قوانین کی بدترین خلاف ورزی نوشاد شیخ سیکریٹریٹ گروپ میں ضم
ڈاکٹر رضی الدین، ڈاکٹر کرن نعمان شیخ، ڈاکٹر جاوید شاہ ، امداد میمن کو ایکس پی سی ایس گروپ میں ضم کیا گیا
سندھ حکومت نے قوانین کی بدترین خلاف ورزی کرتے ہوئے گورنر سندھ کے پرنسپل سیکریٹری ڈاکٹر نوشاد شیخ کو گریڈ 21 میں سیکریٹریٹ گروپ میں ضم کردیا ہے جبکہ گریڈ 21 میں اعزازی طور پر ترقی دی جاتی ہے۔
سندھ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی افسر کو گریڈ 21 میں سیکریٹریٹ گروپ میں ضم کیا گیا ہے۔ باخبر ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ نوشاد شیخ بنیادی طور پر ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے ملازم ہیں جنھیں پہلے بھی میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نان کیڈر آفیسر ہونے کے باوجود سیکریٹری صحت مقرر کیا گیا تھا جبکہ اس عہدے پر صرف کیڈر آفیسر کی تعنیاتی کی جاسکتی ہے بعدازاں انھیں وائس چانسلر لیاقت یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور اس کے بعد گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کا پرنسپل سیکریٹری تعینات کیا گیا جب سپریم کورٹ نے انہیں ہٹانے کا حکم جاری کیا تو گورنر سندھ کی جانب سے ایک آرڈیننس جاری کردیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ جسے چاہیں کہیں بھی نہ صرف تعینات کرسکتے ہیں بلکہ کسی بھی افسر کو کسی سروسز میں ضم بھی کرسکتے ہیں جبکہ آؤٹ آف ٹرن ترقی بھی دے سکتے ہیں ۔
مذکورہ آرڈیننس کے بعد سیکریٹریٹ گروپ اور ایکس پی سی ایس میں مختلف افسران کے ضم ہونے کا سلسلہ تیزی سے شروع کردیا گیا ہے ۔ گورنر سندھ کے پرنسپل سیکریٹری نوشاد شیخ تاریخ کے واحد افسر ہیں جن کو سیکریٹریٹ گروپ میں ضم کرنے کے لیے گورنر ہاؤس سے براہ راست سمری تیار کرکے وزیراعلیٰ سندھ کو ارسال کی گئی ۔ نوشاد شیخ کے علاوہ محکمہ آئی ٹی کے ملازم محمد یوسف کو گریڈ 20 میں سیکریٹریٹ گروپ میں ضم کیا گیا ۔ اس سے قبل سیسی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر رضی الدین کو ایکس پی سی ایس گروپ ، محکمہ ماحولیات کی ڈاکٹر کرن نعمان شیخ کو پہلے سیکریٹریٹ گروپ اور بعدازاں ایکس پی سی ایس گروپ ، محکمہ صحت کے ڈاکٹر جاوید شاہ کو ایکس پی سی ایس گروپ اور محکمہ زراعت کے امداد میمن کو ایکس پی سی ایس گروپ میں ضم کیا گیا ہے۔
جبکہ مذکورہ گروپ صرف سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے آنے والوں کے لیے مختص ہے جس میں ریونیو کا کورس کرنا بھی لازمی ہے تاہم مختلف محکموں کے افسران کو اس طرح ضم کرنا حقداروں کا حق مارنے کے مترادف ہے ۔ یاد رہے کہ 2 درجن سے زائد افسران کو غیر قانونی طور پر سیکریٹریٹ گروپ میں ضم کرنے کے خلاف سیکریٹریٹ گروپ کے 40 افسران نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر غور ہے با اثر افسران اپنی نشستوں پر براجمان ہیں جبکہ سیکریٹریٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے افسران سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں ۔
سندھ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی افسر کو گریڈ 21 میں سیکریٹریٹ گروپ میں ضم کیا گیا ہے۔ باخبر ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ نوشاد شیخ بنیادی طور پر ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے ملازم ہیں جنھیں پہلے بھی میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نان کیڈر آفیسر ہونے کے باوجود سیکریٹری صحت مقرر کیا گیا تھا جبکہ اس عہدے پر صرف کیڈر آفیسر کی تعنیاتی کی جاسکتی ہے بعدازاں انھیں وائس چانسلر لیاقت یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور اس کے بعد گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کا پرنسپل سیکریٹری تعینات کیا گیا جب سپریم کورٹ نے انہیں ہٹانے کا حکم جاری کیا تو گورنر سندھ کی جانب سے ایک آرڈیننس جاری کردیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ جسے چاہیں کہیں بھی نہ صرف تعینات کرسکتے ہیں بلکہ کسی بھی افسر کو کسی سروسز میں ضم بھی کرسکتے ہیں جبکہ آؤٹ آف ٹرن ترقی بھی دے سکتے ہیں ۔
مذکورہ آرڈیننس کے بعد سیکریٹریٹ گروپ اور ایکس پی سی ایس میں مختلف افسران کے ضم ہونے کا سلسلہ تیزی سے شروع کردیا گیا ہے ۔ گورنر سندھ کے پرنسپل سیکریٹری نوشاد شیخ تاریخ کے واحد افسر ہیں جن کو سیکریٹریٹ گروپ میں ضم کرنے کے لیے گورنر ہاؤس سے براہ راست سمری تیار کرکے وزیراعلیٰ سندھ کو ارسال کی گئی ۔ نوشاد شیخ کے علاوہ محکمہ آئی ٹی کے ملازم محمد یوسف کو گریڈ 20 میں سیکریٹریٹ گروپ میں ضم کیا گیا ۔ اس سے قبل سیسی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر رضی الدین کو ایکس پی سی ایس گروپ ، محکمہ ماحولیات کی ڈاکٹر کرن نعمان شیخ کو پہلے سیکریٹریٹ گروپ اور بعدازاں ایکس پی سی ایس گروپ ، محکمہ صحت کے ڈاکٹر جاوید شاہ کو ایکس پی سی ایس گروپ اور محکمہ زراعت کے امداد میمن کو ایکس پی سی ایس گروپ میں ضم کیا گیا ہے۔
جبکہ مذکورہ گروپ صرف سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے آنے والوں کے لیے مختص ہے جس میں ریونیو کا کورس کرنا بھی لازمی ہے تاہم مختلف محکموں کے افسران کو اس طرح ضم کرنا حقداروں کا حق مارنے کے مترادف ہے ۔ یاد رہے کہ 2 درجن سے زائد افسران کو غیر قانونی طور پر سیکریٹریٹ گروپ میں ضم کرنے کے خلاف سیکریٹریٹ گروپ کے 40 افسران نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر غور ہے با اثر افسران اپنی نشستوں پر براجمان ہیں جبکہ سیکریٹریٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے افسران سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں ۔