بات سچے جذبوں کی

ہمارے ملک میں سوشل ورک کی خاصی اہمیت ہے۔ ایک سوشل ورکر اپنے کام اپنے نام سے دور دور تک پہچانا جاتا ہے

shehla_ajaz@yahoo.com

ہمارے ملک میں سوشل ورک کی خاصی اہمیت ہے۔ ایک سوشل ورکر اپنے کام اپنے نام سے دور دور تک پہچانا جاتا ہے لیکن جس انداز کی سوشل ورکنگ ان دنوں مقبول ہے اسے مفادات کی دوڑ کا نام دینا مناسب رہے گا۔ اس کام کی آڑ میں بہت آسانی سے ڈھیروں سرمایہ جمع کیا جا سکتا ہے، گویا ''آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام'' لیکن مذہب اسلام کے حوالے سے اس کے مفہوم بہت وسعت رکھتے ہیں۔

اس میں وہ محبت پوشیدہ ہے جو انسان کو انسان کے نزدیک لانے، اس کے حقوق دلوانے، اس کی دلجوئی کرنے اور ظلم کے خلاف جنگ کرنے پر ابھارتی ہے یہ ایک خصوصی محبت ہے جو پیدا کرنے والے کی جانب سے ایک خاص تحفہ ہے لیکن اس کے برخلاف جس قسم کی سوشل ورکنگ دیکھنے میں آتی ہے اسے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے مہم جوئی تو کہا جا سکتا ہے لیکن سوشل ورکنگ نہیں۔ ہاں البتہ پبلسٹی کے لیے اس قسم کے ہتھکنڈوں کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔

کچھ برسوں قبل ایک خاتون سوشل ورکر پروین رحمان کا نام سنا گیا تھا، موصوفہ نے جو ایک قابل انجینئر تھیں اپنی ساری زندگی انسانیت کے لیے وقف کر دی تھی انھوں نے شادی نہیں کی تھی بہت سے لوگوں کو اس عظیم خاتون کی سوشل ورکنگ اور ان کے بلند عزائم کا علم ہی تب ہوا جب ٹی وی چینلز پر ان کے قتل کی خبریں چلیں۔

یہ ایک سنگین جرم تھا، ایک مخلص، بہادر اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے ڈٹ جانے والی ایک خاتون اس دنیا سے رخصت ہو گئی، پروین رحمان نے ایک ایسے علاقے کو منتخب کیا تھا جو مختلف حوالوں سے نہ صرف بدنام تھا بلکہ غربت و افلاس کے لحاظ سے بھی خاصا پسماندہ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب اورنگی ٹاؤن میں بہت سی اچھی تبدیلیاں آئی ہیں یہ علاقہ مشرقی پاکستان سے آئے ہوئے مفلوک الحال مہاجرین کی وجہ سے آبادی کے لحاظ سے وسیع ہوتا گیا جب کہ اس سے پہلے اس کی آبادی بہت کم تھی، بجلی، پانی اور آمدورفت کے مسائل گمبھیر تھے۔

قلیل آمدنی والوں کے لیے یہ ایک نہایت مناسب رہائشی علاقہ تھا۔ یہاں مختلف قومیت کے لوگ آباد تھے جو مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے لیکن جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے ایسا ہی تب بھی ہوا اور منافقت کی آگ نے ایک پڑوسی کو دوسرے کا دشمن بنا دیا۔ علاقے محصور ہو گئے، آبادیاں مختلف جھنڈوں تلے سسکنے لگیں، پانی کا مسئلہ درپیش رہا، ان تمام اونچ نیچ کے درمیان پروین رحمان نہایت جوانمردی سے اس علاقے کے مسائل کو سمیٹنے کی کوشش کرتی رہیں۔

انھوں نے اپنی ڈگری کو کمائی کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عملی طور پر کر دکھایا لیکن ان کے سامنے لا تعداد رکاوٹیں تھیں، ایک خاتون اور مسئلے ہزار۔ نہ ان کا تعلق کسی پارٹی سے تھا نہ وہ کسی تنظیم کی سرکردہ عہدے دار تھیں اور نہ ہی ان کی گاڑی پر سرکاری جھنڈا لہراتا تھا۔ اورنگی ٹاؤن میں ان کا دفتر تھا وہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ پر کام کر رہی تھیں، ان کے آفس کے ساتھ ہی پروجیکٹ کی خالی زمین تھی، یہ وسیع خالی زمین بہت سے لالچی لوگوں کی نگاہوں میں کھٹکتی تھی، اس زمین کے لیے نجانے کیسے کیسے سہانے سپنے بن رکھے تھے لیکن اگر کوئی رکاوٹ تھی تو ایک بہادر خاتون جو اس زمین کو کسی کی دھمکی یا دھونس میں آ کر ہتھیانے کی سخت مخالف تھیں۔


اس ضمن میں ایک چھوٹی سی کہانی عرض ہے۔ جب نارتھ ناظم آباد کے ایک حصے میں اندرون سندھ سے لا کر لوگوں کو بسایا گیا تو اس حصے کے ملکیتی حقوق والے جو ایک پرائیویٹ کمپنی کے ذمے تھے جسے انھوں نے ادارے میں کام کرنے والوں کے لیے رعایتی نرخوں پر الاٹ کیے ہوئے تھے۔

اس اقدام پر سخت احتجاج کیا لیکن وزیر موصوف نے جن کی وسیع و عریض کوٹھی بھی اسی علاقے میں تھی اور شاید انھیں اپنے گوٹھ کی مانند اپنے ارد گرد اپنی حفاظت کے تحت یا خدا جانے کس جذبے کے مانند ایسا کرنا مقصود تھا لہٰذا ایک نہ سنی گئی، لڑائی جھگڑا، فائرنگ یہ سب اس زمانے کے عجیب دستور میں شامل ہوتا گیا اور وہ ہی ہوا جیسا کہ وزیر صاحب نے چاہا، ایک گوٹھ آباد ہو گیا یہ 70ء کے عشرے کی بات ہے آج اس راستے سے گزرتے ہوئے آپ کو سندھ سے آئے ہوئے لوگ تو نہیں ہاں البتہ بنگلہ دیش سے آئے ہوئے بنگالی بھائیوں اور ان کے بچوں اور اندرون پنجاب کے بھائی بند زیادہ نظر آتے ہیں۔

وہ وزیر مرحوم جو اپنے قلم سے الاٹمنٹ کے آرڈرز پر دستخط کرنے کے حوالے سے خاصے مقبول تھے اپنے دور حکومت میں مقبول ہو کر گزر گئے۔ خیر بات ہو رہی تھی ایک بہادر خاتون کی جنھوں نے اپنے فلاحی عمل کو جاری رکھا، متزلزل نہ ہوئیں۔ اس عظیم خاتون کے قاتلوں کوگرفتار کر لیا گیا ہے جس مرکزی قاتل کو اس جرم کے لیے نامزد قرار دیا گیا ہے موصوف اسی طرح کے جھنڈے کے نیچے اپنے بخیے سیدھے کرتے رہتے تھے۔

نام پارٹی کا اور کام صاحب کا۔ صرف یہی نہیں واٹر مافیا کے ساتھ مل کر انھوں نے واٹر ہائیڈرنٹ بھی قائم کر رکھا تھا۔ پروین صاحبہ اس کی بھی مخالف تھی یہ نہ کسی ڈرامے کی کہانی ہے نہ ہی فلم کی اسٹوری۔ یہ سچی اور تلخ حقیقت ہے۔ ایک ایسی حقیقت جو اب بھی کراچی، لاہور، پشاور یا کوئٹہ یا پھر پاکستان کے کسی بھی حصے میں پروان چڑھ رہی ہے۔ پروین رحمان نے اپنا حق ادا کر دیا اب کس کی باری ہے۔

ہمیں ان تمام خدمت خلق میں مصروف عمل لوگوں کی قدر کرنی چاہیے جو دوسروں کی مدد نیکی اور بھلائی کے جذبے کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ عمل عبادات میں اہم مقام رکھتا ہے۔

ہم وہ عمل جو اﷲ رب العزت کی خوشنودی اور مخلوق کی بھلائی کے لیے خلوص نیت سے کیا جائے جس میں واضح طور پر نیت کی پاکیزگی اور دوسروں کے ساتھ بھلائی عمل خیر یا سوشل ورک کے بنیادی عناصر ہیں اگر ان میں سے ایک بھی عنصر کمزور ہو تو اس پر خیر کا اطلاق نہیں ہو گا۔ لوگوں کے لیے بھلائی اور بہتری کے لیے سوچنا اور خدمت خلق کی نئی راہوں کی تلاش و جستجو بھی خیر ہے لوگوں کو اچھی باتوں کی طرف راغب کرنا اور ان کو ایسی باتوں سے روکنا جس سے فضا مکدر ہو یعنی انس و محبت غارت ہونے کا خدشہ ہو شرکا اندیشہ ہو یہ بھی خیر کا عمل کہلاتا ہے۔

سلام ہے پروین رحمان آپ پر کہ آپ بڑی اونچی کرسی والے وزیر صاحب سے بھی بہت بلند نظر آ رہی ہیں ایک وہ سوشل ورکر جس نے اپنے ملک کی زمین پر زبردستی کسی کا قبضہ نہ ہونے دیا اور ایک وہ وزیر صاحب جنھوں نے اپنے ملک کی زمین اور کسی کی خریدی گئی زمین کو دستخط کے چند حروف کے عوض عطا کر دیا۔ اگر کوئی شخص دنیا میں دوسروں کی بھلائی کے لیے کچھ نہ کرے، ان کی فلاح کے لیے کچھ نہ سوچے تو یقین رکھنا چاہیے کہ اس کا دامن خیر کی دولت سے خالی ہے اور وہ نیکی سے بے بہرہ ہے۔ یہ ہے ہمارے اسلام میں سوشل ورکنگ کی تعریف۔
Load Next Story