو مضبوط کیا جائے اگر ایس ایچ اوز فعال نہیں ہوں گے تو جرائم پیشہ افراد کے خلاف پوری قوت سے کارروائی نہیں کی جاسکتی ، گورنر سندھ نے کہا کہ بلا تفریق ، کسی سیاسی دباؤ کو قبول کیے بغیر کارروائی شروع کردی جائے ، دہشت گردوں کو پوری قوت سے ختم کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں ، کمیونٹی کے ساتھ مل کر کارروائی کی جائے، ذرائع کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی نے گرفتار ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا ۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے دہشت گرد عباس ٹاؤن امام بارگاہ پر ٹارگٹ حاصل نہ کرسکے اور ایک دودھ کی دکان پر کالے کپڑوں میں ملبوس شخص نے موٹر سائیکل کھڑی کی تاہم انتظامیہ کی جانب سے لگایا گیا بیریئر کراس نہیں کرسکا اور بڑی تباہی سے بچ گئے جبکہ سہراب گوٹھ کے علاقے سے طالبان کی جانب سے بڑی دہشت گردی کی اطلاعات ہیں۔ گورنر سندھ نے اجلاس میں ہدایت کی کہ ڈپٹی کمشنرز سے کو آرڈینیشن کرتے ہوئے ٹارگٹ حاصل کیے جائیں ، پولیس کو فری ہینڈ دیا گیا ہے تاکہ کسی سیاسی دباؤ اور اثر رسوخ کے بغیر بلا تفریق دہشت گردوں ، جرائم پیشہ عناصر اور انتہا پسندی کا لبادہ پہنے ہوئے افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے ۔
اگر ان کو آزادانہ ماحول میں آپریشن کی اجازت دیدی جائے تو وہ نہ صرف کراچی میں مکمل طور پر امن قائم کردیں گے بلکہ ان کی کارروائی کے بعد کسی اور ''بڑے آپریشن'' کی بھی ضرورت نہیں ہوگی تاہم اس کیلیے ضروری ہے کہ ان کی کارروائی کے دوران معمولی نوعیت کی بھی مداخلت نہ کی جائے یہ بات محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام نے گورنر ہاؤس میں منعقدہ امن وامان سے متعلق اجلاس میں کی ۔ اجلاس کی صدارت گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے کی جبکہ اجلاس میں آئی جی سندھ پولیس ، ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس ، کمشنر کراچی ، ڈی آئی جیز ، ڈپٹی کمشنرز ، ایس ایس پیز اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی ۔ امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس میں رینجرز حکام موجود نہیں تھے ۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ اجلاس سے قبل ایک اور اہم اجلاس گورنر سندھ کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا جس میں ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم ، ایس پی سی آئی ڈی انویسٹی گیشن مظہر مشوانی ، ایس پی اینٹی انکروچمنٹ سیل عرفان بہادر ، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن منظور مغل نے شرکت کی۔
اجلاس میں حیرت انگیز طور پر رینجرز کے حکام موجود نہیں تھے تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ رینجرز کے حکام کو امن وامان کے حوالے سے اس انتہائی اہم نوعیت کے اجلاس میں بلایا نہیں گیا تھا یہ پھر وہ بلانے کے باوجود اجلاس میں شریک نہیں ہوئے پولیس کے افسران نے گورنر سندھ کو عباس ٹاؤن بم دھماکے اور شہر میں بڑھتے ہوئے طالبان کے اثر رسوخ اور بھتا خوری کے حوالے سے آگاہ کیا اور بتایا کہ بعض افراد کو گرفتارکرلیا گیا ہے جن کی نشاندہی پر مزید افرادگرفتار کیے جا رہے ہیں جبکہ عباس ٹاؤن امام بارگاہ کے بعد دیگر امام بارگاہوں اور مساجد پر حملوں کا بھی خطرہ ہے جبکہ شیعہ اور سنی فرقے سے تعلق رکھنے والے علماء کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہیں ۔ طالبان نے مختلف گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں کے ذریعے خود کش حملوں کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے ۔
بعدازاں گورنر سندھ کی زیر صدارت پولیس اور انتظامیہ کے اجلاس میں بتایا گیا کہ پولیس کا مورال بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بغیر کسی دباؤ کے کارروائی کی اجازت دی جائے ، نفری اور گاڑیوں کی شدید قلت ہے ، فنڈز دستیاب نہیں ، پانچوں اضلاع میں 70 سے زائد تھانوں کی حدود انتہائی حساس ہیں،گورنر سندھ نے اجلاس میں ہدایت کی کہ تھانوں کو مضبوط کیا جائے اگر ایس ایچ اوز فعال نہیں ہوں گے تو جرائم پیشہ افراد کے خلاف پوری قوت سے کارروائی نہیں کی جاسکتی ، گورنر سندھ نے کہا کہ بلا تفریق ، کسی سیاسی دباؤ کو قبول کیے بغیر کارروائی شروع کردی جائے ، دہشت گردوں کو پوری قوت سے ختم کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں ، کمیونٹی کے ساتھ مل کر کارروائی کی جائے، ذرائع کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی نے گرفتار ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا ۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے دہشت گرد عباس ٹاؤن امام بارگاہ پر ٹارگٹ حاصل نہ کرسکے اور ایک دودھ کی دکان پر کالے کپڑوں میں ملبوس شخص نے موٹر سائیکل کھڑی کی تاہم انتظامیہ کی جانب سے لگایا گیا بیریئر کراس نہیں کرسکا اور بڑی تباہی سے بچ گئے جبکہ سہراب گوٹھ کے علاقے سے طالبان کی جانب سے بڑی دہشت گردی کی اطلاعات ہیں۔ گورنر سندھ نے اجلاس میں ہدایت کی کہ ڈپٹی کمشنرز سے کو آرڈینیشن کرتے ہوئے ٹارگٹ حاصل کیے جائیں ، پولیس کو فری ہینڈ دیا گیا ہے تاکہ کسی سیاسی دباؤ اور اثر رسوخ کے بغیر بلا تفریق دہشت گردوں ، جرائم پیشہ عناصر اور انتہا پسندی کا لبادہ پہنے ہوئے افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے ۔