غیرقانونی طورپردرآمدی اشیاکی بلاروک ٹوک کلیئرنس
انڈین پالش گرینائٹ سیلب کے کنسانمٹ پہلے روکے پھربغیرکارروائی کلیئرکردیے گئے
پاکستان کسٹمزکی جانب سے درآمدی کپڑوں کے کنسائمنٹ پرایف آئی آرکے اندراج کے باوجود غیرقانونی طور پردرآمدکیے جانے والے دیگر کنسائمنٹس کے خلاف تادیبی کارروائیوں سے گریزکیا جا رہا ہے، قبل ازبجٹ کسٹمز حکام کے اس دہرے معیار سے ٹریڈ سیکٹر میں زبردست اضطراب ہے۔
کسٹمزکلیئرنگ ایجنٹس کے رہنما اور ٹیکس ایڈوائزری فورم کے چیئرمین شرجیل جمال نے بتایاکہ غیرقانونی طورپر درآمدکیے جانے والے انڈین پالش گرینائٹ سیلب کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس گزشتہ کئی سال سے کی جا رہی ہے، گزشتہ دنوںمحکمہ کسٹمز نے ان کنسائمنٹس کی کلیئرنس روک کر موقف اختیار کیا تھا کہ انڈین گرینائٹ سلیب کی درآمد پر پابندی ہے لیکن بعدازاں ان کنسائمنٹس کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے کلیئر کر دیا گیا حالانکہ کسٹمز کے ماتحت ڈائریکٹوریٹ پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی جانب سے نشاندہی کی گئی ہے کہ سال2012تا 2016 کے دوران انڈین گرینائٹ سلیب کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس اپریزمنٹ ایسٹ، ویسٹ سے غیرقانونی طور پر ہوئی۔
جس سے قومی خزانے کوکروڑوں روپے مالیت کا نقصان پہنچا۔ علاوہ ازیں چائے کے کنسائمنٹس کی بھی غیرقانونی کسٹمزکلیئرنس کی جارہی ہے حالانکہ اس کی کلیئرنس کیلیے پی ایس کیوسی اے کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن چائے کے کنسائمنٹس مبینہ طور پر10ہزارروپے اسپیڈ منی کی ادائیگی کے عوض کلیئر کیے جارہے ہیں اوران کیخلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ شرجیل جمال نے کہاکہ متعدد بار چیف کلکٹر کسٹمز کو بھی آگاہ کیا گیا لیکن تاحال کوئی موثرقدم نہیں اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ کسٹمزکی جانب سے جن کپڑے کے کنسائمنٹس کیلیے ایف آئی آرکا اندراج کیاگیا ہے ان کی لاکھوں روپے کے عوض کلیئرنس کرنیوالے کسٹمز افسران کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
کسٹمزکلیئرنگ ایجنٹس کے رہنما اور ٹیکس ایڈوائزری فورم کے چیئرمین شرجیل جمال نے بتایاکہ غیرقانونی طورپر درآمدکیے جانے والے انڈین پالش گرینائٹ سیلب کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس گزشتہ کئی سال سے کی جا رہی ہے، گزشتہ دنوںمحکمہ کسٹمز نے ان کنسائمنٹس کی کلیئرنس روک کر موقف اختیار کیا تھا کہ انڈین گرینائٹ سلیب کی درآمد پر پابندی ہے لیکن بعدازاں ان کنسائمنٹس کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے کلیئر کر دیا گیا حالانکہ کسٹمز کے ماتحت ڈائریکٹوریٹ پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی جانب سے نشاندہی کی گئی ہے کہ سال2012تا 2016 کے دوران انڈین گرینائٹ سلیب کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس اپریزمنٹ ایسٹ، ویسٹ سے غیرقانونی طور پر ہوئی۔
جس سے قومی خزانے کوکروڑوں روپے مالیت کا نقصان پہنچا۔ علاوہ ازیں چائے کے کنسائمنٹس کی بھی غیرقانونی کسٹمزکلیئرنس کی جارہی ہے حالانکہ اس کی کلیئرنس کیلیے پی ایس کیوسی اے کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن چائے کے کنسائمنٹس مبینہ طور پر10ہزارروپے اسپیڈ منی کی ادائیگی کے عوض کلیئر کیے جارہے ہیں اوران کیخلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ شرجیل جمال نے کہاکہ متعدد بار چیف کلکٹر کسٹمز کو بھی آگاہ کیا گیا لیکن تاحال کوئی موثرقدم نہیں اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ کسٹمزکی جانب سے جن کپڑے کے کنسائمنٹس کیلیے ایف آئی آرکا اندراج کیاگیا ہے ان کی لاکھوں روپے کے عوض کلیئرنس کرنیوالے کسٹمز افسران کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔