جمہوریت سے بیزاری کیوں

پاکستان اس وقت مختلف مسائل میں گھرا ایک مصیبت زدہ ملک ہے، معیشت ڈانوا ڈول ہے۔

usmandamohi@yahoo.com

پاکستان اس وقت مختلف مسائل میں گھرا ایک مصیبت زدہ ملک ہے، معیشت ڈانوا ڈول ہے۔ غربت اور بیروزگاری کا عروج ہے۔ غربت کے مارے لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں اور یہی بچے دہشت گردی میں چارے کے طور پر خودکش بمبار بن رہے ہیں۔ تھر میں غذائی قلت ہے اور درجنوں بچے جاں بحق ہو رہے ہیں۔ غربت نے چوریوں، ڈکیتیوں اور اسٹریٹ کرائمز کو جنم دیا ہے۔

دہشتگردی ضرب عضب آپریشن کے باوجود بھی تھم نہیں سکی۔ لوڈ شیڈنگ کے عذاب نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ بڑوں کی کرپشن نے انھیں انٹرنیشنل بزنس مین بنا دیا ہے۔ ایک طرف کشتیوں میں بھر بھرکر ڈالر ملک سے باہر جا رہے ہیں تو دوسری طرف سرکاری افسران کے گھروں سے کروڑوں روپے برآمد ہو رہے ہیں، مگر غریبوں کو دو وقت کی روٹی نہیں مل رہی۔ ملک کو اندرونی مسائل کے ساتھ ساتھ سنگین بیرونی خطرات کا بھی سامنا ہے۔ بھارت کھلے عام آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے، ایرانی حکمران بھارت کا دم بھر رہے ہیں۔

افغانستان کی بھارت اسپانسرڈ دہشت گردی ملک کے امن کو دیمک کی طرح چاٹ چکی ہے۔ ہمارے دشمن تو ہماری مشکلات کو بڑھانے میں ضرور پیش پیش ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے اپنے لوگ بھی ملک کی مشکلات کو بڑھانے میں سرگرمی سے حصہ لے رہے ہیں انھیں نہ غریبوں کی پرواہ ہے اور نہ ہی بیرونی خطرات کا کوئی خوف۔ ملک میں پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو ہی سیاسی قوتیں موجود تھیں جو اقتدار کے حصول میں باریاں لیتی رہی ہیں اب ایک تیسری سیاسی قوت نے جلد اپنی باری لانے کے لیے موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی اسے گرانے کے لیے سڑکوں کی سیاست شروع کر دی ہے۔ اب موجودہ مناقشے کا موضوع کرپشن ہے۔

حالانکہ دونوں ہی طرف کے لوگوں پر کرپشن کے الزامات ہیں، لیکن ایک دوسرے پر زہر آلود تنقید کے تیر چلا رہے ہیں۔ انھیں دست گریباں دیکھ کر ہمارے دوست اور دشمن سب ہی ہم پر ہنس رہے ہیں کہ یہ کیسی بے فکر قوم ہے کہ گھر میں آگ لگی ہوئی ہے اور بیرونی خطرات ہر وقت سر پر منڈلا رہے ہیں مگر وہ اقتدار کی جنگ میں مصروف ہے۔ پاکستان پیدائشی طور پر ایک جمہوری ملک ہے مگر معاملات کو غیر جمہوری انداز سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاسی رقابت ذاتی رقابت میں تبدیل ہو چکی ہے، ویسے تو ہر ملک میں ہی حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی ہوتی رہتی ہے مگر ذاتی دشمنی کہیں دکھائی نہیں دیتی، تاہم ہمارے ہاں کا حال دنیا سے الگ تھلک ہے۔

جمہوری ممالک میں حکومت اور اپوزیشن اپنے جھگڑے اسمبلی میں ہی کم سے کم وقت میں حل کر لیتی ہیں اس لیے کہ ان کے پاس معاملات کو طول دینے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کو عوام سے رابطہ رکھنے اور ان کے کام کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے تو حکومت کے لیے ملک چلانے کے لیے ایک ایک منٹ قیمتی ہوتا ہے۔ پر جمہوری حکومت اپوزیشن سے اپنے اختلافات کو جلد ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر جب اپوزیشن حکومت کا پیچھا ہی نہ چھوڑے اور اپوزیشن کا ایک دھڑا ہر دو چار مہینے کے بعد اک نیا ایشو کھڑا کر کے حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاجی مہم شروع کر دے اور ساتھ ہی طویل دھرنے دیے جانے لگیں تو ایسی صورت میں نہ تو ترقیاتی کام انجام دیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی عوامی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔

خیر سے حکومت اپنا کام ضرور کر رہی ہے مگر ابھی تک اپنے مقررہ اہداف حاصل نہیں کر پائی ہے، جس سے اس کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ جہاں تک پانامہ لیکس کا تعلق حکومت اس میں ضرور الجھ چکی ہے۔ برطانیہ میں اس سے بھی زیادہ سنگین معاملہ درپیش تھا کیونکہ وہاں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا نام آف شور کمپنیز کی دستاویز میں شامل تھا مگر وہاں یہ معاملہ ایک ہفتے میں ہی رفع دفع ہو گیا، وہاں نہ احتجاجی جلسے ہوئے نہ بیانات کے ذریعے کسی کی کردار کشی کی نوبت آئی البتہ ڈیوڈ کیمرون نے پارلیمنٹ میں اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب دے دیا اس کے بعد بات ختم ہو گئی۔


مگر بدقسمتی سے پاکستان میں وزیر اعظم کی اپنے اہل خانہ پر لگے الزامات کی وضاحت اپوزیشن کی خواہش کے مطابق کمزور رہی چنانچہ اب وہ سات کے بجائے ستر سوالات لیے وزیر اعظم کا پیچھا کر رہی ہے، تاہم ایک دوسرے کا پیچھا کرنے سے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں جتنی دفعہ بھی مارشل لا لگے ہیں انھیں دعوت دینے والے ہمارے سیاستدان ہی تھے بدقسمتی سے اس وقت پھر حالات کو اسی رخ پر ڈالا جا رہا ہے۔

ایک سینئر صحافی جو اس وقت نیویارک میں ایک قومی اخبار کے لیے کام کر رہے ہیں بار بار اپنے مضامین اور رپورٹوں کے ذریعے ملک کی موجودہ صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دنگل سے پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے۔ ہمارے دشمن موجودہ صورتحال کو ''بنانا اسٹیٹ'' سے تعبیر کر رہے ہیں اور پاکستان کے لیے نئی مشکلات کھڑی کرنے میں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ ایف سولہ طیاروں اور کولیشن سپورٹ فنڈ پر نئی شرائط اسی کا مظہر ہیں۔

کپتان نے ایک جلسے میں بڑے وثوق سے کہا ہے کہ امپائر نے انگلی کھڑی کر دی ہے اگر واقعی ایسا ہے تو پھر جمہوریت کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کا بھی دھڑن تختہ یقینی ہے۔ لیکن اگر واقعی جمہوریت کا سورج غروب ہو گیا تو پھر اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ اس وقت تو حکومت کو اپوزیشن نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے کیا پھر ایسا ہو سکے گا اور مزید یہ کہ پھر کپتان کس سے استعفے کا مطالبہ کریں گے؟ معاملہ دراصل یہ ہے کہ اب ملک میں سنجیدہ سیاست کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اب اس کی جگہ جارحانہ سیاست نے لے لی ہے۔

پاکستان کی جتنی بھی پرانی سیاسی پارٹیاں ہیں انھوں نے کبھی حکومت وقت کے خلاف مہینوں لمبے دھرنے نہیں دیے بغیر الزام ثابت ہوئے حکومت سے استعفیٰ طلب نہیں کیا۔ اب تو ہر لمحے دھرنے کی دھمکیاں ہیں اور استعفے کے نعرے ہیں۔ کاش کہ ملک جنگ جویانہ سیاست کا شکار نہ ہوتا۔ موجودہ جمہوریت شکن حالات میں نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما اسفند یار ولی کا بیان ہوا کا تازہ جھونکا ہے۔

آپ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جب تک موجودہ حکومت پر لگائے گئے الزامات ثابت نہیں ہو جاتے وہ حکومت سے استعفے کا مطالبہ نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی احتجاجی سیاست کا حصہ بنیں گے۔ اسفند یار جیسے بزرگ سیاستداں کے بیان میں نئے سیاستدانوں کو اپنی سیاست کا قبلہ درست کرنے کے لیے بہت کچھ مواد موجود ہے۔

ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ جب سے ملک میں سی پیک منصوبے پر پیشرفت شروع ہوئی ہے ملک میں شدت پسندانہ سیاست کا آغاز ہو گیا ہے۔ جب پہلے چینی وزیر اعظم پاکستان آ کر اس منصوبے پر دستخط کرنے والے تھے، اسی وقت اسلام آباد میں عین قومی اسمبلی کے سامنے طویل دھرنا دیا جا رہا تھا۔ اس دھرنے کی وجہ سے ''سی پیک'' منصوبہ چھ مہینے پیچھے چلا گیا جو سراسر قومی نقصان ہے۔ منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے ملک میں مکمل امن درکار ہے مگر جان بوجھ کر ملک میں بدامنی پھیلائی جا رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے اپنی 2013ء کی انتخابی مہم میں عوام سے غربت، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ اور کرپشن کے خاتمے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ جمہوری روایت کے مطابق اسے اس کے ہدف پورا کرنے کا موقع فراہم کرے لیکن پھر بھی اس نے اپنے وعدے پورے نہ کیے تو یقینا پھر عوام اگلی دفعہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کو ہی موقع دیں گے اور ہو سکتا ہے وہ تحریک انصاف ہی ہو۔
Load Next Story