سونے اور پھلوں سے لدی سرزمین

یہ ہے بلوچستان، جہاں پاکستان میں سب سے زیادہ پھلوں کی پیداوار ہوتی ہے اور سب سے زیادہ برآمد بھی ہوتی ہے

zb0322-2284142@gmail.com

یہ ہے بلوچستان، جہاں پاکستان میں سب سے زیادہ پھلوں کی پیداوار ہوتی ہے اور سب سے زیادہ برآمد بھی ہوتی ہے۔ یہاں انگور، خوبانی، کھجور، بیر، انار، بادام، سیب وغیرہ کی بڑے پیمانے پر پیداوارہوتی ہے اور برآمد ہوتے ہیں۔ دنیا کے پانچ بڑے کھجور پیدا کرنے والے ملکوں میں سے پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ دنیا بھر سے کل کھجور کی برآمدات میں سے 60 فیصد ایران برآمد کرتا ہے۔

یہاں زیادہ کھجور ایرانی بلوچستان میں پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ پاکستانی بلوچستان، ایرانی بلوچستان سے متصل ہے، اس لیے اگر ہماری حکومت کھجور کی پیداوار پر خصوصی توجہ دے تو ہم بھی دگنی پیداوار اور برآمد کر سکتے ہیں اور عوام کو بھی سستی کھجور فراہم کر سکتے ہیں۔

بلوچستان سے لاکھوں میٹرک ٹن پھل ہر سال ہماری حکومت برآمد کرتی ہے۔ جہاں تک معدنیات کا تعلق ہے تو یہاں بے شمار قیمتی معدنیات نہ صرف پائی جاتی ہیں بلکہ حکومت انھیں برآمد کر کے بڑے پیمانے پر زرمبادلہ کماتی ہے۔ باقی ساری معدنیات کو چھوڑ دیں، صرف سونے کے دس ٹن ذخائر موجود ہیں۔ چین بلوچستان سے جو سونا نکالتا ہے اس میں سے 51 فیصد وہ خود لے جاتا ہے، باقی وفاق کے لینے کے بعد بلوچستان کے لیے صرف دو فیصد رہ جاتا ہے۔ ان وسائل کو صحیح معنوں میں استعمال کیا جائے تو بلوچستان کے عوام کو بحرین، اومان، سعودی عرب، امارات یا کویت جا کر مزدوری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ دوسرے ممالک کے لوگ یہاں مزدوری کرنے کے لیے آ سکتے ہیں۔

اس جنت نظیر وادیٔ بولان کے لوگ پاکستان میں سب سے زیادہ افلاس، غربت، بھوک اور بے روزگاری کے شکار ہیں۔ بلوچستان کے علاقے حب میں صنعتی زون قائم کیا گیا اور حکمرانوں نے خود یہ طے کیا کہ اس صنعتی علاقے میں 75 فیصد مزدوروں کی بھرتی مقامی لوگوں پر مشتمل ہو گی۔ مگر آج تک اس پر عملدرآمد نہیں ہو پایا۔ وہاں کی مقامی آبادی کو ریڈ انڈین بنا کر رکھا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس جمہوری دور میں بھی بلوچ عوام کو اپنے حقوق کے مطالبات کے لیے احتجاج کا حق بھی میسر نہیں۔ کوئی کہتا ہے وہ دہشتگرد ہیں، کوئی کہتا ہے کہ وہ انتہاپسند ہیں، کوئی کہتا ہے کہ وہ علیحدگی پسند ہیں۔

یہ بھی عجیب بات ہے کہ سامراجی آلۂ کار طالبان کو قطر میں دفتر کھولنے کی اجازت مل جاتی ہے اور ان سے مذاکرات بھی کیے جاتے ہیں جب کہ بلوچوں کو دہشت گرد کہہ کر انھیں رسوا کیا جاتا ہے۔ جنرل ایوب، بھٹو، پرویز مشرف اور موجودہ دور میں بھی عدالتی حکم نامے کے باوجود بے شمار مسنگ پرسنز کی اب تک بازیابی نہیں ہوئی۔ ماما قدیر کے جرأت مندانہ قدم اٹھانے کے باوجود ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ماما قدیر کو نا معلوم کیا کچھ کہا گیا،حال ہی میں جنرل راحیل شریف نے ایک اعلان نامہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ جنرل، بریگیڈیر، کرنل اور میجر سمیت 24 افسران کو کرپشن کے جرم میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے، انھیں صرف پنشن اور میڈیکل کی سہولیات دستیاب ہو گی۔

اب یہ نہیں معلوم کہ ان پر کورٹ مارشل کے تحت مقدمہ بھی چلایا گیا ہے یا نہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان افسران کو بلوچستان میں کرپشن کے الزام میں ملازمت سے برطرف کیا گیا ہے۔ جہاں کی سرزمین دولت سے مالامال ہو وہاں کے 18 لاکھ بچے آج بھی اسکول جانے سے محروم ہیں۔ پسماندگی کا تو یہ حال ہے کہ پروفیسر شیرشاہ سید سوری جو کہ پی ایم اے کے فعال رہنما بھی ہیں، نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ بلوچستان سے ایک خاتون ان کے اسپتال میں علاج کروانے آئی تھی، جسے سنگلاخ پہاڑی سے چارپائی پر لاد کر 6 میل دور بس اسٹاب پر لایا گیا، پھر بس سے کراچی پہنچایا گیا۔

یہاں عورت نے زندگی میں پہلی بار چار پہیے کی گا ڑی دیکھی، پکی سڑک دیکھی، پنکھا اور بجلی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ ہے وہاں کی ترقی۔ اسی قسم کے حالات سے متاثر ہو کر ساحر لدھیانوی نے انگریزوں کے زمانے میں بنگال میں قحط پڑنے کے دوران 'بنگال' کے نام سے ایک نظم لکھی تھی جو بہت مقبول ہوئی۔ اس کے چند بند ملاحظہ ہوں:

یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا

کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کر مرے


زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا

کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کر مرے

ملیں اسی لیے ریشم کے تار بنتی ہیں

کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں

چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا تھا

کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں

یہی صورتحال بلوچستان کی ہے۔ حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے وہاں کے باغات تباہی سے دوچار ہیں۔ چند برس قبل میں خود خضدار، وڈ، قلات، کوئٹہ اور زیارت گیا تھا۔ خضدار میں جنگی حالات کی وجہ سے زیتون کے باغات ویران پڑے ہیں۔ یہاں کے پہاڑوں سے روزانہ 50 ٹرک خام تانبا کراچی آتا ہے، جب کہ خضدار کے عوام اس تانبے کے بارے میں لاعلم ہیں کہ یہ کس کی ملکیت ہے۔ قلات میں سیب کے باغات خشک ہو رہے ہیں، اس لیے کہ یہاں قلت آب ہے۔ زیارت جو کہ چنار کے جنگلات کے لیے دنیا میں مشہور ہے ، وہ بھی تباہی سے دوچار ہے۔

کسانوں نے بتایا کہ یہاں پہلے 800 فٹ زیر زمین پانی حاصل ہو جاتا تھا مگر اب 1300 فٹ نیچے سے پانی ملتا ہے، جس کی وجہ سے یہاں سیب کی پیداوار میں 50 فیصد کی کمی ہو گئی ہے۔

حکومت کی جانب سے اس کا کوئی تدارک نہیں کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہم صرف خام معدنیات برآمد کرتے ہیں بجائے اس کے کہ انھیں ہم اگر مصنوعات میں تبدیل کریں تو بے تحاشا دولت کما سکتے ہیں۔ ریکوڈک مستقبل بدل پروجیکٹ ہے، مگر مسئلہ ہے دولت کی منصفانہ تقسیم کا۔ اس وقت بلوچ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اپنے پیاروں کی بازیابی کا۔ یہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں۔ اب یہ حکومت کا فریضہ بنتا ہے کہ ان مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے کوشش کرے۔ سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا ہے۔ اس لیے پھلوں اور معدنیات کی برآمدات کی رقوم کو سب سے پہلے مقامی آبادی پر خرچ کیا جائے۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک آزاد اور امداد باہمی کے معاشرے میں ہی ممکن ہے، جہاں سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے، کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست۔
Load Next Story