ان فٹ آگے سپر فٹ پیچھے
آج تک سنا اور دیکھا یہی تھا کہ جو کھلاڑی فٹ ہوتا ہے اسے پہلے موقع دیا جاتا ہے، مگر پی سی بی شاید اس اصول سے بے خبر ہے
لاہور:
یہاں گنگا کیا سبھی اُلٹے بہہ رہے ہیں۔ کیا سیاست دان، کیا کھلاڑی اور کیا ہی میڈیا۔ پھر جب بات پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی ہو تو واہ واہ سبحان الله چپ رہنا ہی بہتر ہے کیونکہ بولنے سے بدل بھی کیا جائے گا؟ رکیے رکیے، یہ خیالات ہمارے نہیں بلکہ ملک بھر میں موجود شائقینِ کرکٹ کے ہیں جنہوں نے دورہ انگلینڈ کے حوالے سے کل نئے نویلے چیف سلیکٹر انضمام الحق کا اعلان سنا۔
چیف سلیکٹر کی کل کی پریس کانفرنس (جو کہ پریس کانفرنس کم اور فٹنس رپورٹ زیادہ لگ رہی تھی) نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔
پاکستان کی جانب سے 378 ایک روزہ اور 120 ٹیسٹ میچ کھیل کر مجموعی طور کر 32157 رنز بنانے والے سابق کپتان انضمام الحق نے آج کل قومی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر کی ذمہ داری سمبھالی ہوئی ہے، اگر سچ پوچھا جائے تو قومی ٹیم کے لیے ایسا ہونا انتہائی خوش آئیند ہے۔ انضمام اس سے پہلے افغانستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے طور پر کام کرچکے ہیں اور ان کی قیادت میں افغان ٹیم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پی سی بی نے انضمام کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا، حالانکہ افغانستان کی ٹیم کو جوائن کرنے سے قبل انضمام نے بہت انتظار کیا کہ شاید قومی ٹیم کی جانب سے اُن کو کوئی ذمہ داری دے دی جائے، لیکن گھر کی مرغی دال برابر کے مصداق اُس وقت انضمام کسی کام کے نہیں تھے۔
خیر، دورہَ انگلینڈ کی تیاریوں کے حوالے سے قومی ٹیم کا بوٹ کیمپ 14 مئی سے کاکول ملٹری اکیڈمی میں جاری ہے جو کہ اپنی نوعیت کا پہلا کیمپ ہے، کیونکہ اس میں کھلاڑیوں سے سخت جسمانی ورزش کے ساتھ ساتھ شہتیر اٹھا کا کسرت بھی کروائی جا رہی ہے۔ ایسا کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کھلاڑی کو درپیش فٹنس کے مسائل سے جان چھڑوائی جاسکے۔
آج تک سنا اور دیکھا تو یہی تھا کہ جو کھلاڑی یا اتھلیٹ اوَل آتا ہے اُسے سب سے پہلے موقع دیا جاتا ہے، مگر پاکستان کرکٹ بورڈ شاید اس اصول سے بے خبر ہے اور یہ صرف راقم کی رائے یا خیال نہیں بلکہ کل جو کچھ ہوا اُس کے بعد ہر شائق ایسا محسوس کر رہا ہے۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق نے کل کی پریس کانفرنس میں دورہَ انگلینڈ کے لیے 21 کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کیا جنہیں لاہور میں لگنے والے اسکلز کیمپ کے لیے منتخب کیا گیا ہے اور انہی میں سے 16 رکنی دستہ منتخب کیا جائے گا۔ اِن 21 کھلاڑیوں میں 4 اوپننگ بلے باز، 7 کھلاڑی مڈل آرڈر کے لیے، 6 تیز گیند باز، 2 اسپنرز اور اتنے ہی وکٹ کیپر شامل ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ فٹنس مسائل سے دو چار اوپننگ بلے باز محمد حفیظ اور اسپنر یاسر شاہ کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا ہے جبکہ سلیکشن کے ہر معیار پر پورا اترنے والے فواد عالم کو صرف اِس لیے موقع نہیں دیا گیا کہ مڈل آرڈر میں اِس وقت اُن کے لیے کوئی جگہ نہیں، اور جیسے ہی مستقبل میں جگہ ملے گی تو فواد عالم کو ضرور موقع دیا جائے گا۔
فٹنس کی بات کریں تو حالیہ کیمپ میں سب سے فِٹ اور چاک و چوبند کھلاڑی فواد عالم قرار پائے۔ جس کیمپ میں فواد عالم کے ساتھی کھلاڑیوں کی ہمت جواب دے گئی وہاں فواد نے ثابت کیا کہ فٹنس کا تعلق ٹیم میں جگہ ملنے سے ہرگز نہیں۔ فٹنس سے ہٹ کر اگر میدان کے اندر کھیل کی بات کریں تو فرسٹ کلاس کرکٹ میں سب سے زیادہ اوسط رکھنے کا اعزاز بھی فواد عالم کے پاس ہی ہے جنہوں نے اب تک 125 میچوں میں 56.71 کی اوسط سے 9641 رنز اسکور کیے ہیں۔
لیکن حیران کن طور پر نئی سلیکشن کیمٹی نے بھی ماضی کے سلیکٹرز کی طرح اچھے کھلاڑیوں کو باہر رکھنے کی ریت پر عمل جاری رکھا۔ انگلستان جیسے مشکل دورے کے لیے جس دو انجرڈ کھلاڑیوں (محمد حفیظ، یاسر شاہ) اور دو نئے کھلاڑیوں (آصف ذاکر، اکبر رحمان) کو موقع دیا جارہا ہے، بات یہاں بھی نہیں رکتی بلکہ ایشیاء کپ میں پراسرار طور پر شامل ہونے اور مایوس کن کارکردگی دکھانے والے خرم منظور کو بھی ایک بار پھر موقع دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن اگر کسی کے لیے جگہ نہیں تھی تو فواد عالم تھے جو اِس وقت نہ صرف بھرپور فارم میں ہیں بلکہ مکمل طور پر فٹ بھی۔
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ آخر فواد عالم کی اِس قدر وکالت کیوں کی جارہی ہے تو اُس کی وجہ بھی جان لیجیے۔ بائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے فواد عالم نے 38 ایک روزہ مقابلوں میں 40.25 کی اوسط سے 966 رنز اسکور کیے ہیں۔ اُن کی خاصیت یہ ہے کہ وہ گیندیں ضائع کرنے کے حامی نہیں بلکہ اگر کوئی بڑا شاٹ نہیں لگ پا رہا ہو تو سنگل ڈبل کرنے کا ہنر بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ اگر ٹیسٹ کی بات کی جائے تو 3 میچ کے بعد کوئی موقع ہی نہیں دیا گیا، اور موقع بھلا دیا بھی کیوں جائے کہ نوجوان کھلاڑی نے اپنے پہلے ہی مقابلے میں سری لنکا کے خلاف اُسی کے میدان میں 168 رنز بنا لیے، جو اب تک کوئی اور پاکستانی کھلاڑی نہیں کرسکا۔ دیکھیے اِس ملک کی عوام تو جذباتی ہے، لیکن آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر بتائیں کہ اِس قدر اچھی کارکردگی کے بعد بھلا اُن کو مزید موقع دینا من پسند کھلاڑیوں کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا؟ اگر فواد عالم جیسے کھلاڑی ٹیم میں آگئے تو دوسرے کھلاڑیوں کے لیے جگہ کیسے بنے گی؟
ایک طرف تو ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری ڈومیسٹک کرکٹ اچھے کھلاڑی متعارف کروانے میں ناکام رہی ہے، مگر دوسری جانب اگر کوئی کھلاڑی ڈومیسٹک میں اچھا پرفارم کرتا ہے تو اِسکو اہل ہوتے ہوئے بھی نااہل کردیا جاتا ہے اور اِسکے پاس یہ راستہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ دوسرے ممالک میں جا کر لیگ کرکٹ کھیلے یا بنا کھیلے گھر ہی بیٹھا رہے۔
انضمام الحق کے بطور چیف سلیکٹر آنے سے یہ اُمید بر آئی تھی کہ اب اہل کھلاڑیوں کو موقع فراہم کیا جائے گا مگر افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ آج بھی سوال وہی ہیں کہ اِس کو کیوں شامل کیا اور اُس کو کیوں نہیں۔
[poll id="1125"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہاں گنگا کیا سبھی اُلٹے بہہ رہے ہیں۔ کیا سیاست دان، کیا کھلاڑی اور کیا ہی میڈیا۔ پھر جب بات پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی ہو تو واہ واہ سبحان الله چپ رہنا ہی بہتر ہے کیونکہ بولنے سے بدل بھی کیا جائے گا؟ رکیے رکیے، یہ خیالات ہمارے نہیں بلکہ ملک بھر میں موجود شائقینِ کرکٹ کے ہیں جنہوں نے دورہ انگلینڈ کے حوالے سے کل نئے نویلے چیف سلیکٹر انضمام الحق کا اعلان سنا۔
چیف سلیکٹر کی کل کی پریس کانفرنس (جو کہ پریس کانفرنس کم اور فٹنس رپورٹ زیادہ لگ رہی تھی) نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔
پاکستان کی جانب سے 378 ایک روزہ اور 120 ٹیسٹ میچ کھیل کر مجموعی طور کر 32157 رنز بنانے والے سابق کپتان انضمام الحق نے آج کل قومی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر کی ذمہ داری سمبھالی ہوئی ہے، اگر سچ پوچھا جائے تو قومی ٹیم کے لیے ایسا ہونا انتہائی خوش آئیند ہے۔ انضمام اس سے پہلے افغانستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے طور پر کام کرچکے ہیں اور ان کی قیادت میں افغان ٹیم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پی سی بی نے انضمام کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا، حالانکہ افغانستان کی ٹیم کو جوائن کرنے سے قبل انضمام نے بہت انتظار کیا کہ شاید قومی ٹیم کی جانب سے اُن کو کوئی ذمہ داری دے دی جائے، لیکن گھر کی مرغی دال برابر کے مصداق اُس وقت انضمام کسی کام کے نہیں تھے۔
خیر، دورہَ انگلینڈ کی تیاریوں کے حوالے سے قومی ٹیم کا بوٹ کیمپ 14 مئی سے کاکول ملٹری اکیڈمی میں جاری ہے جو کہ اپنی نوعیت کا پہلا کیمپ ہے، کیونکہ اس میں کھلاڑیوں سے سخت جسمانی ورزش کے ساتھ ساتھ شہتیر اٹھا کا کسرت بھی کروائی جا رہی ہے۔ ایسا کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کھلاڑی کو درپیش فٹنس کے مسائل سے جان چھڑوائی جاسکے۔
آج تک سنا اور دیکھا تو یہی تھا کہ جو کھلاڑی یا اتھلیٹ اوَل آتا ہے اُسے سب سے پہلے موقع دیا جاتا ہے، مگر پاکستان کرکٹ بورڈ شاید اس اصول سے بے خبر ہے اور یہ صرف راقم کی رائے یا خیال نہیں بلکہ کل جو کچھ ہوا اُس کے بعد ہر شائق ایسا محسوس کر رہا ہے۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق نے کل کی پریس کانفرنس میں دورہَ انگلینڈ کے لیے 21 کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کیا جنہیں لاہور میں لگنے والے اسکلز کیمپ کے لیے منتخب کیا گیا ہے اور انہی میں سے 16 رکنی دستہ منتخب کیا جائے گا۔ اِن 21 کھلاڑیوں میں 4 اوپننگ بلے باز، 7 کھلاڑی مڈل آرڈر کے لیے، 6 تیز گیند باز، 2 اسپنرز اور اتنے ہی وکٹ کیپر شامل ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ فٹنس مسائل سے دو چار اوپننگ بلے باز محمد حفیظ اور اسپنر یاسر شاہ کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا ہے جبکہ سلیکشن کے ہر معیار پر پورا اترنے والے فواد عالم کو صرف اِس لیے موقع نہیں دیا گیا کہ مڈل آرڈر میں اِس وقت اُن کے لیے کوئی جگہ نہیں، اور جیسے ہی مستقبل میں جگہ ملے گی تو فواد عالم کو ضرور موقع دیا جائے گا۔
فٹنس کی بات کریں تو حالیہ کیمپ میں سب سے فِٹ اور چاک و چوبند کھلاڑی فواد عالم قرار پائے۔ جس کیمپ میں فواد عالم کے ساتھی کھلاڑیوں کی ہمت جواب دے گئی وہاں فواد نے ثابت کیا کہ فٹنس کا تعلق ٹیم میں جگہ ملنے سے ہرگز نہیں۔ فٹنس سے ہٹ کر اگر میدان کے اندر کھیل کی بات کریں تو فرسٹ کلاس کرکٹ میں سب سے زیادہ اوسط رکھنے کا اعزاز بھی فواد عالم کے پاس ہی ہے جنہوں نے اب تک 125 میچوں میں 56.71 کی اوسط سے 9641 رنز اسکور کیے ہیں۔
لیکن حیران کن طور پر نئی سلیکشن کیمٹی نے بھی ماضی کے سلیکٹرز کی طرح اچھے کھلاڑیوں کو باہر رکھنے کی ریت پر عمل جاری رکھا۔ انگلستان جیسے مشکل دورے کے لیے جس دو انجرڈ کھلاڑیوں (محمد حفیظ، یاسر شاہ) اور دو نئے کھلاڑیوں (آصف ذاکر، اکبر رحمان) کو موقع دیا جارہا ہے، بات یہاں بھی نہیں رکتی بلکہ ایشیاء کپ میں پراسرار طور پر شامل ہونے اور مایوس کن کارکردگی دکھانے والے خرم منظور کو بھی ایک بار پھر موقع دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن اگر کسی کے لیے جگہ نہیں تھی تو فواد عالم تھے جو اِس وقت نہ صرف بھرپور فارم میں ہیں بلکہ مکمل طور پر فٹ بھی۔
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ آخر فواد عالم کی اِس قدر وکالت کیوں کی جارہی ہے تو اُس کی وجہ بھی جان لیجیے۔ بائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے فواد عالم نے 38 ایک روزہ مقابلوں میں 40.25 کی اوسط سے 966 رنز اسکور کیے ہیں۔ اُن کی خاصیت یہ ہے کہ وہ گیندیں ضائع کرنے کے حامی نہیں بلکہ اگر کوئی بڑا شاٹ نہیں لگ پا رہا ہو تو سنگل ڈبل کرنے کا ہنر بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ اگر ٹیسٹ کی بات کی جائے تو 3 میچ کے بعد کوئی موقع ہی نہیں دیا گیا، اور موقع بھلا دیا بھی کیوں جائے کہ نوجوان کھلاڑی نے اپنے پہلے ہی مقابلے میں سری لنکا کے خلاف اُسی کے میدان میں 168 رنز بنا لیے، جو اب تک کوئی اور پاکستانی کھلاڑی نہیں کرسکا۔ دیکھیے اِس ملک کی عوام تو جذباتی ہے، لیکن آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر بتائیں کہ اِس قدر اچھی کارکردگی کے بعد بھلا اُن کو مزید موقع دینا من پسند کھلاڑیوں کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا؟ اگر فواد عالم جیسے کھلاڑی ٹیم میں آگئے تو دوسرے کھلاڑیوں کے لیے جگہ کیسے بنے گی؟
ایک طرف تو ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری ڈومیسٹک کرکٹ اچھے کھلاڑی متعارف کروانے میں ناکام رہی ہے، مگر دوسری جانب اگر کوئی کھلاڑی ڈومیسٹک میں اچھا پرفارم کرتا ہے تو اِسکو اہل ہوتے ہوئے بھی نااہل کردیا جاتا ہے اور اِسکے پاس یہ راستہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ دوسرے ممالک میں جا کر لیگ کرکٹ کھیلے یا بنا کھیلے گھر ہی بیٹھا رہے۔
انضمام الحق کے بطور چیف سلیکٹر آنے سے یہ اُمید بر آئی تھی کہ اب اہل کھلاڑیوں کو موقع فراہم کیا جائے گا مگر افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ آج بھی سوال وہی ہیں کہ اِس کو کیوں شامل کیا اور اُس کو کیوں نہیں۔
[poll id="1125"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔